مسجد عائشہ اور عمرہ کا احرام

مسجد عائشہ ، مکہ مکرمہ کی ایک معروف مسجد ہے جہاں سے حرم مکی میں رہنے والے احرام باندھ کر عمرہ کرتے ہیں ۔ اس مسجد سے احرام باندھنے کے متعلق عوام میں کافی بےچینی پائی جاتی ہے حتی کہ بہت سارے علماء بھی مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں ۔ اس تحریر میں اسی مسئلے کی وضاحت پائیں گے ۔
حدودحرم مکی :
مسجدحرام کے چاروں اطراف کچھ مسافت کی حدود کو حدودحرم کہا جاتا ہے اور جتنا اجر مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ہے اتنا ہی اجرحدود حرم میں کہیں بھی نماز پڑھنے کا ہے ۔ نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :صلاةٌ في المسجدِ الحرامِ أفضلُ من مائةِ ألفِ صلاةٍ فيما سواهُ(صحيح ابن ماجه:1163)
ترجمہ:مسجد الحرام میں ایک نماز پڑھنی دوسری مسجدوں کی ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔
آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ آج کل مسجد حرام کی چار سمتوں میں حدود حرم کی علامت نصب کی گئی ہے ۔ جہاں حرم کی حد ختم ہوتی ہے وہاں پر ستون قائم کیا گیا ہے ،جس ستون پر اندر سے عربی میں نهاية حد الحرم اور انگلش میں(END OF HARAM BOUNDARY) لکھا ہوا ہے اور باہر سے عربی میں بداية حد الحرم اور انگلش میں (BEGINNING OF HARAM BOUNDARY) لکھا ہوا ہے تاکہ لوگوں کو حدود حرم کی تمیز ہوسکے ۔ حدود حرم کی حد بندی سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے جبریل علیہ السلام کے ذریعہ کی ، پھر محمد ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر تمیم بن اسد خزاعی کو حرم کی علامت تجدید کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد پھر عمررضی اللہ عنہ پھر عثمان رضی اللہ عنہ پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تجدید فرمائی اور آج بھی یہ حدودواضح ہیں ۔ (دیکھیں : شرح المہذب7/463)
حکومت سعودی عرب کی وزارۃ الحج والعمرۃ نےچاروں جانب حدود حرم کی جغرافیائی حد بندی مندرجہ ذیل اعتبار سے کی ہے ۔
(1)شمال مکہ:مکہ کے اترجانب پانچ کلومیٹرمسجد عائشہ تک۔(یہ مسجد مکہ ومدینہ راستہ پر ہے)
(2)جنوب مکہ:مکہ کے دکھن جانب مشعر عرفہ کی طرف بیس کلومیٹر تک ۔(مکہ وطائف کے راستے پر)
(3)غرب مکہ:مکہ کے پچھم جانب جدہ سمت میں حدیبیہ کے مقام پر اٹھارہ کلو میٹر تک ۔(آج کل حدیبیہ کو شمیسی کہتے ہیں )
(4)شرق مکہ:مکہ کے پورب جانب جعرانہ کے مقام پر ساڑھے چودہ کلو میٹرتک ۔(یہاں مسجد جعرانہ ہے طائف کے راستے پر)
کلومیٹر میں لوگوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور میں نے یہاں پر آپ کو وزارت حج وعمرہ کی معلومات دی ہے ۔جو حصہ ان چاروں جانب قائم باؤنڈری کے اندر ہے وہ حدود حرم کا حصہ ہے اور جو باؤنڈری سے باہر کا حصہ ہے وہ حل کہلاتا ہے اور وہ حدود حرم میں داخل نہیں ہے ۔
احرام باندھنے کی جگہیں :
حدود حرم کی جانکاری کے بعد اب عمرہ کے لئے احرام باندھنے کے مقامات کا علم حاصل کریں ۔ عمرہ کے لئے احرام باندھنے کی تین جگہیں یا تین حالتیں ہیں ۔
پہلی جگہ:جو لوگ میقات (قرن المنازل، جحفہ، یلملم، ذات عرق اور ذوالحلیفہ) سے باہر ہیں وہ جب عمرہ کا ارادہ کریں گے تو وہ اپنی میقات سے احرام باندھ کر مکہ آئیں گے اور عمرہ کریں گے جیسے ہندوپاک والے بذریعہ جہاز جدہ لینڈ کریں گے تو طائف کی میقات (قرن المنازل ) سے احرام باندھیں گے ۔
