ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میدان سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے توپ سے لڑ جاتے تھے
مشرق تا مغرب جن کی فرماروائی کے تابع تھا آج ان کا خون بے وقعت ہوچکا ہے
۔یورپ میں مرنے والے ایک کتے کی جان کی قیمت آج غزہ میں مرنے والے ایک
معصوم بچے سے ذیادہ ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کی بے جان لاشیں اس بات کا ثبوت
ہیں کہ ہم واقعی ظالموں کے ہتھیاروں کا مستقل ہدف ہیں اور جس عالمی برادری
سے انصاف کی توقع لگائے بیٹھے ہیں اس کے کانگرس ہال کی فضائیں ظالم کے ہر
جملے پر اسے داد تحسین دے رہیں تھیں۔ افسوس وہ تالیوں کی گونج بھی ہمیں
بیدار نہ کر سکی۔ ہمیں انسانی حقوق کے اسباق پڑھانے والوں سے کوئی یہ کیوں
نہیں پوچھ رہا کہ ان کے دیے اسلحے کا نشانہ بننے والے بھی تو انسان ہیں ،ان
کے حقوق کی بات کرنے کے وقت کیوں قراردادیں ظالموں کے لیے ویٹو کر دی جاتی
ہیں۔ جو انصاف کے اصولوں سے ہی ناآشنا ہیں، ان کے ہاتھو ں میں احتیار کا
ہونا بھی ناانصافی نہیں ہے کیا؟کیوں مرنے والے اگر مسلمان ہیں تو ان کا خون
معاف ہے؟
ہر اہل جرات سر اٹھانے سے پہلے قبروں میں پہنچا دئیے جاتے ہیں کیونکہ ہم تو
تقلید اور پیروی کے بھی قابل نہیں رہے۔گلہ دشمن سے نہیں اپنوں کی کمزوریوں
کا ہے۔وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی بزدلی کو امن پسندی کہنا چھوڑ ديں ۔آج وہ
وقت آ گیا ہے شاید جب اقوام عالم بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہم پر چڑھ دوڑے ہیں
اور ہم تعداد میں ذیادہ ہونے کے باوجود ان کا شکار ہیں کیوں کہ موت کے خوف
اور مال کی محبت نے ہمارے دل آلودہ کر دئیے ہیں۔
جوآج تہران تک آے ہیں کل اسلام آباد، ریاض، انقرہ، بغداد، دمشق اور جکارتہ
تک بڑھنے کی کو شش کیسے نہیں کریں گے۔ بیت المقدس ہم مسلمانوں کا حرم ہےاور
ایک مسلمان کا دل خدا کا تحت ،کیا یہ مسلمان جو ہزاروں مسلمانوں کی شہادت
کا تماشہ دیکھتےرہے وہ پتھر کی ایک عمارت کے لئےاٹھیں گے؟ اٹھنا تو پڑے گا
ان لوگوں اور اس عمارت، اس سرزمیں کو ہمارے نبی پاک رحمتاللعالمینۖ سے نسبت
ہے ۔ہمارے اسلاف کے کلمہ حق کی صداؤں کی گونج اسکی دہشت آج بھی ظالموں کے
دلوں پر چھائی ہوئی ہے۔ اللہ اس قوم کا کھویا وقار اسے دوبارہ عطا کر دے۔
ظالموں کے مقابل ہمیں ثابت قدم کر، ہماری تائید فرما، ایک بار پھر عمر بن
حطاب کا انصاف اور علی المرتضی کی شجاعت عطا کر۔ آمین
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مورۓمایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے
|