بسم اﷲ الرحمان الرحیم
کچھ دن قبل میری لائبیریری میں کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ کا اضافہ ہوا۔ نیٹ پر
آج کے دور کے ایک ماہر علم کلام نے ا پنی ویڈیو میں اس کتاب میں سے حضرت
علی ؓ کی شیخینؓ کے بارے میں کچھ پھول جیسی باتیں بیان کیں۔ کیوں کہ ہم
مشترکات ڈھونڈتے رہے ہیں۔ تحریک محنت کے مکتبے میں ارشد ملک صاحب کو فون
کیا کہ نہج البلاغہ پہنچا دیں۔شام تک میرے پاس یہ کتاب پہنچ گئی۔یہ کتاب
عربی میں لکھی گئی جو ۴۰۰ھ میں اختتام کو پہنچی۔ اس کے مولف علامہ رضی
شریفؒ ہیں، جن کا مکمل نام محمدبن حسین الرضیؒ ہے۔اُردو مترجم علامہ مفتی
جعفرحسینؒ ہیں۔ اس میں حضرت علیؓ سے منسوب۲۳۸ خطبات پہلی جلدمیں،۷۹ مکتوب
دوسری جلد میں، کتاب کے آخری حصے میں حضرت علیؓ سے ۲۶۰ سوالات کے جوابات ،
آگے مرتب کے مطابق۹ عدد حضرت علیؓ کے مشکل و دقیق تحریریں ہیں جو محتاجِ
تشریح ہیں ، کتاب کے آخر میں ۲۶۱سے ۴۸۰ تک شاید باقی رہ جانے والے سوالات
کو درج کیا ہے۔ اس کتاب کے۷۳۵صٖفحات ہیں۔ میری لائبریری میں نئی آنے والی
پسندیدہ کتاب پر تبصرہ کرنا میرا معمول ہے۔ لہٰذا، اس کتاب پر ابلاغ عامہ
کے لیے تبصرہ لکھا ہے۔
خلیفہ راشد چہارم حضرت علی ؓ کے فرمودات سو فی صد درست ہیں۔مرتب کرنے والے
علامہ رضیؒ فصاحت و بلاغت، شاعر اور ادیب ہیں۔ہمارے نزیک اگر ہمارے خلیفہ
راشد حضرت علیؓ کی شان میں، محبت میں کسی نے کچھ اپنی طرف سے تعریفی کلمات
لکھ دیے ہیں، تو اس کو مخالف کی طرف سے بیان ہونے پر رد کرنے کی بجائے در
گزر سے کام لینا چاہیے۔ کچھ نے کہ یہ علامہ رضیؒ کا کلام کہا ہے۔ حتہ کہ
ایرانی انقلابیوں نے بھی اپنے ماہوار رسالہ’’فجر‘‘ کے شمارہ نمبر۱۷؍ صفر
۱۴۰۵ھ میں مرتضیٰ مطاہری نے ایک مضمون’’نہج البلاغہ۔ ایک حیرت انگیز
کتاب‘‘میں فرماتے ہیں’’ سیدشریف نے آج سے کوئی ایک ہزار سال پہلے انتخاب
کیا اور زمانہ اس کتاب کو قصہ پارنیہ نہیں بنا سکا‘‘آگے فرماتے ہیں’’ کسی
تاریخی کتاب یا مجموعہ احا یث میں سب سے پہلے اس کی سند اور حوالہ ہونا
ضروری ہے۔ ورنہ وہ معتبر نہیں ہوتی۔لیکن ایک ادبی کتاب کی اہمیت اس کی
شیرنی اور لطافت میں ہے‘‘ صفحہ ۸۔۹۔
سید مودودیؒ کے مطابق خلافت راشدہ کا دور روشنی کا مینار تھا۔ جس کی طرف
بعد کے تمام ادوار میں فقہاء و محدثین اور عام دیندار مسلمان ہمیشہ دیکھتے
رہے۔ اسی کو اسلام کے مذہبی، سیاسی، اخلاقی اور اجتحماہی نظام کے معاملہ
معیار سمجھتے رہے۔حوالہ کتاب خلافت و ملکیت صفحہ،۱۰۲۔
مترجم ،مفتی جعفر حسین ’’حرف اوّل‘‘ میں کتاب کے بارے فرماتے ہیں۔’’ اسلام
تعلیمات کا الہای صحیفہ، حکمت و اخلاق کا سرچشمہ اور معارفِ ایمان و حقائق