دوسری جگہ: جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں وہ لوگ اپنی رہائش سے ہی احرام باندھیں گے جیسے جدہ، شرائع، ثول ، بحرہ وغیرہ والے ، یہ لوگ جہاں رہائش پذیر ہیں عمرہ کرنے کے لئے اسی جگہ سے احرام باندھیں گے ۔
تیسری جگہ:اوپر حدود حرم کی وضاحت کی گئی ہے ، جو لوگ اس حد میں رہتے ہیں وہ حدود حرم سے باہر نکل کر حل کے کسی مقام سے احرام باندھیں گے جیسے مسجد عائشہ، جعرانہ، عرفات یا حدیبیہ وغیرہ سے ۔
مسجد عائشہ اور عمرہ کا احرام :
مسجد عائشہ جو مسجد تنعیم اور مسجد عمرہ کے نام سے بھی موسوم ہے ، یہ مسجد حرام کے شمال میں مکہ ومدینہ روڈ پر پانچ کلو میٹرکی دوری پر حی التنعیم میں واقع ہے ۔یہ بڑی عالیشان مسجد چھ ہزار مربع میٹرکشادہ تقریبا پندرہ ہزار نمازی کی وسعت رکھتی ہے ۔ یہ مسجد حرام کی سب سے قریبی حدہے اوریہاں احرام باندھنے کے اچھے انتظام کے ساتھ آمد ورفت کی بھی بہت بہتر سہولت ہے اس لئے عام طور سے حدود حرم میں رہنے والے مسجد عائشہ سے عمرہ کے لئے احرام باندھتے ہیں ۔
یہ مسجد عائشہ سے اس لئے مشہور ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بھائی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسی جگہ سے عمرہ کا احرام باندھنے کا حکم دیا تھا۔ بعد میں یہاں مسجد تعمیر کی گئی اور یہ مسجد عائشہ سے مشہور ہوگئی ۔ آئیے اس حدیث کو بھی دیکھ لیتے ہیں جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہاں سے عمرہ کا احرام باندھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ طوالت کی وجہ سے صرف ترجمہ پیش کرتا ہوں ۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج مفرد کا احرام باندھ کر چلے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمرہ کا احرام باندھ کر چلیں، حتی کہ جب ہم سرف مقام پر پہنچ گئے، انہیں حیض آنا شروع ہو گیا، حتی کہ جب ہم مکہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ احرام کھول دے تو ہم نے پوچھا، حلال ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مکمل حلت۔“ تو ہم بیویوں کے پاس گئے اور خوشبو لگائی اور اپنے کپڑے پہن لیے، ہمارے اور عرفہ کے درمیان چار دن باقی تھے، پھر ہم نے ترویہ کے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) احرام باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے تو انہیں روتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تمہیں کیا ہوا؟“ انہوں نے جواب دیا، میری حالت یہ ہے، میں حائضہ ہوں، لوگ احرام کھول چکے ہیں اور میں نے احرام نہیں کھولا اور نہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا ہے اور لوگ اب حج کے لیے جا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کی فطرت میں رکھ دی ہے، تم غسل کر کے، حج کا احرام باندھ لو۔“ تو میں نے ایسے ہی کیا اور تمام مقامات پر وقوف کیا، (ٹھہری) حتی کہ جب پاک ہو گئی تو کعبہ اور صفا اور مروہ کا طواف کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئی ہو۔“ تو اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے دل میں کھٹک محسوس کر رہی ہوں کہ میں حج سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی، (حالانکہ میں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبدالرحمٰن! اسے لے جاؤ اور اسے تنعیم سے عمرہ کرواؤ۔“ اور یہ مَحصَب کی رات کا واقعہ ہے۔(صحیح مسلم:1213، ترجمہ از مولانا عبدالعزیز علوی)
