منہج سلف اور اس کی ضرورت واہمیت

اللہ کا فضل اور اس کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں بہترین شکل میں پیدا کرکے زندگی گزارنے کا ایک بہترین فطری دستور عطا فرمایا۔ انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہمیشہ اور ہرامت کے لئےاللہ کی طرف سے یہ دستور آتا رہا مگر ہر قوم میں اس دستور کو ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں قسم کے افراد پائے جاتے رہے ہیں ۔ سب سے آخر میں اللہ نے محمد ﷺ پر اپنا دستور نازل فرمایا ، یہ دستور قیامت تک لوگوں کی رہبری کے لئے بھیجا گیا ہے اور اس دستور پر بھی کچھ لوگ ایمان لانے والے ہیں اور کچھ لوگ ایمان نہیں لانے والے ہیں ۔ جو دستور الہی پر سرے سے ایمان نہیں لاتے ان لوگوں سے زیادہ افسوس ان لوگوں پر ہے جو ایمان لانے کے باوجود اپنے ایمان میں صادق نہیں ہیں ۔ اس مقام پر ہمیں رب العالمین کا شکر بجالانا چاہئے کہ اس نے ہمیں ٹھیک ٹھیک اپنے دستور پر ایمان لانے والوں میں سے بنایا ۔ جو صحیح طور پر شریعت الہی پر ایمان لائے اور اس کے مطابق عمل کرے وہی کامیاب ہونے والا ہے اور جو ایمان نہ لائے یا ایمان لانے میں صادق نہ ہو اس کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (المائدة:48)
ترجمہ:تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کردی، اگر منظور مولا ہوتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتا دے گا، جس میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے۔
٭اللہ کا قول:(لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا) یعنی سابقہ جتنی امتیں گزری ہیں ان سب کو اللہ تعالی نے الگ الگ شریعت (دستور) اور منہاج( طریقہ) دیا ہے ۔ ان ساری امتوں کے نبیوں کا اصل دین یعنی عقیدہ توحید ایک ہی تھا تاہم احکام و فروع مختلف مختلف تھے ۔ اسی تناظر میں نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے:
الأنبياءُ إخوةٌ لِعَلَّاتٍ؛ أُمَّهاتُهم شَتَّى، ودِينُهم واحِدٌ(صحيح البخاري:3443)
ترجمہ:انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے ۔
جس طرح علاتی بھائیوں میں مائیں مختلف اور باپ ایک ہوتا ہے اسی طرح انبیاء کی شریعت میں اصل دین توحید ایک ہے اور فروع مختلف ہیں ۔
٭اللہ کا قول:(وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً) یعنی اللہ چاہتا تو ایک ہی شریعت بھیج کر ساری امتوں کو اسی کا پابند بنادیتا اور ان میں یعنی اگلے اور پچھلے لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا مگر افسوس ہوتا ہے کہ آج کے مسلمانایک شریعت کے پیروکار ہوکر بھی الگ الگ فرقوں میں بٹے ہوئےہیں جبکہ ہماری شریعت اور دستور ایک، ہمارا رب ایک اور ہمارے نبی ایک لیکن ہم الگ الگ قسم کے مسلمان ہیں ۔
٭اللہ کا قول:( وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ) یعنی اللہ ہمیں مختلف احکام دے کر ہمیں آزمانا چاہتا ہے بلکہ اللہ جوبھی حکم دیتا ہے اس میں لوگوں کی آزمائش ہوتی ہے کہ لوگ اسے عمل میں لاتے ہیں یا نہیں لاتے ہیں ۔
٭اللہ کاقول:( فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ) یہاں اللہ اپنے بندوں کو عمل میں جلدی کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ عمل کے لئے بہت سے موانع موجود ہیں ، ممکن ہے کہ آدمی کے لئے کوئی مانع آجائے اور عمل کرنے سے محروم رہے جیسے موت ، بیماری ، مشغولیت یا شیطانی بہکاوہ ۔ اس لئے انسان کو نیکی کی انجام دہی میں سستی اور تامل سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ نیکی کا موقع ملتے ہی فورا اسے بجا لانا چاہئے۔
٭اللہ کا قول:( إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا )تم سب یعنی اگلے پچھلے سارے لوگ اللہ کی طرف لوٹنے اور جمع ہونے والے ہیں اور یہ موت کے بعد کا معاملہ ہے جسے بعث بعد الموت (مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا) کہتے ہیں ۔
٭اللہ کا قول:( فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ)پھر اللہ حساب وکتاب کے دن لوگوں کے درمیان اختلاف ہونے والے معاملات کوواضح کرے گااور عمل کے اعتبار سے بدلہ دے گا یعنی جو ٹھیک ٹھیک شریعت پر عمل کیا ہوگا اس کو بہتر بدلہ اور جو شریعت کے خلاف عمل کیا ہوگا اس کو سزا دے گا۔
اس آیت میں موضوع سے متعلق اہم لفظ "منہاج" کا استعمال ہوا ہے چنانچہ پہلے منہاج اور دوسرا اہم لفظ سلف جانتے چلیں تاکہ موضوع کی وضاحت اور سمجھنے میں مدد ملے ۔
منہاج سے منہج نکلاہوا ہے ، اس کا لغوی معنی واضح طریقہ یا واضح راستہ ہے اور اس سے مراد وہ سیدھا راستہ ہے جس پر چل کرنبی مرسل نے آسمانی شریعت کو نافذ کیاہو۔ یا بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ منہج سے مراد وہ واضح راستہ ہے جس پر پہلے کے اچھے لوگ چلے ہوں عقیدہ، عبادت، معاملہ ، اخلاق اور زندگی کے تمام امور میں ۔ اس منہج کو صراط مستقیم بھی کہتے ہیں کیونکہ صراط مستقیم بھی اسی سیدھے راستے کو کہتے ہیں جس کو منہج سے تعبیرکیا جاتا ہے ۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖوَلَاتَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚذَٰلِكُمْوَصَّاكُمبِهِلَعَلَّكُمْتَتَّقُونَ (الانعام:153)
