جمعہ نامہ: کہتے ہیں فرشتے کہ دِل آویز ہے مومن

ارشادِ ربانی ہے:’’ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۰۰۰‘‘۔ قرآن پاک کی اس آیت میں صحابہ ٔ کرام ؓ کا تعارف کراتے ہوئے اس پل صراط کا ذکر کیا گیا ہے جس پر بندۂ مومن تمام عمر گامزن رہتا ہے۔ عصرِ حاضر میں مرحوم مولانا عطاء الرحمٰن وجدی صاحب کی ذاتِ والا صفات اس کی زندہ مثال تھی۔ مولانا محترم اسی ہفتہ دارِ فانی سے کوچ کرکے رفیق اعلیٰ سے جاملے ۔ مذکورہ بالا آیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تواز ن قائم رکھنا آسان نہیں ہے ۔ اس لیے کہ کئی لوگوں کی صلح جوئی انہیں طاغوتی عقائدو نظریات سے مداہنت پر مجبور کردیتی ہے اور ایسے بھی لوگ ہیں جن نے اندر عدم برداشت کا مادہ انہیں باہمی عفو و درگذر کی صفت سے محروم کردیتا ہے۔ یہ دونوں بڑی آزمائشیں ہیں ۔ علامہ اقبال کے یہ شعر گویا مذکورہ آیت کا منظوم ترجمہ ہے؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

مولانا عطاء الرحمٰن وجدی نے باطل کے جبرو استبداد کا پامردی سے مقابلہ کرنے کی عملی مثال اس طرح قائم کی کہ ایمرجنسی کے دوران سزا سے بچانے کی خاطر ان کے ہمدرد وکیل نےکہا چونکہ جماعت اسلامی ہندپر پابندی لگ گئی ہے اس لیے نہ جماعت ہے اور نہ وہ اس کے رکن ہیں ۔ یہی بات وہ عدالت میں کہہ دیں تو وہ ان کو چھڑا لے گا۔ اپنے بہی خواہ کی یہ منطق انہیں مقامِ عزیمت سے اتار کررخصت کے درجہ میں نہیں لاسکی اور مولانا کے صبرو ثبات نے اس غیر مسلم وکیل کو آبدیدہ کردیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اہل ایمان کا صفات اس طرح بھی بیان فرمائی ہے کہ :’’۰۰۰(وہ) اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، ‘‘یہاں ایمان کی تفصیل کے بجائے اس کی روح یعنی حب الٰہی کا ذکر ہے۔ اللہ سے محبت وہ بیج ہے کہ جس کے بغیر ایمان کا پودہ نہیں لگتا اور اس کے عوض حاصل ہونے والی اللہ کی محبت اسے سر سبزو شاداب کرتی ہے۔ اللہ کی محبت بندۂ مومن کو دنیا کی محبت اور باطل کے خوف سے بے نیاز کرکے زبردست استقامت سے بہرور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مولانا عطاء الرحمٰن وجدی کے کچھ مخالفین انہیں آرے سے چیرنے کے ارادے سے اغوا کرکے لے گئے تب بھی ان کے پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی یہاں تک کہ نصرت الٰہی سے ایک معتقد نے انہیں ظالموں کے چنگل سے چھڑا لیا۔ یہ نصرتِ خداوندی اقبال کے اس شعر کی مصداق ہے؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