علمی نکتہ:عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرہ کا احرام باندھا تھا مگرمکہ پہنچنے سے قبل راستے میں حیض آگیا اور وہ یوم الترویہ سے قبل پاک نہیں ہوسکیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں یوم الترویہ کوغسل کرکے حج کا احرام باندھنے کا حکم دیاگویا انہوں نے عمرہ کو حج میں داخل کرلیا اور یہ حج قران کہلاتا ہےاسی لئے نبی ﷺ نے پاک ہونے پر طواف وسعی کرلینے کے بعد ان سے کہا کہ" تم حج وعمرہ دونوں سے حلال ہوگئی ہو"۔اس سے ایک مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ جو عورت حج تمتع کی نیت کرتی ہے اور عمرہ کرنے سے پہلے حائضہ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ یوم الترویہ سے قبل پاک نہیں ہوپاتی ہے تو انہیں یوم الترویہ کو اپنی نیت بدل کرحج قران کی کرلینی ہے اور اس دن حج کا احرام باندھنا ہے اور جب وہ پاک ہوکر طواف وسعی کرے گی ، اس سے حج وعمرہ دونوں ہوجائے گا۔اس کو حج قران کہتے ہیں ۔
خارج سے مکہ آنے والوں کا مسجد عائشہ سے احرام باندھنا:
جو لوگ حدود حرم میں کام کرتے ہیں یا وہاں مقیم ہیں وہ مسجد عائشہ سےاحرام باندھیں گے اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے تاہم اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ جو لوگ اپنی میقات سے احرام باندھ کرمکہ آتے ہیں اور پہلا عمرہ کرلیتے ہیں تو دوسرے عمرہ کے لئے مسجد عائشہ سے احرام باندھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
اصل سوال کا جواب دینے سے قبل یہ مسئلہ بیان کردیتا ہوں کہ ایک سفر میں ایک عمرہ کرنا ہی مسنون وافضل ہے کیونکہ اسی بات کی دلیل ملتی ہے لیکن اس معاملہ میں اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر مکہ میں قیام طویل ہوا تو کچھ دنوں کے وقفہ کے ساتھ دوسرا عمرہ کرسکتے ہیں ، جلدی جلدی اور ایک ہی دن میں باربار عمرہ کرنا سنت کی خلاف ورزی ہے ۔ اور اسی طرح جس کا قیام مختصر ہو اور وہ دوبارہ مکہ نہیں آسکتا ہے ایسا شخص اپنے میت والد یا میت والدہ کی طرف سے عمرہ کرنا چاہے تو بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے ۔
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ جب کوئی خارجی آدمی (جومیقات سے احرام باندھ کر پہلے عمرہ کرچکا ہے) مکہ کے قیام کے دوران دوسرا عمرہ کرتا ہے تو اس کو میقات پر جانے کی ضرورت ہے یا مسجد عائشہ سے وہ احرام باندھ سکتا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جو آدمی اس وقت مکہ یعنی حدود حرم میں ہے ، اس نے پہلے عمرہ کرلیا ہے اور دوبارہ عمرہ کرنا چاہتا ہے تو اس کو میقات پر جانے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ حل میں جاکر کسی بھی مقام سےعمرہ کا احرام باندھ سکتا ہے مثلا جعرانہ سے یا مسجد عائشہ سے ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ مسجد عائشہ سے احرام نہیں باندھ سکتے ہیں ، یہ حکم خاتون ہونے کی حیثیت سے سیدہ عائشہ کے ساتھ خاص ہے کیونکہ ان کو حیض آیا ہوا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ احرام باندھنے کی جگہ سے متعلق عورت ومرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور حیض وعدم حیض میں بھی احرام باندھنے کا فرق نہیں ہے ۔ اوپر میں نے احرام باندھنے کی تین حالتیں ذکر کی ہیں ، یہ حالتیں ان جگہوں پر موجود لوگوں سے متعلق ہیں ۔ اس بارے میں کچھ دلائل واستدلال بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
(1)پہلی دلیل تو یہی ہے کہ نبی ﷺ نے سیدہ عائشہ کو تنعیم سے عمرہ کرنے کا حکم دیا تھا جو حدیث اوپر موجود ہے ،اس میں کہیں یہ نہیں ہے کہ عمرہ کے لئے احرام باندھنے کی یہ جگہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص ہے ۔
(2)آٹھ ہجری کو فتح مکہ کے بعد نبی ﷺ نے اپنے بعض اصحاب کے ساتھ جعرانہ سے احرام باندھ کر عمرہ کیاتھا ۔سنن ابی داؤد، سنن الترمذی، سنن النسائی ، مسند احمداور ابویعلی وغیرہ میں یہ روایت موجود ہے، میں ابوداؤد کے حوالہ سے حدیث پیش کرتا ہوں ۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وأصحابَهُ اعتمَروا منَ الجِعْرانةِ فرمَلوا بالبيتِ ثلاثًا ومشوا أربعًا( صحيح أبي داود:1890)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھا تو بیت اللہ کے تین پھیروں میں رمل کیا اور چار میں عام چال چلی۔
اس حدیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ جوحدود میں داخل ہوجائے اور وہ عمرہ کرنا چاہے تو حل میں نکل کر احرام باندھے گا مثلا کوئی ڈائیور کسی کام سے مکہ گیا ، پہلے عمرہ کی نیت نہیں تھی مگر مکہ پہنچ کر عمرہ کا ارادہ بن گیا تو آدمی حل میں جاکر عمرہ کا احرام باندھے گا۔ اسی طرح کوئی آدمی سعودی عرب کے کسی شہر سے کام کی غرض سے جدہ گیا اور وہاں جاکر عمرہ کا ارادہ بن گیا تو یہ اپنی رہائش سے ہی عمرہ کا احرام باندھے گا۔ گویا میں نے اوپر احرام باندھنے کی جو تین حالتیں ذکر کی ہیں احرام باندھنے میں اسی طرح عمل کیا جائے گا۔
(3)جو لوگ میقات کے اندر مقیم ہیں یا نازل ہیں وہ عمرہ کا احرام اپنی رہائش سے ہی باندھیں گے جیسے جدہ والے ، اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ سے مروی حدیث مواقیت میں ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں :ومَن كان دونَ ذلك فمِنْ حيثُ أنشَأَ، حتى أهْلُ مَكَّةَ مِن مَكَّةَ(صحيح البخاري:1524)
ترجمہ:جن کا قیام میقات اور مکہ کے درمیان ہے تو وہ احرام اسی جگہ سے باندھیں جہاں سے انہیں سفر شروع کرنا ہے، یہاں تک کہ مکہ کے لوگ، مکہ ہی سے احرام باندھیں۔
اس حدیث میں جہاں یہ کہا گیا ہے کہ میقات کے اندر والے اپنے سفرشروع کرنے کی جگہ یعنی اپنی رہائش سے احرام باندھیں گے ، وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مکہ والے مکہ سے ہی احرام باندھیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حج افراد یا قران کی نیت کرتے وقت مکہ والے اپنی رہائش سے ہی احرام باندھیں گے لیکن مکہ میں جو حدود حرم میں رہتے ہیں وہ عمرہ کرنے کے لئے حرم سے باہر نکل کر حل سے احرام باندھیں گے مثلا مسجد عائشہ سے اور اس بات پر اجماع منقول ہے ۔ ابن عبدالبر نے کہا کہ امام مالک کا قول "مکہ میں رہنے والا احرام نہیں باندھے گا یہاں تک کہ حل کی طرف نہ چلاجائے اور پھر وہاں سے احرام باندھے" اس بات پر علماء کا اجماع ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، الحمدللہ۔(الاستذكار:4/79)
