میرے من میں رچی بسی سرگودہا کی خوشبو

 13 اگست 2024 کی ایک حبس زدہ سپہر کو میں سرگودہا کے لیے روانہ ہوا۔ سرگودہا جانے کا مقصد اپنے عظیم ماموں جان اور پیرو مرشد جناب حضرت حکیم میاں محمد عنایت خاں قادی نوشاہی ؒ کے دربار پر حاضری اور سرگودہا کی گلیوں بازاروں میں گھومنا تھا تاکہ بیتے ہوئے لمحوں کو لمحہ موجود میں محسوس کرسکوں۔ ہمدم دیرینہ عظیم درسگاہ گورنمنٹ کمپری ہینسیو سکول سرگودہا میں میرے ہم جماعت اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سرگودہا جیسے عظیم گہورا علم کے ساتھی جناب محمد جاوید اقبال مصطفائی ہمیشہ کی طرح میرے میزبان بنے ۔ ہم نے سرگودہا کی گلیوں بازاروں میں خوب گھوم پھر کر پرانی یادیں تازہ کیں یادیں تازہ کرنا شاید لفط درست نہ ہے کیونکہ تازہ تو تب کرتے جب بھول چکے ہوتے ۔ سرگودہا کی سرزمین پر 1974 سے لے کر 1993 تک کا عرصہ گزرا۔ قبلہ ماموں جان نے بڑی محبت کے ساتھ پرورش کی۔ مجھے میرے آبائی شہر لاہور سے میری امی جان سے مانگ کر لے آئے کہ یہ بیٹا مجھے دے دو۔ یوں کلاس اول سے لے کر ماسٹر ڈگری کرنے تک سرگودہا کی آغوش میں وقت گزرا بعد ازاں پھر اپنے آبائی گھر لاہور آگیا۔ لیکن لاہور آمد کے باوجود سرگودہا کو ایک لمحے کے لیے بھی فراموش نہیں کر سکا۔ فراموش بھی کیسے ہو سکتا ہے خود کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

سرگوہا پہنچتے ہی قبلہ حضرت حکیم میاں محمد عنایت خاں قادری نوشاہی ؒ کے مزار مبارک پر حاضری دی ۔ جگر گوشہ قبلہ حکیم میاں محمد عنایت خاں قادری نوشاہی ؒ کے فرزند ارجمند اور جانشین جناب حکیم میاں محمد یوسف قادری نوشاہی کی خدمت اقدس میں حاضری دی ۔ زاویہ سرگودہا میں تحریک پاکستان کے شہداء کی یاد میں خصوصی دعا کا انعقاد کیا گیا تھا اُس میں شرکت کی۔ یونیورسٹی آف سرگودہا کے فزکس کے اُستاد جناب پروفیسر ڈاکٹر خالد نصیر سے بھی ملاقات کا شرف ملا۔ اور جناب جاوید مصطفائی بھی وہاں موجود تھے۔ یوں شام کے وقت جناب جا وید مصطفائی کی معیت میں سرگودہا کی گلیوں اور بازاروں میں سیر کی۔ کوٹ فرید سے انبالہ مسلم کالج کے ساتھ سے گزرتے ہوئے شہر کی سیر اور پھرمسلم بازار میں حافظ سوڈا واٹر سے فالودہ کھایا اور پھر لیاقت مارکیٹ کے پاس سٹال سے ٹھنڈے ٹھندے آم خوب مزئے لے کر کھائے۔ کچہری بازار ، خیام سینماء، ریلوئے روڈ ، شمع سینماء چوک میں بکھری ہوئی یادیں سمیٹیں۔ جاوید مصطفائی باکمال شخص کا نام ہے۔ میری دوستی 1981 سے اُس سے ہے جب ہم جامعہ ہائی سکول سرگودہا میں تھے ۔

14 اگست کی صبح ہوتے ہی جناب جاوید مصطفائی کے ہمراہ روزنامہ تجارت کے ایڈیٹر جناب ملک محمد معظم اور ممتاز شاعر جناب ممتاز عارف سے ملاقات کے لیے خوشاب روڈ پر روزنامہ تجارت کے دفتر میں حاضری دی۔ ملک محمد معظم انتہائی محب وطن اور نبی پاکﷺ کی عاشق ہستی کا نام ہے۔اِسی طرح جناب ممتاز عارف بھی عشق رسول ﷺ کی دولت سے مالامال ہیں ۔ معروف شاعر ہیں صحافی ہیں۔ ملک معظم صاحب اور ممتاز عارف صاحب چند ہفتے قبل میری نئی کتاب من کی نگری کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے خصوصی طور پرلاہور ہائی کورٹ تشریف لائے تھے اور کمال مہربانی فرمائی تھی۔ ملک معظم صاحب اور ممتاز عارف صاحب کی نوازشات سمیٹ رہے تھے کہ اِسی اثناء میں ملک کے ممتاز دانشور محب وطن عاشق رسولﷺ جناب مرزا محمد منور ؒ اور مرزا محمد مظفر ؒ کے چھوٹے بھائی ممتاز قانون دان جناب مرزا محمد منیر صاحب اپنے بیٹے جناب مرزا عالمگیر ایڈووکیٹ کے ہمراہ تشریف لے آئے۔ملک محمد معظم صاحب مرزا محمد منور ؒ اور مرزا محمد مظفر ؒ اورمرزا محمد منیر صاحب کے حقیقی بھانجے ہیں۔ اِس موقع حضرت خوجہ قمر الدین سیالوی ؒ ، حضرت خواجہ فخر الدین ؒ ، میاں عبدالرشید صاحب جناب نوٹاں والی سرکار ؒ جناب جسٹس پیر محمد کرم شاہؒ کے حوالے سے جناب مرزا محمد منیر ایڈووکیٹ اور ملک معظم صاحب اور جناب ممتاز عارف صاحب نے بہت سی باتیں سنائیں اور ایمان کو تازہ کیا ۔مرزا محمد منور صاحب ؒ اور مرزا محمد مظفر صاحب ؒ کا ذکر خیر ہوا۔جناب جاوید مصطفائی صاحب اِس گفتگو میں بھر پور طریقے سے شریک رہے اور ناچیز ہمہ تن گوش رہا ۔ اِتنی خوبصور ت روحانی نشست نے جو سکون دیا وہ بیان سے قاصر ہوں۔ جناب ملک محمد معظم صاحب کی محبتوں اور شفقتوں سے میں اور جاوید مصطفائی مالا مال ہوئے۔ مرزا محمد منیر ایڈووکیٹ کی خدمت میں اپنی نئی کتاب من کی نگری پیش کی اور اُن کے دست مبارک کو بوسہ دیا ۔

