چار کروڑ اسی لاکھ کی آبادی کے ساتھ سندھ آبادی کے لحاظ
سے پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے جب کہ رقبے کے لحاظ سے ایک لاکھ اکتالیس
ہزار مربع کلومیٹر کے ساتھ یہ پاکستان کا تیسرا بڑا صوبہ ہے۔سندھ کی زیادہ
تر آبادی شہروں میں مقیم ہے اور انڈسٹری کے حوالے سے بھی پاکستان کے سب
صوبوں سے زیادہ انڈسٹری اسی صوبے میں ہے۔اسلام برصغیرمیں سب سے پہلے سندھ
کے راستے ہی آیا۔جب کچھ عورتوں کی پکار پر محمد بن قاسم سندھ آیا۔اس صوبے
کے لوگوں کے لہجے اور ان کی زبان میں ایک جازبیت ہے ، مٹھاس ہے، خلوص ہے ۔
لوگ ملتے ہیں تو پیار محبت اور بھائی چارے کا پیام دیتے ہیں۔ بڑے بڑے
زمیندار بھی ملتے وقت احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ کس قدر مالدار اور بااثر
ہیں۔کہتے ہیں دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیامبر آئے اور انہوں نے دنیا
کو ہدایت، علم اور انسانیت کا پیغام دیا۔ بالکل اسی طرح کہتے ہیں کہ سندھ
میں ایک لاکھ چوبیس ہزارصوفی، درویش اور فقیر آئے جنہوں نے سندھ کی وادی
میں امن ، پیار اور بھائی چارے کی تعلیم دی۔ان درویشوں میں مسلمان بھی تھے
اور ہندو بھی مگر سب کا پیغام ایک ہی تھا، پیار، امن ، بھائی چارہ اور پر
خلوص دوستی۔آپ سندھ چلے جائیں، آپ کو چپے چپے پر مزارات ملیں گے اور ان
مزاروں پر پیر پرست لوگوں کا اک جم غفیر۔یہی وجہ ہے کہ لوگ سندھ دھرتی کو
دریشوں اور صوفیا کی سرزمین کہتے ہیں۔
سندھ کے مشہور صوفیا میں حضرت لال شہباز قلندر، کراچی کے عبداﷲشاہ بخاری،
سکھر کے شاہ بادشاہ، شاہ عبدالطیف بھٹائی، سات زبانوں کے شاعر سچل سرمست،
شاہ عبدالکریم اور اتنے بہت سے فقیر اور صوفی کہ جن کا کوئی شمار ہی نہیں۔
حیدرآباد کے مرزا قلیچ بیگ کہ جنہیں سندھ کا Shakespeareکہا جاتا ہے۔ سندھ
کے لوگوں کے لہجے میں جوخاص سادگی اور مٹھاس اور اپنا پن ہے۔ یہ سب شاید
انہی صوفیا، درویشوں اور فقیروں کی دی ہوئی تعلیم کا اثر ہے۔ انہی لوگوں کے
سبب سندھ کو پیار اور امن کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ سندھ کی طلسماتی شخصیت
اور لوک کہانیوں کا محور ،وتایو فقیربھی ایک درویش اور فلسفی تھا کہ جس کے
بارے کہانیاں ہر گھر کے بوڑھے اور بوڑھیاں اپنے بچوں کو شوق سے سناتے
ہیں۔وتایو فقیر سندھ کی ایک عظیم روحانی ہستی ہے کہ جس کی کہی ہوئی عقل و
فہم اور فلسفیانہ باتیں سندھ کی مجلسوں میں بھی لوگ بڑے شوق سے دوسروں کو
سناتے ہیں۔وتایو فقیر عمر کوٹ کے قریب اس علاقے میں جو آج کل ضلع تھر پارکر
ہے، میں 1643 میں پیدا ہوا اور 1712 میں70 سال کی عمر میں فوت ہوا۔وہ
بنیادی طور پر ہندو تھا جس کا اصل نام وطن مل تھا۔ اس کے باپ کا نام میلا
رام تھا جو ٹنڈو اﷲیار کا رہائشی تھا۔وتایوفقیر سندھ کے ایک صوفی شاہ عنایت
سے وابستہ رہا ، اس کے علاوہ اس کا تعلق مخدوم اسماعیل کے مدرسے سے بھی
رہا۔اس کو مسلمان لوگ شیخ طاہر کے نام سے جانتے تھے۔
کہتے ہیں کہ ایک شادی کی تقریب تھی، وتایو فقیر بھی مدعو تھا۔وہ جب تقریب
