افسانوی مجموعہ”فکر و نظر کے آسماں“: ایک جائزہ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
افسانوی مجموعہ”فکر و نظر کے آسماں“: ایک جائزہ
ازقلم: ذوالفقارعلی بخاری
محترمہ عصمت اسامہ کا شمار اُن ادیبوں میں ہوتا ہے جو وہی لکھتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں۔ اولین کتاب ”سنہرے حروف“ کے بعد افسانوی مجموعہ ’’فکر و نظر کے آسماں“ منظرعام پر آیا ہے۔ آپ نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا ہے۔ آپ نے لکھنے کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا اوریوں سفر رفتہ رفتہ ایک منزل کی جانب بڑھتا چلا گیا۔آپ کو انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین، حریم ادب، اسلامک رائٹرز موومنٹ، تحریک نفاذ پاکستان اور دیگر کئی ادبی تنظیموں کی جانب سے ایوارڈز مل چکے ہیں۔ آپ کی تحریروں میں حب الوطنی اوراخلاقی اقدارکے ساتھ ساتھ امت مسلمہ سے گہری محبت بہ خوبی محسوس ہوتی ہے۔ ’’فکر و نظر کے آسماں“کے پیش لفظ میں عصمت اسامہ لکھتی ہیں کہ”ادیب اپنے دور اورمعاشرے کا حصہ ہوتا ہے، اس کے لفظوں میں کہیں اپنی تہذیب و معاشرت جھلکتی ہے اورکہیں ملت کا درد دکھائی دیتا ہے۔“ ڈاکٹریوسف عالمگیرین فرماتے ہیں کہ ”"فکر و نظر کے آسماں " ایک ایسی کتاب کے روپ میں سامنے آئی ہے جو خالصتاََ نوجوانوں کی تربیت اور آ گاہی کے پیش نظر مرتب کی گئی ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب جہاں مصنفہ کیلئے صدقہ جاریہ ثابت ہوگی وہاں آج کی نوجواں نسل کے دلوں میں وطنیت سے محبت کے جذبے اور دھرتی کی قدروقیمت سے متعلق شعور اجاگر کرنے میں کردار بھی ادا کرے گی۔“ دانیال حسن چغتائی کے بقول ”ہرفن کار کا فن اس کے دور، اس کے اطراف کا آئینہ ہوتا ہے۔ جو دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے، بیت رہی ہے، وہی تو بیان ہوگا۔“ عصمت اسامہ نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو بڑی گہرائی سے سمجھا اوروہی کچھ اپنے افسانوں کے ذریعے بیان کیا ہے اورکچھ ایسے انداز میں کیا ہے کہ قاری ششدر رہ جاتا ہے کہ سچائی کو من و عن بیان کر دیا ہے۔ بقول ناہید گل””فکر و نظر کے آسماں“ خوبصورت افسانوں پر مشتمل ہے۔ سرورق کو پہلی نظر میں دیکھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے علامہ اقبال ؒ کا شاہین محوِ پرواز ہو۔ میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ سرورق مصنفہ کے افسانوں کے مرکزی خیال کا بہترین عکاس ہے۔“ افسانوی مجموعہ’فکر و نظر کے آسماں“ جنوری 2024میں سرائے اردو پبلی کیشن، سیالکوٹ سے شائع ہوا ہے۔اس میں شامل افسانوں کو میں نے کس نظر سے دیکھا ہے، اس پر کچھ بات کرتے ہیں۔ ”پانی میں ستارے“ بھارت کشمیر کے جس حصے پر قابض ہے اُسے مقبوضہ کشمیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔کشمیر کے حوالے سے کئی کہانیاں لکھی جا چکی ہیں اور جب تک کشمیر یوں کو ان کا حق نہیں ملتا ہے تب تک آزادی کے حوالے سے افسانے لکھے جاتے رہیں گے اورشاعری میں بھی نوحہ بیان ہوتا رہے گا۔