میرے امام کی طلسماتی شخصیت

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

اِنہیں جانا اِنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
الحمد للہ میں دُنیا سے مسلمان گیا

لوگوں کی ایک کثیر تعداد اس شعر سے واقف ہوگی اور انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ یہ شعر کس کا ہے یہ شعر اس کرہ ارض پر دنیائے اسلام کی اس عظیم البرکت شخصیت جنہیں دنیا " امام اہلسنت مجدد دین و ملت اعلی حضرت مولانا سید شاہ احمد رضا خان فاضلِ بریلوی " علیہ الرحمہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے مجدد دین وملت مولانا شاہ احمد رضا خان قادری حنفی ماتریدی بریلوی علیہ الرحمہ عالم اسلام کی عظیم شخصیت اپنے تعارف کے لئے کسی قلم کی محتاج نہیں بلکہ ان کا علمی ورثہ، ہزاروں موضوعات پر تحریریں،علم کے ٹھوس ادلہ سے مزین رسائل، پیش آمدہ مسائل کے بارے میں قرآن وسنت،فقہائے امت کے ادلہ سے ماخوذ مستند فتاوی،تاریخ اسلامی کا انسائیکلوپیڈیا فتاوی رضویہ،عشق ومحبت سے لبریز عشاق دلفگار کےلئے نعتیہ کلام کا تحفہ، متلاشیاں حق کی تربیت کےلئے سلوک کےاسباق، جویان تحقیق کےلئے تحقیقی اصولوں پر مبنی نگارشات، کم وبیش پانچ سو ساٹھ علوم کے دریا بہاتے علم کے چشمے اعلی حضرت کی شخصیت کے کے تعارف ہیں ویسے مسلک اعلی حضرت پر چلنے اور قائم رہنے والے لوگوں کے لئے تو ہر وقت ہر لمحہ اور گھڑی اعلی حضرت کی تعلیم رہنمائی فرماتی ہے اور ذکر اعلی حضرت جاری رہتا ہے لیکن اسلامی سال کے دوسرے اور کئی اولیاء کرام سے نسبت رکھنے والے ماہ صفر المظفر میں دنیائے اسلام کے ہر اس گوشہ میں جہاں امام اہلسنت سے عقیدت رکھنے لوگ موجود ہیں وہاں وہاں آپ علیہ الرحمہ کا ذکر اپنے اپنے انداز میں ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اعلی حضرت جیسی عظیم البرکت شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا اور لکھنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم سورج کو چراغ دکھارہے ہو چھ سال کی عمر سے لیکر زندگی کے آخری سفر تک آپ علیہ الرحمہ کے قلم سے جو موتی بکھرنا شروع ہوئے ان کی کرنوں سے اپنے تو اپنے غیر بھی حیران و پریشاں ہوگئے یعنی ہزاروں موضوعات پر ہزاروں تصانیف اور ہر تصنیف میں موضوع کے اعتبار سے دلائل کے انبار تاجدار اہلسنت امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی یہ شان علمی ، شان فقاہت، فہم و فراست ،
عقل و دانش اورلا محدود تجربہ کے اپنے تو کجا غیر بھی معترف ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شوال المکرم کی 10 تاریخ بمطابق 14 جون 1856 برصغیر کی علمی آماجگاہ شہر بریلی میں آپ علیہ الرحمہ کی پیدائش ہوئی جبکہ 25 صفر 1340ھ مطابق 1921ء کو جمعہ کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38 منٹ پر عین اذان کے وقت ادھر موذن نے حی الفلاح کہا اور ادھر امام احمد رضا خان نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ احمد رضا خان کا مزار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا.