پاکستان اور امریکہ دو ایسے
ممالک ہیں جن کی دوستی کی ناﺅ وقت کے بے رحم ،سفاک اور ظالم بھنور کے
طوفانی دائروں کی گردش میں ہچکولے کھاتی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ کسی کو
کوئی علم نہیں کہ یہ دوستی کب تک ان بے رحم موجوں اور لہروں کے تھپیڑوں کا
سامنا کر کے زندہ رہ پائے گی کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان عدمِ ا عتماد کی
خلیج دن بدن گہری ہوتی جا رہی ہے جس سے اس کی دوستی کی بنیادیں منہدم ہونے
کا شدید خدشہ ہے۔ حسنِ اتفاق دیکھئے کہ یہ دونوں قومیں اپنے اپنے وقتوں میں
برطانیہ کی غلام رہی ہیں اور دونوں نے آزادی کی جنگ بڑی شان سے لڑی ہے۔جارج
وا شنگٹن اور قائدِ اعظم محمد علی جناح دونوں آزادی کے عظیم ہیرو جن سے آنے
والی نسلوں نے آزادی کی جنگیں لڑنے کا فن سیکھا ہے۔ آخر الذکر کو اول الذ
کر پر قدرے برتری حاصل ہے کیونکہ اس نے آزادی کی جو جنگ لڑی تھی وہ آئین و
قانون کے دائرے میں رہ کر لڑی تھی اور اس کی جنگ ایک ایسی پر امن جدو جہد
کی علمبردار تھی جس میں تشدد کا ہلکا سا بھی شائبہ نہیں تھا ۔یہی وجہ ہے کہ
اس کی شاندار پر امن جدوجہد نے اسے بیسویں صدی کی سب سے سحر انگیز شخصیت کے
خطاب سے نواز رکھا ہے۔ ایک طرف دنیا کی سپر پاور امریکہ ہے تو دوسری طرف
اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان ہے۔ دونوں قومیں انا پرست بھی ہیں
اسی لئے ان کے اندر ٹکراﺅ کی کیفیت ہمیشہ جنم لیتی رہتی ہے۔ ایک کو اپنی
مادی ترقی ٹیکنالوجی اور سامانِ حرب پر ناز ہو تو دوسری قوم اپنے جذبہ
ایمانی کی قوت سے سرشار ہے ۔جذباتیت پاکستانی قوم کا طرہِ امتیاز ہے اور اس
کے اکثرو بیشتر فیصلے اس کی اسی جذباتیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ دنیا کی سب سے
پہلی ایٹمی اسلامی ریاست ہونے کا فخرو ناز پاکستان کی تر جیحات اور سوچ میں
دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اپنے مفادات کی خا طر یہ ایک دوسرے
کو دبانے کی کوشش بھی کرتی رہتی ہیں اور کبھی کبھی ا نہیں اس میں جزوی
کامیابی بھی حاصل ہو جاتی ہے لیکن اکثر و بیشتر ٹکراﺅ کا عنصر ان کے تعلقات
کے اندر ہمیشہ بڑا قوی رہا ہے جس نے انہیں بیک وقت فرنٹ فٹ اور بیک فٹ پر
جانے کا مشاق بنا رکھا ہے ۔ کب دباﺅ بڑھانا ہے اور کب دباﺅ کو نرم کر دینا
ہے ان کی عالمی ڈ پلو میسی کی اعلٰی مہارت کا ثبوت بھی ہے اور عالمی مسائل
پر ان کی گہری گرفت کا عکاس بھی ہے ۔ دونوں ممالک اپنے اپنے کارڈز بڑی خو
بصورتی سے کھیلتے ہیں اور اپنے اپنے مفادات کی راہیں بڑے مشاقانہ انداز میں
تراشے چلے جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی مثال اس منہ زور گھوڑے کی مانند ہے جب
وہ سر پٹ دوڑنے لگتا ہے تو اس بات سے بے نیاز ہو جاتا ہے کہ اس پر کون سوار
ہے۔ اسے سوار کے گرنے، زخمی ہو جانے یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی بالکل
پرواہ نہیں ہو تی بلکہ وہ اپنی سرعت اور رفتار سے دوڑتے چلا جاتا ہے کیونکہ
اس کے لئے عالمی دوڑ میں سب سے آگے نکل جانا ہی اس کی پہلی اور آخری ترجیح
ہو تی ہے ۔۔
14اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے
طور پر ا بھرا تو بھارت نے اسے دل سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ
بھا رت کے بقول پاکستان کی تشکیل بھارت ماتاکے ٹکرے کرنے کے مترادف تھی
لہذا بھارت نے روزِ اول سے پاکستان کے وجود کو مٹانے کی مکروہ کوششوں کا
آغاز کر دیا ۔اس کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے پاکستان کے حصے
کے 80 کروڑ کے فنڈز روک لئے تا کہ یہ نوزائدہ ریاست اپنا بوجھ اٹھانے سے
قاصر رہے اور اپنی پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے اور
یوں بھا رتی حکمرا نو ں کو اپنے اکھنڈ بھارت کے دیرینہ خواب میں رنگ بھرنے
میں کو ئی چیز مانع نہ ہو سکے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی اس بے لچک اور
متعصبانہ روش پر بھارتی باپو مہاتما گاندھی نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا
تھا اور اس طرزِ عمل کے خلاف بھوک پڑتال کر دی تھی لیکن بھارتی حکومت اس سے
ٹس سے مس نہ ہو ئی اور اپنی پاکستان دشمن پالیسی کو جاری و ساری رکھا ۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر
کے اس پر غاصبانہ قبضہ کر لیا اور کشمیری عوام کی خواہشوں کے خلاف اسے اپنا
اٹوٹ انگ بنا ڈالا۔ کشمیری سراپا احتجاج بن گئے لیکن عوام کی کون سنتا ہے۔،
