افراد کی طرح اقوام میں بھی بلیم
گیم (Blame Game)تعلقات کی خرابی کا اہم محرک ثابت ہوتا ہے ، اور یہ
صورتحال عموماً اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک ریاست ناحق پر ہوتے ہو ئے بھی
اپنے آپ کو حق پر سمجھتی ہے اور دوسری ریاست کو موردالز ام ٹھہراتی ہے کہ
اس میں جہاں اس ریاست کے اپنے عناصر کارفرما ہوتے ہیں وہیں غیر ریاستی
عناصر کے ساتھ ساتھ بیرونی طاقتیں بھی حالات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا
کرتی ہیں اور یوں ریاستوں کے درمیان بد گمانیاں فروغ پاتی ہیں ۔
پاکستان ،افغانستان اور امریکا کے درمیان جو حالیہ سرد مہری دیکھنے میں آئی
ہے اس کی اہم وجہ یہی الزامات ہیں ،امریکی افواج کے سابق سربراہ ایڈمرل
مائیک مولن نے اپنی سبکدوشی سے قبل سینٹ میں جو دستاویزات پیش کیں اس میں
الزامات لگایا گیا کہ حقانی نیٹ ورک آئی ایس آئی کا بازو ہے اور افغانستان
میں اتحادی افواج کے خلاف یہی نیٹ ورک سرگرم ہے ،لہذا امریکا شمالی
وزیرستان میں آپریشن کرے اس سلسلے میں امریکی میڈیا نے تو یہاں تک کہہ دیا
کہ شمالی وزیرستان میں ڈرون طیاروں سے آگے بڑھتے ہوئے بمبار طیاروں سے
کاروائی کرنی چاہیے۔ ایڈمرل مولن کے بیان پر پاکستان کی جانب سے بھی میڈیا
کے ذریعے ردعمل سامنے آیا اور وزیراعظم گیلانی اورو زیر خارجہ حنا ربانی
کھر کی جانب سے واشنگٹن کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں سے
آگاہ کیا گیا ،،،ا س سلسلے میں 29 ستمبر کو اسلام آباد میں کل جماعتی
کانفرنس کا انعقاد بھی ہوا جس میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے
مشترکہ حکمت عملی تیار کرکے جہاں حب الوطنی کا مظاہرہ کیا وہیں امریکا کو
یہ پیغام بھی دیا کہ وہ اپنے رو یئے پر غور کرے ۔
امریکا نے اے پی سی اعلامیہ کا اثر کیا لینا تھا بہرحال اسے پاکستان کی
اسٹرٹیجک اہمیت کا بخوبی احساس ہے جس کے جواب میں امر یکی صدر براک اوباما
نے قدرے دفاعی رویہ اپنایا ۔ سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن اور وزیر دفاع لیون
پینیٹا نے بھی صورتحال کی نزاکت کے تحت مولن کے بیان کو زیادہ اہمیت نہیں
دی لیکن ان رہنماؤں کی جانب سے دبے لفظوں میں بہرحال یہ بات ضرور سامنے آئی
کہ آئی ایس آئی کے بعض اہلکاروں کا حقانی نیٹ ورک سے تعلق ہے۔
واشنگٹن کے ذہن پر آج کل حقانی نیٹ ورک کا جو بھوت سوار ہے اس کے متعلق
ہلیری کلنٹن اعتراف کر چکی ہیں کہ اس نیٹ ورک کو خود امریکا نے اس وقت تیار
کیا تھا جب سوویت یونین نے افغانستا ن پر یلغار کی تھی اور اس وقت کی
امریکی انتظامیہ جلال الدین حقانی نیٹ ورک کو مکمل سپورٹ کرتی رہی اس سلسلے
میں یو ٹیوب پر جلال الدین حقانی کو امریکی صدر ریگن کے ساتھ پریس بریفنگ
کرتے ہوئے باآسانی دیکھا جا سکتا ہے ،، لیکن آج امریکا کل کے ہیرو کو زیرو
اور دہشت گرد بنانے پر تلا ہوا ہے ۔دوسری جانب اگر اس مفروضے کو مان بھی
لیا جائے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں اتحادی افواج پر حملے کر رہی ہے
تو یہ امریکا اور اس کے ساتھ شریک 48 ملکوں کی ناکامی ہے کہ غاصب طاقتیں
مٹھی بھر مجاہدین سے نمٹ نہیں سکتیں۔
بلیم گیم پالیٹکس کا ایک اور رخ افغانستان کی موجودہ قیادت کا رویہ بھی ہے
جو پاک امریکا کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے اسلام آباد کو برہان الدین
ربانی کے قتل کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے، اس سلسلے میں افغان وزیرداخلہ نے
طالبان کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں موجود طالبان شوریٰ نے
20 ستمبر کے واقعہ کا پلاٹ ترتیب دیا جس کی پاکستان نے تردید کی اسی طرح
افغان صدر حامد کرزئی نے 8 اکتوبر کو کابل میں ہونے والی سہ ملکی مذاکرات
کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کر دیا ، ساتھ میں پاکستانی وزیراعظم کو بھی کابل
کا دورہ منسوخ کرنے کا کہہ دیا ، اس طرح کی سفار ت کاری کا اسلام آباد نے
نہایت تحمل سے خاموش رہ کر جواب د یا ، اسی دوران کرزئی دو روزہ دورے پر
نئی دہلی چلے گئے جہاں انہوں نے یہ پیغام دیا کہ وہ افغانستان میں اسلام
آباد سے زیادہ نئی دہلی کے عمل دخل کے حامی ہیں ، ان کے الفاظ تھے کہ
پاکستان افغانستان کا جڑواں بھائی ہے جبکہ بھارت اس کا عظیم دوست ہے، یہ
وہی کرزئی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ترین سال کوئٹہ کے سٹلائیٹ
ٹاؤن میں گزارے لیکن آج وہ بلیم گیم کے اتنے زبردست کھلاڑی بن گئے ہیں کہ
دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کی بجائے دوریاں پیدا کرنے کا سبب بن
رہے ہیں جو بہرحال وقتی ثابت ہوں گے اور پاکستان اور افغانستان کے عوام
دوستی ،محبت اور اخوت کے جن اٹوٹ رشتوں میں بندھے ہیں وہی رشتے دونوں ملکوں
کے تعلقات کی اصل بنیاد ہے اور بلیم گیم کی پالیسی اسے ختم نہیں کر سکتی۔ |