ترجمہ:اور بلاشبہ یہی میری سیدھی راہ ہے لہٰذا اسی پر چلتے جاؤ اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر جدا جداکردیں گی اللہ نے تمہیں انہی باتوں کا حکم دیا ہے شاید کہ تم (کجروی سے) بچ جاؤ۔
اس آیت میں اللہ نے صراط کا لفظ استعمال کیا ہے جو واحد ہے ، اس کے ساتھ مستقیم کی صفت استعمال ہوئی ہے یعنی سیدھا راستہ ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ منہج یا صراط مستقیم ایک ہی راستہ ہے، مختلف راستوں پر چلنے کو صراط مستقیم نہیں کہیں گے ۔ اسی لئے آگے اللہ نے فرمایا" وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ" یعنی صراط مستقیم کے علاوہ دوسرے راستوں پر مت چلو ورنہ بھٹک جاؤ گے ۔ قرآن میں اللہ نے متعدد مقامات پر گروہ بندی سے منع کیا ہے جیسے اس کا فرمان ہے:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا(آل عمران: 103)
ترجمہ:اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ اللہ کی جو مضبوط رسی ہےاس کو مل جل کرسارے مسلمانوں کو مضبوطی سے تھامنا ہے ، جو اس ایک مضبوط رسی کو چھوڑ دے گا وہ اللہ کی رسی اور اللہ کے راستے(صراط مستقیم ) سے دورہوجائے گا۔ اس بات کو نبی ﷺ نے ایک حدیث میں کچھ اس طرح واضح فرمایاہے ۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
خطَّ لنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ خطًّا ثم قال : هذا سبيلُ اللهِ ثم خطَّ خطوطًا عن يمينِهِ وعن شمالِهِ ثم قال : هذه سُبُلٌ قال يزيدٌ : متفرِّقَةٌ على كلِّ سبيلٍ منها شيطانٌ يدعو إليهِ ثم قرأ { وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ }(أخرجه أحمد:4142 والدارمي:202)
ترجمہ:ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا کہ ”یہ اللہ کا راستہ ہے“، پھر اس کے دائیں بائیں کچھ اور لکیریں کھینچیں اور فرمایا کہ یہ ”مختلف راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان بیٹھا ہے اور ان راستوں پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے“، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ﴾» [الأنعام: 153] ”یہ میرا سیدھا راستہ ہے سو اس کی پیروی کرو، دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔“
٭ اس حدیث کو مسند کی تخریج میں احمدشاکر صحیح کہتے ہیں اور شیخ ابن باز ؒ نے بھی صحیح کہا ہے۔
منہج کا ذکرہوگیا، اب سلف کو سمجھیں ۔ سلف کہتے ہیں گزرے ہوئے اور سبقت لے جانے والے پہلے کے لوگ ۔سلف سے مراد سلف صالحین یعنی گزرے ہوئے لوگوں میں نیک لوگ اور سلف صالحین کے زمرے میں تین طبقات کے نیک لوگ داخل ہیں ، صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلف کا اطلاق صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین پر ہوتا ہے ۔ اس کی دلیل نبی ﷺ کی مشہور حدیث ہے جس میں تین زمانوں کے لوگوں کی بہتری بیان فرمائی گئی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
سُئِلَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: أيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ(صحيح البخاري:6658)
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون لوگ اچھے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا زمانہ، پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے۔
کیا سلفی کوئی نئی اصطلاح ہے؟
ابھی میں نے منہج سلف کو واضح کیا ہے جس میں اوپر یہ بات مذکور ہے کہ منہج کوئی نئی چیز یانئی اصطلاح نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے ہمیں ایک شریعت اور ایک منہاج دیا ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کو منہاج النبوۃ کے ذریعہ بیان فرمایا ہے ۔ اسی سے مشتق منہج ہے جس پر نبی ﷺ نے چل کراپنے صحابہ کو دکھایا پھر صحابہ اسی طرح چلے ، بعد میں تابعین و تبع تابعین نے صحابہ کے اسی منہج کو اختیار کیا ۔ اسی منہج کو سلفیت کہتے ہیں کیونکہ اس پر سلف نے چل کردکھایا اور جو کوئی اس منہج کو اختیار کرے گا وہ سلفی یعنی سلف کا پیروکار کہلائے گا اور سلفی کی اصطلاح قدیم زمانے سے مستعمل ہےبلکہ محدثین کے نزدیک یہ لفظ عام ہے ۔
منہج سلف کے پیروکاروں کے متعدد نام :
اہل حق کا سب سے مشہور ومعروف نام اہل السنۃ والجماعۃہے مگر اس نام کو آج سبھی فرقہ کے مسلمان استعمال کرنے لگے ہیں خواہ وہ سلف کے پیروکار ہوں یا نہ ہوں ایسے میں سلفیت کی نسبت ظاہرکرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔منہج سلف کے پیروکاروں کے ناموں میں سلفی کے علاوہ ، محمدی ، اہل الحدیث، اثری، غرباء، طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ بھی استعمال ہوتے ہیں ۔
اہل الحدیث سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:
برصغیرمیں منہج سلف کے پیروکار عموما اپنے لئے اہل حدیث کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو مقلدوں کا یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اہل الحدیث تو محدثین کو کہا جاتا ہے ، عامی یا غیرمحدث کے لئے اہل حدیث کا استعمال صحیح نہیں ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ محدثین کو بھی اہل الحدیث کہا جاتا ہے مگریہ محدثین کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ سلفی کی طرح یہ بھی منہجی لفظ ہے اس اعتبار سے ہر وہ شخص اہل الحدیث ہے جو قرآن وحدیث پر منہج سلف کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اس بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ مجموع الفتاوی میں لکھتے ہیں کہ ہم اہل حدیث صرف احادیث کو سننے، لکھنے اور روایت کرنے والوں کو ہی مراد نہیں لیتے ہیں بلکہ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو حدیث کا علم رکھتا، اس کی علمی وعملی اور ظاہری وباطنی حفاظت کرتا ، اس کی سمجھ اور پیروی کا دم بھرتا اور اس سے نسبت کا دم بھرتا ہے ۔
