آغا گل: بلوچستان میں افسانوی ادب کا ایک گمنام لکھاری

یہ تحریر بلوچستان کے نامور ادیب آغا گل کی افسانوی ادب میں مقام اور ان کی شخصیت کے حوالے سے لکھی گئی ہے ۔

آغاگل بلوچستانی ادب کا ایک معتبر نام ہے جو 1951 کو کوئٹہ کے ایک دور افتادہ قصبہ ہرنائی میں پیدا ہوئے۔ بہ حیثیت لیکچرار اردو اپنے کیریئر کا آغاز کیا، لیکن بعد ازاں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور پوسٹ ماسٹر جنرل رہے۔ اپنے والد اکبر خان (ماہر تعلیم، افسانہ نویس اور کہانی کار) سے آزادی افکار اور جرات اظہار خیال کا درس لے کر اپنی بلند پرواز تخیل کی بدولت ادبی دنیا میں بحیثیت نقاد ، محقق، شاعر، ناول نگار اور افسانہ نویس مشہور ہوئے۔ آغاگل کی تخلیقات میں ایک درجن سے زائد افسانوی مجموعے، ایک شعری مجموعہ، چار ناول اور تحقیقی و تنقیدی تصانیف بالخصوص" بلوچستان میں اردو فکشن کا تاریخی تناظر" بھی شامل ہے۔

متذکرہ تخلیقی کاوشوں کے باوجود آغاگل کو قومی سطح پر معاصر ادیبوں میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کے وہ مستحق ہیں۔ بلکہ صوبائی سطح پر بھی ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور کاوشوں کو صحیح معنوں میں سراہا نہیں گیا۔ مذکورہ بالا سرد مہری کی بنیادی وجہ آغاگل کا اپنی قلمی آزادی کا گلا نہ گھونٹنا، اپنی تخلیقات کو دھرتی کی خوشبو سے معطر کرنا، ریاست کی طرف سے فروغ شدہ ادب سے بغاوت کرنا اور ہیرا منڈی کلچر سے انحراف کرنا ہے۔ خدا نخواستہ اگر آغاگل ریاستی سرپرستی میں افسانوی ادب تخلیق کرتے، ہیرا منڈی کلچر (عورت، مرد اور شادی) کو پروان چڑھاتے، اپنی تخلیقات میں عورت کے جینون مسائل سے صرف نظر کرکے عورت کو تابعدار جنس اور پابند صوم و صلوٰۃ بیوی دکھاتے، تو آج ان کا مقام یہ نہ ہوتا، بلکہ ان کو درباری سرپرستی میں بے شمار انعامات و نوازشات اور صدارتی تمغے مل چکے ہوتے۔

تاریخ گواہ ہے کہ وقت کا فیصلہ بہت منصفانہ اور دلیرانہ ہوتا ہے۔ سرکاری سرپرستی میں پنپنے والا ادب بھی بالآخر ادیب کی طرح طبعی موت مرجاتا ہے۔ شرف مقبولیت اور عمر خضری صرف ان ادیبوں کو ملتی ہے جن کی تخلیقات میں عصر کا خالص نبض اور دھرتی کی سوندھی خوشبو محسوس کی جا سکے۔ یعنی جس میں عوامی احساسات، سماجی مسائل، معاشی ناہمواری، سیاسی جبر اور اجتماعی محرومیوں کی بہترین عکاسی اور ترجمانی کی گئی ہو۔ علااوہ ازیں شہرت عام اور بقائے دوام کے مقام پر صرف وہ ادیب فائز ہوسکتا ہے جس کی شخصیت پر مصلحت کوشی کا کوئی پرتو نہ ہو اور وہ جو اپنے ضمیر کی آواز کو تحریر کا پیرہن پہنانے پر سمجھوتا نہ کریں۔ یعنی ابدیت صرف اس ادب کے حصے میں آتی ہے جو اپنے لوگوں اور مٹی کے ساتھ مخلص ہو اور ان کے ساتھ مضبوط تعلق رکھتا ہو۔

برطانوی راج کے خاتمے کے بعد بھی بلوچستان کی نو آبادیاتی حیثیت جوں کا توں رہی۔ نو آبادکار نہ صرف معاشی لوٹ کھسوٹ میں یکتا ہوتے ہیں، بلکہ مفتوحین کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، نظریات و رسومات اور ادب و مذہب پر بھی اپنا رنگ بھرپور جماتا ہے۔ نتیجے میں مقامی ہیروز کے کارنامے، تاریخی حقائق اور تخلیقی ادب بھی سرد خانوں کا نذر ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں مجموعی طور پر کچھ اس طرح کا ماحول جنم لیتا ہے کہ مفتوحین مزاحمت کرنے کی بجائے صرف زندہ رہنے کو ہی عافیت سمجھنے لگتے ہیں۔ ادبی تناظر میں بے یقینی کی ایسی فضا قائم کی جاتی ہے کہ سچ پر جھوٹ اور جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ حقائق کا چہرہ مزید مسخ کرنے کے لیے مقامی موثر اور توانا آوازوں کو طاقت کے بل بوتے خاموش کرایا جاتاہے اور متبادل میں زر خرید لکھاریوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس دوران میں کوڑیوں کے بھاؤ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کی لاٹری نکل آتی ہے، اور یوں آغاگل اور ان کے دیگر جیسے معتبر نام گمنامی کی نذر ہو جاتے ہیں۔