اسی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کو عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے حل کی طرف لےجانے کا حکم دیا گیا، دراصل یہ حکم مکہ میں رہنے والے سب کے لئے ہے خواہ وہ مقیم ہو یا نازل و مسافر ہو۔ یہ سیدہ عائشہ کے ساتھ خاص نہیں ہے جیساکہ سمجھا جاتا ہے ۔ اگر عمرہ کا احرام باندھنے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے مخصوص طور پر آسانی کا حکم ہوتا تو نبی ﷺ ان سے کہتے ہیں کہ مکہ میں جہاں پر ہو، وہیں سے عمرہ کا احرام باندھ لو ، اس میں ان کے لئے آسانی ہوتی مگر آپ نے انہیں حل کی طرف جانے کا حکم دیا ،یہ رات کا وقت تھا ، آپ نے عبدالرحمن اور عائشہ دونوں سے کہا کہ تم لوگ عمرہ کے بعد مجھ سے فلاں جگہ ملو، گویا یہ مشقت والا معاملہ ہے پھر اس میں سیدہ عائشہ کے لئے کیسے راحت اور خصوصیت ہے؟
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حدود حرم میں رہنے والے سب کے لئے یہی حکم ہے کہ جب وہ عمرہ کرنا چاہے وہ حدود حرم سے نکل کر حل کی طرف جائے اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر آئے حتی کہ جو حدود حرم میں کسی غرض سے داخل ہوا اور اسے عمرہ کا ارادہ ہوگیا اس کے لئے بھی یہی حکم ہے اور جو لوگ عمرہ کی غرض سے باہری ملک یا باہری شہر سے مکہ آئے ، وہ حدود حرم میں ابھی قیام پذیر ہیں ، اگر وہ دوبارہ عمرہ کرتے ہیں تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے یعنی وہ بھی حل مثلا مسجد عائشہ جاکر احرام باندھیں گے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ :عوام میں ایک غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ جو کسی غرض سے مکہ آیا یا جدہ آیا اور یہاں آنے کے بعد عمرہ کا خیال پیدا ہوا تو کچھ دن اسے قیام کرنا ہوگا مثلا تین دن یا دس پندرہ دن ، اس کے بعد وہ عمرہ کرسکتا ہے ۔ یہ غلط خیال ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ جو کسی کام سے یا رہائش کی غرض سے حدود حرم میں داخل ہوتا ہے اور پھر کچھ دیر بعد عمرہ کا خیال پیدا ہوتا ہے تو وہ اسی وقت حدود حرم سے باہر نکل کر عمرہ کا احرام باندھ سکتا ہے اور اسی طرح جو کسی غرض سے یا رہائش کی نیت سے جدہ آتا ہے اور یہاں آکر عمرہ کا خیال پیدا ہوتا ہے تو جس وقت یا جس دن عمرہ کا ارادہ بن جائے اسی وقت وہ اپنی رہائش سے احرام باندھ کر عمرہ کرسکتا ہے ۔ کچھ دن گزارنے والا خیال غلط ہے ۔
یہاں پر ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی دھیان رہے کہ جومیقات سے باہر رہتا ہواوروہ عمرہ کی غرض سے مکہ یا جدہ آئے تو ان کو لازما اپنی میقات سے احرام سے باندھ کر آنا ہوگا، بہت سے عمرہ کرنے والے جدہ آکر ، یہاں آرام کرکے پھر یہیں سے عمرہ کا احرام باندھتے ہیں ، یہ غلط ہے اور اگر کسی نے اس طرح عمرہ کیا تو اس کو دم دینا ہوگا۔ اسی طرح اہل جدہ ، اپنی رہائش سے احرام نہ باندھ کر مسجد عائشہ سے احرام باندھے یا گھر سے نکل کر آگے جاکر احرام باندھے تو اس صورت میں بھی دم لازم آئے گا ، اس لئے اہل جدہ اپنی رہائش ہی سے احرام باندھے ۔