اہل الحدیث کا منہج :
سلفی اور اہل حدیث کا منہج پوری طرح واضح ہے ، ہم کتاب اللہ اور سنت رسول پر ٹھیک ٹھیک اسی طرح عمل کرتے ہیں جیسے شارع علیہ السلام نے صحابہ کرام کو عمل کرکے دکھایا ہے بالفاظ دیگر اہل حدیث ، قرآن اور حدیث پر فہم سلف کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔اس لئے ہم اسی بات پر عمل کرتے ہیں جس کی قرآن وحدیث میں دلیل ملتی ہے اور اس دلیل کو اسی طرح سمجھتے ہیں جیسے ہمارے سلف نے سمجھا ہے ۔ سلفی منہج اعتدال ووسطیت کا راستہ ہے ، یہی امت محمد کی خاصیت ہے ، اللہ فرماتا ہے :
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطاً( البقرة/143)
ترجمہ:اور اسی طرح (اے مسلمانو!) ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے۔
الحمدللہ یہ جماعت عقیدہ وعبادات اور احکام ومعاملات سے متعلق دین کے تمام شعبہ جات میں اعتدال پر کاربند ہے، کہیں بھی غلو اور افراط وتفریط کا شکار نہیں ہے ۔ اللہ پر ایمان اور اس سے محبت کرنے ، رسول پر ایمان اور ان سے محبت اور ان کی پیروی کرنے ، صحابہ ،اہل بیت ،اولیاء، علماء،ائمہ ، صالحین اور عام لوگوں سے محبت کرنے میں وہی معیار اپناتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بتایا ہے جبکہ سلفی لوگوں کے علاوہ مسلمانوں کے تمام گروہوں اور فرقوں میں غلو اور افراط وتفریط پایا جاتا ہے ، اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ منہج سلف سے منحرف ہوگئے ۔ منحرفین جادہ حق یہ شور مچاتے ہیں کہ اہل حدیث اہل بیت سے سچی محبت نہیں کرتے، اولیاء کا احترام نہیں کرتے اور ائمہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں جبکہ معاملہ یہ ہے کہ اہل حدیث ہی نیک لوگوں کے تمام طبقات سے سچی محبت کرتے ہیں اور جن کا جو مقام ہے وہ مقام دیتے ہیں ۔ مقلدین انبیاء ، اہل بیت، علماء ، ائمہ ، اولیاء اور بزرگان دین سے محبت کرنے میں غلو کرتے ہیں جبکہ اللہ نے دین میں غلوکرنے سے منع فرمایا ہے، فرمان الہی ہے:
يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ(النساء:171)
ترجمہ:اے اہل کتاب اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے کچھ نہ کہو۔
دیوبندیوں نے اپنے علماء اور امام کو نبی کا درجہ دے رکھا ہے یعنی جس درجہ نبی کی بات مانی جاتی ہے اس درجہ اپنے امام کی بات تصور کرتے ہیں بلکہ عملا نبی سے بھی بڑا درجہ ظاہر کرتے ہیں اسی لئے اپنے امام کے قول کے خلاف قرآن کی آیت بھی نہیں مانتے اور نہ فرمان رسول مانتے ہیں گویا اللہ سے بھی تجاوز کرنا ہے ۔ اسی طرح بریلویوں کا حال ہے ، یہ اللہ اور رسول کو چھوڑ کر بندوں کی گھڑی ہوئی باتوں کو دین سمجھ کر عمل کرتے ہیں اور پیروں کو مشکل کشا اور جنت کا ٹھکیدار سمجھتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے پیر جنت میں داخل کرلیں گے خواہ کیسا بھی عمل کیوں نہ ہو، بس کسی پیر سے بیعت ہوجائے۔ جب تک یہ مقلدین حضرات امت وسط نہ بن جاتے منہج سلف پر نہیں آجاتےاصل دین سے منحرف رہیں گے اور دین میں غلو اور کتاب وسنت سے تجاوز کرتے رہیں گے ۔
کیا منہج سلف کے علاوہ تقلید یا مصنوعی پیروں کی بیعت کی ضرورت ہے؟
بنیادی طور پر یہ علم میں رہے کہ کسی عالم یا امام کی تقلید کا اسلام نے ہمیں حکم نہیں دیا ہے، قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کرنی ہے، اور دین اسلام میں پیری مریدی کا کوئی بھی تصور نہیں ہے، یہ صوفیوں کا بناؤٹی طریقہ ہے اس لئے کسی عالم یا صوفی یا بزرگ کے ہاتھ پر اس اعتقاد سے بیعت کرنا کہ آخرت میں ہمیں نجات دلادیں گے ، یہ سراسربے دینی اور گمراہی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی امت کو جس راہ پر چھوڑا ہے اس دین میں کسی کی تقلید کرنے اور کسی پیروفقیر کی بیعت کرنے اور اس کا وسیلہ لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
قدْ تركتُكم على البيضاءِ ليلُها كنهارِها ، لا يزيغُ عنها بعدي إلَّا هالِكٌ(سنن ابن ماجہ:43، صححہ البانی)
ترجمہ:میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا۔
ذرا اس حدیث پر غور فرمائیں کہ نبی ﷺ نے ہمیں کس قدر روشن اور اجالے راستے پر چھوڑا ہے ، کیا اس راہ پر چلنے میں منہج سلف کے علاوہ کوئی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب راستہ دشوار ہو، ٹیڑھا ہو اور اندھیرا ہو پھر کسی کے سہارے کی ضرورت تھی مگر اللہ نے نبی ﷺ کو شریعت دے کر اور نبی ﷺ نے شریعت کی وضاحت ونفاذ کرکے ہمیں ایک روشن شاہ راہ ہر چھوڑا ہے پھر اس روشن راہ کو چھوڑنے والا بدنصیب ہی ہوگا اور رسول کی زبانی وہ ہلاک ہونے والا ہوگا۔ نیز بلاتفریق مسلک سبھی مسلمان مانتے ہیں کہ محمد ﷺ سے بہترکوئی ہستی نہیں ہے پھر اس عظیم ہستی کو چھوڑکر کسی اور کو اپنا امام (اسوہ)بنانا کیسے صحیح ہوسکتاہے ۔ اللہ نے اعلان کردیا ہے کہ تمہارے لئے محمدﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ افسوس آج کے ان مسلمانوں پر جو سب سے عظیم اور بہترین ہستی کو چھوڑ کر کسی اور کواپنا امام(اسوہ ) بناتے ہیں جن کے امام (اسوہ ونمونہ)بنانے پر کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی ہے۔
