اللہ تعالیٰ نے ہر ذی نفس کو
اپنے ایک دائرے عمل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اُس کی
کوئی مخلوق بلا ضرورت اور بے مصرف پیدا کی گئی ہے۔ چھوٹے سے خوردبینی اجسام
سے لیکر سمندر میں پائی جانے والی وھیل مچھلی تک ہر ایک کا ایک الگ دائرے
عمل ہے۔ ہر ایک کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ یہاں تک کہ قدرت نے اُن کے حدود مقرر
کر رکھے ہیں اور اگر کوئی ذی نفس اپنے دائرے عمل سے باہر آتا ہے۔ شرائط کی
خلاف ورزی کرتا ہے اور حد سے تجاوز کرتا ہے تو وہ اپنی بربادی کا ذمہ
دارخود ہی ٹھہرایا جائے گا۔ خود اللہ تعالیٰ نے متعدد بار قرآن میں تنبہہ
کی ہے کہ ”اپنے حد سے تجاوز نہ کرو“ (القرآن)
بالکل اسی طرح اشرف المخلوقات یعنی انسان کا بھی اپنا ایک الگ دائرہ عمل ہے
اور وہ اسی میں رہ کر محفوظ رہ سکتا ہے ۔ دوسری صورت میں بربادی اس کا مقدر
ہوگی ۔ یہاں پر مردوزن کو ان کی حیثیت کے مطابق الگ الگ دائرے عمل مقرر ہوا
ہے ۔ اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہیکہ عورت مرد سے کمتر ہے ۔ دونوں کے حقوق
یکساں ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں بھی ہمیں ” مومنون و مومنات “کہہ کر مخاطب
کرکے دونوں کے حقوق کو یکساں رکھا ہے ۔ عبادت میں بھی اور دوسرے شرعی امور
میں بھی یہاں تک کے علم کا حاصل کرنا بھی دونوں پر یکساں طور سے فرض ہے۔
اسلام ہمارے لئے روشنی لیکر آیا ہے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے جسے کوئی جھٹلا
نہیں سکتا۔
چھٹی صدی عیسوی میں حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا اعلان
رسالت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ تھا ۔ اس کے نتیجہ میں فکر و نظر کی
دنیا بدل گئی اور سیرت و کردار میں انقلاب آگیا ۔ انسان نے نئے ڈھنگ سے
سوچنا شروع کیا اور اس کی زندگی نے نیا رُخ اختیار کیا ۔ اس کا ایک پہلو یہ
بھی تھا کہ عورت کے بارے میں اس کا پورا نقشہ نظر اور عملی رویہ بدل گیا
اور عورت مرد کے تعلقات نئی بنیادوں پر قائم ہوئے۔
جہاں اسلام نے عورت کو بلند مرتبہ عطا کیا ہے ۔ وہی اُس پر کچھ حدود و
شرائط بھی مقرر ہوئے ہیں چونکہ اسلام ایک فطری دین ہے اور وہ فطرت سے ہٹ کر
نہیں اسی لئے اس نے انسانیت کو فطری برائیوں سے روکنے کی بھی پوری کوشش کی
ہے۔ اسی طرح عورت کا بھی اُس کی فطرت اور حیثیت کے مطابق الگ دائرہ عمل
اسلام نے دیا ہے۔
عورت کے لفظی معنی عربی میں آتے ہیں ۔ ”چھپا ہوا “ پوشیدہ “ ” مستوز “ یعنی
کہ خود عورت کا مطلب ہی چھپنے کے نکلتے ہیں تو یہ بات ذہن میں آنا فطری عمل
ہے کہ جوچیز کا مطلب ہی چھپنا ہو پھر اس کا مفہوم اور دائرے عمل پر بحث
کرنا عہدِ طفیل ہی سمجھا جائے گا ۔ موجودہ دور میں جہاں انسان نے ترقی کے
زینے طے کئے ہیں اور ہر شئے میں تغیر آیا ہے وہی عورت کے اندر بھی تبدیلیاں
رونما ہوئی ہے ۔ پہلے وہ صرف چار دیواری کی زینت تھی پھر علم کے میدان میں
اس نے ترقی کی اور اب کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار عورت کی خواندگی سے
منسوب کیا جاتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عورت ترقی کی دوڑ میں پڑ
کر اپنا اصل کھودے اور خدا کو بھول کر اپنے حدوں سے تجاوز کرلے ، یہاں اس
کے لئے بربادی ہے۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لئے علم و ہنر موت
