كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ ( ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے )

كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ
ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ العنکبوت کی آیت 57 میں فرماتا ہے کہ
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ
ترجمعہ کنزالایمان :
ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے موت کے ساتھ لفظ " ذائقہ " کیوں رکھا ؟ اور موت اخر کیا ہے ! تو دیکھیں لفظ ' ذائقہ" کے معنی ہیں چکھنا یعنی لذت یہاں لفظ ذائقہ کا استعمال اس لئے ہوا ہے کہ جب انسان اس دنیا میں آتا ہے اپنی وہ زندگی جو اسے رب تعالی کی عطا کی ہوئی ہوتی ہے وہ گزارلیتا ہے تو پھر اسے واپس اللہ کی طرف لوٹنا ہے اور اب اسی رب کی عطا کی ہوئی موت کا سامنا کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہونا ہوتا ہے تو جو زندگی اس نے اس دنیا میں گزاری اس زندگی کا ذائقہ اسے جاتے ہوئے چکھنا ہوتا ہے اگر اس دنیا میں رہتے ہوئے کسی نے اچھے کام کئے تو اسے وہ ذائقہ میٹھا اور لذیذ لگے گا اور جس نے برے کام کئے ہوں گے اسے کڑواہٹ محسوس ہوگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دراصل اللہ تعالیٰ کی اس پورے کرہ ارض پر پھیلی ہوئی مخلوقات میں ہی ایک زندگی ہے اور دوسری موت یعنی زندگی اور موت کا شمار اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہے اور ان دونوں کو اللہ نے اپنی مخلوق کا درجہ عطا کیا ہے قرآن مجید کی کئی آیتوں میں رب العزت فرماتا ہے کہ " ہم نے زندگی اور موت کو پیدا کیا" جیسے سورہ الملک کی دوسری آیت میں ارشاد باری تعالی ہے کہ " اسی ذات نے زندگی اور موت پیدا کی ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔"
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے موت کو قرآن مجید میں " اجل" کا نام دیا ہے یعنی جس کا وقت مقرر ہو اور جو کبھی ٹلنے والا نہ ہو موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ ترقی یافتہ سائنس بھی روح کو سمجھنے سے قاصر ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر اعلان فردیا ہے: روح صرف اللہ کا حکم ہے۔ موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے، اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا وسزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ بندےکی توبہ قبول کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کا آخری وقت آجائے۔ ہم ہر روز، ہر گھنٹہ، بلکہ ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک و تعالی نے قران مجید فرقان حمید کی کئی ایتوں میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہر انسان کے اعمالوں کا بدلہ بروز قیامت اسے پورا پورا دیا جائے گا گویا جس نے اچھے اعمال کیے اسے جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور جس نے اچھے اعمال نہ کیے وہ جہنم کا حقدار ہوگا دنیا کے فانی ہونے کی بھی متعدد ایتیں موجود ہیں سورۂ الرحمان میں فرمایا: اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔ اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی اور فضل وکرم والی ذات باقی رہے گی‘‘۔جب کہ سورۃ القصص میں فرمایاگیا:’’ ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے یہاں کم و بیش ہر گھر میں ہر شخص اپنی عمر کے ایک سال گزرجانے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سالگرہ مناتا ہے اور خاص طور پر بچوں کے معاملے میں لوگ بیشمار پیسہ خرچ کرکے یہ تہوار مناتے ہیں میں نے تہوار کا نام اس لئے لیا ہے کہ جب کوئی تقریب ہر سال منائی جائے تو وہ تہوار ہوجاتی ہے جبکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی عمر میں ایک سال کم ہوگیا جس کا ہمیں خوشی منانے کی بجائے دکھ منانا چاہئے کہ ہم نے نہ جانے اس ایک سال میں رب تعالی کے احکامات پر عمل کیا یا نہیں ؟ اس کے حبیب کریم ﷺ کی احادیث پر عمل کرکے سنتوں پر عمل کیا یا نہیں ؟ اور اگر جواب واقعی نہیں میں ہے تو ہمیں شرمندہ ہونا چاہئے اور افسوس کرتے ہوئے آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کرنا چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے علماء اور فقہا نے کتابوں میں لکھا کہ ذائقہ دو طرح کا ہوتا ہے یعنی چکھنے کی دو اقسام ہیں ایک تو یہ کہ اگر کسی چیز میں شکر ڈال دی جائے تو اس کا ذائقہ یقینی طور پر میٹھا ہوگا جبکہ کسی چیز میں نمک یا مرچ ڈال دی جائے تو اس کا ذائقہ نمکین یا تیکھا ہوگا اور یہ ذائقہ اس چیز کو چکھنے سے معلوم ہوگا جس کے بارے میں ہم فیصلہ کرنے جارہے ہیں تو ذائقہ یعنی چکھنے کی ایک قسم تو یہ ہے جبکہ دوسری قسم اس چیز میں موجود اجزاء سے تعلق رکھتی ہے یعنی اس چیز میں موجود اجزاء کا تناسب کیسا اور کتنا ہے اگر اجزاء کا تناسب مناسب ہوگا تو اس کی لذت اچھی ہوگی ذائقہ اچھا محسوس ہوگا جبکہ اگر تناسب صحیح نہیں ہوگا تو اس کا ذائقہ یا لذت بھی اچھی نہیں ہوگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے علماء نے قرآن مجید فرقان حمید کی آیات مبارکہ میں موجود موت کے ساتھ آنے والے لفظ " ذائقہ " کی تفسیر میں یہ جو کچھ لکھا اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان زندگی میں جو اعمال سرانجام دیتا ہے اس میں ایک تو یہ کہ اس کے اعمال میں کتنی سچائی ہے کتنی اللہ رب العزت کی رضا کے لئے وہ نیک کام کئے اگر اس اعمال میں سچائی ہوئی تو موت کے آنے والی تکلیف کا ذائقہ اسے اچھا محسوس ہوگا اور جس کے اعمال برے یا دنیاوی دکھاوے کے لئے ہوں گے اسے موت کا ذائقہ کڑوا محسوس ہوگا دنیا میں رہتے ہوئے صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے نیک اعمال کرنے سے ہمار اعمال کے اجزاء خالص ہوں تو موت کا ذائقہ بڑا لذیذ ہوگا
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں علماء فرماتے ہیں کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے پہلی سوور پھونکی جائے گی تو ہر جاندار فنا ہو جائے گا اور جب دوسری سوور پھونکی جائے گی تو حضرت آدم علیہ السلام سی لیکر دوسری سوور پھونکنے سے پہلے تک جتنی مخلوقات دنیا سے رخصت ہوں گی وہ دوبارہ زندہ ہو جائے گے اور فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اس وقت بھی اپنے گلے میں اپنی اپنی موت کا ذائقہ محسوس ہوگا اللہ ہر اہل ایمان کی موت کا ذائقہ اچھا اور لذیذ رکھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن مجید فرقان حمید ہو یا احادیث مبارکہ ہمیں کئی جگہوں پر موت کو ہر وقت یاد رکھنے اور اس کی تیاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے مطلب صبح ہو تو شام کے آنے کا اعتبار نہ کرو اور شام ہو تو رات کا اور اور رات ہو تو پھر صبح ہونے کا اعتبار نہ کرو بلکہ ہر گھڑی جو اپنی زندگی کی آخری گھڑی سمجھو موت سے کیا ڈرنا اسے تو آنا ہے٬ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو رستگاری یا فرار نہیں انسان زندہ رہنے کے لئے جو چاہے جیسے چاہے اور جتنے چاہے جتن کر لے ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا اس دنیا میں ہمیشہ قیام نہیں کر سکتا جس قدر بھی جی لے جتنی بھی طویل عمر پا لے انسان کو اس جہان سے ایک نہ ایک دن کوچ کر جانا ہے جب موت نے زندگی کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے انسان کو اسی لمحے اس زندگی کا ہاتھ چھوڑ کر موت کو گلے لگانا اور موت کے ساتھ چلے جانا ہے ابن ماجہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے دریافت کیا گیا سب سے عقلمند کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو موت کو سب سے زائد یاد رکھے اور موت کے بعد کیلئے سب سے اچھی تیاری کرے وہ ہے عقل مند ـ
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کا فرمان برحق ہے کہ ہر جان کو موت کا مز ہ چکھنا ہے اور اس دارِ فانی کو چھوڑنا ہی ہےپھر مرنے کے بعدثواب و عذاب اور اعمال کی جزا کے لئے ہماری ہی طرف تم لوگ پھیرے جاؤگے تو تم پر لازم ہے کہ ہمارے دین پر قائم رہو اور اپنے دین کی حفاظت کے راستے اختیار کرو۔
حضرتِ سَیِّدُنا مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی مرقاة شرحِ مِشْکاة میں حدیث مذکور کی شرح یوں بیان کرتے ہیں کہ :
ترجمعہ :
