کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کے سلسلہ میں چند تجاویز

 گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ رواں سال کے آخر تک تمام کرنسی نوٹ تبدیل کرنے جا رہے ہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت ہوا، جس میں بریفنگ دیتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ اسٹیٹ بینک تمام نوٹ تبدیل کرنے جارہا ہے۔ اس سال کے آخر تک نوٹ تبدیل کرنے کا عمل مکمل کرلیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کرنسی کے بارے میں ہمارے ہاں کلیئرٹی نہیں ہے۔ جسے ہم پلاسٹک کرنسی کہتے ہیں وہ ڈیبٹ کارڈ وغیرہ کو سمجھتے ہیں۔ ہم پولیمر کرنسی کے نئے نوٹ لانے کی تیاری کررہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں کوئی ایک نوٹ پولیمر پیپر پر لانے کی تجویز ہے۔ یہ تیار کرکے کابینہ کو بھجوائیں گے، اگر کابینہ نے منظوری دی تو پھر ہم جاری کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جعلی نوٹ کی روک تھام کے لیے بہت سے ایڈوانس فیچرز آچکے ہیں۔ اس سال کے آخر تک نئے نوٹ لانے کا عمل مکمل کریں گے۔ پلاسٹک کے نئے نوٹ لانے کے لیے کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ دیکھا جائے گا کہ اس کی عمر کیا ہے، فی نوٹ لاگت کیا ہے اور سکیورٹی فیچر کس قدر پائیدار اور طویل ہیں۔گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ابھی ہم نے ٹیسٹ کرنا ہے اسی لیے ابتدائی طور پر ایک نوٹ پلاسٹک کرنسی میں متعارف کروانا چاہ رہے ہیں۔ اگر یہ نوٹ پائیدار اور اس کے سکیورٹی فیچر لانگ ٹرم ہوئے تو ہم متعارف کروائیں گے، ورنہ یہ شاید قابل عمل نہ ہو۔رکن کمیٹی محسن عزیز نے تجویز دی کہ 5 ہزار روپے کا نوٹ کرپشن سمیت دیگر مسائل کی وجہ بن رہا ہے۔ اسے ختم ہونا چاہیے، یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا تھا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ 5 ہزار روپے کے نوٹ ختم کرنے کی ابھی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ اس حوالے سے پہلے بھی تجاویز آتی رہی ہیں مگر اس تجویز کو نہیں مانا گیا۔ اسی لیے ابھی ہم جو نئے ڈیزائن کے نوٹ لانے جارہے ہیں اس میں بھی 5 ہزار روپے کا نوٹ شامل ہے۔محسن عزیز نے کہا کہ 5ہزار روپے کا نوٹ اگر آپ نے بند کردیا تو یقین دلاتا ہوں مارکیٹ میں یہ نوٹ 3 ہزار روپے کا فروخت ہوگا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اس کا غلط استعمال روکنا تو لا انفور سمنٹ ایجنسیوں کا کام ہے۔