تاریخ کا ایک نمونہ ہے‘‘ گزارش ہے کہ الہای صحیفے تو حضرت جبرائیلؓ اﷲ کی
طرف سے اﷲ کے پیغمبروںؑ تک لاتے تھے، یہ تعلیمات کیسے الہای ہو گئی؟ جبکہ
حضرت علیؓ پیغمبر نہیں تھے۔ شیخین ؓ کے بارے میں فرماتے ہیں’’رہی خلفاء کی
نثرتواس فطری حسن اور اگر کہیں بغیر تیاری کے کھڑے ہو گئے تو ذہن میں قفل
پڑھ گئے زبان لڑکھڑانے لگی اور منہ سے ایک لفظ نہ نکال سکے‘‘۔ یہ باتیں
راقم کی سمجھ میں نہیں آئیں۔ دنیا میں بائیس ہزار مربع میل پر پھیلی حکومت
چلانے والے شیخینؓ، اتنے بے علم نہیں تھے جو مفتی جعفر حسین لکھ رہے ہیں؟
اس پر احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنے چاہیے تھا۔اس کتاب پر اعتراض کہ علامہ
سید رضی شریف ؒکا کلام ہے پر کہا! یہ خطبات پہلے سے موجود چلے آ رہے تھے۔
ایسا نہیں کہ جیسا مشہور ہے کہ شیخ ابو علی سینا نے فارابی کے تمام مصنفات
کو کسی شخص سے حاصل کر کے اُنہیں تلف کر دیا اور ان چیزوں کو اپنی طرف
منسوب کر لیا۔ ایک اور بات کہ یہ کتاب سلطنت عباسیہ کے دور میں ترتیب دی
گئی، جو اہل سنت کاعلمی مرکز تھا۔اس پر اس وقت علماء میں سے کسی نے بھی
اعتراض نہیں کیا۔ یہ بات صحیح ہے۔ مخالفت کرنے والے ابن خلکان کے اظہا ر
تذبذب اور ذہبی کی جسارت انکار کے سامنے ۲۱ علماء کی تاہیدی تحریں لکھیں،
جنہوں نے کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘کو حضرت علیؓ خلیفہ راشدچہارم کاکلام مانا
ہے۔(صفحہ۳۶ تا۴۶)۔
پہلے خطبے میں زمین ،آسمان آدم ؑکے بارے ہے۔ باقی خطبات اور امراء کے نام
خطوط سے اہل علم کو رہنمائی ملتی ہے۔ دوم خطبہ کی تشریح میں امامت و خلافت
کا ذکر کیا گیا، جو ہماری تاریخ سے لگا نہیں کھاتا۔ خطبہ سوم شقیقہ کے نام
سے ہے۔ اس کی تشریح میں شیخیںؓ کے بارے، عمروبن بحرجا حظ کی تحریر کے یہ’’
وہ دونوں گذر گئے اورتیسرا کوے کی مانداُٹھ کھڑا ہوا۔ جس کی ہمتیں پیٹ
محدود تھیں۔ کاش اس کے دونوں پر کتر دیے ہوتے اور سر کاٹ دیا جاتا تو یہ اس
کے لیے بہتر ہوتا‘‘خلیفہ راشد سوم حضرت عثمان ؓکی شان میں یہ الفاظ درست
نہیں۔ دنیا جانتی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اُس وقت کی دو سپر طاقتوں،روم
اور فارس کو ایمان کی طاقت سے شکست فاش دے کردین اسلام کو ساری دنیا تک
پہنچایا تھا۔ یہ الفاظ اگر درست مان لیے جائیں تو مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ
جو اِن حضرات کی چار براعظموں پر قائم اسلامی سلطنت ہی مشکوک بن جائے گی؟
شیخینؓ کے لیے رسولؐ اﷲ کے فرمادات یہ ہیں:۔ بخاری میں ہے رسولؐ اﷲ اُحد پر
چھڑے۔ آپؐ کے ساتھ ابوبکرؓ، عمر ؓ، عثمانؓ آئے تھے۔ پہاڑ پر زلزلہ آیا۔ آپؐ
نے فرمایا اُحد ٹھہر جاؤ، تجھ پر ایک نبیؐ ایک صدیقؓ، ایک دو شہید موجود
