پرائیویٹ کلینک

چھوٹا سا واقعہ ہے مگر جن پر بیتی ہے ان کے لئے بہت بڑا۔ میرے گھر کے قریب ایک شخص رہتا ہے غریب مزدور ہے۔سارا دن مشقت کرکے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔اس کے دو بچے ہیں جن کی پیدائش کسی سرکاری ادارے میں ہوئی تھی۔اب تیسرے بچے کی پیدائش متوقع تھی۔ پچھلے دو بچوں کی وجہ سے اسے سرکاری ہسپتال کے اہلکاروں کے رویے سے بہت شکوہ تھا۔ وہ لوگوں سے قرض کا خواہاں تھا کہ اس بار اسے سرکار کے ہسپتال کے عملے کے ذلت آمیز رویے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میرے پاس آیا تو میں نے پوچھاکہ ادھار کیوں مانگ رہے ہو۔ کہنے لگا کہ بیگم کی طبیعت خراب ہے ۔نئے بچے کی آمد ہے اورمیں یہ کیس کسی اچھی پرائیویٹ ڈاکٹر کے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ صرف چالیس ہزار کا خرچہ ہے۔انسان کو انسان تو سمجھا جائے گا۔ ڈاکٹر عزت سے پیش تو آئے گی۔اب عزت پیسے کی ہے ۔تھوڑے دن محنت کرکے یہ قرض بھی اتار دوں گا۔میں نے کہا کہ بھائی آج کے اس دور میں پرائیویٹ ڈاکٹر توسنا ہے بہت پیسے لیتے ہیں۔ چالیس میں تمہیں کیسے کوئی معقول ڈاکٹر ملے گا۔ ہنس کر کہنے لگا کہ اس نے سارا انتظام کیا ہوا ہے۔سب کچھ پتہ کرکے ہی ادھار مانگا ہے۔ آپ بتائیں کیا کروں۔ سرکاری ہسپتال کے اہلکار حلئے سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ آنے والا غریب آدمی ہے ۔وہ تو سارے پیسے کے بل پر چلتے ہیں ۔ ہر چپراسی، ہر آیا، ہر چوکیدار اور ہر اہلکار پیسے لینے کا متمنی ہوتا ہے۔غریب کہاں سے دے۔پیسوں کے بغیر کوئی پوچھتا ہی نہیں۔میں نے اسے سمجھایا کہ تمام تر خامیوں کے باوجود بہتر عملے ، تجربہ کار ڈاکٹرز ،جدید آلات اور شاندار سہولتوں کی بدولت سرکاری ہسپتال بہر صورت بہتر انتخاب ہیں۔ میں جو سمجھا سکتا تھا وہ میں نے کیا۔مگر فیصلہ تو اس نے ہی کرنا تھا۔

دو ہفتے بعد دو دن پہلے اس سے ایک بار پھر ملاقات ہوئی ۔بہت مغموم تھا۔پتہ چلا کہ بیٹا ہوا تھا مگر پیدائش کے چند گھنٹوں ہی میں فوت ہو گیا۔مگر کیوں ، کیا ہوا۔ بڑی تفصیل سے گفتگو اور بعد کی تحقیق کے بعد پتہ کہ یہ گاؤں اور چھوٹے شہروں میں موجود پرائیویٹ کلینک بھی عطائی ڈاکٹروں ہی کے کلینک ہیں۔وہ پرائیویٹ کلینک جہاں اس کی بیگم علاج کے لئے داخل ہوئی ، اس کی اوپری منزل پر ڈاکٹرصاحبہ کی رہائش ہے۔ نیچے والی منزل پر ہسپتال ہے۔ تین پرائیویٹ کمرے ہیں۔باہر کچھ بھی نہیں لکھا ہوا مگر اندر میز پر مسز ڈاکٹر فلاں کی تختی نظر آ رہی تھی۔پتہ چلا کہ ان کے میاں بھی ڈاکٹر ہیں، ہومیو پیتھک ڈاکٹر۔ صبح کسی دفتر میں کام کرتے اور شام کو بیگم کی مدد کرتے ہیں۔ گاؤں کی ہر عورت کے ہر مرض کا علاج ایک ڈرپ لگانا ہے۔ وہاں کی عورتیں خود آ کر کہتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ بہت کمزوری محسوس ہو رہی ہے۔ ایک ڈرپ لگا دیں۔ اس کلینک میں ایک اپریشن تھیٹر بھی ہے۔ چھت پر بڑی لائٹ لگا کر اسے اصلی آپیریشن تھیٹر کا روپ دیا ہوا ہے۔اس کے علاوہ وہاں کوئی چیز نہیں کہ ایمرجنسی کی صورت میں مریض کے کام آسکے۔اس نوجوان کا بیٹا تو پیدا ہو گیا مگر اس کا نو ماہ کا وقفہ پورا نہیں تھا۔پیدائش قبل از وقت تھی ۔اس بچے کو فوری آکسیجن اور دیگر علاج کی ضرورت تھی، جس کا وہاں کوئی انتظام نہ تھا۔ اس نام نہاد لیڈی ڈاکٹر نے اپنے پیسے وصول کرکے انہیں بچے کوفوری طور پر چلڈرن ہسپتال لے جانے کا کہا۔پچیس کلومیٹر کا سفر اور وہ بھی موٹر سائیکل پر۔ کس قدر ظلم تھا اس ماں اور بیٹے پر۔ خصوصاً ماں کے سات جو ابھی اپریشن سے فارغ ہوئی تھی۔بچے کو بچانے کی خواہش میں انہوں نے کسی طرح وہ سفر طے کیا مگر چلڈرن ہسپتال پہنچ کر پتہ چلا کہ بچہ دم توڑ چکا ہے۔ہسپتال والوں نے ماں کو داخل کر لیا اور باپ اپنے فوت ہوئے بچے کو اٹھائے گھر واپس آ گیا۔