کہتے ہیں ملک میں اس پیسے کو جوگردش میں نہ ہو،جس کوریاست سے چھپاکررکھاگیاہو، قومی خزانے اوربینکوں میں نہ ہو بلکہ خفیہ خانوں،زیرزمین یاالماریوں میں چھپاکراس لیے رکھاگیاہو کہ ریاست کوٹیکس نہ دیناپڑے ۔ ایسے پیسے کوسامنے لانے کے لیے دوطریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ کالادھن سفیدکرانے کی پیشکش کرناہے جس کوایمنسٹی سکیم کہاجاتا ہے۔ اس کے تحت ان لوگوں کوپیشکش کی جاتی ہے جن کے پاس ناجائزذرائع سے کمایاہواپیسہ ہوتا ہے کہ وہ اس میں سے اتنے فیصداگرریاست کودے دیں توجوپیسہ ان کے پاس بچ جائے گا اس کے بارے میں ان سے کوئی بازپرس نہیں ہوگی۔دوسرے لفظوں میں ان کاوہ پیسہ حلال ہوجائے گا۔چھپائے گئے پیسے کوباہرلانے کے لیے جودوسراطریقہ استعمال کیاجاتا ہے وہ کرنسی نوٹ تبدیل کرنا ہے۔ اس میں کرنسی نوٹوں کے ڈیزائن اورسائزتبدیل کردیے جاتے ہیں۔ نئے تبدیل شدہ نوٹ مارکیٹ میں آجانے کے بعدعوام کویہ سہولت فراہم کی جاتی ہے کہ مقررہ تاریخ تک اپنے پرانے کرنسی نوٹ تبدیل کراسکتے ہیں۔یوں جن لوگوں نے پیسے گھروں میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں وہ اسے تبدیل کرانے کے لیے باہرلے آتے ہیں۔کرنسی نوٹوں کے ڈیزائن اورسائزتبدیل کرنے کاایک اورفائدہ یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ اس سے جعلی نوٹوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے بھی کرنسی نوٹوں کے ڈئزائن اورسائزتبدیل کیے گئے تھے۔ اس وقت بھی بتایاگیا تھا کہ اس سے جعلی نوٹوں کی روک تھام کی جاسکے گی اورایسے نوٹ لائے جارہے ہیں جن کے جعلی نوٹ نہیں بنائے جاسکیں گے۔ راقم الحروف نے اس وقت بھی لکھاتھا کہ ان نئے تبدیل شدہ نوٹوں کے جعلی نوٹ بنائے جائیں گے۔ وہی ہوا جعلی نوٹ پھرسے گردش کرنے لگے۔اب جعلی نوٹوں کی روک تھام کے لیے تجربہ کے طورپرپلاسٹک کاایک نوٹ لانے کی بات کی گئی ہے۔ کابینہ نے پلاسٹک کے نوٹ کی منظوری دے دی اوراس پرہونے والے اخراجات قابل برداشت ہوئے تووہ نوٹ جاری کردیاجائے گا۔اس نوٹ کی عمراورپائیداری بہتررہی تو پلاسٹک کے اورکرنسی نوٹ بھی لائے جاسکتے ہیں۔گورنراسٹیٹ بینک کاخیال ہے کہ جعلی نوٹوں کی روک تھام کایہ بھی ایک طریقہ ہے۔ جوں جوں اصلی اورجینوئن چیزوں کی تیاری کے لیے نئی نئی ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے اسی طرح جعل سازبھی نئی نئی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔ پلاسٹک کے کرنسی نوٹ کاجعلی نوٹ نہیں بنایاجاسکے گا اس بارے یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتا ۔ہم دعاکرتے ہیں کہ گورنراسٹیٹ بینک کا یہ خیال درست ثابت ہو ورنہ اس دنیامیں کہتے ہیں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ ویسے یہ بھی نہیں بتایاگیا کہ کون ساکرنسی نوٹ پلاسٹک کالانے کی کوشش کی جارہی ہے۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ جعلی نوٹ تو اے ٹی ایم مشین سے بھی نکل آتے ہیں۔ جعل سازاتنے چالاک ہیں کہ ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک بھی ایک جعلی نوٹ نہ پہچان سکے۔