یہاں پر واضح انداز میں علامہ اقبال نے عورت کے حد سے تجاوز کرنے کا انجام
ظاہر کیا ہے۔
اگر ہم قرآن کی رشنی میں عورت اور پردہ کی بات کریں تو عورتوں کے پردہ کرنے
کا بیان قرآن کریم کی ۷ آیتوں میں آیا ہے۔ تین سورہ نوح کی آیتیں ہے اور
چار سورہ احزاب کی ۔ جن میں پردہ کے درجات اور احکامات کی تفصیل آتی ہے ۔
اسی طرح ۰۷ سے زائد احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے قولاً و عملاً پردہ کے
احکامات سے متعارف کروایا ہے ۔
سورہ احزاب کی آیت نمبر ۰۳ اور ۱۳ میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ازواج
مطہرات کو اختیار دیا ہیکہ اگر وہ دنیا کی وسعت کو چاہتی ہوں تو رسول ﷺ سے
طلاق لے لیں اور اگر آخرت کو ترجیح دے کر دنیا کی مصبیت اور موجودہ حالت پر
قناعت کریں تو نکاح میں رہیں۔اس کامطلب یہ ہوا کہ دنیاوی ہوس کے طلبگار
ہوتو اسلام سے خارج ہوجاﺅ اور اگر دین چاہتے ہوتو اپنے گھروں میں بیٹھی
رہیں ۔
سورہ احزاب کی آیت نمبر ۰۳ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔” ترجمہ: اور اپنے
گھروں میں سکون سے رہو۔
یہ خواتین کو اپنے گھر میں رہنے کی تاکید ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا
دائرہ عمل گھر ہونا چاہئے۔ اس کی مصروفیات ایسی نہیں ہونی چاہئے کہ گھر کی
ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہونا پڑے۔ لیکن بحالتِ مجبوری عورت گھر سے نکل سکتی
ہے ۔ اور ملازمت بھی اختیار کر سکتی ہے ۔ لیکن اس پر بھی کچھ حدود عائد
ہوتے ہیں کیونکہ پردہ عورت کے لئے ایک انتہائی امر ہے ۔ سورہ احزاب ہی کی
آیت نمبر ۹۵ میں اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ۔(ترجمہ: ” ائے پیغمبر اپنی بیبیوں
اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمان کی بیبیوں سے بھی کہہ دیجئے کہ سر
سے نیچے کر لیا کریں اوپر تھوڑی سے اپنی چادریں اس سے جلدی پہچان ہوجایا
کرے تو آزر نہ دی جائے گی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ “
اس آیت میں ہدایت دی گئی ہے کہ اپنے چہرے کو بھی ڈھانک لیں کہ پہنچان نہ
ہوسکے اور اگر غلطی سے چہرا نظر آبھی جائے تو اس پر سزا نہیں دی جائے گی ،
یعنی گھر سے نکلتے وقت پردے کا اہتمام ہونا چاہئے ۔ خاندانی نظام میں عام
طور پر مرد کی حیثیت سربراہ کی ہوتی ہے وہ اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا ہے
۔ بیوی بچوں اور بعض اوقات قریبی عزیزوں کی معاش اور دوسری ضروریات کا نظم
بھی کرتا ہے ۔ دوسری طرف عورت امورِ خانہ داری انجام دیتی ہے۔
موجودہ دور میں تعلیم یافتہ مسلمان خواتین بھی عملاً معیشت کے میدان میں
حصہ لے رہی ہیں ۔ اسلام نے عورت کو معاش کی ذمہ داری سے بڑی حد تک بے نیاز
رکھا ہے۔ اس کے لیے وہ عام حالات میں مجبور نہیں ،لیکن اس کی معاشی جدوجہد
کو ناپسندیدہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ رزق کو قرآن میں اللہ کا فضل کہا گیا ہے
اور اسے تلاش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ سورہ جمعہ ” جب نماز ختم ہوجائے تو
زمین پر پھیل جاﺅ اور اللہ کا فضل تلاش کرو “ ( سورہ جمعہ آیت نمبر ۰۱)
عورت کو بھی اللہ کا فضل تلاش کرنے کا حق ہے اس کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ حق
صرف مرد کوحاصل ہے۔ عورت کو حاصل نہیں ، لیکن شریعت نے عورت بر نان و نقفہ
کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے۔ خود اس کا نقفہ بعض شرائط سے مرد پر واجب ہے ۔
عورت پر نقفہ اسی وقت واجب ہے جبکہ بچوں کا باپ نہ ہو، یا گر باپ تنگ دست
ہو اور اولاد کا نقفہ برداشت نہ کرسکے تو ماں پر اس کا نقفہ واجب ہوگا۔
نقفہ بیوی پر کسی حال میں واجب نہیں لیکن خوشحال بیوی تنگ دست شوہر کی مدد
کرسکے تو یہ اعلیٰ اخلاق کا ثبوت ہوگا۔ اور شریعت اسے بہت بڑے اجر و ثواب
کا عمل قرار دیتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی معاشی حالت
اچھی نہیں تھی۔ ان کی بیوی ان پر اور اپنے یتیم بچوں پر (جوکہ سابقہ شوہر
سے تھے ) خرچ کرتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ۔ ” کیا میرا اپنے شوہر
پر اور اپنے یتیم بچوں پر جو میری حفاظت اور نگرانی میں ہیں خرچ کرنا میری
طرف سے کافی ہوجائے گااور میں اپنے فرض سے سبک دوش ہوجاﺅنگی ۔ “
آپ ﷺ نے فرمایا ” ہاں ! ان کے لئے دو اجر ہیں : ایک قرابت کا اجر دوسرا
صدقہ کا اجر ( بخاری )
یہ بات ہوئی بحالت مجبوری کی۔ اسلام نے دنیا میں ملوث ہونے اور اپنی
توانائیاں اسی میں لگادینے سے منع کیا ہے اور قیامت کی تعلیم دی ہے لیکن
اگر کوئی جائز و حلال ذرائع سے مال حاصل کرنا ہے اور دنیاوی آرائش حاصل
کرتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہے ، بشرطیکہ وہ خدا کو نہ بھول جائے ۔
عورت ہو یا مرد انھیں ملازمت اختیار کرنے کے سلسلے میں چند شرعی حدود عائد
ہیں ، اسمیں تین اہم اصول :
(۱) وہ ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جو شرعی نقطہ نظر سے ناجائز ہو، جیسے
بینک کی ملازمت ، شراب اور جوئے کا کاروبار اس نوعیت کے دوسرے کام جن کی
حرمت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔
(۲) عورت کو اُس کے ولی یا شوہر کی اجازت حاصل ہو۔
(۳) عورت اور مرد کا اختلاط نہ ہو۔
خواتین ایسے اداروں میں ملازمت کرسکتی ہے ۔ جہاں خواتین ہی خدمت انجام دیتی
ہے ۔ اور کام کی ایسی جگہوں پر مرد نہ ہوتے ہوں ، اور اگر مرد ذمہ دار ہوں
تو شرعی حدود کے اندر ان سے بات ہوسکتی ہے ۔ اب اس سلسلے میں دو امور غور
طلب ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اگر اجنبی مرد کے ساتھ کام کرنا پڑجائے تو اسمیں
پردہ کے کیا احکامات ہیں اور (۲) امر کہ ایسا تو ہونہیں سکتا کہ ایک ساتھ
کام کریں اور گفتگو نہ ہو تو اسطرح اسمیں گفتگو کے کیا شرائط ہوں گے ۔ اب
ان امور کی وضاحت اسطرح ہوگی۔
(۱) جہاں تک عورت کے حدودِ حجاب کا مسئلہ ہے اس کا حجاب ازروئے شرح پورے
بدن کا ہے۔ وہ اپنے بدن کا کوئی حصہ کسی نامحرم کے سامنے نہیں کھول سکتی ۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا” عورت خود کو پوشیدہ رکھے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکنے
لگتا ہے۔ “ (ترمذی ) باب ۸۱۔
مطلب عورت کو پردے میں ہونا چاہئے جب وہ اس سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اپنی
کارروائی شروع کردیتا ہے ، اس میں خود عورت گمراہ ہونے یا کسی دوسرے کو
گمراہ کرنے کا خطرہ ہے۔
پورے بدن کے حجاب میں عورت صرف چہرا اور ہاتھ ہی وقت ضرورت کھول سکتی ہے ۔
لیکن اسمیں یہ احتیاط ضروری ہے کہ اس سے شہوانی جذبات نہ مشتعل ہوں اور
آدمی غلط روی نہ اختیار کرے۔
(۲) فقہ حنفی کی رو سے عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔سلام کرنا سنّت ہے اور
اس کا جواب دینا واجب ہے ، اجنبی مرد سے ایسی گفتگو کرنا جائز ہے جو مباح