مسجد عائشہ سے احرام باندھنے سے متعلق عرب علماء کے بعض فتاوے :
اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے کہ جو مکہ میں مقیم ہو وہ حل جاکر عمرہ کا احرام باندھے گا تاہم بعض لوگوں نے اس بابت اختلاف کیا ہے کہ جو عمرہ کرنے مکہ آیا وہ دوبارہ عمرہ کے لئے مسجد عائشہ سے احرام باندھے یا میقات پر جائے جبکہ میں نے اوپر واضح کردیا ہے کہ وہ دوبارہ عمرہ کے لئے مسجد عائشہ یا کسی دوسرے حل کی طرف جاکر احرام باندھے گا۔ اس سلسلے میں دوچندعلمائے عرب کے فتاوے نقل کردیتا ہوں تاکہ موضوع سے متعلق کچھ تائید ہوجائے ۔
(1)شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی ریاض سے ایک عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ گیا پھر عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ کا خیال پیدا ہوگیا تو کیا اس کے لئے دوسرا عمرہ کرنا جائز ہے اور وہ کہاں سے احرام باندھے گا؟
شیخ نے اس پہ جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اگر اس نے عمرہ کرلیا اور پھر اپنے میت باپ یا ماں یا اسی طرح دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنا چاہے تو تنعیم یا جعرانہ یا عرفات کی طرف یعنی حل کی طرف جائے اور حدود حرم کے باہر حل سے نئے عمرہ کا احرام باندھے جیسے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی ﷺ کے حکم سے تنعیم سے عمرہ کیا تھا۔(بن بازڈاٹ آرگ ڈاٹ ایس اے /فتوی سرخی: هل يجوز تكرار العمرة؟ ومن أين يحرم؟)
(2)شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی عورت نے اپنا عمرہ کرلیا پھر اپنے باپ یا اپنے چچا کی طرف سے عمرہ کرنا چاہے تو میقات سے پہلی بار جو احرام باندھا اسی احرام میں ان دونوں میں سے ہر ایک کی طرف سے طواف وسعی کرنا کافی ہوگا یا میقات کی طرف لوٹنا اور ان میں سے ہر ایک کی طرف سے احرام باندھنا ضروری ہوگا؟
اس پر شیخ نے جواب دیا کہ پہلی بات یہ ہے کہ متقارب وقت میں تکرار کے ساتھ عمرہ کرنے میں توقف اختیار کرنا چاہئے کیونکہ قریبی وقت میں تکرار کے ساتھ عمرہ کرنے پر بعض علماء نے نکیر کی ہے گویا شیخ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے فاصلہ کے بعد دوبارہ عمرہ کرسکتے ہیں ۔ آگے شیخ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان عمرہ کرے اور وہ اپنے طواف وسعی میں والدین واقارب کے لئے دعا کرے اور اس کے علاوہ مسجد حرام میں دعا کرے تو یہی کافی ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ اس کا اجر و نفع ان کو پہنچے گا ، ان شاء اللہ ۔ لیکن اگر تم نے مکرر عمرہ کرلیا اپنے والد کی طرف سے پھر اپنے چچا کی طرف سے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ یہ خلاف اولی ہے۔ ہاں اگر تم عمرہ کرتی ہو تو ہر ایک عمرہ کے لئے مستقل احرام باندھنا ضروری ہے ، اس طرح کہ تم حل کی طرف نکلو جیسے تنعیم یا عرفات یا جعرانہ اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھو اور تم مکہ سے احرام نہیں باندھوگی اور نہ ہی تم کو میقات کی طرف لوٹنا ہے ۔(اسلام وے ڈاٹ نٹ/ موضوع:حكم أداء أكثر من عمرة)