سلفی نسبت ظاہر کرنے کی ضرورت :
آج مسلمانوں میں شدید اختلافات دیکھنے کو ملتے ہیں اور متعدد قسم کے فرقے اسلام کے نام پر چل رہے ہیں ، ہر فرقہ خود کو مسلمان کہتا ہے اور بات یہیں تک نہیں رکتی ، ہر فرقہ خود کو اہل السنہ والجماعہ اور اہل حق کہتا ہے اور اپنے اپنے انداز میں چلنے کونجات اور کامیابی کا راستہ سمجھتا ہے ۔بھلاسیکڑوں فرقے کیسے اہل حق ہوسکتے ہیں ۔ اہل حق تو ایک گروہ کا نام ہے جو گروہ عہد رسالت میں تھا ۔ دراصل وہی گروہ اہل حق ہوسکتا ہے جو عہدنبی کے گروہ یعنی صحابہ کے نقش قدم پر چل رہا ہو اور اسی طریقہ پر چلنے میں نجات وکامیابی ہے۔
آئیے کچھ فرقوں اور اپنے طور پر دین سمجھنے والوں کا سرسری حال جانتے ہیں جس سے سلفی نسبت ظاہر کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہوگی ۔
مقلدوں کے چار فرقے : اس میں امام ابوحنیفہ کو ماننے والے حنفی، امام شافعی کو ماننے والے شافعی، امام مالک کو ماننے والے مالکی اور امام احمدبن حنبل کو ماننے والے حنبلی داخل ہیں ۔ ان سب کے نزدیک یہ قول مشترک ہے کہ دین پر چلنے اور نجات پانے کے لئے کسی ایک امام کی تقلید ضروری ہے اور چار ائمہ برحق ہیں ۔ یہ مقلدین ایک طرف چار امام برحق کہتے ہیں جبکہ اپنے مخصوص امام کے علاوہ تین اماموں کی بھی بات نہیں مانتے ۔حقیقت یہ ہے کہ چاروں ائمہ قرآن وحدیث پر عامل تھے ، انہوں نے نہ کسی کی تقلید کی اور نہ ہی اپنی تقلید کا حکم دیا ہے بلکہ یہ ضرور کہا ہے کہ میری بات قرآن وحدیث کے خلاف ہوجائے اسے چھوڑدینا۔ یہ معلوم رہے کہ تقلید کی شروعات چوتھی صدی کے اوائل میں ہوئی ، قرون مفضلہ میں اس کا کوئی اثر نہیں تھا اور تقلید کے معاملہ میں احناف بہت زیادہ متشدد ہیں وہ اپنے امام کے قول کے خلاف نص قرآنی اور صریح حدیث تک نہیں مانتے۔
صوفی اور بریلوی فرقہ: کہنے کو تو یہ بھی دیوبندی کی طرح امام ابوحنیفہ کی تقلید کا قائل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ احمد رضاکے افکار ونظریات پر کاربند ہے ، اسی کے طریقہ پر چلنا دین سمجھتا اور نجات کے لئے پیری مریدی کا اعتقاد رکھتا ہے یعنی کسی پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری ہے ، وہی پیر جنت میں ڈلوائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ اس فرقہ کی عمارت جھوٹے کشف وکرامات اورشرک وبدعت پر قائم ہے ۔
قادیانیت اور مرزائیت کا فتنہ: یہ فرقہ مرزا غلام احمد کی طرف منسوب ہے اور اسے اپنا نبی، مہدی اور مسیح بھی مانتا ہے اور اسی کے پیش کردہ نظریات کو اسلام سمجھتا اور جو مرزا کو نہ مانے وہ اس کے یہاں مسلمان نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد ﷺ پوری کائنات کے آخری رسول ہیں ، آپ کے بعد قیامت تک کوئی رسول نہیں آئے گالہذا جیسے مرزا جھوٹا اور گمراہ ہے اسی طرح اس کی تعلیمات بھی ضلالت و گمراہی ہے ۔
اہل قرآن:یہ فرقہ بھی خود کو مسلمان کہتا اور صرف قرآن کو مانتا ہے ۔ حدیث اس کے نزدیک قابل اعتبار نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث کو قرآن سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہی قرآن کا بیان وتوضیح ہے ۔ اگر قرآن ہی کافی ہوتا ہے تو اللہ تعالی محمد ﷺ کو رسول بناکر نہیں بھیجتا ہے ۔ محمد ﷺ نے قرآن کا معنی ومفہوم بیان کیا اور اس کے مطابق عمل کرکے دکھایا جس کانام حدیث ہے گویا حدیث قرآن کی شرح وتفصیل ہے اس لئے جو حدیث کا انکار کرے وہ کھلا ہوا کافر ہے ۔
جماعت اسلامی: یہ بھی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے جس کے بانی ابوالاعلی مودودی ہیں ۔ انہوں نے دین اسلام کے نام پر ایک نئے فرقہ کی بنیاد رکھی اور ان کے پیروکار ان کے افکار ونظریات کے مطابق چلنے کو اسلام سمجھتے ہیں ۔مودودی صاحب کے عقائدونظریات میں بہت گمراہیاں ہیں اور وہ شیعیت سے بھی بہت متاثر تھے اس وجہ سے ان کی تحریروں میں رفض وتشیع کے نمایاں اثرات ہیں ۔ انہوں نے متعدد احادیث کا انکارکیا، متعدد صحابہ کو مطعون کیا اور خلافت وملوکیت نامی کتاب لکھ کر امت کے بڑے طبقہ میں صحابہ کرام کے تئیں بدظنی کا زہر پھیلایا۔ آج ان کے پیروکار بالکل ہوبہومودودی کے طرز پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
ڈاکٹر اسرار جو موودی کے پیروکاروں میں سے ایک ہیں ، کفریہ عقیدہ وحدۃ الوجود کے قائل ہیں وہ بھی شیعی انقلاب کے بڑے مداح تھے ۔ بنابریں شیعہ عالم جواد نقوی اپنے ایک بیان میں کہتا ہے کہ ڈاکٹر اسرار نے بیان کیا کہ شیعہ تھوڑے ہونے کے باوجود ایران میں کیسے اپنی حکومت قائم کرلے گئے، اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے پاس حسین ہے اور ہم نے حسین کو چھوڑدیا اور جس کے پاس حسین ہووہی انقلاب لاسکتا ہے ۔شیعہ عالم کا یہ بیان اور ڈاکٹر اسرار کا یہ کہنا آپس میں مودودی صاحب جیسی شیعی نسبت ظاہر کرتا ہے ۔ جب ایران میں شیعی انقلاب آیا تو مودودی صاحب بھاگے بھاگے ایران پہنچتے ہیں اپنی نسبت وتعلق ظاہر کرنے ۔ بھلا کون مسلمان ہوسکتا ہے جس کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں ہے اس کا مطلب ہے تحریکیوں کا تعلق شیعیت سے زیادہ اور اسلام سے کم ہے ۔