ہے ، لیکن لایعنی گفتگو سے پرہیز لازم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اجنبی مرد اور اجنبی عورت کے درمیان گفتگو
پسند نہیں کرتا ،لیکن ساتھ ہی ضرورت کے وقت اس کی اجازت بھی موجود ہے۔
(۱) عورت احکام شریعت معلوم کرنے مفتی یا عالم کے پاس جاسکتی ہے۔
(۲) قاضی کی عدالت میں حاضر ہوسکتی ہے۔
(۳) شہادت دے سکتی ہے۔
قرآن مجید میں اس کی جو ہدایت ہے ، وہ امت کی تمام خواتین کے لیے مشعلِ راہ
کی حیثیت رکھتی ہے۔
” بات میں نزاکت و نرمی نہ اختیار کرو کہ جس کے دل میں روگ ہے وہ کوئی بُرا
خیال کرنے لگے اور معروف بات کرو ۔ “ ( احزاب آیت نمبر ۲۳)
اس آیت میں دو باتیں کہی گئی ہے ۔ ایک کسی اجنبی سے گفتگو کرتے وقت عورت کو
ایسا لوچ دار اور نزاکت بھرا انداز نہیں اختیار کرنا چاہئے جس سے کسی غلط
کار اور بد باطن انسان کے دل میں بُرا خیال آنے لگے ۔ دوسری بات یہ کہی گئی
کہ بات معروف کی ہو ، اس دائرے سے باہرکی نہ ہو ، معروف میں گووسعت ہے لیکن
اسے بہر حال منکر کے حدود میں نہیں پہنچنا چاہئے۔
نامحرم سے تنہائی میں ملاقات سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
” کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہائی نہ اختیار کرے ، اس لیے کہ اس
صورت میں شیطان ان دو کا تیسرا ہوتا ہے ۔ (ترمذی )
اس پس منظر میں خواتین کا سیلز گرل ہونا یا اسی نوع کا کوئی دوسرا کام کرنا
صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسمیں حدود حجاب کی پابندی ممکن نہیں ۔ کاروباری
معاملات میں گاہک کو متاثرکر نے کے لئے گفتگو میں دل ربانی کا انداز اختیار
کرنا پڑتا ہے ، جسے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
موجودہ دور میں جہاں ہر طرف مخلوط تعلیمی نظام اور مخلوط ادارے قائم ہے
عورت کے لئے شرعی حدود کی پابندی کرنا بے حد مشکل ہے ۔ آزاد خیال معاشرے
اور آزادی کی دلوادہ خواتین قطعی اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ وہ برقع
وغیرہ استعمال کریں ، لیکن ان سب کے باوجود جو دین و دنیا کی بہتری کی
خواہش مند ہوتی ہے وہ شرعی حدود میں رہ کر بھی ملازمت کرتی ہے ۔ میری نظر
میں عورت کے لئے احکامِ شریعت کی پابندی اور حدودِ حجاب کو مدِ نظر رکھتے
ہوئے اگر وہ ملازمت اختیار کرنا چاہے تو دو بہترین پیشہ ہے ایک درس و تدریس
کا پیشہ ، جسمیں عورت احکام شریعت کی پابندی کرسکتی ہے ۔ چونکہ طالب علم
زیادہ تر نابالغ ہوتے ہیں اور درس و تدریس تو میرے نبی ﷺ کی سنّت ہے ۔ خود
حضرت محمد مصطفی ﷺ ہمارے لئے بہترین معلم ہیں تو کیوں نہ پھر اسی مقدس پیشہ
کو اپنایا جائے۔
دوسرے اگر ہم طب کا پیشہ اختیار کریں تب ہم مسلمان خواتین کی فلاح بھی
کرسکتی ہے اور اجنبی ڈاکٹر مرد کے پاس انھیں جانے سے روک کر پردے کا احترام
بھی کرسکتی ہے ۔ بعض خواتین امراض نسواں میں مبتلا ہوتی ہے وہ ڈاکٹر مرد کے
پاس جانے سے گھبراتی ہے ، نتیجہ اُن کا مرض بڑھ کر موت کی شکل اختیار
کرلیتا ہے ۔ اسطرح اگر کوئی لیڈی ڈاکٹر ہوتو خواتین باآسانی اپنا مسئلہ
بیان کرسکتی ہے ۔ ضروری نہیں کہ یہی دو پیشہ آپ کے لئے مقتص ہو ، آپ اس کے
علاوہ بھی ایسا کوئی پیشہ اختیار کرسکتی ہے ، جس میں شریعی احکامات کی
پابندی کے ساتھ اگر آپ اپنے پیشہ سے بھی انصاف کا حق رکھتی ہوں ۔ چاہے
ملازمت ہو یا تعلیمی امور ہو خواتین کو اپنے شرعی دائرے عمل سے باہر نہیں