اس فتوی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شیخ نے دوسرے عمرہ کے لئے میقات جانے سے منع کیا ہے یعنی دوسرا عمرہ کرتے وقت فقط حدود حرم سے باہر نکلنا ہے اور کسی بھی جگہ جاکر حل سے عمرہ کا احرام باندھ سکتے ہیں ۔
(3)لجنہ دائمہ سے سوال کیا گیا کہ تین عورتوں نے حج کے بعد کدی سے عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ کیا ، کیا ان کا عمرہ جائز ہے تو لجنہ نے جواب دیا کہ کدی حدود حرم میں داخل ہے اس لئے ان کو تنعیم یا جعرانہ جانا تھا جیساکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تنعیم سے اور نبی ﷺ نے جعرانہ سے احرام باندھا تھا۔ بہرحال ان کا عمرہ صحیح ہے لیکن ان سب پر دم لازم ہے کیونکہ انہوں نے حرم سے احرام باندھا ہے۔(یہ فتوی کا خلاصہ اور مفہوم ہے / اللجنة الدائمة/الفتوى رقم: 5830 )
(4)شیخ محمد صالح المنجد کہتے ہیں :"جمہور اہل علم نے اپنے سفر میں ایک عمرہ کرنے والے کیلئے دوسرا عمرہ کرنے کی رخصت دی ہے، خصوصی طور پر اگر عمرہ کیلئے آنے والا شخص آفاقی ہو، دور سے سفر کر کے آیا ہو، اور اس کیلئے دوبارہ مکہ پہنچنا مشکل ہو، تو ایسی صورت میں اس شخص کیلئے قریب ترین حِل کی طرف جانے کی ضرورت ہوگی، اور پھر وہ وہیں سے دوسرے عمرے کا احرام باندھے گا"۔(موقع اسلام سوال وجواب، سوال نمبر: 180123)
مسجد عائشہ سے باربار عمرہ کرنا:
یہاں پر اس بات کا ذکر کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ بعض اہل علم ایک سفر میں بس ایک ہی عمرہ کے قائل ہیں کیونکہ نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب سے یہی منقول ہے جیسے شیخ البانی ؒ اور شیخ ابن عثیمین ؒ وغیرہما تاہم بعض اہل علم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ مکہ میں قیام طویل ہو تو کچھ دنوں کے وقفہ کے بعد دوسرا عمرہ کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح کوئی ایک سفر میں کسی قریبی میت کی طرف سے عمرہ کرنا چاہے تو عمرہ کرسکتا ہے خصوصا اس وقت جب دوبارہ مکہ آنے کی امید نہ ہو۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا( صحيح البخاري:1773)
ترجمہ:ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
اس حدیث سے باربار عمرہ کرنے کی دلیل ملتی ہے ،اسی طرح جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے حج قران ادا فرمالیا تو آپ نے انہیں یہ بشارت دی کہ اس سے حج وعمرہ دونوں ہوگیا، آپ نے فرمایا:قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا(صحیح مسلم:1213)
ترجمہ:تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئی ہو۔
اس کے باوجود آپ نے انہیں پھر سے دوبارہ الگ اور مستقل عمرہ کرنے کی اجازت دی اور ان کے بھائی عبدالرحمن کو حکم دیا:فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ۔(مصدرسابق)
ترجمہ:اے عبدالرحمٰن! اسے لے جاؤ اور اسے تنعیم سے عمرہ کرواؤ۔
تاہم یہاں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ایک دن میں کئی عمرہ کرنا یا روزانہ عمرہ کرنا یا باربار عمرہ کرنا بلاشبہ غلط ہے اور افضل و اولی یہی ہے کہ ایک سفر میں ایک ہی عمرہ پر اکتفا کیا جائے گا۔
 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 350103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.