تحریک قادیانیت کا بانی مرزا
غلام احمد تھا۔وہ برٹش انڈیا میں صوبہ پنجاب کے ضلع گوردواسپور کے موضع
قادیان میں 1839ءکو پیدا ہوا۔اس کا والد غلام مرتضیٰ تھا جو سمرقندی مغل
گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا پیشہ نجابت اور زمینداری تھا۔ مرزا
مروجہ طب،عربی اور فارسی کی تحصیل سے فارغ ہو کر 1864ءکے بعد تقریباً چار
سال تک ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے دفتر میں کام کرتا رہا۔ بعد ازاں ملازمت
چھوڑکر اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ساتھ ساتھ مذہبی کتب کا مطالعہ
بھی جاری رکھا اور مذہبی مناظرات وغیرہ میں حصہ لیتا رہا ۔
مرزا اوائلِ زندگی میں ایک صحیح العقیدہ مسلمان تھا۔ 1879ءمیں اس نے ایک
اشتہار شائع کیا کہ میں ایک کتاب ”براھینِ احمدیہ “ لکھنے کا ارادہ رکھتا
ہوں جو 50جلدوں پر مشتمل ہو گی اور اس میں اسلام کی حقانیت اور دیگر مذاہب
کی تردید میں قوی اور محکم دلائل پیش کئے جائ؛ں گے ۔مسلمانوں نے اس کتاب کی
اشاعت کے لئے کثیر تعداد میں پیشگی قیمت بھیج کر معاونت کی ۔
1880ءسے 1884ءتک مرز ا نے اس کتاب کی صرف چار جلدیں شائع کیں۔ پھر اس نے
دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے بذریعہ الہام اشاعتِ دین پر مامور فرمایا
ہے اور وہ اس صدی کا ”مجدد“ ہے ۔ اس لئے اس کتاب کی مزید اشاعت بند کی جاتی
ہے ۔ 1886ءمیں مرزا نے اپنی دوسری کتاب ”سرمہ چشمِ آریہ “تصنیف کی اور
ہوشیار پور میں آریہ سماجیوں کے ساتھ مناظرہ کیا ۔ اس طرح اس نے ایک مناظرِ
اسلام اور مدعیِ اسلام کی حیثیت سے شہرت حاصل کر کے اپنے گرد عقیدت مندوں
کا ایک گروہ پیدا کیا جس میں حکیم نورالدین شاہی طبیب ریاست جموں و کشمیر
جیسے بارسوخ مشیر و معاون بھی شامل تھے ۔1857ءکی جنگِ آزادی کے بعد
انگریزوں کو ایسے غداروں کی اشد ضرورت تھی جو مسلمانوں کے جذبہ جہاد اور
عشقِ رسول کو ختم کر دیں۔اس مقصد کے لئے جن شخصیتوں نے ان کی مدد کی ان میں
سے ”مرزا غلام احمد “بھی تھا۔
مسلمان ایک پُر آشوب دور سے گزر رہے تھے ۔ جب مرزا نے شہرت حاصل کی تو اس
کے رفیقِ خاص حکیم نورالدین نے اُسے اس پُر آشوب زما نہ سے فائدہ اُٹھانے
کامشورہ دیا ۔تھوڑے ہی عرصے بعد مرزا نے حکیم نورالدین کے مشورے پر عمل
کرتے ہوئے مجدد سے آگے بڑھ کر مثیلِ مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ۔ مرزا اپنے اس
دعوے پر بھی زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہا اور اپنی تین تصنیفات میں وفاتِ
مسیح کا اعلان کر کے پہلے مہدی موعود اور بھی مسیحِ موعود ہونے کا اعلان کر
دیا۔
مرزا اپنے مسیح موعودہونے کے دعوے پر تقریباً دس سال قائم رہا اور پھر گرگٹ
کی طرح رنگ بدلتے ہوئے اس نے ختم نبوت کے معروف اسلامی نظرئیے کو غلط قرار
دیتے ہوئے نومبر1901 ءمیں اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔اپنے اس دعوے کے بعد
مرزا کچھ عرصہ تک اپنے آپ کو ظلّی نبی ظاہر کرتا رہا۔اس کے کہنے کے مطابق
اگرچہ محمدﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا تھا مگر نبوت صرف آپﷺ کے فیضان سے
ہی مل سکتی تھی۔ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ظلّی
انبیا ءکا معیار محمدﷺ کے نقش قدم پر چلنا اور ان کی شریعت کو قائم کرنا ہو
گا۔کچھ عرصہ اس طرح ظل رہنے کے بعداس نے اپنے مستقل صاحب شریعت رسول اور
خاتم النبیین ہونے کا دعویٰ کر دیا۔
مرزا کو اسہال کی بیماری بہت پہلے سے تھی ۔ جب وہ کوئی دماغی کام کرتا تھا
تو وہ بیماری بہت بڑھ جاتی تھی۔ اس کو یہ بیماری بسبب کھانا ہضم نہ ہونے کے
تھی۔ دل بہت کمزور تھا اور نبض اکثر ساقط ہو جایا کرتی تھی۔ 25مئی1908 ءکی
شام جب وہ”پیغام صلح“ کا مضمون لکھنے سے فارغ ہوا تو اسے اس بیماری کا دورہ
پڑگیا۔
جب دوائی سے کچھ فائدہ نہ ہواتو اس نے حکیم نور الدین کو طلب کیا اور اس سے
نیند کی دوا لی۔ بیماری کی وجہ سے اس نے اپنے کمرے میں ہی حاجت ضروریہ سے
فارغ ہونے کا انتظام کرایا ہوا تھا۔دوا کی وجہ سے وہ سو گیا اور سب واپس
اپنی جگہ چلے گئے۔رات تقریباً دو اور تین بجے کے درمیان ایک بڑا دست آیا جس
سے اس کی نبض بند ہو گئی۔حکیم نورالدین، خواجہ کمال دین اور ڈاکٹر یعقوب
بیگ کو بلایا گیا۔ کافی دیر کے علاج کے باوجود نبض واپس نہ آسکی۔ یہاں تک
کہ دس بجے صبح 26مئی 1908ء کو وہ داعی اجل کو لبیک کر گیا۔ |