مذکورہ بالا آیت میں خالق سے تعلق کے بعد مخلوق سےرویہ کی بابت فرمایا گیا :’’ جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے‘‘اس آیت استعمال ہونے والے لفظ ’اَذِلَّۃٍ‘ کا مفہوم سمجھاتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں کہ ’’ اس کے اچھےمعنی نرم خو، نرم مزاج، فرماں بردار، متواضع اور سہل الانقیاد کے ہوتے ہیں نیز ’اَعِزَّۃٍ‘کی بابت لکھتے ہیں سخت، مشکل، بھاری، ناقابل شکست، ناقابل عبور، عسیر الانقیاد۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے تو وہ نہایت نرم خو، بھولے بھالے اور ہر پہلو سے لچک قبول کرنے والے اور ہر سانچے میں ڈھل جانے والے ہوں گے لیکن کافروں کے لیے وہ پتھر کی چٹان ہوں گے۔ وہ اگر اپنے اغراض و مقاصد کے لیے ان کو استعمال کرنا چاہیں گے تو کہیں سے انگلی دھنسانے کی جگہ نہ پا سکیں گے۔ سیدنا مسیحؑ نے اپنے شاگردوں کو ہدایت فرمائی تھی کہ کبوتر کے مانند بے آزار اور سانپ کے مانند ہوشیار بنو۔ مولانا وجدی اپنے موقف پر عزم و حوصلہ کے ساتھ ڈٹ جانے اور دوسروں کی دلآزاری یا ترش روی کرنے کے فرق سے اچھی طرح واقف تھے ۔ علامہ اقبال کے اس شعر میں کی بیان کردہ مومنانہ اوصاف سےوہ خوب متصف تھے ؎
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

مومن کی قہاری سے دشمن ڈرتا ہے مگر اس کے اندر غفاری کی صفت خطا کاروں سے درگزر کرواتی ہے اور اگر اس کے ساتھ قدوسی یعنی کردار کی پاکیزگی و جبروت بمعنیٰ عظمت اور بزرگی شامل ہوجائے تو مولانا عطاء الرحمٰن وجدی جیسی متوازن اور عظیم شخصیت عالم وجود میں آتی ہے۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا کہ تمام تر اختلافات کے باوجود مظاہرالعلوم سہارنپور کے دو دھڑوں میں اختلافات کے بعد ان کو حکم بناکر اسے سلجھایا جاتا ۔ مذکورہ بالا آیت میں اللہ سے محبت کے ساتھ جہدِمسلسل کی تلقین اس طرح کی گئی کہ ’’ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے ‘‘۔ اس راستے کی رکاوٹوں میں سے ایک کا ذکر آگے یوں کیا گیا کہ’’اور(وہ) کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے‘‘۔ مولانا نے تمام تر نرم خوئی کے باوجود اپنی فکری اثابت کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی پروا کبھی نہیں کی ۔ اس عظیم انعام کی بابت فرمانِ خداوندی ہے’’ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے‘‘۔ حکیم الامت فرماتے ہیں؎
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

دنیوی زندگی میں فتح و کامرانی کے لیے پختہ ایمان و یقین اور مسلسل جہدو عمل کے ساتھ محبت کا پہلو مولانا عطاء الرحمٰن وجدی کو تنظیم وتحریک سے علی الرغم ملت و انسانیت کے لیے تڑپاتا تھا اور بلا لحاظ تفریق و امتیاز ہر مظلوم و کمزور کی مدد کے لیے آمادہ کردیتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنےبے لچک فکری موقف کے باوجو د وہ ملت اورعالم انسانیت میں ہر دلعزیز بنے رہے۔ اس کا مظاہرہ نہ صرف ان کے جنازے میں شریک جمِّ غفیر سے ہوتا ہے بلکہ جب وہ ایمرجنسی کے بعد سنت یوسفی ادا کرکے سہارنپور لوٹے تو ایک بڑا مجمع ریلوے اسٹیشن سے انہیں جلوس کی شکل میں شہر کے مختلف راستوں سے گزارتے ہوئے نصف شب میں گھرتک لے گیا۔ مولانا عطاء الرحمٰن وجدی کی زندگی کے سفر کا ایک حصہ تمام ہوا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اعمالِ حسنہ کو شرف قبولیت عطا فرما کر اجرِ عظیم سے نوازے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ دل کہتا ہے عرش معلی پر مولانا وجدی پر علامہ اقبال کا یہ شعر بھی صادق آئے گا؎
کہتے ہیں فرشتے کہ دِل آویز ہے مومن
حُوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

 

Dr Salim Khan
About the Author: Dr Salim Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.