خوارج کا فتنہ: حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام سے خروج کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی جماعت کا نام خوارج ہے ، اس کے متعدد اوصاف ہیں اور آج بھی جو خوارج کے صفات کا حامل ہوگا خارجی کہلائے گا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی میں لکھتے ہیں : "خوارج نے سب سے پہلے مسلمانوں کی تکفیر کی، یہ لوگ گناہ کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دینے کے ساتھ اپنے نظریاتی مخالفین کو بھی کافر کہہ کر ان کے مال و جان لوٹنے کو جائز سمجھتے ہیں" ۔
اخوان المسلمین کا فتنہ: جماعت اسلامی کی طرح خلافت کا مشن لے کر اخوان المسلمین نے وہی سب کچھ کیا جو خوارج کے اوصاف ہیں اس لئے اخوانیوں کوایک طرف جماعت اسلامی کہہ سکتے ہیں تو دوسری طرف خارجی بالفاظ دیگر دہشت گرد بھی کہہ سکتے ہیں ۔
اصل اسلام سے ہٹ کر جماعت اسلامی ،تحریکی اور اخوان المسلمین کے خلافت کے نعروں نے امت کو بڑا نقصان پہنچایا۔ خارجیوں اور اخوانیوں نے اپنی حکومت قائم کرنے میں معصوم لوگوں کا اس قدر خون بہایا جس کی حد نہیں ۔ اس بناپر مغربی اقوام کی نظر میں مسلمان دہشت گرد ٹھہرائے جانے لگےجبکہ اسلام سراپا امن کا پیامبر ہے تاہم انہیں مسلمانوں کے تئیں دہشت گردی کا جوشبہ ہوا وہ اسلام کے جھوٹے نام لیواؤں یعنی رافضیوں،خارجیوں اور اخوانیوں سے ہوااور آج فلسطین میں یہودیوں کے ہاتھوں جتنے معصوم مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور ہورہا ہے ،وہ سب انہی لوگوں کی کارستانیاں ہیں۔
جاوید احمد غامدی کا فتنہ:یہ ایک ایسا بندہ ہے جو اسلام کو نئے زمانہ کے حساب سے اپنی عقل کے مطابق سمجھ رہا ہے ، جب کوئی دین کو اپنی عقل سے سمجھنے کی کوشش کرے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ بہت ساری اسلامی تعلیمات کو رد کرے گا اور بہت ساری غیراسلامی باتیں اسلام میں داخل کرے گا، یہی یہ شخص کررہا ہے ۔ ان کی نظرمیں داڑھی ایک کلچرہے، موسیقی اور گانا جائز ہے، رجم کا انکارکیا ہے، یاجوج ماجوج اور دجال مغربی اقوام ہیں ، عورت مرد کی امامت کراسکتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ پرفیشنل طبقہ انہیں کافی پسند کرتا ہے کیونکہ وہ اسلام کو پروفیشنل طریقے سے پیش کررہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو جو اپنی عقل سے سمجھے گا وہ گمراہ ہوجائے گا، اسلام کو فہم سلف کے مطابق سمجھنا ہے۔
انجینئر محمد علی مزراکا فتنہ: پاکستان کا ایک نوجوان انجینئر،مولوی اسحاق جھالوی جیسے لوگوں سے متاثر ہوکر تشیع کے لبادے میں اسلام کی باتیں کررہا ہے اور خود کومسلم علمی کتابی کہتا ہے۔ ان کے پاس دین سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے ، نہ ہی شرعی اصولوں کو جاننا ہے، ترجمہ والی کتابوں کے ذریعہ جو اسے سمجھ میں آتا ہے بیان کرتا ہے ۔ ان کے بیانوں کی دو تین خاصیت ہیں جن کی وجہ سے ناسمجھ نوجوان طبقہ پسند کرتا ہے ۔ ایک بات تو یہ ہے کہ وہ دعوی کرتا ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے اپنے فرقے کی دعوت دیتے ہیں جبکہ میں اسلام کی طرف بلاتا ہوں یعنی مرزا کی نظر میں اس وقت اسلام پر صحیح سے چلنے والا کوئی گروہ یا کوئی فرقہ نہیں ہے ، صرف وہی ایک شخص ہے جو لوگوں پر صحیح اسلام پیش کررہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ ان کی نظر میں سوائے مرزا اور ان کے چند ماننے والوں کے کوئی اصل اسلام پر نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بشارت دیدی ہے کہ قیامت تک ایک گروہ حق پر قائم رہے گا ، اور وہ گروہ وہی ہے جو منہج سلف کی پیروی کرتا ہے ۔ مرزا کتابوں کے حوالوں دے کر غلط انداز میں علماء ، صحابہ اور جلیل القدر شخصیات پرطعن کرتا ہے جس کی بناپر علماء سو سے بیزار طبقہ اور شیعہ حضرات دونوں مرزا کو پسند کرتے ہیں ۔ صحابہ وہ جماعت ہیں جنہوں نے نبی ﷺ سے اسلام کو سمجھا اور ہم تک عین اسلام کو علمی اور عملی صورت میں پہنچایا ، اگر کوئی صحابہ کو مطعون کرے تو اس نےا سلام پر حملہ کیا اور صحابہ کے ذریعہ پیش کئے نبوی تعلیم کو لوگوں کی نظر میں مشکوک کیا لہذا مرزا کے اس فتنے کو کچلا جائے تاکہ گمراہ ہونے والے نوجوانوں کو بچایا جاسکے۔
گوہرشاہی فتنہ: صوفیت کا لبادہ اوڑھے ایک فرقہ گوہرشاہی کا بھی جنم لیا جس کے بانی پاکستان کا ایک گمراہ آدمی ریاض احمدگوہرشاہی ہے۔اس نے مہدی ہونے کا جھوٹا دعوی کیااور دلیل میں کہتا ہے کہ اس کی تصویر چاند، سورج اور حجراسود پر ظاہر ہوئی ۔ اس کے یہاں ارکان اسلام یا عمل وعبادت نام کی چیزنہیں ہے، بس روحانی فیض وتصور ہے اسی لئے کہتا ہے کہ یہودی ، عیسائی، سکھ اور ہندو روحانیت سیکھ لے تو اللہ تک پہنچ سکتا ہے بذریعہ گوہرشاہی۔ ریاض گوہرتو مرگیا ہے مگر اس کا فتنہ جاری ہے اور ہندوستان، پاکستان ، بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں گوہرشاہی کا فتنہ پھیل چکا ہے ۔ یونس گوہرنامی شخص برطانیہ میں بیٹھا ہے ، یہ خود کو گوہرشاہی کو نمائندہ اور جانشیں کہتا ہے اور اپنے حق میں ریاض احمدگوہرشاہی کا ایک فرمان سناتا ہے کہ" میں اب کسی سے نہیں ملوں گا صرف تم سے ملوں گا اور تم دنیا سے ملتے رہنا"۔ یہ شخص نمائندہ بن کر یوٹیوب پر الراٹی وی چینل کے ذریعہ گوہرشاہی کے باطل افکار پھیلارہا ہے ۔اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے کئی ادارے کام کررہے ہیں جیسے مہدی فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، مسایا فاؤنڈیشن انٹرنیشنل اور کالکی اوتار فاؤنڈیشن انٹرنیشنل جو امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیااور کنیڈا سمیت کئی ممالک میں کام کررہے ہیں ۔ گوہرشاہی فتنہ برصغیر میں تیزی سے بڑھ رہا ہے ، مسلم نوجوانوں کو اس فتنے سے آگاہی ضروری ہے ۔