آنا چاہئے ، اسی کے چند غور طلب جدید دور کی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
ان باتوں پر بھی دھیان دیں ۔
٭ ایسے لباس استعمال کریں جس سے پورا بدن ڈھک جائے۔ جیسے عام طور پر ہم
برقع استعمال کرتے ہیں ، لیکن برقع ایسے نہ ہوں جو کہ پردے کے نام پر دھبہ
ہوں اور جس سے جسم کے نشیب و فراز نمایاں ہوتے ہوں۔
٭ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں ، سورہ نور کی آیت نمبر ۰۳ اور ۱۳ میں اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ” اپنے نگاہیں نیچی رکھو “ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ”گناہ
کی شروعات آنکھوں سے ہی ہوتی ہے۔“
٭ آنکھوں کو آرائش و زیبائش سے پاک رکھیں ،کیونکہ عام طور پر ہماری آنکھیں
ہی برقع میں سے نظر آتی ہے۔ اس لئے اسمیں باہر نکلتے وقت کا جل وغیرہ لگانے
ایسی چیزیں استعمال کرنے سے پرہیز کریں جو اس کی خوبصورتی کو بڑھاتی ہوں ۔
ہماری خواتین پلکوں پر بھی میک اپ کرتی ہیں تاکہ اگر آنکھیں جھکی ہوئی ہوتو
بھی خوشنمالگے اس سے پرہیز کریں۔
٭ ایسی اشیاءجن سے آواز پیدا ہوتی ہو باہر نکلتے وقت نہ استعمال کریں ۔
مثلاً پازیب ، چین (گھنگرو والی ) ، چوڑیاں ، اور بجنے والے کچین (key
chains)کا بھی استعمال بیگ کے ساتھ نہ کریں۔
٭ بحالتِ مجبوری اگر اجنبی مرد سے بات کرنا پڑے تو آواز میں سختی رکھیں ۔
٭ زمین پر پاﺅں مارکرنہ چلیں ، بلکہ آہستہ آہستہ اور راستے سے ہٹ کر چلیں ۔
زمین پر پاﺅں مارکر چلنے سے خود اللہ نے بھی منع کیا ہے۔
٭ چال میں سادگی ہو ، بناوٹ نہ ہو کہ پیچھے دیکھنے والے متوجہ ہوں ، زور سے
بات نہ کریں اور راستے پر ہنسنے سے قطعی پرہیز کریں۔
٭ زیبائش و آرائش سے پرہیز کریں کہ اگر ضرورت کے تحت کسی کے سامنے چہرہ
کھولنا پڑے تو آگے والا آپ کی طرف متوجہ نہ ہو۔
٭ ایسے جوتے اور چپل استعمال کرنے سے پرہیز کریں جن کے سول سے آواز آتی ہو
اور نامحرم قدموں کی آواز سے متوجہ ہو۔
٭ تیز خوشبو استعمال کرنے سے قطعی پرہیز کریں جس سے لوگ آپ کی طرف متوجہ
ہوتے ہوں اور ” جو جنسی جذبہ کے اُبھار کا سبب بنتا ہوں “ (مہندی اور غازہ
کی خوشبو اس سے مستثنیٰ ہے) ، خوشبوکے استعمال میں احتیاط کریں اور عطر
وغیرہ سے قطعی پرہیز کریں۔
اسی طرح اگر عورت اپنے دائرے عمل میں رہ کر اور شرعی حدود کو مدِ نظر رکھتے
ہوئے ملازمت اختیار کرتی ہے اور اپنے خاندان کی کفالت اور فلاح کی کاوشیں
کرتی ہے اور خدا اور رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہوئے تقویٰ اختیار کرتی ہوں تو
اسے دنیا و آخرت کی کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا اور اجر و ثواب کی مقدار
پر بھی الگ ہوتی ہے ۔ یاد رکھیں ! اسلام کی تعلیمات اور صرف اور صرف اسلام
کے حدود ہی ہمارے لئے فلاح ہیں دوسرا کوئی نہیں ، چونکہ
نحلِ اسلام نمونہ ہے بُر مندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا (علامہ اقبال )
اگر ہم مذہب سے دور ہوجائے گے اور اس سے ہٹ کر دائرہ عمل اختیار کرلیں تو
صرف بربادی ہی ہمارا مقدر ہوگی اور ہم نہ دین کے رہیں گی نہ دنیا ہی کے
رہیں گے ۔ اس لئے اسلام اور دین کو اپنے اوپر اختیار کریں۔ کہ اسی میں امت
کی خواتین کی بھلائی ہے۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جونہیں تم بھی نہیں
جذبہ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
ختم شد |