ہیں۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرؓ کے لیے رسولؐ اﷲ نے فرمایا تھا کہ جس جس نے
اﷲ کے دین کو قائم کرنے میں میری مدد کی،میں نے اس کو دنیا میں ہی بدلہ دے
دیا ہے مگرابو بکر ؓ ایسے شخص ہیں جن کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔خلافت ابو
بکرؓ کے بارے حضرت علی خلیفہ راشدؓ نے فرمایا:۔ابو سفیانؓ نے حضرت علیؓ کے
سامنے جب ابوبکر ؓکی خلافت کی مخالفت کی، تو آپ نے فرمایا’’ہم ابو بکر ؓ کو
خلافت کا اہل سمجھتے ہیں اگر وہ اہل نے ہوتے تو ہم لوگ کبھی بھی انہیں منصب
پر مامور نہ ہونے دیتے۔حوالہ کنزالعمال:ج،۵ص۲۳۷۴۔الطبری،ج،۲ ص۴۴۹۔ ابن
عبدالبرّ، الاتیصاب،ج ۲، ص ۶۸۹۔
خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کو رسولؐ اﷲ سے دعا کر کے مانگا تھا۔ رسولؐ اﷲ نے حضرت
عمر فاروقؓ کو اپنا وزیر بنا لیا تھا۔ بخاری و مسلم میں سعد بن ابو وقاصؓ
کی روایت ہے۔ رسولؐ اﷲ نے فرمایا’’ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان
ہے جس راستہ پر شیطان تجھے چلتا دیکھ لے گا اُسے چھوڑ کر دوسرے راہ ہو جائے
گا۔ترمذی میں عقبہ بن عامرؓ کی روایت ہے۔ رسولؐ اﷲ نے فرمایا’’ اگر میرے
بعد کوئی نبی ہونا ہوتا، تو عمرؓ ہوتا۔ قرآن کی کئی آیت حضرت عمرؓ کی سوچ
کے مطابق نازل ہوئیں۔
خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ نے جنگ تبوک کے موقع پر کثیر تعداد اونٹ جو ما ل سے
لدھے ہوئے تھے رسول ؐ اﷲ کو پیش کیے۔اُنہیں’’ جس کی ہمتیں پیٹ تک محدود
تھیں‘‘ کہنانامناسب ہے۔ جنگ تبوک کے موقعے پرایک تہائی لشکر کے اخراجات بھی
برداشت کیے ۔ رسول ؐ اﷲ کی دو بیٹیوں کا نکاح حضرت عثمان ؓ سے ہوا۔
خود خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کابیان ہے۔ان کی امارت کے دوران جب کوفہ کے
لوگوں نے شکایت کے اندازمیں کہا !کیا بات ہے؟ خلیفہؓ مسلمین آپ کے دور میں
سکون نہیں جیسے آپ سے پہلے خلفاء ؓکے دور میں تھا تو آپ نے ان سے فرمایا
’’میں ان کا مشیر تھا اور تم میرے مشیر ہو‘‘۔
علامہ رضیؒنے کتاب’’نہج البلاغہ‘‘ میں اپنی موافقت کا مواد جمع کیا ہے۔یہ
کسی غیر جانبدارشخص کی طرف سے لکھی ہوتی تو اس مسئلہ کو سمجھنے میں اختلاف
نہ ہوتا۔ پھر بھی ہمیشہ مشترکات کو زیر بحث لانا چاہیے۔ اختلافی امور سے
پرہیز ہی بہتر ہے۔اس کتاب میں حضرت علیؓ کے دور خلافت کے دوران کی باتیں،
مسلمانوں کے رہنمائی مہیا کرتی ہے۔ مسلمانوں کے اختلافات کے دور میں حضرت
علی ؓ خلیفہ راشد کا رویہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اب دنیا تیزی سے
بڑھ رہی ہے۔ جب افغانستان اور دوسرے اسلامی ملکوں پر یہود و نصارا نے حملے