اس کرہ ارض پر موجود شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر اس عظیم شخصیت کو عبور حاصل نہ ہو اس کے علاوہ امام اہلسنت کا یہ خاصہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے لوگوں نے آپ علیہ الرحمہ کی شخصیت پر لکھا لیکن ہر ایک کا لکھنا مختلف انداز میں نظر آتا ہے یعنی آپ علیہ الرحمہ کی شخصیت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں کہ جس نے جس انداز میں آپ علیہ الرحمہ کو سمجھا اسی پہلو سے اپنی قلم کا رخ موڑ دیا اور ہر تحریر کو پڑھ کر امام اہلسنت کی ایک نئی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام اہلسنت کے نام کے ساتھ متقی ، پرہیزگار ، مولانا ، صوفی ، عالم ، فاضل ، حافظ یا ایسے کوئی بھی القابات لگاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان الفاظ کے معنی اور تراجم کے مقابلہ میں آپ علیہ الرحمہ کی شخصیت بہت آگے ہے جیسے کہ آپ علیہ الرحمہ کے القابات میں سے ایک لقب " عظیم البرکت" بھی تھا جس کے معنی ہیں بہت زیادہ برکتوں والا اب آپ دیکھئے کہ امام اہلسنت پر بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکتوں کے نزول کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا یعنی کم عمری میں ہی عقل و دانش ، فہم و فراست ، تقوی و پرہیز گاری کی بیپناہ صلاحیتیں آپ علیہ الرحمہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردی گئی تھی جیسے صرف تیرا سال کی عمر میں پہلا فتویٰ جاری کرنے کی دنیائے اسلام میں کوئی نظیر نہیں ملتی اور اسی لئے بہت کچھ کہا جانے کے باوجود آپ علیہ الرحمہ کو اپنے وقت کا امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کہا جاتا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم جب بھی کسی معروف شخصیت کا ذکر خیر کرتے ہیں تو ان کی ابتدائی تعلیم اور ابتدائی حالات کا جائزہ بھی قلمبند کرتے ہیں لیکن امام اہلسنت کی ابتدائی زندگی ، حالات اور تعلیم کے حصول کے بارے میں کم و بیش ہر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور امام اہلسنت کو ماننے اور جاننے والا بخوبی جانتا اور پہچانتا ہوگا میری کوشش یہ ہے کہ میں آپ علیہ الرحمہ کی شخصیت کے کچھ منفرد پہلوئوں کو آپ کے سامنے رکھوں جو یا تو کسی کی آنکھوں یا سماعتوں سے نہ گزرا ہو یا کم گزرا ہو جیسے امام اہلسنت کا اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر مظبوط ایمان کی دلیل۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں غالباً یہ وہ موقع تھا جب امام اہلسنت دوسرے حج کی سعادت کے لئے اپنی والدہ کے ہمراہ پانی کے جہاز میں تشریف لے جارہے تھے جہاز اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہوا اور لبیک لبیک کی صدائیں فضاء میں گونج رہی تھیں جب رات کے پچھلے پہر کا وقت تھا تو اچانک اعلان ہوا کہ آگے ایک بڑے زبردست طوفان کا اندیشہ ہے لہذہ اپنے اپنے حفاظتی انتظامات کر لیں اور اللہ تعالی کے حضور دعا کیجئے یہ اعلان سنتے ہیں لوگوں میں بیچینی کی لہر دوڑ گئی اور ایک عجب سی بھگ دڑ مچ گئی ہر کوئی موت کو سامنے دیکھتے ہوئے پریشان دکھائی دے رہا تھا لیکن پورے جہاز میں ایک نوجوان اپنی والدہ کے ہمراہ بڑے آرام و سکون سے بیٹھا ہوا تھا اور وہ امام اہل سنت کی شخصیت تھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جہاز میں موجود سارے لوگ حیرت زدہ تھے کہ اس حالات میں بھی کہ جہاں افراتفری مچی ہوئی ہے اور لوگ پریشان ہیں وہاں یہ شخص بڑے سکون سے بیٹھا ہے ایسا کیوں ؟ جب کچھ لوگوں نے پوچھا تو میرے امام نے فرمایا کہ دیکھو اگر ہماری نصیب میں حج کی سعادت ہے تو کوئی طوفان ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اور اگر ہماری زندگی کا اختتام اسی دریا میں ڈوب کر لکھا جاچکا ہے تو پر سکون سفر میں بھی ہمارا جہاز ڈوب سکتا ہے لہذہ آرام اور سکون کے ساتھ سفر کریں اور اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کرتے رہیں ۔