پانچ ہزار کانوٹ جب مارکیٹ میں آیا تواسے ملک کی معیشت میں مثبت اقدام قراردیاگیا ۔ کہا گیا کہ جس کی جیب میں ایک ہزارروپے والے نوٹ ایک لاکھ روپے ہوں تواس کی جیب بھاری لگتی ہے جب کہ پانچ ہزاروالے بیس کرنسی نوٹ ہوں توایک لاکھ روپے بنتے ہیں جوجیب کومحسوس ہی نہیں ہوتے۔زیادہ پیسے والوں کے لیے یہ نوٹ اس وقت بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھا اوراب بھی ایساہی ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ پانچ ہزارروپے کانوٹ کرپشن اوردیگرمسائل کی وجہ بن رہاہے اسے ختم ہوناچاہیے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے جواب دیا کہ ایسی کوئی تجویززیرغورنہیں ہے ۔ویسے بھی اس نوٹ کوختم نہیں ہوناچاہیے ۔ اس نوٹ کوختم کرکے دنیاکویہ پیغام نہیں دیناچاہیے کہ پاکستان میں کرنسی کی اہمیت کم ہورہی ہے۔ البتہ ایسے اقدامات ضرورکیے جاسکتے ہیں جن سے پیسے والے لوگ اس نوٹ کواپنی جیبوں ،الماریوں یاخفیہ خانوں میں زیادہ وقت نہ رکھ سکیں۔ ایسے اقدامات میں ایک اقدام یہ بھی ہے کہ پانچ ہزارروپے کے کرنسی نوٹ پر دوائیوں کی طرح ایکسپائری تاریخ درج کردی جائے۔ اس تاریخ کے بعد یہ کرنسی نوٹ قابل قبول نہ رہے اس کے علاوہ یہ بھی کیاجاسکتا ہے کہ ایکسپائری تاریخ سے دوماہ پہلے کوئی دکاندارکوئی کاروباری ادارہ پراس نوٹ کووصول کرنے پربھی پابندی ہونی چاہیے۔ اس دوران صرف بینک ہی وہ نوٹ وصول اورتبدیل کرسکیں۔ اس کرنسی نوٹ پرایکسپائری تاریخ اس وقت لکھی جائے جب وہ نوٹ کسی بینک سے کسی کسٹمرکوجاری ہو۔ ایکسپائری تاریخ کے بعدکوئی بینک بھی وہ نوٹ وصول نہ کرے۔جعلی نوٹوں کی پہچان کے لیے ہربینک کے باہرایک کاونٹر بھی بنایاجائے جہاں پرلوگ بینک میں جمع کرانے یابجلی وگیس کے بل جمع کرانے سے پہلے اپنے کرنسی نوٹ چیک کراسکیں کہ کہیں ان میں کوئی نوٹ جعلی تونہیں کیوں کہ راقم الحروف کی طرح اکثرلوگ جعلی کرنسی نوٹ کی پہچان نہیں کرسکتے اس کاونٹرکی وجہ سے ایسے لوگ اس سلسلہ میں کسی بھی پریشانی سے بچ جائیں گے۔

کرنسی نوٹ تبدیل کیے جارہے ہیں توجعلی نوٹوں کی روک تھام کے لیے جس طرح ہرنوٹ پرایک نمبردوجگہوں پردرج ہوتا ہے دونوں طرف کے نمبرالگ الگ ہوں تووہ نوٹ قابل قبول نہیں ہوتا ۔ وہی نمبراسی کرنسی نوٹ میں چھپاکربھی درج کیاجائے جسے نوٹ کی ایک طرف دیکھاجائے توایسالگے کہ یہ نمبرنوٹ کی دوسری طرف لکھاہوا ہے۔ دوسری طرف دیکھاجائے تولگے کہ پہلی طرف لکھا ہواہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی کرنسی نوٹ جس بینک سے کسٹمر کو جاری کیاجائے تواس پراس بینک کی مہر بھی لگائی جائے ۔یہ مہرہربینک سے جاری ہونے والے ہرکرنسی نوٹ پرلگائی جانی چاہیے۔جس طرح 75روپے کا کرنسی نوٹ جاری کیاگیا ہے۔ اسی طرح 25روپے ۔دو، اڑھائی ،تین اورساڑھے سات سوروپے کے کرنسی نوٹ بھی جاری کئے جائیں۔ایک ہزار پانچ سو، دوہزار روپے کے کرنسی نوٹ بھی جاری کیے جائیں۔

اس سے پہلے جب راقم الحروف نے کرنسی نوٹوں کی تبدیلی پرلکھا تھا اس وقت بھی یہ لکھا تھا اب بھی لکھ رہاہے کہ اسلامی ممالک کی اپنی مشترکہ کرنسی بھی ہونی چاہیے ۔اس کرنسی کانام راقم الحروف نے اس کرنسی کانام ’’تجاریہ‘‘ تجویزکیاتھا ۔موجودہ حکومت بھی اس سلسلہ میں اقدامات کرسکتی ہے۔ اوآئی سی کے آئندہ اجلاس میں بھی یہ معاملہ سامنے رکھاجاسکتا ہے اوراس کے لیے اسلامی ممالک کے وزرائے خزانہ اوربینک مالکان اورمنیجرز کے اجلاس بھی بلائے جاسکتے ہیں۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 352955 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.