حکومت بہت عرصے تک عطائیوں اور جعلی ڈاکٹروں کے خلاف ایک زبردست مہم چلاتی رہی ہے مگر ہم ان سے نجات نہیں پا سکے ۔شاید اس لئے کہ جہاں ڈاکٹروں کی کمی ہے اس کا ازالہ حکومت نہیں کر رہی۔لوگوں کو علاج کے لئے معالجوں کی ضرورت ہے۔ وہ کہاں جائیں۔ ہر گاؤں میں لیڈی ہیلتھ وزیٹر یا کوئی دائی نما عورت ہوتی ہے اگر وہ تھوڑی ذہین ہو تو اپنے گھر کو پرائیویٹ ہسپتال کا نام دے کر سارے دن میں بڑی معقول آمدن بنا لیتی ہے۔چلڈرن ہسپتال میں ایک دن میں نے غور کیا کہ ہر چوتھا یا پانچوں کیس ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی جاہل عطائی کے ہاتھوں لوگ خود اپنے بچے مارنے کا انتظام کرتے ہیں۔ہونا تو یہ چائیے کہ جب کوئی ایسا کیس آئے ، ہسپتال کا عملہ صرف ان سے اس کلینک کا مکمل پتہ پوچھ لے کہ جس نے ان کے بچے کو اس طرح قتل کیا ہے۔ بغیر سہولتوں کے اس طرح کے کیسوں میں ہاتھ ڈالنا اور اس طرح کسیغریب کے بچے کو مار دینا قتل ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ضروری ہے کہ اس جاہل ڈاکٹر کے خلاف بھرپور کاروائی ہو۔دو چار اس طرح کے پرائیویٹ کلینک قابو آ گئے تو عطائیت کا خاتمہ خود بخود ہو جائے گا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگینائیزیشن کہتی ہے کہ پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں ڈاکٹر اور مریض کی نسبت 1 : 1000ہونی چائیے۔یہ کم سے کم نسبت ہے ۔ اس سے اگر بہتر ہو تو زیادہ اچھا ہے۔مگر پاکستان میں یہ نسبت 1 : 8073 ہے۔دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں صورت حال کچھ یوں ہے کہ کیوبا میں ہر 1000 لوگوں کے لئے 8.4 ڈاکٹر، امریکہ میں2.6 ڈاکٹر، اٹلی میں چارڈاکٹر، سپین میں 3.9 ڈاکٹر، جرمنی 4.5 ڈاکٹر اور برطانیہ میں 2.9 ڈاکٹر ہیں۔لیکن ہم اس قدر برے معاشی حالات میں وقت گزار رہے ہیں کہ ہم اپنے برین ڈرین کو قابو نہیں پا سکتے۔ نوجوان کھلم کھلا کہتے ہیں کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں۔پاکستان کے میڈیکل کالجوں سے ہر سال تقریباً تیتیس ہزار (33000) طلبا ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے 40 فیصد بہتر روزگار کی تلاش میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔آدھی کے قریب خواتین گھر گرستی کے چکر میں عملاً اس پیشے کو چھوڑ جاتی ہے۔ باقی ماندہ لوگوں میں کوئی بھی دیہات میں نوکری کرنا پسند نہیں کرتا۔سچ تو یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں ہر طرح ناکام ہیں۔ حکومت کو چائیے کہ صحت کی پالیسیوں کو اس طرح مرتب کرے کہ ہمارے ڈاکٹر یہاں رہنا اور اپنے لوگوں میں کام کرنا پسند کریں۔دنیا بھر کے ممالک تعلیم اور صحت پر سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ مگر ہماری ترجیحات بڑی مختلف ہیں۔ ہم ان پر اتنا ہی خرچ کرتے ہیں کہ بس یہ محکمے زندہ نظر آئیں۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 578 Articles with 483785 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More