حضرت حلیمہ سعدیہ جب بکریوں کو چرانے بھیجتی تھی تو ساتھ
شیما کو بھی بھیجتی تھی ایک دن بکریاں چرانے کے لیے شیما نے کافی دیر کردی
تو حلیمہ سعدیہ نے فرمایا⚘
" شیما آج تم نے بھت دیر کردی اب تک بکریاں چرانے نہیں گئ تم "
" امی میں نے آج بکریاں چرانے نہیں جانا میں اکیلی ہوں اور بکریاں زیادہ ہے
گرمی کا موسم ھے بھاگ بھاگ کر میں تھک جاتی ہوں مجھ اکیلی سے یہ نہیں ہوتا
اب آپ میرے ساتھ کسی کو بھیجا کرے " شیما نے فرمایا⚘
" بیٹی گھر میں تو اور کوئی بھی نہیں جس کو آپکے ساتھ بھیج سکوں اکیلے ہی
جانا پڑے گا " حلیمہ سعدیہ نے فرمایا لیکن شیما مان نہیں رہی تھی کہ وہ
اکیلی اب کسی صورت نہیں جاے گی آخر اس نے کہا⚘
" امی جان میں ایک شرط پہ جاوں گی اگر آپ میرے ساتھ میرے چھوٹے بھائی محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیج دے تو میں بکریاں چرانے چلی جاوں گی ورنہ
کسی صورت میں نے نہیں جانا "
حلیمہ نے فرمایا " بیٹی تیرا بھائی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بھت
چھوٹا ھے ایک بکریوں کو سنبھالنا دوسرا ایک چھوٹے بچے کو سنبھالنا بھت کھٹن
کام ہے میری بچی "
" امی میں اکیلی جاونگی تو بکریاں بلکل نھی سنبھال پاوں گی اور اگر میرا
چھوٹا بھائی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ ہوگا تو بکریوں کو
سنبھالنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی "
ماں نے پوچھا " اے شیما یہ تو کیا کہہ رہی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا "
شیما نے کہا " امی جان ایک دفع پہلے میں اپنے بھائی کو ساتھ لیکر گئ تھی
بکریاں چرانے کے لیے میں نے دیکھا کہ بکریاں جلدی جلدی چر کر گاس کھانے لگی
پھر جس جگہ میں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوے تھے بھائی میرے
گود میں تھا تو تمام بکریاں وہاں جمع ہوگی ، اور تمام بکریاں محمد کے نزدیک
ہوکر اسکا چہرہ دیکھنے لگی⚘
سبحان ﷲ
وہی شیما ایک جنگ میں مسلمانوں کی قیدی بن گئیں جب لوگوں نے ان کو گرفتار
کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے نبی کی بہن ہوں۔ مسلمان ان کو شناخت کے
لیے بارگاہ نبوت میں لائے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو پہچان
لیا اور جوشِ محبت میں آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور آپ نے اپنی چادر مبارک
زمین پر بچھا کر ان کو بٹھایا اور کچھ اونٹ کچھ بکریاں ان کو دے کر فرمایا
کہ تم آزاد ہو۔ اگر تمہارا جی چاہے تو میرے گھر پر چل کر رہو اور اگر اپنے
گھر جانا چاہو تو میں تم کو وہاں پہنچا دوں۔ انہوں نے اپنے گھر جانے کی
خواہش ظاہر کی تو نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ وہ ان کے قبیلے میں پہنچا
دی گئیں۔ حضرت شیما رضی اللہ تعالی عنہا کا ایمان لانا ثابت ہے!
نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم کو لوری دیتیں:
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا اپنی والدۂ ماجدہ کا ہاتھ بٹاتے ہوئے پیارے آقا
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دیکھ بھال میں دلچسپی لیا کرتیں
چنانچہ ’’الاصابہ‘‘ میں ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا سرکارِ دوعالَم
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گود میں بہلاتے ہوئے یہ لوری دیا
کرتی تھیں:
يَا رَبَّنَا أَبْقِ لَنَا مُحَمَّدَا حَتّٰى أَرَاهٗ يَاْفِعاً
وَأَمْرَدَا
ثُمَّ أَرَاهٗ سَيِّداً مُسَوَّدَا وَاكْبِتْ أَعَادِيْهِ
مَعاًوَالْحُسَّدَا
وَأَعْطِهِ عِزّاً يَدُوْمُ أَبَداً
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،ج8،ص206 )
”اے ہمارے رب! ہمارے لئے محمد (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو
باقی رکھنا، تاکہ میں انہیں بھرپور جوان ہوتا دیکھ سکوں، پھر میں اِنہیں
سردار کے روپ میں دیکھوں اور (اے اللہ!) ان کے دشمنوں اور حاسدین کو ذلیل و
رُسوا کرنا جبکہ انہیں دائمی عزت دینا۔“
چاند سے بھی بڑھ کر حُسن سرورِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو لوری دیتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار اس طرح بھی کیا :
مُـحَمَّدٌ خَيْرُ الْـبَشَرْ مِـمَّنْ مَّضٰى وَمَنْ غَبَـرْ
مَنْ حَجَّ مِنْهُمْ اَوِ اعْتَمَرْ اَحْسَنُ مِنْ وَّجْهِ الْـقَمَرْ
مِنْ كُلِّ اُنْثٰى وَذَكَـرْ مِنْ كُلِّ مَشْبُوبٍ اَغَـرّ
جَـنِّبْنِی اللهُ الْغِـيَرْ فِـيْهِ وَاَوْضِحْ لِیَ الْاَثَـرْ
”حج و عمرہ کرنے والوں میں سے جو گزرچکے ہیں اورجو موجود ہیں حضرت محمد
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان میں سب سے بہتر ہیں۔ آپ خوبصورت
اور روشن چہرے والے تمام مردوں اورعورتوں سے زیادہ خوبصورت ہیں بلکہ آپ کا
حُسن و جَمال تو چاند سے بھی بڑھ کرہے۔اے میرے رب! مجھے حَوَادِثِ زمانہ سے
بچا اورمجھ پر ان کے نشانات کوواضِح فرما دے۔“ (سُبُل الہدیٰ والرَّشاد،ج
1،ص381)
بادل سایہ فگن رہتا بچپن میں ایک دن نور والے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم دوپہر کے وقت حضرتِ سیّدتنا شیماءرضی اللہ تعالٰی عنہا
کےہمراہ گھر سے باہر تشریف لےگئے، گرمی بہت تھی، حضرت سیدتناحلیمہ رضی اللہ
تعالٰی عنہا تلاش میں نکلیں، کیا دیکھتی ہیں کہ حضرتِ شیماءرضی اللہ تعالٰی
عنہا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گود میں لئے یہ اشعار پڑھ
رہی ہیں۔
هٰذَا أَخٌ لِيْ لَمْ تَلِدْهُ أُمِّيْ
وَلَيْسَ مِنْ نَّسْلِ أَبِيْ وَعَمِّيْ
فَدَیْتُہ مِنْ مُخْوِل مُعِمّ
فَاَنْمِهِ اللّٰهُمَّ فِيْمَا تُنْمِيْ
”یہ میرے وہ بھائی ہیں جو میری ماں سے پیدا نہیں ہوئے اور یہ میرے والد اور
چچا کی نسل سے بھی نہیں ہیں لیکن میں ان پر اپنے معزز ماموں اور چچا فدا
کرتی ہوں ، اے اللہ تو ان کی بہترین پرورش فرما“
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا: اے شیماء! انہیں اس گرمی
میں لئے کہاں آگئی ہو؟ عرض کی: اے ماں!ان کو گرمی نہیں پہنچ رہی! کیونکہ
دھوپ سے حفاظت کے لئے ان پر ایک بادل سایہ فگن رہتا ہےجب یہ چلتے ہیں تو
بادل بھی چل پڑتاہےجب یہ رُک جاتے ہیں تو بادل بھی رُک جاتا ہے۔
(سیرۃ حلبیہ،ج1،ص150ملخصاً، سبل الہدیٰ والرشاد،ج 1،ص381)
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
|