میرے ایک دوست جن کے دل میں ملک و قوم کا درد اکثر
اٹھتا رہتا ہے ، وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں انہوں نے مجھے بارش کے
پانی کے حوالے سے ایک بہت اہم رپورٹ بھجوائی جو پاکستانی قوم کے لیے بہت
اہم ہے ۔ میرا یہ مشاہدہ ہے کہ نہ ہم بارش کے پانی کو سنبھال پاتے ہیں اور
نہ دریائی پانی کو ہم کسی کام میں لاتے ہیں جوڈیم بھرنے کے بعد بھارت باامر
مجبوری دریاؤں میں چھوڑتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ سیلابی پانی
پاکستانی قوم کی املاک اور فصلوں کو تباہ کرتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے
،پھر جو رقم ہم نے اپنے ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے رکھی ہوتی ہے اس رقم کا
بڑا حصہ سیلاب کے متاثرین کی بحالی پر خرچ ہوجاتا ہے ۔یہ معاملہ ہر سال
ہمارے ساتھ ہوتا لیکن ہم نے آج تک نہ دریاؤں کو گہرا کرنے اور نہ ہم نے
سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔بہرحال ہم ایک پاکستانی انجینئر
کی تحقیق کی جانب آتے ہیں ۔" 2015 میں لاہور میں انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم
کے اطراف میں ایک نہایت دلچسپ تجربہ کیا۔ انہوں نے اپنی ریسرچ سے ایک ایسا
ماحول دوست حل نکالا کہ جس پر عمل کرنے سے ایک فلائی اوور بنانے سے بھی کم
لاگت میں پورے شہر لاہور کی سڑکوں کو مون سون کی بارشوں میں تالاب بننے سے
بچایا جا سکتا تھا۔یاد رہے کہ لاہور میں پینے کا سارا پانی زیرِزمین
ایکوائفر سے آتا ہے جس کا ری چارج دریائے راوی سے ہوتا تھا جوکہ انڈیا کی
طرف سے راوی پر 2000 ء میں تھہین ڈیم بنانے سے 85فی صد کم ہو گیا تھا اور
اس سال شاہ پور کنڈی بیراج کی تعمیر کے بعد تقریباً صفر ہو چکا ہے۔ دوسری
طرف لاہور کے زیرِزمین پینے کے قابل پانی کی سطح 6سو سے 8 سو فٹ تک گرچکی
ہے جبکہ 12 سو فٹ انتہائی حد ہے جس کے بعد زیرِزمین پانی موجود نہیں۔
زیرِزمین پانی کی سطح ہر سال 3 فْٹ کے لحاظ سے گر تی جا رہی ہے۔ اس ریسرچ
کے لئے انجینیئرز نے شہر لاہور کی سڑکوں پر 43 ایسی نشیبی جگہوں کی نشاندہی
کی جو موسم برسات میں بارش کے بعد تالاب کی شکل اختیار کر لیتی تھیں۔ان کا
اندازہ تھا کہ سڑکوں پرصرف ان 43 مقامات پر ہی 1000 ایکڑ فٹ حجم کا پانی
کھڑا ہوجاتا ہے جس کا بہت سا حصہ پانی چوس کنویں بنا کر زیرزمین اتارا
جاسکتا ہے۔ اپنے اندازے کی سچائی جانچنے کے لئے انجینیئرز نے قذافی اسٹیڈیم
کے ساتھ والی نشیبی سڑکوں پر دو پانی چوس کنویں بنائے۔ ہر ایک کنواں6x9x8
فْٹ کا تھا جس کی سطح پر انہوں نے 2 فْٹ موٹے پتھر اور ایک ایک فٹ بجری اور
ریت کی تہہ جما دی جس کے نیچے ایک فٹ گولائی والا سوراخ دار پائپ زیرزمین
پانی تک پہنچا دیا۔حیرت انگیز طور پر پہلی ہی بارش میں سڑک پر کھڑا ہونے
والا ایک لاکھ لٹر پانی صرف تین گھنٹوں میں کنووں نے چوس لیا تھا اور بارش
میں ہر دفعہ بند رہنے والی سڑک پر تھوڑی دیر بعد ہی ٹریفک رواں دواں
تھی۔مزید تسلی کے لئے انجینیئرز نے سڑک پر اکٹھا ہونے والے بارشی پانی اور
کنوؤں میں فلٹر ہو کر جانے والے پانی کی کوالٹی کے مختلف ٹیسٹ مستند
لیبارٹریوں سے کرائے تو پتہ چلا کہ کنوؤں نے فلٹر کے عمل میں بارشی پانی سے
آلودگی بھی صاف کردی تھی اور زیرِ زمین جانے والا پانی انتہائی صاف
ستھراتھا۔سب اہم بات یہ تھی کہ ایک ہی بارش کے ریچارج نے زیرزمین پانی کی
سطح 3.5 فٹ بلند کر دی تھی۔ یہ فوائد صرف 15 لاکھ کی لاگت سے بنے دو کنوؤں
سے حاصل ہو ئے تھے۔اگر اس حساب سے پورے لاہور میں بھی پانی چوس کنویں بنا
دئیے جاتے تو ان کی مجموعی لاگت صرف ایک فلائی اوور بنانے سے بھی کم ہوتی۔