میں پہنچاتو دروازے پر موجود نگہبانوں نے اس کا سادہ حلیہ اور پھٹے پرانے
کپڑے دیکھ کر اسے اندر نہیں جانے دیا۔ بلکہ اس کی کسی بھی بات کو سننے سے
انکار کر دیا۔وتایوفقیر مڑا اور ایک قریبی دھوبی کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے
دھوبی کو کہا کہ اسے کچھ دیر کے لئے کوئی صاف ستھرا لباس دے دے کہ وہ اس
شادی میں شریک ہو سکے۔دھوبی اسے جانتا تھا اور درویش کی عظمت سے بھی پوری
طرح واقف تھا۔اس نے فوری ایک صاف ستھرادھلا ہوا جوڑا وتایو فقیر کو مہیا کر
دیا۔ فقیر نے وہ لباس پہنا اور شادی کی تقریب میں پہنچ گیا۔ اس دفعہ
نگہبانوں نے اس کو روکا نہیں اور فقیر اس تقریب میں پہنچ گیا۔تھوڑی دیر میں
کھانا تقسیم ہونے لگا۔ لوگ کھانا کھانے لگے مگر وتایو فقیر نے سارا کھانا
اپنے لباس پر گرا لیا۔ تقریب کے منتظمین بھاگے آئے کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے
کہ کھانا کپڑوں پر گرا لیا ہے۔فقیر نے کہا کہ دعوت میں شرکت کی اجازت تو
مجھے نہیں ملی تھی۔ بعد میں ا ن کپڑوں کی وجہ سے میں اندر آ سکا۔ اجازت تو
پھر ان کپڑوں کو ملی تھی، تو کھانا بھی کپڑوں کا حق تھاسو انہیں کھلا رہا
ہوں۔
وتایو فقیر کا سب سے مشہور واقعہ ہے کہ ایک رات وہ عبادت میں مصروف
تھے۔سردی بہت تھی اور ان کی جھونپڑی بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ سرد
ہوائیں ان کے خیمے میں پوری طرح کھیل رہی تھیں۔ غربت اور سردی جب اکٹھی ہو
جائیں تو کسی غریب کی کسمپرسی کیا ہوتی ہے ، یہ شاید لفظوں میں بیان کرنا
بہت مشکل کام ہے۔آدھی رات کو فقیر کی ماں نے اسے آواز دی کہ بیٹا، میرا ایک
چھوٹا سا کام کر دو۔فقیر سب کام چھوڑ کر ماں کے پاس پہنچ گیا کہ ماں تو حکم
کر ، کیا کام ہے۔ماں نے کہا، بیٹا بڑی سردی ہے یہی حال رہا تو میں اس سردی
سے مر جاؤں گی۔ کہیں سے تھوڑی سی آگ لے کر آؤکہ رات سکون سے کٹ سکے۔وتایو
فقیر تیزی سے وہاں سے نکلا اور پورے گاؤں کا چکر لگا کر واپس آیااور کہنے
لگا ، ماں۔ میں سارے گاؤں کا چکر لگا آیا ہوں۔لوگ اس سخت سردی میں گھروں
میں بند سو رہے ہیں، کوئی گھر ، کوئی دکان، کوئی دروازہ تک کھلا نہیں کہ
آدمی کسی سے آگ مانگ لے۔ماں نے کہا کہ یہ مجھے پتہ تھا تو میری بات سن، تو
ہر وقت اﷲکی عبادت کرتا ہے ۔مجھے یقین ہے کہ اﷲبھی تجھے عزیز جانتا ہو گا،
تو ایسا کر کہ اﷲسے درخواست کر کہ اس کی دوزخ میں جو بے پناہ آگ ہے اس میں
سے بس تھوڑی سی ہمیں دے دے۔ کسی طرح اس آگ سے ہم اپنی رات کو گرم کر لیں
اور ٹھٹھر کر مرنے سے بچ جائیں۔ فقیر بولا، ماں تجھے کس نے کہا کہ دوزخ میں
آگ ہے ۔ وہاں کوئی آگ نہیں۔ ماں بولی، بیٹا بچپن سے یہی سنتی آئی ہوں کہ
دوزخ میں بہت آگ ہے۔ اس آگ میں گنہگاروں کو ، اﷲکی نہ ماننے والوں کوجلایا
جاتا ہے۔بس اسی آگ میں سے تھوڑی سی اگر مل جائے تو میری رات سکون سے گزر
جائے گی۔ فقیر ہنسا۔ ماں سچ بتا رہا ہوں کہ دوزخ میں کوئی آگ نہیں۔ ہم سب
اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے حصے کی آگ اکٹھی کرتے ہیں اور وہی آگ لے کر
اپنے ساتھ آگے جاتے ہیں۔ |