لیجئے جناب ! اب جنوبی پنجاب سے
ایک اور قائداعظم برآمد ہونے کو ہے، اس سے قبل ایک تو اصلی والے قائد اعظم
تھے ، جنہوں نے پاکستان بنایا اور زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی اور
شاہینوں کا یہ نشیمن زاغوں کے تصرف میں آگیا۔ قائد اعظم کے بہت بعد میاں
نواز شریف تجارت سے ہوتے ہوئے سیاست میں آئے اور وزیرسے وزیر اعلیٰ بنے اور
وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم ، تب ان کے کسی زرخیز ذہن رکھنے والے مشیر یا ان
کے کسی مخلص دانشور نے انہیں ” قائد اعظم ثانی “ کا خطاب عنایت فرما دیا،
جسے میاں صاحب نے تو نہایت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ شرف قبولیت بخش دیا ،
مگر یہ خطاب قبولیت عام حاصل نہ کرسکا۔
ملتانی وزیراعظم نے ملتان کے قریب موٹر وے کا ’سنگ بنیاد ‘ رکھتے ہوئے ایک
جلسہ عام سے خطاب کیا، یہاں ہم ان کے ارشادات پر بات نہیں کریں گے ، بلکہ
ان کے جلسہ میں جو خطابات ہوئے ان میں سے چند خوشے چنیں گے ، کہ بعض باتیں
خود ہی ابھر کر قلم کا دامن تھام لیتی ہیں اور کالم کا موضوع بن جاتی
ہیں۔سابق وفاقی وزیرقیوم جتوئی جو کہ سابق ناظم ضلع بھی ہیں ، نے اپنے خطاب
میں جوش خطابت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارشاد کیا کہ وزیراعظم گیلانی نے علاقے
کی پسماندگی ختم کرنے کے لئے یہاں بے پناہ ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا ہے،
اب اگر وہ اس علاقے کو صوبائی حیثیت دینے کا اعلان کردیں تو ہم انہیں اس
خطے کے قائداعظم کا خطاب دے دیں گے۔حیرت کی بات ہے کہ وزیراعظم نے اتنے بڑے
خطاب کے بعد بھی سرائیکی صوبے کے قیام کا فوری اعلان نہیں کیا۔
بیان پڑھ کر ہمیں گہری سوچوں نے اپنے آہنی حصار میں لے لیا ،کہاں قائداعظم
اور کہاں یہ وزیر اعظم ؟ کہاں اصولوں کی سیاست ، کہاں یہ لوٹوں کا دور اور
مفاہمت کی سیاست ؟ کہاں دیانتداری کی انتہا، کہاں کرپشن میں بدنامی کا عروج؟
کہاں صدیوں آگے تک دیکھنے والی نگاہیں، کہاں اپنے پیٹ سے پرے کچھ بھی نظر
نہیں آتا؟ کہاں قومی مفاد کے لئے اپنی صحت بھی قربان کردینا ، کہاں ذاتی
مفاد میں اپنے خوشامدیوں کو نوازنے کا کلچر؟کہاں قومی خزانے کی ایک ایک
پائی کو قوم کی امانت سمجھنا ، کہاں قومی خزانے کو مال غنیمت جان کر لوٹ
مار کا بازار گرم رکھنا؟کہاں حالت بیماری میں ایک نرس کی سفارش بھی نہ کرنا
اور کہاں سفارش کی بنا پر کرپٹ مافیاکو اپنے ارد گرد جمع کرنا اور قوم کے
سروں پر مسلط کرنا۔
قیوم جتوئی کا یہ جذبہ حیرت ناک ہی نہیں ، افسوس ناک بھی ہے، ان کے اس بیان
سے گیلانی کا قد بڑا نہیں ہوا، کہ محدود سوچ ، محدود علاقے اورمحدود بصیرت
والے لوگ عہدوں کے بل پر تو جہاں بھی پہنچ جائیں، در حقیقت ان کا قد اتنا
ہی رہتا ہے۔ جتوئی کے اس بیان سے قائداعظم کی توہین ہوئی ہے، گویا اب یوسف
رضاگیلانی بھی ”قائد اعظم“ ہوا کریں گے۔ آصف زرداری بھی مظفر گڑھ کا چکر
لگا کر کچھ مراعات کا اعلان کرجائیں تو وہ بھی ’ قائد اعظم ‘ قرار پا جائیں
گے، بلاول زرداری کو مستقبل کا قائداعظم کہاجاسکے گا، اس صورت میں
عبدالقادر گیلانی کا بھی حق بنتا ہے کہ اسے بھی ابا جان کے بعد جنوبی پنجاب
کا قائد اعظم ہی کہا جائے۔ ستم تو یہ ہے کہ ’قائد ‘ تو کوئی پیدا نہیں ہوا
البتہ قائداعظم وافر تعداد میں مل رہے ہیں۔
جلسہ میں دوسری اہم بات یہی ہوئی کہ ہر مقرر نے زور دے کر کہا کہ حاضرین کی
تعداد دیکھ کر فلاں کی آنکھیں کھل جانی چاہیئں، کیوں نہ ہوکہ سرکاری خرچ پر
قرب وجوار کے تمام اضلاع سے بسیں بھجوا کر جلسے کے حاضرین اکٹھے کرنے والے
،سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرنے والے اس قسم کے دعوے کیا ہی کرتے
ہیں، اوریہ بھی کہ فلاں صاحب چار سوبسوں کے قافلے کے ساتھ شریک ہوئے، اگر
ہر لیڈر کئی سو بس لایا تو پھر جلسے کی حاضری لاکھوں میں ہونی چاہیئے تھی،
مگر ”قائداعظم“ کے جلسے میں چند ہزار لوگ تھے ، ان میں سے اکثر سرکاری اور
باقی بھی آئے ہوئے کم ، لائے گئے زیادہ۔ |