انجینیئرز نے تخمینہ لگایا کہ 1800 اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے
لاہور شہرسے مون سون میں پڑنے والی بارشوں سے ایک کروڑ سے زائد لاہور یوں
کے لئے پورے سال کا پینے کاپانی اور ہر قسم کے صنعتی استعمال کا پانی
زیرزمین ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے شہر کی سڑکیں برسات میں تالاب یا جوہڑ
نہیں بنیں گی اور نہ ہی بارشوں میں سڑکوں پر ٹریفک پھنسے گی جبکہ سڑکوں کی
مرمت یا تعمیر نو پر اضافی خرچ بھی بچے گا۔لاہور کا زیرِ زمین پانی جو کبھی
15فٹ گہرائی پر مل جاتا تھا آج کل 150 فٹ سے بھی نیچے جا چکاہے۔ پرانے شہر
میں تو یہ 600 فٹ گہرائی پر بھی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح
ہر سال تین فٹ کے حساب نیچے گرتی جارہی ہے کیونکہ شہر کے دو ہزار ٹیوب
ویلوں سے روزانہ 3500 ایکڑ فٹ پانی زمین سے کھینچ لیا جاتا ہے۔لاہور کو
اپنے زمینی پانی کی سطح بحال رکھنے کے لئے سالانہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ سے
زیادہ حجم کے پانی کے خسارے کا سامنا ہے جب کہ انجینیئرز کا تخمینہ ہے کہ
ہر سال صرف مون سون کے موسم میں لاہور شہر سے بارش کا پانی اس سے دگنا حجم
میں زیرزمین ایکوائفر میں واپس بھیجا جاسکتاہے۔ لاہور میں زیرِ زمین پانی
کوریچارج کرنے کے لئے جدید طرز کا’’،چھپڑ ْ’’سسٹم بحال کرنا ہوگا جس نے
ماضی میں صدیوں تک اس شہر کے زیر زمین پانی کو میٹھا اور پانی کی سطح کو
برقرار رکھا۔چھپڑ کی طرز پر لاہور شہر کے پارکوں اور کھلی جگہوں پر کثیر
تعداد میں ڈونگی گروانڈ ز کا قیام عمل میں لایا جائے جن کے اطراف میں
ریچارج کنویں بنے ہوئے ہوں۔سکولوں ،کالجوں، یونیورسٹیوں، دفاتر، فیکٹریوں
الغرض تمام کھلی جگہوں پر ریچارج کنویں بنا کر ری سائیکل پانی سے زیر زمین
پانی کو مون سون کے دوران ہی پورے سال کے استعمال کے لئے ریچارج کیا جاسکتا
ہے ۔ لاہور میں کامیابی کے بعد اس کثیر الامقاصد منصوبے کو پھر پاکستان کے
تمام چھوٹے بڑے شہروں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں
فی الفور ریچارج اتھارٹی بناکر کام شروع کرنا ہوگا کیونکہ 2015 کے بعد بھی
کئی برساتیں گزر چکی ہیں لیکن لاہور کی سڑکیں ابھی بھی تالاب بنی ہوتی ہیں۔
ایل ڈی اے، واسا، پنجاب اریگیشن، یو ای ٹی لاہور اور چند سوسائٹیوں اور
انفرادی لوگوں کے پائلٹ ریچارج پراجیکٹس کے علاوہ انجینیئرز کے دلچسپ تجربے
سے بڑے اسکیل پر آج تک فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ اگرچہ یہ ریسرچ اور عملی
تجربہ لاہور تک محدود تھا لیکن اس کے نتائج کی بنیاد پر پورے پنجاب سمیت
پورے ملک میں ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ PCRWR بھی اس سلسلے میں کافی
ریسرچ کرچکا ہے۔ ضرورت اب عملی اقدامات کی ہے۔ پاکستان کے خْشک ہوتے دریاؤں
کے پیشِ نظر مون سون میں بارش کے پانی سے ایکوائفر کا ری چارج ایک بہترین
قدرتی حل ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔"یاد رہے کہ یہ رپورٹ ریسرچ
انٹرنیشنل جرنل میں شائع ہو چکی ہے ۔اس رپورٹ کے تناظر میں دیکھا جائے تو
یکم اگست 2024 کو لاہور سمیت پورے ملک میں اتنی پارش ہوئی کہ 44سالہ ریکارڈ
ٹوٹ گیا ۔پورا شہروینس شہر دکھائی دے رہا تھا جبکہ سڑکوں کے ساتھ ساتھ تین
بڑے سرکاری ہسپتال بھی بارش کے پانی میں ڈوب گئے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ
وزیراعلی پنجاب اس حوالے سے انجینئرز کی ایک ٹیم مختص کریں جو بارشی پانی
کو نہروں اور دریاؤں میں جانے کی بجائے زیرزمین پانی کی سطح بلند کرنے کے
پروجیکٹ پرکام شروع کریں ۔
|