شکیل بن حنیف کا فتنہ :دربھنگہ ،بہار، ہندوستان کا رہنے والا یہ شخص شکیل بن حنیف خود کو مہدی بتاتا ہے اور عیسی بھی بتاتا ہے اور بہار سے لے کریوپی ، مہاراشٹرا، دہلی اور آندھراپردیش وغیرہ میں متعدد نوجوانوں کو اپنے جھانسے میں لےکر قادیانی طرز پر ایک نیا فتنہ پھیلارہا ہے ۔ الحمدللہ اس فتنے کی سرکوبی میں علماء نے کافی محنتیں کی ہیں مگر یہ محنت ناکافی ہے کیونکہ یہ فتنہ بڑھتا چلا جارہا ہے ، اس کی سرکوبی کے لئے منظم کوشش کی ضرورت ہے ۔
احمد عیسی کافتنہ : آج سے پانچ سات سال پہلے پاکستان میں احمد عیسی نام کا آدمی ایک فتنہ لے کر ابھرا جو خود کو احمد عیسی رسول اللہ کہتا تھااور قرآن سے خود کو رسول اللہ ثابت کرتا تھا۔ اس نے ایک کتاب "الکتاب " نامی متعارف کرایا جو اس کے یوٹیوب چینل اللہ کاعلم پر بیان کی شکل میں موجود ہے اور کتاب کا لنک سات جلدوں میں ڈسکرپشن میں بھی دیا گیا ہے ۔ بروقت اہل علم نے اس پر رد کیااور اسے پنپنے کا موقع نہ ملا اور اس کے فتنے سے زیادہ لوگ متاثر نہیں ہوئے اس لئے احمدعیسی کے منظرنامہ سے غائب ہونے پر یہ فتنہ دب گیا۔
فتنوں کے اس دور میں مذکورہ بالا فرقوں اور فتنوں کے علاوہ معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدی ، مرجیہ، قدریہ اور جبریہ جیسے متعدد گمراہ فرقے ہیں تاہم منہج سلف سے نسبت کی ضرورت کو سمجھنے کے لئے مندرجہ بالا سطور میں بیان کردہ سلف سے ہٹے ہوئے فرقوں اور جدید فتنوں سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ یہ سبھی اپنی جگہ حق پر ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور ان کے مزعومہ طریقہ سے ہی نجات مل سکتی ہے ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سارے طریقے اللہ نے محمد ﷺ پر نازل کئے ہوں بلکہ مسئلہ تو یہ ہے ہر فرقہ والا کہتا ہے کہ ہمارے ہی طریقہ پر چلنے میں نجات ملے گی ۔ان فرقوں میں ایک شیعہ بھی ہے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور بارہ اماموں کے ذریعہ نجات پانے کی شرط لگاتے ہیں ، صحابہ سے متعلق شیعوں کے کفریہ افکار وعقائد نے دیوبندی، بریلوی اور جماعت اسلامی وغیرہ متعدد مسلم فرقوں میں زہرگھولا اور مسلمان ہوکربھی لوگ متعددصحابہ کرام کو مطعون کرتے ہیں ۔ شیعہ نواز ایسے مسلمانوں کو محرم الحرام میں آسانی سے پہنچان سکتے ہیں ۔
اسلام کے نام پر اتنی طویل فتنہ سامانیوں ، کجریوں اور گمراہیوں کے ذکر کے بعداب میں وثوق سے یہ بات کہتا ہوں کہ اس وقت منہج سلف کی طرف نسبت ظاہرکرنا اور اس منہج کو مضبوطی سے تھامنے رہنا حددرجہ ضروری ہے تاکہ گمراہوں سے الگ صحیح منہج سے، ہماری شناخت ہو۔
کیا صراط مستقیم الگ الگ ہے؟
جب اسلام کے نام پر متعدد فرقے اور متعدد تحریکیں موجود ہیں تو کیا ہرفرقہ کا راستہ صحیح اسلام ہے اور کیا ان سب فرقوں کے راستوں کو صراط مستقیم کہہ سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں ۔ اللہ کا راستہ صرف ایک ہےجسے منہاج یا صراط مستقیم کہتے ہیں ۔ اس کے بارے میں اوپر معلومات حاصل کرچکے ہیں ۔ یہاں چند احادیث کی روشنی میں اس بات کو پختہ طور پر سمجھانا چاہتا ہوں ۔
اللہ تعالی نے دین، محمد ﷺ پر نازل فرمایا ، آپ نے اس دین پرچل کر صحابہ کو دکھایا اور صحابہ نے نبی کے شرح وبیان اور عمل کے مطابق عمل کیا پھر اس علم وعمل کو دوسروں تک پہنچایا ، اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ سے دین سیکھنے اور سمجھنے والے صحابہ ہیں لہذا ہمیں بھی دین پر عمل کرنے کے لئے صحابہ کی فہم کو معیار بنایا پڑےگا ۔ اس بات کو ایک دلیل سےسمجھیں ۔مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي(صحیح البخاری:7246)
ترجمہ: جس طرح مجھے تم نے نماز پڑھتے دیکھا اسی طرح نماز پڑھو۔
نبی نے نمازپڑھ کر صحابہ کو دکھایا اور عین اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا ، اب ہم نماز پڑھیں گے تو اسی طرح نماز ادا کریں گے جیسے صحابہ نے نبی ﷺ کی نماز کی کیفیت اور طریقہ بیان کیا اور خود بھی اس پر عمل کرکے دکھایا ۔ آپ کہیں گے کہ یہ دلیل توصرف نماز کے بارے میں ہے، آئیے حج وعمرہ کے بارے میں دلیل دیکھتے ہیں ۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
رأيتُ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يرمي على راحلتِه يومَ النَّحرِ، ويقول :لِتأْخذوا مناسكَكم . فإني لا أدري لعلِّي لا أحُجُّ بعدَ حَجَّتي هذه.(صحيح مسلم:1297)
ترجمہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا آپ قربانی کے دن اپنی سواری پر (سوار ہو کر) کنکریاں مار رہے تھے اور فر رہے تھے : تمھیں چا ہیے کہ تم اپنے حج کے طریقے سیکھ لو ،میں نہیں جا نتا شاید اس حج کے بعد میں (دوبارہ ) حج نہ کر سکوں۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ ہم حج وعمرہ کریں گے تو جیسے صحابہ نے نبی سے اس کی کیفیت بیان کی ہے اور خود بھی عمل کرکے دکھایا ہے ٹھیک اسی طرح سے ہمیں حج وعمرہ کرنا ہے ۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو صرف حج وعمرہ ہی کے بارے میں دلیل ہے تو آئیے آپ کو پورے دین کے بارے میں دلیل دیتا ہوں ۔
صحیح بخاری میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کو منیٰ میں خطبہ سنایا، آپ نے متعدد باتیں ذکر فرمائیں پھر آخر میں فرمایا:
أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ(صحیح البخاری: 1741)
ترجمہ:کیا میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! تو گواہ رہنا اور ہاں! یہاں موجود غائب کو (یہ باتیں)پہنچا دیں۔
اب اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ نبی ﷺ نے صحابہ پر اللہ کا مکمل دین پیش کردیا اورکتاب اللہ کے احکام ان پر کھول کھول کر واضح کردیا اور صحابہ کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ آپ کے بعد اس دین کو ٹھیک اسی طرح جیسے آپ نے سکھایا اور تعلیم دی دوسروں تک علم وعمل کے ذریعہ پہنچادے اور اسی کا نام منہج سلف ہے لہذا کتاب اللہ اور سنت رسول پر عمل کرنے کے لئے فہم سلف اور منہج سلف کو اختیار کیا جائے گا۔
اسلام پر عمل کرنے کے لئے منہج سلف کیوں ضروری ہے؟
مندرجہ بالا سطور اور اسکے تحت گزرے ادلہ سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے دین محمدﷺ پر نازل فرمایا اور اس دین کی تشریح وتوضیح اور تعبیروتفسیر کرکے محمد ﷺ نے صحابہ کرام کو بتایا تو ظاہر سی بات ہے کہ اسلام کوصحیح طورپر سمجھنے والے صحابہ ہی ہیں ۔ انہوں نے قرآن نازل ہوتے دیکھا، نبی سے قرآن سیکھا، آپ سے دین کی تعلیم لی ، اللہ کی طرف سے جب جب وحی آتی اس کو آپ ﷺصحابہ پر ہی پیش فرماتے ، قرآن گواہی دے رہا ہے کہ آپ صحابہ پر قرآن کی تلاوت کرتے ، ان کا تزکیہ کرتے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعة:2)
ترجمہ:وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
مسند احمد کی حدیث میں کیفیت مذکور ہے کہ صحابہ نبی ﷺ سے کیسے قرآن کی تعلیم حاصل کرتے اور کیسے عمل کرتے تھے ۔
ابو عبد الرحمن سلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا مَنْ كَانَ يُقْرِئُنَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَقْتَرِئُونَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ آيَاتٍ، فَلَا يَأْخُذُونَ فِي الْعَشْرِ الْأُخْرَى حَتَّى يَعْلَمُوا مَا فِي هَذِهِ مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ، قَالُوا: فَعَلِمْنَا الْعِلْمَ وَالْعَمَلَ.(أخرجه أحمد:23482)(حكم دارالسلام: إسناده حسن)
ترجمہ:ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس دس آیات پڑھتے تھے اور اگلی دس آیات اس وقت تک نہیں پڑھتے تھے جب تک کہ پہلی دس آیات میں علم و عمل سے متعلق چیزیں اچھی طرح سیکھ نہ لیتے یوں ہم نے علم وعمل کو حاصل کیا ہے۔
ان دونوں دلیلوں سے بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے صحابہ ہی وہ جماعت ہے جن کے منہج پر ہمیں دین سمجھ کر عمل کرنا ہوگا۔
اسی طرح قرآن میں اللہ کا فرمان ہے:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚذَٰلِكَالْفَوْزُالْعَظِيمُ (التوبة:100)
ترجمہ:اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں ، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے تین گروہوں کا تذکرہ کیا ہے، ایک گروہ مہاجرین کا ہے جنہوں نے دین کی خاطرسب کچھ چھوڑکر مکہ سے ہجرت کیا۔ دوسرا گروہ انصار کا ہے جومدینہ ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں کی ، رسول اللہ کی اور دین اسلام کی بھرپور مدد کی ، دراصل یہی لوگ ہمارے سلف ہیں ۔ اور ایک تیسرے گروہ کا ذکر ہوا ہے جو سلف کی پیروی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی ان تینوں گروہ سے راضی ہوگیا اور یہ بھی اللہ سے راضی ہوگئے ، ایسے لوگوں کے لئے ہمیشگی والی جنت ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے گویا یہ آیت ہم سے کہتی ہے کہ تم بھی کامیاب ہونا چاہتے اورہمیشگی والی جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو تو منہج سلف کی پیروی کرو۔
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وإنَّ بَني إسرائيل تفرَّقت على ثِنتينِ وسبعينَ ملَّةً ، وتفترقُ أمَّتي على ثلاثٍ وسبعينَ ملَّةً ، كلُّهم في النَّارِ إلَّا ملَّةً واحِدةً ، قالوا : مَن هيَ يا رسولَ اللَّهِ ؟ قالَ : ما أَنا علَيهِ وأَصحابي(صحيح الترمذي:2641)
ترجمہ:اور بے شک بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔
یہ ترمذی کی حسن درجے کی روایت ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ نجات حاصل کرنے کا طریقہ نبی اور صحابہ کا طریقہ ہے ، جو اس طریقہ سے ہٹ جائے اسے نجات نہیں ملے گی گویا اوپرنجات پانے کے لئے جتنے فرقے اور خودساختہ مناہج بیان کئے گئے ہیں ، وہ سب رسول اور صحابہ کے راستے سے ہٹے ہوئے جس میں نجات نہیں ہے ۔