(دنیا سرسبز و میٹھی جگہ ہے) یعنی تمہاری آنکھوں اور تمہارے دلوں میں یہ دنیا مزین ہے، (دنیا دیکھنے میں بھلی معلوم ہوتی ہے دل کو پسند آتی ہے) چونکہ اہل عرب سبزے کو بہت پسند کرتے ہیں اس لئے اسے سر سبز فرمایا گیا، نیز اسے سبز فرمانے میں اشارہ ہے کہ دنیا قریبُ الفناہے. سبزہ بہت جلد خشک ہوجاتا ہے ایسے ہی دنیا بھی بہت جلد ختم ہوجائے گی.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالٰی نے دنیا میں انسانوں کو خلیفہ بنایا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا حقیقی مالک تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے تم سب اس کے خلیفہ یا وکیل ہو (لٰہذا مالک کی مرضی کے بغیر اسے استعمال نہ کرو) یا یہ معنی ہے کہ تمہیں تم سے پہلے جانے والوں کا وارث بنایا گیا ہے تو جو کچھ ان کے پاس تھا اب وہ تمہارے پاس آگیا ہے. پس اب وہ جانچے گا کہ تم پچھلوں کے حالات و واقعات سے کتنی عبرت حاصل کرتے ہو اور ان کے انجام میں کتنا غور و فکر کرتے ہو. اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس دنیا کو بطور ِآزمائش و امتحان تمہارے لئے مزین کیا ہے تاکہ وہ جانچ لے کہ تم اس دنیا میں اس کے رضا والے کام کرتے ہو یا ناراضی والے.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مسلمانوں سمیت تمام آسمانی مذاہب کا یہ عقیدہ ہے کہ جس طرح خالقِ کائنات نے ہمیں پہلی بار پیدا کیا، اُسی طرح وہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ پھر پیدا کرے گا اور ہمیں اپنے اَعمال کی جواب دہی کیلئے اُسی خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہوگا۔جیسے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ:
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.
(البقرة، 2: 28)۔
ترجمعہ کنزالایمان:
بھلا تم کیونکر خدا کے منکر ہو گے ، حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں ژندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں ژندہ کرے گا پھر اسی کی طرف پلٹ کر جاؤ گے -
دراصل انسان کو اس دنیا میں ایک مخصوص مدت کے لئے بھیجا جاتا ہے اور جب اس کی وہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ جاکر اس شخص کی روح قبض کرکے واپس عالم ارواح میں اسے لے جاتا ہے انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے جب انسان کی روح اس کے جسم سے نکال لی جاتی ہے تو وہ مر جاتا ہے اور اس کا جسم خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے اسی لئے شریعت نے حکم دیا کہ جب بھی کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے جلد سے جلد مٹی کے حوالے کردیا جائے تاکہ اس کے جسم کے خراب ہونے یا سڑنے کی نوبت نہ آئے اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے ظاہری وصال کے بعد زمین کو حکم دیا کہ وہ میرے انبیاء کرام علیہم السلام کے جسموں کو نہ کھائے لہذہ انبیاء کرام علیہم السلام کے جسموں کا کھانا زمین کے لئے حرام کردیا گیا کیونکہ اللہ کے انبیاء کرام علیھم السلام قبر میں بھی زندہ ہوتے ہیں اور انہیں باقائدہ رزق پہنچایا جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں علماء لکھتے ہیں کہ عالم ارواح کی دو قسمیں ہیں ایک حصہ میں وہ انسان رہتے ہیں جو ابھی دنیا میں نہیں آئے اور وہ اپنی باری کے منتظر ہیں کہ کب انہیں دنیا میں بھیجا جائے گا جبکہ عالم ارواح کے دوسرے حصہ میں وہ انسان موجود ہیں جو اس دنیا میں اپنی مدت پوری کرکے واپس جاچکے ہیں اور مزید اس کی بھی دو قسمیں ہیں ۔
" علیین" جہاں مومنین کی ارواح رہتی ہیں ۔
" سجین" جہاں کفار ، مشرکین اور منافقین کی ارواح موجود ہیں ۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے ہزاروں سالوں سے لوگ اس دنیا میں آرہے ہیں اور اپنی زندگی کی مدت پوری کرکے واپس چلے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ رہتی قیامت تک جاری و ساری رہتا ہے اس عارضی دنیا میں کوئی کم عمری میں دنیا سے واپس رخصت ہوجاتا ہے تو کوئی بیس ، تیس ،چالیس ،یا پچاس ساٹھ سال کی عمر پاتا ہے تو کئی لوگ ستر ،اسی یا سو سال بھی اس دنیا میں گزار لیتے ہیں لیکن پھر آخر میں انہیں بھی واپس جانا ہوتا ہے کوئی مستقل قیام اس دنیا میں نہ کرسکا ہے اور نہ کرسکتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوکر اپنے زندگی میں کئے اعمال کا حساب دینے کے لئے تیار رہنا ہوتا ہے وہ جوابدہ ہوتا ہے اپنی زندگی میں اچھے برے اعمال کے حساب و کتاب کا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب یہاں اکثر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر موت کا اختتام کیسے ہوگا یعنی موت کو موت کیسے آئی گی تو میں نے اپنی اس تحریر کے شروع میں عرض کیا