اگست کا مہینہ ہمارا آزادی کا مہینہ ہے۔ جونہی کیلنڈر
جولائی سے اگست میں تبدیل ہوتا ہے تو ایک عام پاکستانی کے اندرونی اور
بیرونی جذبات بھی ایک سرشاری ،حب الوطنی اور آزادی کےرنگوں میں ڈھل جاتے
ہیں ۔ یوں اللہ کا ایک خاص لطف کرم ہمارے شامل حال ہو جاتا ہے ۔ کبھی آپ
لوگوں نے غور کیا ہو گا کہ دنیا کے جس زمینی گوشے میں ہم رہ رہے ہیں ، یہ
علاقہ قدرتی حسن سے تو مالا مال ہے ہی مگر جب اگست کا مہینہ آتا ہے تو ساون
اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے۔ مون سون کی بارشوں کی وجہ سے ہر چیز دھل جاتی
ہے ۔ ساری نباتات میں ایک تازگی اور شادابی آ جاتی ہے۔ اشجار کے پتے سورج
کی کرنوں کے ساتھ ایک خاص چمک پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے پہاڑ اور میدان سبزے سے
بھر جاتے ہیں ۔پورا ماحول ہمارے سبز ہلالی پرچم کے ہم رنگ اور ہم آہنگ ہو
جاتا ہے ۔اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے عوام کے ساتھ ہماری زمین ، ہمارا موسم
اور زمینی بناتات بھی سبز شالیں اوڑھ کرآزادی کی سالگرہ منا تے ہوۓ ہماری
خوشیوں کو دوبالا کیے ہوۓ ہیں۔
جہاں ہم ہر سال چودہ اگست کو اتنی لگن ، چاہت ، احترام ، تزک و احتشام اور
خصوصی اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں وہاں ہم نے کبھی یہ سوچا کہ اس اس دن کے
کچھ تقاضے بھی ہیں اور وہ تقاضے صرف ایک دن منانے سے پورے نہیں ہوتے۔بلکہ
اگست سے اگست تک پورا سال کچھ باتوں کو ذہن میں رکھنا اور ان پر عمل پیرا
ہونا ہے ۔ ان میں سر فہرست اپنے وطن کے ساتھ وفاداری اور بطور پاکستانی
شہری اپنے فرائض کی بجا آوری ہے۔
بطور پاکستانی شہری ہم میں سے اکثر کو یہ تو یاد ہوتا ہے کہ ریاست کی طرف
سے ہمیں کیا کیا حقوق حاصل ہونے چا ہیں۔ جہاں ان حقوق کا تعین کیا گیا ہے
وہاں ہمارے کچھ فرائض اور ذمہ داریاں بھی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں تین قسم کی
ہیں۔
١۔ جب ہم اس ریاست میں پیدا ہوۓ ہیں تو ریاست کے جملہ قوانین اور آئین کی
پاسداری اور ان پر عمل پیرا ہونا اس میں شامل ہے۔ ریاست کے ساتھ وفاداری اس
کا دفاع اور من جملہ قوانین جو بھی اس ریاست کی بہتری کی خاطر بناۓ جاتے
ہیں، ان پر عمل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔چاہے وہ امن و سلامتی سے متعلق ہوں
یا عدل و انصاف ، انتظامی امور ، معیشت، تجارت، ٹیکس یا ٹریفک کے قوانین
ہوں ۔ یہ عمومی ذمہ داریاں ہر شہری پر لاگو ہیں۔
٢۔ دوسری قسم میں وہ ذمہ داریاں ہیں جو عام شہری سے ہٹ کر ہیں ۔ وہ ہیں
شعبہ جاتی یا ادارہ جاتی ذمہ اریاں۔ ہم میں سے اکثر کسی نہ کسی سرکاری
محکمہ یا کسی شعبہ میں کام کرتے ہیں جہاں سے ہمیں باضابطہ تنخواہ ملتی ہے۔
ایک عام شہری پر عائد عمومی ذمہ داریوں کے علاوہ اپنے محکمے کے ساتھ
وفاداری اور اس کے قوانین پر عملدرآمد بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ جب ایک
محکمہ ہمیں رزق حلال کمانے کا بہترین موقع دے رہا ہے تو ہم طلب دنیا کے
لالچ میں آکر رشوت اور کرپشن کے ذریعے اپنی حلال کی کمائی میں حرام ملا کر
اپنی ساری کمائی کوکیوں مشکوک اور حرام کریں ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے
دودھ کو اللہ نے پاکیزہ اور خون کو نجس بنایا ہے۔ اب اگر ایک بالٹی طیب و
طاہر دودھ میں کچھ قطرے خون کے شامل ہو جائیں تو سارا دودھ نجس اور نا قابل
استعمال بن جاۓ گا۔ اسی طرح حلال کی کمائی میں حرام کا پیسہ اگرچہ مقدار
میں کم ہی کیوں نہ ہو سارے مال کو خراب کر دیتا ہے۔اپنی ڈیوٹی پر نہ آنا یا
آکر کچھ نہ کرنا یا ان اوقات میں سرکاری معاملات پر ذاتی معاملات کو فوقیت