صحابہ کے بارے میں اللہ نے بتایا :أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا(الانفال:4) یعنی سچے ایمان والے یہی لوگ ہیں ۔ اسی لئے اللہ نے وضاحت کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ جو صحابہ کی طرح ایمان لائے دراصل وہی ہدایت پانے والے ہوں گے ، فرمان الہی ہے :
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖوَّإِنتَوَلَّوْافَإِنَّمَاهُمْفِيشِقَاقٍ(البقرة:137)
ترجمہ:اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں۔
اللہ نے جہاں یہ بتایا کہ صحابہ کی طرح ایمان مطلوب ہے وہیں یہ بھی بتایا کہ جو اس طرح ایمان نہ لائے وہ اختلاف کے شکار ہوں گے اور آج مسلمانوں میں متعددفرقے اور اختلاف ہونے کی اصل وجہ منہج سلف کو چھوڑدینا ہے۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ نے بڑی صراحت کے ساتھ اس بات کو نصیحت آموز پیرائے میں بیان کیا ، رب کا فرمان ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖوَسَاءَتْمَصِيرًا (النساء:115)
ترجمہ:جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔
اس آیت سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے جس کتاب ہدایت کو رسول پر نازل کیا ، اسے رسول نے کھول کھول کر بیان کرکے بالکل واضح کردیا اور اسے نافذکرکے مومنین(صحابہ) کو پوری طرح علم وعمل سے لیس کردیا ، اب اگر کوئی اس قدر وضاحت وبیان کے بعد رسول اللہ اور صحابہ کا راستہ چھوڑتا ہے تو وہ یقینا گمراہ ہے اور ایسے گمراہوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
منہج سلف اختیار کرنے کے فوائدوثمرات:
منہج سلف اختیار کرنے کی ضرورت واہمیت کو سمجھنے کے لئے مندرجہ بالاباتیں اور دلائل کافی ہیں اور نہ ماننے والوں کے لئے ہزاروں دلائل ناکافی ہیں ۔ جب آپ کو منہج سلف کی ضرورت معلوم ہوگئی تو آپ اسی کو اختیار کریں اور عمربھراسی پر چلتے رہیں ۔ آپ اس منہج پر زندگی گزارتے ہیں تو آپ کو مندرجہ ذیل متعدد فوائد وثمرات حاصل ہوں گے ۔
٭منہج سلف پر گامزن ہونے کا حکم اللہ کی طرف سے ہے لہذا جو یہ منہج اختیار کرتا ہے وہ حکم ربانی کی تعمیل کرتا ہے جیساکہ اللہ کا ایک جگہ فرمان ہے : وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ(لقمان:15) یہاں صحابہ کی پیروی کا حکم ہے کہ میری طرف رجوع کرنے والوں کی پیروی کرو۔
٭نبی ﷺ نے صحابہ کی پیروی کا حکم دیا ہے اس لئے منہج سلف کی پیروی اتباع رسول بھی ہے ، نبی ﷺنے فرمایا:
وسَتَرَوْن مِن بعدِي اختلافًا شديدًا؛ فعليكم بسنتي وسنةِ الخلفاءِ الراشدين المَهْدِيين(صحيح ابن ماجه:40)
ترجمہ: اورعنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا۔
٭اسی منہج کے اختیار کرنے سے افتراق اور گروہ بندی سے نجات ملے گی اوراجتماعی طور پر امت مسلمہ ایک امت بن سکتی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا(آل عمران:103)
ترجمہ:اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تم سب مل کر تھام لو اور تفرفہ میں نہ پڑو۔
٭منہج سلف پر گامزن رہنے سے نہ صرف اختلاف سے بچیں گے بلکہ ضلالت وگمراہی سے بھی بچیں گے اور ہمیشہ راہ حق یعنی صراط مسقتیم پر قائم رہیں گے، حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تَزالُ طائِفَةٌ مِن أُمَّتي يُقاتِلُونَ علَى الحَقِّ ظاهِرِينَ إلى يَومِ القِيامَةِ(صحيح مسلم:1923)
ترجمہ:میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر رہتے ہوئے جنگ کرتا رہے گا ، قیامت تک وہی غالب رہیں گے۔
٭امت مسلمہ جوخیروالی امت ہے اور جسے ایک اور متحدہ امت ہونی چاہئے مگر اسلام کے نام لیواؤں نے جادہ حق کو چھوڑ کر الگ الگ راستے بنالئے جس کے سبب آج عام مسلمانوں کے لئے کافی ابتلاء وآزمائش کا دور ہے۔ طرح طرح کے فتنے اسلام کے نام پر رونماکئے جارہے ہیں ، مسلمان ہوکر بھانت بھانت کی بدعات کررہے اور بڑی ڈھٹائی سے مسلمانوں کی بڑی تعدادشرک میں ملوث ہے اور وہ خود کو پکے سنی کہتے ہیں ۔ جس شرک کا انکار کرکے اور توحید کا اقرار کرکے آدمی مسلمان ہوتا ہے ، آج کلمہ پڑھ کر بہت سے لوگ اسی شرک میں مبتلا ہیں ۔ اگر آپ ان سارے فتنوں ، آزمائشوں اور شرک وبدعات سے بچنا چاہتے ہیں اور دین رحمت اور صراط مستقیم پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو منہج سلف پر جمے رہیں ۔ سلف صالحین کی پیروی کرنے والے طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ ہے یعنی یہی گروہ اللہ کی مدد پانے والی اور کامیاب ہونے والی ہے اور یہ ایسا گروہ ہے جو منہاج النبوۃ پرقائم ہے اور اس کی پیروی کرنے والے قیامت تک باقی رہیں گے اور اس کے علاوہ جتنے راستے، فرقے ، جماعتیں ، تحریکیں اور تنظیمیں ہیں سب گمراہی کے راستے پر ہیں ۔ اس تعلق سے تہتر فرقوں والی حدیث گہرائی سے پڑھیں اور سمجھیں ۔
٭ سلفی جسے اہل الحدیث بھی کہاجاتا ہے اس جماعت کا منہج بالکل واضح ہے ۔ سلفی کتاب اللہ اور سنت رسول کی پیروی کرتے ہیں منہج سلف کےمطابق ، جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے ۔ اور جو سلف کی طرح کتاب اللہ وسنت رسول کی پیروی کرتے ہیں اللہ ان سے راضی ہوجاتا ہے ، وہ اللہ سے راضی ہوجاتے ہیں اور یہ بڑی کامیابی ہے جو دخول جنت کا سبب ہے ۔ اس بارے میں تفصیل سے جاننے کے لئے سورہ توبہ کی آیت "والسابقون الاولون " کی سلفی تفسیر وتوضیح دیکھیں

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 337065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.