آغاگل نے بدنامی اور مصلحت کوشی کی زندگی گزارنے پر گمنامی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی ہے۔ انھوں نے ہواؤں کے رخ پر سفر کرنے کے بجائے دور اندیشی کا مظاہرہ کرکے بلوچستان کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھایا ہے۔ شعر و شاعری کے زریعے بلوچستان کی اصلی تصویر کشی کا جو کارنامہ عطا شاد نے سر انجام دیا تھا، بعینہٖ وہی کارنامہ آغاگل نے افسانوی ادب کے زریعے سر انجام دیا ہے۔ باہر کی دنیا کے لوگ یعنی سرمایہ دار غیر ملکی جو صرف کینٹ ایریا اور فور اسٹار سرینا ہوٹل کو بلوچستان تصور کرتے ہیں، آغا گل نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے زریعے اس حقیقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اصل بلوچستان مچھ، بولان، مستونگ، مکران، لورالائی، چمن، پشین اور دیگر دیہاتی اور پہاڑی غریب علاقوں پر مشتمل ہے۔انھوں نے اپنی تحریروں میں ریجنل ازم(مقامیت، علاقائیت) اور حقیقت نگاری کو فروغ دیا ہے۔ ان کی تحریریں مقامی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ ان کے افسانوں اور ناولوں کے ہیروز متوسط یا خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار لندن اور پیرس کے محلات یا کسی خیالی دنیا کی گلیوں کے بجائے وادی کوئٹہ کی حسین گلیوں اور جھونپڑیوں میں زندگی کی دوڑ و دھوپ میں مشغول نظر آتے ہیں۔ ان کے شاہکار ناول بابو کا مرکزی کردار "بابو" بھی نچلے طبقے کا نمائندہ مقامی کردار ہے۔

آغا گل نے کبھی سیاسی جبر، ملا ازم اور سماجی خوف کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ انھوں نے حب الوطنی کو فروغ دینے کے بجائے اپنی تخلیقات میں سیاسی، معاشی اور سماجی موضوعات کو ترجیح دی۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اشرافیہ کے بجائے غربت اور افلاس کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے لیے وقف کرکے اپنے موضوعات کا ناتا خیالستان کے بجائے بلوچستان کی سر زمین سے جوڑ دیا ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں کے مکالموں میں بدیسی زبان کے الفاظ شامل کرنے کے بجائے مقامی الفاظ کو ترجیح دی ہے، جو بلوچستان کے بڑے کثیر اللسانی شہر کوئٹہ کی گلی کوچوں میں تواتر کے ساتھ بولے جاتے ہیں۔

فی الحقیقت اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ بطور نمائندہ بلوچستانی ادب، آغا گل کو پالیسی سازوں کی جانب سے ادبی میدان میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق ہیں۔ قومی سطح پر منعقد ہونے والی ادبی محفلوں میں بلوچستان کے نامور ادیب بہت کم مدعو کیے جاتے ہیں۔ بلوچستانی ادیبوں کے ساتھ برتنے والی اس مسلسل ناانصافی کی تلافی تب ممکن ہوگی جب پاکستان میں حقیقی جمہوریت، نوآبادیاتی سوچ کا خاتمہ اور صوبائی خودمختاری کا سورج طلوع ہوگا، جب ادبی افق سے خوف کے بادل چھٹ جائیں گے، جب بندھے ٹکے نظریات اور مانگ تانگ کر خواص کے لیے لکھنے کے بجائے صرف عوامی ادب تخلیق ہوگا، جب ادب میں تمام قوموں کا خون پسینہ، تمام زبانوں کا رچاؤ اور ہر دھرتی کی خوشبو شامل ہوگی، تب آغاگل اور ان کے دیگر جیسے گمنام بلوچستانی ادیبوں کو عوامی مقبولیت کا درجہ واپس مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ آغاگل کی شخصیت اور فکر و فن پر کئی ضخیم مقالے لکھے گئے ہیں، مگر کتابیں نہیں لکھی گئی ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بلوچستان کے نوجوان نقاد، شاعر اور محقق فضل الرحمان تنہا غرشین کی تصنیف " آغا گل کا فنی اور فکری مطالعہ" ان کی شخصیت اور فکر و فن کو نئے زاویے سے سمجھنے کے لیے ایک ابتدائی قدم ثابت ہوسکتی ہے۔ لہذا آغاگل پڑھیں اور بلوچستان کو قریب سے دیکھیں!
 

Shams Ur Rahman Gharshin
About the Author: Shams Ur Rahman Gharshin Read More Articles by Shams Ur Rahman Gharshin: 6 Articles with 3423 views Lecturer at GBDC Pishin.. View More