روزنامہ تجارت کے دفتر سے اجازت لی اور پھر گورنمنٹ جامعہ ہائی سکو سرگودہا کے ہی میرے اور جاوید مصطفائی کے کلاس فیلو جناب ڈاکٹر عرفان علی ظفر قریشی کے ڈینٹل کلینک گولچوک سرگودہا پہنچے ڈاکٹر عرفان صاحب سے ملاقات کی خوب گپ شپ لگائی ۔ اُس کے بعد ہمارا پڑاو عبدالطیف چنے والے کی دکان تھا وہاں سے روٹی اور چنے کھائے اور ریلوئے اسٹیشن سرگودہا کی راہ لی۔ ریلوئے اسٹیشن سرگودہا میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اِسی روڈ پر شمع سینما چوک پر میرے کزن کا میڈیکل سٹور تھا اور ساتھ میں نے کچھ عرصہ لائبریری بھی بنائے رکھی اِس لیے اِس سڑک پرمیرا بچپن اور لڑکپن گزرا ۔ ریلوئے اسٹیشن اجڑا ہوا دیکھائی دے رہا تھا۔ کوئی گاری موجود نہ تھی پتہ چلا صرف سات گاڑیاں ادھر آتی ہیں ۔ مال گاڑیاں مکمل طور پر بند ہیں ۔ ریلوے اسیشن کے پلیٹ فارم سنسان تھے۔ پلیٹ فارم پر شاہ صاحب کا ایک بک سٹال ہوتا تھا وہ ختم ہوچکا تھا۔ چند ایک ٹی سٹال تھے جہاں پر بھی خاموشی تھی۔ پورئے ریلوئے اسٹیشن پر صرف ایک قلی موجود ہے وہ بھی بیکار بیٹھا تھا۔ اتنا بڑا ظلم ان حکومتوں نے ہمارئے ریلوے کے نظام پر کیا ہے کہ اﷲ پاک اِن کو پوچھے۔ ریلوے اسٹیشن پر موجود ایک ریسٹورنٹ کو ہمارا کالج کا کلاس فیلو محمد سلیم اپنے والد صاحب کے ساتھ چلاتا تھا ۔ اکثر اِس سے ملاقات ہوتی تھی۔ وہ بھی سنسنان پڑا تھا اب کسی اور ٹھیکے دار کے پاس تھا لیکن وہاں بھی کوئی گاہک نہ تھا۔ ریلوے پولیس کا بھی صرف ایک اہلکار نظر آرہا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے آسیب کا سایہ ہے۔ جس طرح ملک کی معیشت ، معاشرت بُری طرح تباہ ہوئی ہے ریلو ے کے محکمے نے کیسے بچنا تھا۔ پلیٹ فارم پر بیٹھ کر دو دوستوں سے رابطہ ہوا ، عالم بلوچ اور کوثر حیات سکول کے وقت کے دوست ہیں وہ تشریف لے آئے۔ یوں جاوید مصطفائی ، ناچیز اور کوثر حیات، اور عالم بلوچ، ہم نے کئی گھنٹے گپ شپ کی سکول کے دوستوں کو یاد کیا اساتذاکرام کا ذکر ہوا۔ چائے پی ۔ دونوں دوستوں کوثر حیات اور عالم بلوچ کو اپنی نئی کتاب من کی نگری پیش کی ۔ اِس اثنا میں ایک ٹرین ملت ایکسپرس بھی کراچی سے آئی جس نے لالہ موسی جانا تھی۔ انتہائی اجڑی ٹرین دوگھنٹے لیٹ پہنچی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر سرگودہا کی خوشبو کو خوب خود میں جذب کیا۔

دونوں دوستوں عالم بلوچ اور کوثر حیات سے اجازت لی۔ یوں محبت بھرا دن گزارنے کے بعد میں اسی شام واپس لاہور لوٹ آیا۔جاوید مصطفائی کی میزبانی میں بہت اچھا وقت گزرا۔ سرگودہا تو سلامت رہے تا قیامت رہے۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 407548 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More