بخشو (سلیم فاروقی) کی رخصتی

کراچی کے معروف افسانہ نگار کہانی کار ، حلقہ احباب ذوق، گلشن معمار کے روح رواں سلیم فاروقی امریکہ منتقل ہو رہے ہیں۔ نیشنل فورم +ف تھنکر گلشن معمار کے سیکریٹری جنرل پروفیسر خواجہ قمر الحسن صاحب نے سلیم فاوقی کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا احتمام کیا، صدارت جناب رضوان صدیقی نے کی ، راقم نے مہمان خصوسی کی حیثیت سے حسب ذیل تحریر پیش کی۔ سلیم فاروقی نے بخشو کے نام سے ایک کردار تخلیق کیا ہوا ہے جس کے حوالے سے وہ اکثر لکھتے رہتے ہیں۔ مزاح نگار ،
بخشو (سلیم فاروقی) کی رخصتی
٭
پروفیسر ڈاکٹر رئیس صمدانی
(تقریب منعقدہ 25اگست2024 ء برمکان جناب پروفیسر خواجہ قمر الحسن، گلشن معمار)
نیشنل فورم آف تھنکرز، گلشن معمارکے روح رواں آج کی تقریب کے میزبان پروفیسر خواجہ قمر الحسن صاحب، صدر مجلس، سلیم فاروقی صاحب، حلقہ احباب ذوق، گلشن معمار کے احباب ِ گرامی !
پروفیسر خواجہ قمر الحسن صاحب نے آج ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم اپنے دوست، ساتھی سلیم فاروقی جو وطن عزیز سے رخصت ہوکر گوروں کے ملک میں ڈیرے ڈالنے جارہے ہیں کو رخصت کرنے کے لیے جمع ہوں۔ اس وقت ہم جن کیفیتوں سے گزر رہے ہیں انہیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا اظہار اور اسے زبان دینا ایک مشکل امر ہے۔ تاہم کوشش کی ہے کہ اس کیفیت کو الفاظ میں بیان کرسکوں۔
امجد اسلام امجد کی ایک ’نظم ’الوداع‘ کے ابتدائی چند اشعار ؎
کسی کو الوداع کہنا
بہت تکلیف دیتا ہے
امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
دکھائی کچھ نہیں دیتا،سجائی کچھ نہیں دیتا
دعا کے لفظ ہونٹوں پر مسلسل کپکپاتے ہیں
گماں کچھ ایسے ہوتا ہے
کہ جیسے مل نہ پائیں گے
انسان کی زندگی میں دو چیزیں لازم و ملزوم ہوا کرتی ہیں۔ان میں خوشی اور غمی، دکھ اور سکھ، اچھائی اور برائی، زندگی اور موت،ہنسنا اور رونا، دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت۔ جب بے شمار خوبیوں کے حامل اپنے کسی عزیز دوست کو رخصت کرنا پڑرہا ہو تو اس صورت میں کسی ایک چیز پر گفتگو ممکن نہیں،یہی صورت حال سلیم فاروقی صاحب کی وطن اول سے وطن ثانی رخصتی پر بھی ہے یعنی خوشی بھی ہے اور اندر سے دل دکھی بھی۔باوجود اس کے کہ جدید ترقی نے فاصلوں کو مٹا دیا ہے، ملاقاتوں کی اب وہ صورت نہیں رہی، جدیک ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔اب ہم دنیا کے کسی بھی ملک میں میں مقیم اپنے کسی بھی عزیز، رشتہ دار اور دوست سے اسے دیکھتے اور اپنے آپ کو اُسے دکھاتے ہوئے جب چاہے اور جتنی دیر چاہیں محو گفتگو رہ سکتے ہیں۔ اب انٹر نیٹ کی مختلف ایپس پر گھر بیٹے ادبی تقریبات، کانفرنسیز میں شرکت عام سے بات ہوگئی ہے۔اس طریقہ کار سے ہم گھر بیٹھے دوستوں سے ملاقات، اپنے خیالات دوسروں تک آسانی سے پہنچاتے اور دوسروں کے خیالات سے آگاہی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود جو بات وطن عزیز میں رہتے ہوئے آمنے سامنے ملاقات میں ہے وہ انٹر نیٹ پر ہونے والی ملاقاتوں اور گفتگو میں کہاں۔آج کل تو موبائل پر گفتگوانتہائی محطاط بشیر بدر کا ہی ایک شعر ؎
تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستا ئے گا