فلسطین اورکشمیر کی آزادی کے حوالے سے لکھنے والے جو بھی لکھتے ہیں وہ متاثر کن پیغام کا حامل ہوتا ہے اوریقینی طور پر قارئین کو پڑھ کر مجاہدین کی مدد کرنے یا جہاد کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ ادب عالیہ میں اس نوعیت کے موضوعات پر لکھنا قابل تعریف ہے لیکن ہم ظلم وستم کے حوالے سے بچوں کو جو مواد پیش کرتے رہتے ہیں اس پرتحقیقی کام ہوناچاہیے کہ اِس سے نونہالوں کو کس قدرنفع پہنچ رہا ہے یا پھر یہ محض اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ بطور مسلمان ظلم و ستم سہنے والوں کے ساتھ قلمی طور پر اظہاریکجہتی ہے اورنفسیاتی طور پر بچوں کو کچھ ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ نوعمری میں انقلاب برپا کریں۔بہرحال،عصمت اسامہ کا افسانہ کشمیری مجاہدین کی زندگیوں کے گرد گھومتا ہے اوراُن کا آخری سطور میں پیغام”رات کے اندھیرے، اجالے کی منزل تک ضرور پہنچیں گے۔“ قارئین کو ایک امید کی روشنی دکھاتا ہے۔ادیبوں کو سچائی کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ بھی بیدار کرنی چاہیے اورعصمت اسامہ نے بطور ادیب اپنی ذمے داری ادا کی ہے۔ ”اڑان“ ایک نوحہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ ہمیں اپنے وطن کی اتنی فکر نہیں ہے جتنی قربانیاں ہم نے دی ہیں۔ اس کے بعد تو ہمیں اپنے دیس کو سنبھال کر رکھنا چاہیے تھا کہ آزادی سے جینے کا حق تو ہمیں الگ خطہ(پاکستان) حاصل ہونے کے بعد ملا ہے، بصورت دیگر انگریزوں اور ہندؤوں نے جو سلوک روا رکھا تھا وہ تو بہت افسوس ناک تھا۔عصمت اسامہ نے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔مجھے یقین ہے کہ جنھوں نے یہ افسانہ پڑھا ہوگا، انھیں اپنے دیس سے مزید الفت ہوئی ہوگی کہ اس افسانے کا مرکزی خیال آزادی کی اہمیت عیاں کرنا ہے اوراُن افراد کی قربانیوں کو یاد دلوانا بھی جنھوں نے ہمارے لیے اپنا آپ قربان کیا کہ ہم آزادی سے جی سکیں۔ ”فرش سے عرش تک“ ہمیں دنیا میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ جو اچھے اورایمان دار لوگ ہیں انھیں سچ بولنے کی سزا ملتی ہے اوریہی حقیقت ہے کہ سچے لوگوں کو بے عزت ہوتے دیکھ کر بھی کئی باضمیر خاموش رہتے ہیں کہ پرائی جنگ میں کودنے سے ان کی اپنی عزت داؤ پرلگ سکتی ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کامالک حق گوئی کرنے والوں کا محافظ ہے اوروہی بہترین انعام عطا کرتا ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار دین محمد کوسچائی کا انعام کیا ملا؟ یہ تو آپ ”فکرو نظر کے آسمان“ کا مطالعہ کرنے کے بعد بہ خوبی جان سکتے ہیں۔ عصمت اسامہ کی جرات کو سلام ہے کہ انھوں نے تلخ موضوع کو ایک خوب صورت پیغام کے ساتھ قارئین کو پیش کیا ہے اورانھیں کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ”رنگ لوٹ آئے“ بے اولادی کا بہترین حل ہمارے معاشرے میں دوسری شادی ہی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ نہیں سمجھا جاتا ہے کہ اولاد تو رب نے عطا کرنی ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم کچھ اور سوچنے لگتے ہیں اورپھر معاملات ہاتھ سے باہر نکلنے لگتے ہیں اور معاملہ ہاتھ سے نکلنے والا ہوتا ہے تو کوئی ہمیں احساس دلواتا ہے کہ جو ہم سوچ رہے تھے ویسا نہیں ہوگا تو پھر رب پر یقین اورزیادہ ہوتا ہے اورہمیں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی میں رنگینی جیسے لو ٹ آئی ہو، اس افسانے نے متاثرکیا ہے۔ ”میں ہوں زمانہ“ نے درس دیا ہے کہ وقت کبھی بھی کسی بھی لمحے بدل سکتا ہے اس لیے کبھی مایوس نہ ہوں۔ ہمیں ناشکری کی عادت پڑتی جارہی ہے اورہمیں جو ہاتھ میں ہو اُس سے اتنی لذت محسوس نہیں ہوتی ہے جتنی لاحاصل شے کا حصول ہمیں یہ احساس دلواتا ہے کہ وہ کس قدر مزے دار ہے، یہی سب”لاحاصل سے حاصل تک“ کا پیغام ہے جو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ”یہ بھول نہ کرنا“ ایک دل چسپ موضوع پر افسانہ ہے،جس میں پاکستان کے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے اوریہ احساس دلوایا گیا ہے کہ ہم اپنے مفادات کے تحت کچھ ایسا کر لیتے ہیں کہ پھر ہمیں معاشرہ خراب ہوتا دکھائی دیتا ہے جس میں ہم قصور وار دوسروں کو قرار دیتے ہیں لیکن اپنی کوتاہی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ایک باپ اور بیٹے کے درمیان گفتگو عیاں کرتی ہے کہ محض ایک ووٹ کی خاطر ایمان بیچ دیا گیاہے اور اس کے بدلے میں مفاد حاصل کیا گیاہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا حقیقی رنگ ہے اورعصمت اسامہ نے افسانے میں وہ ماحول نہیں دکھایا ہے جو ہمارے لیے اجنبی ہو، انھوں نے وہی پیش کیا ہے جو انھیں دکھائی دیتا ہے۔اسی وجہ سے قاری اپنے آپ کو کسی اور دنیا کا باسی تصور نہیں کرتا ہے بلکہ حقیقت کو جان کر کچھ سمجھنے اورتبدیلی پر خود کو اکسانے کی کوشش کرتا ہے۔ ”احساس کی لہریں“ کو پڑھ کر علم ہوا کہ جب احساس پیدا ہو جائے تو من اجلا اجلا ہو جاتا ہے اور تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ ”ایمان کے کہف“بہت کچھ سوچنے پر مائل کرتا ہے اوریہ جملہ ملاحظہ کیجیے: ”اپنے گھروں کو ٹوٹنے سے بچائیے، یہ ایمان کے کہف ہیں۔“ ”بلال چاہیے“ کا یہ جملہ بہت کچھ سوچنے پر مائل کرتا ہے۔ ”ہر طرف چور ہی چور ہیں، کوئی تو ایمان دار ہونا چاہیے نا؟“ واقعی تبدیلی کے لیے کسی نہ کسی کو تو سر پر کفن باندھنا چاہیے کہ اگر سب ہی”جو ہو رہا ہے، اسے ہونے دیا جائے“ پر عمل کریں گے تو پھر حق کا نام لیوا کون رہے گا۔ کچھ تبدیل کرنے کے لیے کسی نہ کسی کو کھڑا ہونا چاہیے کوئی توبلالؓ جیسا ہو جو کلمہ حق کی خاطر سب برداشت کرے لیکن حق گوئی سے باز نہ آئے۔ ”دھرتی ماں اور مادری زبان“دل چسپ افسانہ ہے اس کا ایک جملہ آپ کو بہت کچھ سمجھائے گا۔ ”بھائی نے کہا ہے کہ سارے بل انگریزی زبان میں ہوتے ہیں،ہمیں کج سمجھ نہ آندی، کدھر ہاں کرنی، کدھر ناں کرنی۔“ چوہدری صاحب نے تاسف سے کہا۔“ ”تکبیر“ ایک کڑوی سچائی کو بیان کرنے والا افسانہ ہے جس میں جب یہ علم ہوتا ہے کہ کس طرف چلنا ہے تو دلی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ بقول شاعر نکلے جو مجاہد کے لب سے، وہ چیز ہی دیگر ہوتی ہے کہنے کو تو ہم بھی کہتے ہیں ہر مسجد میں تکبیر بہت ”فکر و نظر کے آسماں“ میں 17افسانے ہیں اورسب قاری کو اپنی گرفت میں لینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ایسے احباب جو حقیقت کو آنکھیں کھول کر پڑھنا چاہتے ہیں اوراسے محسوس کرنا چاہتے ہیں اُن کے لیے یہ بہترین تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے۔عصمت اسامہ نے حقیقت کو مدنظر رکھ کر افسانے لکھے ہیں۔ اگر وہ روایتی عشق و محبت کی داستائیں سناتیں تو شاید انھیں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی اکثریت زیادہ قبول کرتی کہ ہمارے ہاں سچائی سے آنکھیں چرا کر خوابوں کی دنیا میں رہنے کا زیادہ شوق ہے لیکن جو حقیقت پسندی کے دلدادہ ہیں۔ انھیں یقینی طور پر اِن افسانوں سے بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع ملے گااوریہی اس مجموعے کی کامیابی ہوگی کہ اگر پڑھنے والوں نے تبدیلی پرخود کو مائل کیا تو یقینی طور پر ایک بہترین معاشرہ آنے والے برسوں میں دکھائی دے گا۔ ان شااللہ تعالیٰ ۔ختم شد۔ |