دینا سب بدعنوانی اور کرپشن کے زمرے میں آتا ہے
٣۔ تیسری قسم ان فرائض کی ہوتی ہے جن میں قرآن و سنت کی روشنی میں باقاعدہ
حلف برداری کے بعد ان فرائض کو اپنی ذمہ داریوں میں لیتے ہیں۔جسے مخصوص
اداروں کے سربراہان اور اراکین پارلیمنٹ اور اراکین کابینہ کی حلف
برداریاں۔ اب ایسی صورت میں عمومی اور ادارہ جاتی ذمہ داریوں کے علاوہ حلف
کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اب ایک محلف اپنی عوام اپنی ریاست اور اس کے
اداروں کے قوانین کے بعد اللہ تعالیٰ کوبھی جواب دہ ہے۔ اور ہماری قسموں کے
بارے میں یقینا ً ہم سےباز پرس ہو گی۔ اس سطح پر کوئی انسان اپنی ریاست کے
ساتھ بے وفائی کرتا ہے اور قانون کو توڑتا ہے تو وہ یاد رکھیں کہ یہاں تو
بندہ ہیرا پھیری اور قانون کی پتلی گلیوں سے ہوتا ہوا نکل جاۓ گا مگر بروز
محشر اللہ کے سامنے کیا منہ لے کر جاۓ گا۔ یعنی اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں
پر برجمان افراد کی ذمہ داریاں نسبتا ً ایک عام شہری کے اور زیادہ ہو جاتی
ہیں۔ اگر کوئی عام شہری اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتا ہے تو اس کے منفی
اثرات اور نقصانات ذرا کم شدت اور نچلے درجے کے ہوتے ہیں۔ مگر یہی انحراف
اگر ایگزیکٹوز اور سرکردہ شخصیات کی طرف سے ہوں تو نہ صرف پورا ادارہ تباہ
ہوتا ہے بلکہ ایک پورا سسٹم اورمعاشرہ اس کی لپیٹ میں آتا ہے اور اس انحراف
سے پیدا ہونے والی بد عنوانی کے اثرات کئی دھائیوں تک رہتے ہیں۔ جس کی بر
وقت اور فی الفور تلافی اور سدباب نی ہو تو اس کے اثرات اگلی نسلوں پر پڑتے
ہیں۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ اس ملک کو تباہ کرنے اور اس کا مستقبل تاریک کرنے
میں ہر طبقے کی طرف سے اپنی اپنی بساط کے مطابق بھرپور حصہ ڈالا جا رہا ہے۔
اس کے باوجود اللہ کا کوئی خصوصی کرم ہے اور تھوڑے سےمخلص لوگ ہیں جن کی
وجہ سے ہماری ناؤ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ سارے حالات وواقعات آپ کے
سامنے ہیں۔ پہلی کرپشن کی خبر دوسری کرپشن کی بریکنگ نیوز کے نیچے دب کر رہ
جاتی ہے۔ چند دن معاملہ اخبارات پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی
زینت بنتا ہے پھر اس کی جگہ ایک اور سکینڈل لے لیتا ہے۔ بالکل اسی طرح کہ
جس طرح حکمرانوں پر حکمران بدلتے ہیں اور اداروں کے سربراہوں پر سربراہ
بدلتے ہیں۔ ہر کوئی اپنا ایک کردار ادا کرتا ہے اپنے حصے کی نوازشات سمیٹتا
ہے اپنے خاندان کو مستحکم کرتا ہے اور اپنے دور کے نقوش تاریخ کے اوراق میں
چھوڑ جاتا ہے۔ ایک عام آدمی بس اخبار پڑھتا ہے، خبریں سنتا ہے، چند دن
کڑھتا ہے، اپنے حصے کا ٹیکس دیتا ہے اور پھر اپنی ساری ناکامیوں ،محرومیوں
اور حسرتوں کو دل میں لیئے راہیِ عدم ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ اس کی اولاد
لے لیتی ہے۔یوں پچھلے ستتر سالوں سے یہی دو سائیکل اور چین دیکھنے کو مل
رہے ہیں۔ ایک سائیکل خواص میں چل رہا ہے جہاں ایک خاندان کے بعد دوسرا
خاندان اور اس کے افراد کے بعد دوسرے افرادجگہ لے رہے ہیں۔ اور دوسرا عوامی
سائیکل جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
اس موقع پر مجھے بانی ِ پاکستان حضرت قائد اعظم علیہ رحمہ کا وہ قول یا آ
جاتا ہے جو انہوں نے11 اگست 1947 کو اپنی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس
منعقدہ کراچی سے خطاب میں فرمایا تھا کہ۔
"اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے
دوسرے ممالک اس سے پاک ہیں ، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت ہی