حلقہ احباب ذوق، گلشن معمار کی ادبی سرگرمیوں اور سلیم فارقی کے ان میں کردار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ احساس یقینا ہر ایک کے دل میں ضرور آئے گا کہ اب ان محفلوں کا کیا ہوگا۔ کون ہمیں پیار سے،محبت سے تقریب میں شرکت کی دعوت دے گا۔ بخشو کی محبت مسلمہ ہے لیکن دنیا قائم و دائم رہنے کے لیے بنی ہے اور قائم و دائم رہے گے۔ ان شاء اللہ یہ محفلیں اسی طرح سجتی سنورتی رہیں گی، لیکن ان محفلوں کی جان وطن عزیز کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جا چکی ہوں گی۔عبید اللہ علیم کا شعر ؎
آنکھ سے دور سہی دل سے کہا جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا
ہم تو جانے والے کو ہر صورت یاد کریں گے۔سلیم فاروقی صاحب بھی یقینا اس محفل کے ساتھیوں کو یاد رکھیں گے۔ بخشو جی آپ ضرور جائیں بھلا آپ کو کون روک سکتا ہے۔ جلیل مانک پوری کا شعر آپ کی نذر ہے ؎
جاتے ہو خدا حافظ ہاں اتنی گزارش ہے
جب یاد ہم آجائیں ملنے کی دعا کرنا
سلیم فاروقی کی چاہت اور محبت کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ وہ مجھے جب بھی کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دیا کرتے تو ان کے انداز میں شیرینی، لہجے میں اپنائیت اور احترام ہوا کرتا۔ میں نے ناچاہتے ہوئے بھی انہیں کبھی انکار نہیں کیا۔ اب کون اس چاہت سے بلائے گااور ہم اتنا طویل سفر طے کر کے یہاں آئیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ میں سلیم فاروقی کی محبت کا ممنون ہوں۔ بشیر بدر کا شعر ؎
اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
مگر تمہاری طرح کون مجھ کو چاہے گا
بخشو سے کب اور کہا پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، یاد پڑتا ہے کہ ایک ادبی و شعری محفل جو کے ایم سی آفیسرزکلب میں منعقد تھی نہیں معلوم یہ کس ادارے کی جانب سے ترتیب دی گئی تھی، سلیم فاروقی اس کی میزبانی کر رہے تھے اور میں اس میں ایک اجنی کی حیثیت سے شریک تھا۔ پھرمیں حلقہ احباب ذوق، گلشن معمار کے تحت شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی میں منعقدہونے والی ادبی سرگرمیوں کا حصہ بن گیا، یہاں مجھے کسی نہ کسی حیثیت سے متعدد ادبی نشستوں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہاں جو عزت و احترام حلقہ احباب ذوق کے تمام ہی احباب کی جانب سے ملا وہ میری علمی و ادبی ذندگی کا قیمتی سرمایا ہے۔ سلیم فاروقی اور ان کے بھائی تسنیم فاروقی صاحب شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی کی صورت میں جس پودے کی آبیاری کر رہے ہیں، دعا ہے کہ علم وادب کایہ پودہ ہمیشہ ہرا بھرا رہے، پروان چڑھے، ترقی کرے، آمین آخر میں تقریب کے منتظم پروفیسر خواجہ قمر الحسن صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے اپنے دولت خانہ پر خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا۔ آخر میں منظر لکھنوی کا ایک شعر سلیم فاروقی صاحب کے لیے ؎
جانے والے جا خدا حافظ مگریہ سوچ لے
کچھ سے کچھ ہوجائے گی دیوانگی تیرے بغیر
(25اگست 2024ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 860 Articles with 1394088 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More