ان کا مقدر سنگینیں اور گولیاں ٹھہریں۔ ان کا بڑا بے رحمانہ قتل کیا گیا
اور یوں کشمیر کی وادی جس میں مسلم آبادی کی اکثریت تھی بھارتی فوجوں کی
یلغار سے بھارت کا اٹوٹ انگ بن گئی ۔کشمیری چیختے رہے چلاتے رہے دہا ئی
دیتے رہے اور عالمی ضمیر کو جھنجوڑتے رہے لیکن بسا آرزو کہ خا ک شدی کے
مصداق ان کے حصے میں ظلم و جبر کے سوا کچھ بھی نہ آیا ۔ اپنی آزادی کی جنگ
لڑتے لڑتے شہید ہونے والے جوانوں کے لاشے کشمیریوں کا مقدر بنے ۔ کشمیری یہ
لاشے اٹھائے آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنی آنکھوں میں آزادی کا خواب سجائے
مستقبل کی جانب دیکھ رہے ہیں جو ہنوز لہو رنگ دکھا ئی دے رہا ہے۔کشمیر کی
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ جوناگڑھ اور حیدر آباد کو بھی بھارتی
فوجوں نے اپنے پاﺅں تلے روندھ ڈالا ۔ ان تینوں ریاستوں پر بھارتی قبضہ
تقسیمِ ھند کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی لیکن پاکستان بے بس تھا
کیونکہ اس کے پاس بھارت جیسی منی سپر پاور سے ٹکرانے کے لئے فوج،اسلحہ اور
دوسرے ذرائع نہیں تھے ۔۔
تقسیمِ ہند کے وقت پاکستانی خزانہ بالکل خالی تھا پاکستان کے پاس اپنے
ملازمین کی تنخواہیں دینے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے ۔اس کے دفتروں کی جو
کیفیت تھی اس کا بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ قائدِ اعظم کے چند قریبی دوستوں
اور صنعتکاروں نے اس مشکل وقت میں حکومتِ پاکستان کی مدد کی تھی لیکن ملک
اس طرح چلا نہیں کرتے ، ملک کا نظام چلانے کے لئے مستقل ذرائع آمدنی کی
ضرورت ہو تی ہے جو اس نوزائدہ ریاست کے پاس نہیں تھے۔پاکستان کو اپنے پاﺅں
پر کھڑا ہونے کئے لئے عالمی طاقتوں کے تعاو ن کی ضرورت تھی جو اس کے
استحکام میں اس کی معاون اور مدد گار ثابت ہو سکتی۔خالی خزانے کے ساتھ ساتھ
مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ان کی آباد کاری ایک علیحدہ مسئلہ
تھی۔ بات یہی تک رہتی تو شائد پھر بھی قابلِ برداشت ہو تی لیکن لاشوں سے
بھری ہوئی گاڑیوں اور خون میں لت پت لاشوں نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو
ہلا کر رکھ دیا تھا۔سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتلِ عام اور خواتین کی بے
حرمتی نے انھیں اندر سے توڑ دیاتھا۔ وہ شخص جس کی ساری زندگی آئین و قانون
کی جنگ لڑتے ہوئے گزری ہو خون میں نہا ئی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر اس کی ذہنی
کیفیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے لئے یہ
مناظر ناقابلِ برداشت تھے جس نے ان کی کمزور صحت پر بڑے منفی اثرات پیدا
کئے۔ ان کی صحت مزید بگڑتی چلی گئی اور وہ جان لیوا بیماری کا شکار ہو گئے۔
قائدِ اعظم کی شدید خواہش تھی کہ امریکہ سے تعلقات کو ٹھوس بنیا دوں پر
استوار کیا جا ئے تا کہ پاکستان ا پنی بقا کی جنگ بہتر انداز میں لڑ سکے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اس وقت کے وزرِ خارجہ سر ظفرا للہ خان کو اس
کام پر مامور کیا کہ وہ امریکہ سے تعلقات کا آغاز کریں ۔ سر ظفرا للہ خان
انتہائی ذہین معاملہ فہم اور محنتی انسان تھے۔وہ اپنی شب و رو ز کی سفارتی
کوششوں سے امریکہ کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انھوں
نے امریکہ کو اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان سے ا مریکہ کے تعلقات خود
امریکہ کے اپنے مفاد میں ہیں۔سر ظفرا للہ خان نے امریکہ پر اس بات کو مزید
واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان ایک ایسی سٹر یٹیجک پوزیشن میں ہے
جہاں پر وہ امریکی مفادات کے حصول میں امریکہ کے لئے بہترین دوست ثابت ہو
سکتا ہے۔ انھوںنے یہ بات زور دے کر کہی کہ پاکستا ن امریکہ کا اس خطے میں
ایک بڑا مضبوط اتحادی ثابت ہو سکتا ہے جس سے امریکہ جنوبی ایشیا میں اپنے
قومی مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ کر سکتا ہے لہذا ا مریکہ کو پاکستان سے
اپنے تعلقات کا آغاز کرنا چائے تا کہ یہ نو زا ئید ہ ریاست پاکستان اپنے
پاﺅں پر کھڑی ہو سکے۔ پاکستان ایک طویل جدو جہد کے بعد معرضِ وجود میں آیا
تھا اور بھارت کی مکروہ نگاہیں اس کے وجود کو مٹانے کے لئے بڑی بے چین تھیں
لہذا ضروری تھا کہ اپنے وقت کی سپر پاور امریکہ سے اپنے تعلقات کو استوار
کیا جاتا تا کہ بھارتی توسیع پسندی سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوئی بہتر
صورت نکل آتی۔۔۔۔۔(جاری ہے) |