یہ واقعہ بہار کے علاقے مظفر پور میں واقع ’بابا صاحب
بھیم راؤ یونیورسٹی‘ سے منسلک ایک کالج کا ہے جہاں تعینات ہندی کے اسسٹنٹ
پروفیسر ڈاکٹر للن کمار نے اپنی دو سال، نو ماہ کی پوری تنخواہ یکمشت کالج
انتظامیہ کو یہ کہتے ہوئے واپس کر دی کہ اس دورانیے میں کوئی بھی طالبعلم
ان سے ہندی پڑھنے نہیں آیا۔
واپس کی گئی رقم 23 لاکھ 82 ہزار 228 روپے ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر للن کمار کی
کلاس میں گذشتہ دو سال اور نو ماہ میں طلبا کی حاضری صفر رہی ہے۔
ڈاکٹر للن کمار نے لگ بھگ 24 لاکھ روپے کا چیک منگل کو یونیورسٹی کے
رجسٹرار آفس میں جمع کروایا۔
اس موقع پر موجود دیگر پروفیسروں کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی رجسٹرار نے پہلے
تو چیک قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن ڈاکٹر للن کمار اپنے موقف پر ڈٹے
رہے اور چیک قبول نہ کرنے کی صورت میں انھوں نے نوکری چھوڑنے کی دھمکی دے
دی۔ آخر کار رجسٹرار کو اسسٹنٹ پروفیسر کے اصرار کے سامنے جھکنا پڑا اور
انھوں نے چیک قبول کر لیا۔
اس سلسلے میں جب پروفیسر ڈاکٹر للن کمار سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا
کہ ’میں کالج میں اپنی تقرری کی تاریخ سے لے کر اب تک اپنے تدریسی کام،
بابائے قوم کے بتائے ہوئے راستے اور ضمیر کی آواز پر مطمئن نہیں ہو سکا تھا
اسی لیے میں نے تنخواہ کی پوری رقم یونیورسٹی کے فنڈز کے لیے وقف کر دی ہے۔
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنی رقم یکمشت وہ کہاں سے لائے؟ اس پر انھوں
نے کہا کہ ’میں نے اپنے کچھ ساتھیوں اور دوستوں سے اتنی بڑی رقم دینے کے
لیے مالی مدد حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر لالن کمار ویشالی ضلع کے رہنے والے ہیں اور
ایک عام کسان خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
بہار سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے دہلی یونیورسٹی سے
گریجویشن کیا، جواہر لال یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کیا اور پھر دہلی
یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔
گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ڈاکٹر للن کمار کو ’اکیڈمک ایکسیلنس پریذیڈنٹ‘
ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ ڈاکٹر للن کمار کی تقرری 24 ستمبر 2019 کو یونیورسٹی
سے منسلک کالج میں ہوئی تھی۔
ڈاکٹر للن کمار کے مطابق ’جب سے میری یہاں تقرری ہوئی ہے، میں نے کالج میں
پڑھائی کا ماحول نہیں دیکھا۔ تقریباً 11 سو طلبا نے ہندی کا مضمون اختیار
کیا لیکن ان کی موجودگی تقریباً صفر طلبا نے اپنی تعلیمی ذمہ داریاں
نبھائیں۔ ایسی صورتحال میں میرا تنخواہ لینا غیر اخلاقی ہے۔ پروفیسر للن
کمار نے مزید کہا کہ کالج کی حالت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے یونیورسٹی کے
رجسٹرار ڈاکٹر آر کے ٹھاکر سے ماضی میں کئی بار درخواست کی ہے کہ انھیں کسی
ایسے کالج میں منتقل کیا جائے جہاں طلبا کلاس میں پڑھنے آتے ہوں۔
ان کے مطابق آج تک ان درخواستوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ پروفیسر للن
کمار نے مزید کہا کہ کالج کی حالت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے یونیورسٹی کے
رجسٹرار ڈاکٹر آر کے ٹھاکر سے ماضی میں کئی بار درخواست کی ہے کہ انھیں کسی
ایسے کالج میں منتقل کیا جائے جہاں طلبا کلاس میں پڑھنے آتے ہوں۔
ان کے مطابق آج تک ان درخواستوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
*اور ایک ہمارے ملک پاکستان کے صوبہ سندھ میں تعلیم کے ساتھ کھلواڑ ہوتا
چلا آرہا ہے کوئی ان سے باز پرس کرنے والا نہیں جس کی یہ ایک چھوٹی سی مثال
ہے، گذشتہ رواں مالی سال اپریل سے 7 ہزار سے زائد اسکول بند ہیں مگر عملے
کو کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہوں کی مد میں دیئے گئے ہیں جو سندھ حکومت اور
وزارت تعلیم کی کارکردگی کا آئینہ ہے جبکہ ہم مُسلمان اور اسلام کے نام
پر بنے مُلک کے لوگوں کا حال دیکھیں کس طرح مُلک کو لوٹ رہے ہیں. سالوں
اپنی ڈیوٹیوں پر آتے نہیں اس میں ٹیچرز کیا ممبران اسمبلی اراکین اور دوسرے
وفاق اور صوبائی اداروں کی آئے دن اخبارات کی زینت بنتے ہیں کہ بغیر حاضری
کی ماہانہ تنخواہ لی جارہی ہیں. ان سب کی غیرت ختم ہوگئی یہ روز حشر اللہ
تعالی کو کیا منہہ دیکھایں گے.
|