کئے تو یہ نہیں دیکھا کہ کون کس فرقے کا ہے۔ کون سنی ہے کون شیعہ ہے۔ اس نے
مسلم سمجھ کر ہمیں طے تیغ کیا۔ ہم کیوں اپنے آپ کو فرقوں میں بانٹتے ہیں۔
شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
راقم مشترکات تلاش کرتا رہتاہے۔ اسی لیے کتاب’’نہج البلاغہ‘‘ کو اپنی
لابئریری کی شان بنایا۔اس پر اپنی بسات کے مطابق تبصرہ لکھا ہے۔’’ سرمہ
میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف‘‘ کا سلوگن دینے والے علامہ اقبالؒ اﷲ تیری
قبر کو نور سے بھر دے۔ تم نے بھی ساری شاعری میں مسلمانوں کو یکجان کرنے کے
لیے جان کھپا دی۔کیا خوب کہا کہ:۔
بتاں، رنگ و خوں توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی،نہ ایرانی نہ افغانی
امام انقلاب خمینی ؒکا فتویٰ موجود ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت عائشہؓ
کی شان میں گستاخی نہ کی جائے۔جب ایرانی انقلا ب آیا تھا تو خمینیؒ نے
پاکستان میں اپنے نمایدے کسی شیعہ کے پاس بھیجنے کے بجائے جماعت اسلامی کے
پاس بھیجے تھے۔ ہم نے پورے پاکستان میں ایرانی انقلاب کو متعارف کرایا تھا۔
ایرانی سفارت خانے نے راقم نے فلسطین اور مسجد اقصیٰ قبلہ اوّل پر مضمامین
لکھنے پر تعریفی سر ٹیفکیٹ بھی عنایت کیا۔گزرے واقعات تاریخ کا حصہ بن گئے
ہیں۔کیا کوئی اُنہیں واپس لا سکتا ہے؟ نہیں ! ہمارے آباؤ اجداد نے دنیا پر
۱۲۰۰۰ سال شاندار طریقے سے حکمرانی کی ہے۔ وہ سنی تھے نہ شیعہ تھے۔ وہ کفار
کے سامنے اپنا تعارف مسلمان کی حیثیت سے کراتے تھے۔ وہ تاریخ کا حصہ بن
گئے۔ مسلمانوں کو آگے بڑھنے کاسوچنا چاہیے۔ آج بھی فلسطینی مظلوم بچے
،عورتیں ، بوڑھے اورمسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اوّل مسلمانوں کو پکار
پکار کر کہہ رہی ہے ، مسلمانوں یک جان ہو کر فلسطین کو بچاؤ۔ انبیاء کی
سرزمین فلسطین ، میں جلیل القدر انبیاء دفن ہیں۔ یہود ،و نصارا اسے قبضے
میں رکھ کر مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ کیا کسی مسلمان بستی کو دشمن
ظلم سے ختم کر رہا ہوں تو مسلمانوں پر جہاد فرض نہیں ہو جاتا؟ فرقہ بندی کو
چھوڑ کر اپنے اپنے ملکوں میں سوئے ہوئے بزدل حکمرانوں پر دباؤ ڈالو کہ وہ
فلسطین کی عملی مدد کریں ۔ پورا مغرب ،امریکا حتہ کہ بھارت بھی اعلانیہ
اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں ۔کیا مسلمان حکمران کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ
فلسطینیوں کی مدد کریں؟۔ اگر مسلمان حکمران فلسطین مظلوموں کی مدد نہیں
کریں گے تو قیامت کے دن اﷲ کو کیا جواب دیں گے؟ اﷲ مسلمانوں میں اتحاد اور
فلسطین کو آزادی نصیب فرمائے۔ آمین۔
|