خراب ہے ، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے۔ ہمیں نہایت
سختی سے اس کا قلع قمع کردینا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلہ میں
مناسب اقدامات کریں گے ، جتنی جلد اس اسمبلی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو۔
چور بازاری (یا ذخیرہ اندوزی) دوسری لعنت ہے۔ مجھے علم ہے کہ چور بازاری
کرنے والے اکثر پکڑے جاتے ہیں اور سزا بھی پاتے ہیں۔ عدالتیں ان کے لیے قید
کی سزائیں تجویز کرتی ہیں یا بعض اوقات ان پر صرف جرمانے ہی عائد کیے جاتے
ہیں۔ اب آپ کو اس لعنت کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا"
" چور بازاری ، معاشرے کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہے۔ جب کوئی شہری چور
بازاری کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ گھناؤنے
جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ چور بازاری کرنے والے لوگ باخبر ، ذہین اور عام
طور سے ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں اور جب یہ چور بازاری کرتے ہیں تو میرے خیال
میں انہیں بہت کڑی سزا ملنی چاہیے کیونکہ یہ لوگ خوراک اور دیگر ضروری
اشیائے صرف کی باقاعدہ تقسیم کے نظام کو تہہ و بالا کردیتے ہیں اور اس طرح
فاقہ کشی ، احتیاج اور موت تک کا باعث بن جاتے ہیں۔
اقربا پروری اور احباب نوازی ، یہ بھی ہمیں ورثے میں ملی ہے اور بہت سی
اچھی بری چیزوں کے ساتھ یہ لعنت بھی ہمارے حصہ میں آئی۔ اس برائی کو بھی
سختی سے کچل دینا ہوگا۔ یہ واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربا
نوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثر و رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ
یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی ، قبول کروں گا۔ جہاں کہیں مجھے
معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ہے خواہ یہ اعلیٰ سطح پر ہو یا ادنیٰ سطح
پر یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا"۔
آج سے چھہتر سال قبل قائد نے جن سماجی برایئوں سے خبر دار کیا آج وہی مسائل
ملکی تعمیر و ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔اگر قائد کی اس تقریر کے متن
کو پاکستان کا ایک رانما اصول مان لیا جاتا اور گذشتہ ادوار حکومت میں اس
پر من عن عمل کیا جاتا اور انہی راہنما اصولوں کی روشنی میں مستقبل کی پیش
بندی کی جاتی تو آج اس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوتے۔ ملکی سالمت بھی قائم
رہتی ۔ تعصب اور فرقہ واریت سے پاک یہ ارض وطن قائد اور اقبال کی امنگوں کا
ترجمان اور امن و سلامتی کا مسکن اور بطور نظریاتی مملکت دیگر اقوام اور
برادر اسلامی ممالک کے لیۓ ایک تابندہ مثال ہوتا۔ مگر افسوس کہ اس ملک کے
خالق نے بہت پہلے ان تمام خطرات سے اگاہ بھی کیا اور راہ حل بھی بتایا مگر
بعد میں آنے والوں نے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری نہ کیں اوریہی
خرابیاں اندر ہی اندر اس ملک اور اس کے اداروں کو دیمک کی طرح چاٹتی رہیں۔
ہم اندرونی اور پھر بیرونی طور پر کمزور ہو گۓ ۔ وہ ممالک جنہوں نے ہمارے
بعد آزادی حاصل کی جبکہ ان کو ایسی قیادتیں بھی نہ ملیں ،ان کے پاس الہٰی
منشور بصورت قرآن بھی نہ تھا ۔ ان کے جوانوں کے پاس امت محمدی کے جوانوں
جیسا جذبہ بھی نہ تھا اور اتنا مضبوط نظریہ بھی نہ تھا۔ وہ آج اقتصادی
سائنسی اور دیگر میدانوں میں ترقی کی منازل میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں اور
ہم بقول حضرت اقبال " ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں"۔ |