تھا کہ زندگی اور موت دونوں اللہ کی مخلوقات ہیں اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور یہ بات خود باری تعالی نے قران مجید میں ارشاد فرمائی لہذہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ جب حساب و کتاب کا معاملہ مکمل ہو جائے گا اور جنت کے حقداروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کردیا جائے گا اور دوزخ کے حقداروں کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تو ساری مخلوقات کے سامنے ایک مینڈھے کو لایا جائے گا اور اللہ تعالی اسے ذبح کر گا یہ مینڈھا ایک مخلوق کی شکل میں لوگوں کے سامنے لایا جائے گا جو حقیقت میں موت ہوگی اسے ذبح کرنے سے موت کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا یعنی پھر کوئی موت کا شکار نہیں ہوگا جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں کبھی نہ آنے والی موت کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری زندگی سے گزرنے والا ہر دن ہمیں عطا کی ہوئی زندگی سی ایک دن کم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ہم اس طرح موت کے قریب سے قریب ہوتے جارہے ہیں جب زندگی گزارتے ہوئے ہم کسی سفر پر جانے سے پہلے اس کی مکمل تیاری کرتے ہیں ،تعلیم کے میدان میں ہمارے نوجوان ساری ساری رات بیٹھ کر تیاری کرتے ہیں تاکہ وہ کامیاب ہوسکیں ،زندگی سے جڑے ہر کام کے لئے کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے ہیں تو ہمیں موت کی بھی تیاری کرنی چاہئے کیا ہم موت کی تیاری کررہے ہیں ؟ وہ معاملات جن کے ہونے نہ ہونے کا ہمیں علم ہوتا ہے اس کی تیاری میں ہم جان و مال دونوں سے تیاری میں لگ جاتے ہیں جبکہ موت کی کوئی خبر نہیں کس جگہ کس حال میں اور کس طرح ہمیں موت نے اپنے شکنجے میں لے لینا ہے اگر ہماری تیاری اچھی ہوگی تو ہمیں نہ موت سے ڈر لگے گا اور نہ ہی اس کا ذائقہ ہمارے لئے بدمزہ ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دنیا کی رنگینیوں ، محبت ، لذت اور گہرایوں سے بچنے کی کوشش کریں کہ دنیا سوائے دھوکہ کے کچھ بھی نہیں سب تیاریاں تمام فیصلے اور ساری کوششیں یہیں تک محدود ہیں جبکہ موت کی تیاری ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی کے لئے ہے دنیا میں رہتے ہوئے زندگی کو گزارتے ہوئے اور سانس کے چلتے ہوئے ہمیں موت کی پوری تیاری کرنی ہوگی اس میں ہی ہماری اور ہمارے زندگی کی بقاء ہے ورنہ کہیں خدانخواستہ ہمارا حشر بھی منافقوں اور مشرکوں جیسا نہ ہو اور ہمیں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ کی آگ میں جلنا نہ پڑے الامان الحفیظ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر ایمان رکھتے ہیں ،اس کے حبیب کریمﷺ کو اللہ کے آخری نبی یعنی خاتم النبیین مانتے ہیں ، تمام اہل بیت اطہار سے محبت کا جذبہ رکھتے ہیں ، تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کی عقیدت اور محبت کا دم بھرتے ہیں اور تمام اولیاء کرام ،بزرگان دین اور ولی اللہ کی صحبت میں رہنا پسند کرتے ہیں تو ہمارا تعلق اہل ایمان مسلمانوں کی صف میں موجود ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہماری موت کا ذائقہ بھی اچھا ہوگا ہماری روح جب ہمارے جسموں سے نکالی جائے گی تو ہمیں تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوگا ان شاءاللہ
بس آج سے عہد کریں کہ ہم صرف وہی کام کریں گے جو رب کی رضا کا سبب ہوگا اور موت کی تیاری اگر جاری ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں استقامت عطا کرے اور اگر نہیں تو آج سے تیاری شروع کرلیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اس عارضی دنیا میں صحت ، تندرستی اور عافیت کے ساتھ زندگی گزارنا نصیب کرے اپنے ان احکامات پر جن کا ہمیں حکم ہے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ہمیں اپنی احادیث مبارکہ کے ذریعہ زندگی گزارنے کے جو طریقے بتلائے ان پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور موت کے اچھے ذائقے اور اس کی سختی سے بچنے کے لئے اس کی بھرپور تیاری کرنے کی بھی ہم سب کو خوب سے خوب توفیق عطا فرمائے ۔ مجھے اپنی دعائوں میں ہمیشہ یاد رکھئے گا آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 149 Articles with 116304 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.