مسکراہٹ زیر لب / سنہرے راز/ شعری مجموے شاعر: صدیق رازؔ
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
مسکراہٹ زیر لب / سنہرے راز/ شعری مجموے شاعر: صدیق رازؔ تقریب رونمائی منعقدہ 24اگست2024ء، بمقام وی ٹرسٹ، گلشن اقبال ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
|
|
مسکراہٹ زیر لب / سنہرے راز/ شعری مجموے شاعر: صدیق رازؔ تقریب رونمائی منعقدہ 24اگست2024ء، بمقام وی ٹرسٹ، گلشن اقبال ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ادارہ علم دوست کی جانب سے معروف شاعر جناب صدیق رازؔ کے دو شعری مجموعے”مسکراہٹ زیر لب‘اور سنہرے راز“کی تقریب رونمائی منعقد کرنے پر دل کی گہرئیوں سے مبارک باد۔ میرے لیے نہ تو شاعر محترم صدیق راز صاحب اجنبی ہیں نہ ہی ادارہ علم دوست۔ ادارہ علم دوست کے بانی جناب شبیر ابن عادل جو اپنی بیماری کے باعث تقاریب میں تو شریک نہیں ہوپاتے لیکن وہ اپنی شدید بیماری میں بھی اس ادارہ کے لیے عملی طور پر مصروف کار رہتے ہیں۔ اسی ہفتہ ان کی جانب ادارہ علم دوست کی جانب سے جاری ہونے والا ادبی جریدہ ”علم دوست“ اس تحریر کے ساتھ موصول ہوا کہ میں اس خاص شمارہ پر اپنی رائے کا اظہار کروں۔ اگست جشن آزادی کا مہینہ ہے،14اگست1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اسی مناسبت سے علم دوست کا یہ شمارہ خاص شمارہ ہے۔ اس شمارہ سے شبیر ابن عادل کی اس ادارے سے محبت اور ان کی کاوشوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ راز صاحب کے شعری مجموعوں پر کچھ کہنے سے قبل ا ن کی شخصیت کے بارے میں مختصر کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ راز ؔ صاحب کی آبائی نسبت جے پور،بھارت کے صوبے راجستھان کا شہرجے پور ہے جب کہ میری نسبت بھی راجستھان کے شہر ’بیکانیر سے ہے‘ اس طرح ہم دونوں راجپوت ہوئے۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرکیا، میں نے بھی جامعہ کراچی سے پہلے سیاسیات میں ماسٹر کیا، بعد میں سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی۔راز صاحب قانون کی ڈگری ایل ایل ایم سے آراستہ ہونے اور سرکاری ملازمت کے بعدقانون کے پیشہ سے وابستہ ہوگئے، اب یہ ادبی محفلوں میں بھی کالے کوٹ میں ہی دکھائی دیتے ہیں، مجلسی طبیعت پائی ہے مختلف علمی و ادبی تنظیموں سے وابسطہ ہیں۔ ادبی ذوق کے مالک ہیں ’نہیں راز کوئی راز‘ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا اس سے قبل بنیادی انسانی حقوق پر انگزیری میں ایک مقالہ بھی تخلیق کر چکے ہیں۔ پیس نظر دونوں مجموعے’مسکراہٹ زیر لب‘اور’سنہرے رازؔ‘ کی تقریب رونمائی ہے۔ مجھے سنہرے راز پر دیباچہ لکھنے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔ رازؔ صاحب کا ”مسکراہٹ زیر لب“ مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کا مجموعہ ہے تاہم اس میں سنجیدہ شاعری بھی کہیں کہیں موجود ہے۔ ایک شعر دیکھئے ؎ بھاؤ مت پوچھئے ہمارا ہم بڑے انمول ہیں مال اچھا ہو تو مطلب ہے نہیں کچھ دام سے راز صاحب نے شاعری کی تمام معروف اصناف میں اپنے ذہن و فکر کی جودت دکھائی ہے۔ عمدہ شعر کہے، اچھی غزلیں، منظومات، مناقب، مزاحیہ کلام بھی ان کی بیاض میں شامل ہے۔ حمد ِباری تعالیٰ کے حوالے سے ایک شعر جس میں شاعر موصوف نے اپنے تخلص کے ساتھ راز کا خوبصورت استعمال کیاہے۔ راز کے سب راز رکھنا روز محشر اے خدا! اپنی بخشش کے لیے کرتا ہوں تجھ سے التجا عشقِ مصطفی ﷺکا اظہار کس خوبصورت انداز سے کیا ہے۔ امام انبیاہے جو، میرا وہ رسول ہے عشق مصطفی نہ ہوتو زندگی فضول ہے راز صاحب کی چند مناقب بھی شامل مجموعہ ہیں۔ چاروں خلفائے راشدین حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے شان اقدس میں مناقب، شہداکربلاحضرت امام حسین ؓ کی شان میں منظوم خراج عقیدت۔ پیارے نبیﷺ کی آنکھ کا تارا حسین ؓ ہے گلزار دین کو جس نے نکھارا حسین ؓ ہے منظومات میں شخصیات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے جیسے بابائے اردو مولوی عبد الحق، اعجاز رحمانی، اکبر الہٰ آبادی، بہادر یار جنگ، دلیپ کمار۔ دیگر موضوعات میں شہر کراچی پر ایک نظم، سیاسی کارستانیاں شامل ہیں۔ دیس کے حالات پر نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ وطن پہ دور بہاراں اگر چہ طاری ہے مگر نہ جانے چمن پھول سے کیوں عاری ہے بابائے اردو مولوی عبد الحق کے حوالے سے نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ بڑی شان کے تھے وہ رہبر ہمارے جہاں ادب کے تھے روشن ستارے سیاسی کارستانیاں کے عنوان سے ایک نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ ہم نے سوچا تھا کہ حالات سدھر جائیں مگر ہم نے جب حال کو دیکھا تو وہ بد تر نکلا شہر کراچی کے حوالے سے ایک نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ ہم تو باسی ہیں کراچی کے ہمارا کیا ہے؟ اس کو اس حال میں پہنچایا تمہارا کیا ہے؟ اکبر الہٰ آبادی کی یاد میں ایک نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ ہم ذرا ان کے خیالوں کو اگر اپنا ئیں گے ہے یقین کہ رازؔ اس کا پھر ثمر پائیں گے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو خراج تحسین اپنی نظم میں پیش کیا اس کا ایک شعر دیکھئے ؎ جدوجہد یہ کس کی بڑی بے خطیر ہے جو محسن وطن ہے وہ عبد القدیر ہے بجٹ کے حوالے سے ایک نمکین غزل کا شعر: ایسا بجٹ تو آتا رہا تھا ہر ایک سال سب کو پتہ ہے ان سے بنایا ہے کس نے مال نمکین غزل کا ایک شعر دیکھئے ؎ پر سکون تھاہاضمہ میرا ترے جانے کے بعد مجھ کو بدہضمی ستاتی ہے ترے آنے کے بعد صدیق راز کے شعر مجموعے مسکراہٹ زیر لب کا ایک شعر در حقیقت زیر لب مسکرانے پر مجبور کرتا ہے۔ نہ جا نے کیسے پتہ چل گیا یہ زوجہ کو تو اُس نے چمٹ و بیلن سے پذیرائی کی صدیق رازؔ کے کلام میں سادگی ہے، خلوص ہے، صداقت کا عنصر نمایاں ہے۔ انہوں نے شاعری کے فنی رموز کو درست انداز سے استعمال کیا ہے۔ وہ اپنی تمام تر شعری صلاحیتیں شعر کو ظاہری حُسن و خوبی سے مزین کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ رازؔ صاحب کی شاعری اور ان کا اسلوب عام فہم اور سادہ ہے۔ در حقیقت راز سچائی کا شاعر ہے۔ ان کے اشعار میں رکھ رکھاؤ اور نظم و ضبط صاف ظاہر ہے۔ بقول انصاری صاحب ”صدیق راز کی شخصیت اور شاعری بھی سادہ ٹھندے پانی کی طرح سادہ و تسکین آمیز اور فرحت بخش ہے“۔ مسلم شمیم (ایڈوکیٹ) کا کہنا ہے کہ ”شاعری کے عمومی تقاضوں کی پاسداری کی گئی ہے۔ ان کی شاعری میں سچائی اور سادگی پائی جاتی ہے۔ غزلیات اور منظومات میں جو دلکشی اور حسن ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔چند اشعار اُن سے ملنے کے لیے خود میں چلاجاؤں گا میرے دُشمن جو میرے قد کے برابر ہوں گے وہ تو عادی ہیں ہمیشہ ہی جفا کرتے ہیں اور ہم ہیں کہ مسلسل ہی وفا کرتے ہیں صدیق رازسیدھے سادھے انسان ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی سادگی ہے، تصنح اور بناوٹ سے پاک ہے۔ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں آسان الفاظ میں کہہ دیتے ہیں۔ شاعری کے جملہ رموز سے آگاہ اور انہیں استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ آخرمیں صدیق رازؔ صاحب کے لیے دعائیں۔ وہ اسی طرح شاعری کرتے رہیں اور علم و ادب کی خدمت میں مصروف رہیں۔ (24اگست 2024ء)
|