آپ علیہ الرحمہ کی بات سن کر لوگ حیران ہوگئے لیکن کچھ لوگ واقعی آرام سے بیٹھ گئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب رات گزر گئی اور صبح کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو لوگوں نے کہا کہ وہ طوفان کہاں گیا جہاز تو بڑے اطمینان کے ساتھ محو سفر ہے تو لوگوں نے جہاز کے کپتان سے پوچھا تو اس نے کہا کہ ہماری مشینیں یہ ہی بتا رہی تھی لیکن طوفان نہ جانے کہاں غائب ہوگیا تو لوگوں نے کہا کہ تم اور تمہاری مشینوں سے تو وہ نوجوان قابل ہے جس نے ہمیں رات کو سمجھا دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر اپنا ایمان مظبوط رکھو ان شاءاللہ کچھ بھی نہیں ہوگا یہ تھا میرے امام کا مظبوط ایمان ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے یہاں عام طور پر ایسے شخص کو جو باشرع ہو نمازی ہو تو لوگ اسے حاجی کہہ کر پکارتے ہیں وہ لوگ جو اس کے نام سے واقف نہیں ہوتے اب چاہے اس نے حج کی سعادت حاصل کی ہو یا نہیں لیکن قربان جائوں میں اپنے امام کے کہ لوگ آپ علیہ الرحمہ کی علمی قابلیت کو دیکھتے ہوئے حافظ کے لقب سے پکارتے تھے لیکن اس وقت آپ علیہ الرحمہ حافظ نہ تھے آپ علیہ الرحمہ کو بڑی شرمندگی ہوتی تھی کہ لوگ انہیں حافظ کہیں اور وہ حافظ نہیں تھے آپ علیہ الرحمہ نے سوچ لیا کہ مجھے قرآن حفظ کرنا ہوگا آپ علیہ الرحمہ کی علمی شان اور اللہ کی عطا دیکھئے کہ رمضان المبارک کی ابتدا تھی آپ علی الرحمہ عصر سے لیکر مغرب تک قرآن حفظ کرتے اور اس مختصر وقت میں پورا ایک سپارہ یاد کرلیتے اور رات کو تراویح کے مصلے
پر وہ سپارہ سنادیتے یوں رمضان المبارک کے تیس دنوں میں پورا قرآن حفظ کرکے لوگوں کو سنا بھی دیا یہ ہے میرے امام کی کرامت اور علمی شان ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام اہلسنت کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ آپ علیہ الرحمہ دنیا کے پہلے مسلمان سائنسدان مانے جاتے ہیں اور آپ علیہ الرحمہ کی ایجادات کا تذکرہ ایک بالکل الگ موضوع ہے جو بہت وسیع ہے یہاں اس کا خلاصہ کرنا ممکن نہیں لیکن چند ایجادات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں میرے امام اہلسنت نے صرف آٹھ سال کی عمر میں فن علم نحو کے موضوع پر مشہو زمانہ کتاب ’’ھدایۃ النحو ‘‘ کی شرح عربی زبان میں کرکے فن نحو کے علماکو ورطہ حیرت میں ڈالا بڑے بڑے سائنسدان حیرت زدہ تھے دراصل علم نحو وہ علم ہے جس سے کلمات کو جوڑنے کا طریقہ معلوم ہو، اور ہر کلمہ کے آخری حرف کا اعراب معلوم ہو۔ فائدہ اس علم کا یہ ہے کہ اس سے عربی زبان بولنے میں اور لکھنے میں غلطی کرنے سے آدمی محفوظ رہتا ہے۔ جو بات بھی آدمی کے منہ سے نکلے اور یہ کتاب دنیا کی بہترین IQ ظاہر کرنے والی پہلی کتاب تھی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میرے امام نے اپنی کتاب " نزول آیت فرقان بسکون زمین و آسمان" میں قرآنی آیات اور پھر سائنسی دلائل سے زمین کو ساکن ثابت کیا ہے اور جو سائنسدان یہ کہتے تھے کہ زمین گردش کرتی ہے ان کی اس دلیل کو رد فرمایا رد حرکت زمین پر مذید آپ علیہ الرحمہ کی تین کتابیں موجود ہیں ۔اسی طرح میرے امام پہلے مسلمان سائنسدان ہونے کے ناطے اپنی کتاب " الصمصام علی مشکک فی آیتہ علوم الارحام" میں پہلی مرتبہ 1886 میں الٹراسائونڈ کا فارمولہ پیش کیا ۔ میرے امام دنیا کے پہلے مسلمان سائنسدان تھے جنہوں نے طاعون ، جذام اور اس کے علاوہ میڈیکل ایمبریالوجی ، گیسٹروسئن ، ٹیسٹی نل ، اور فزیولوجی سے متعلق اپنی کتاب " مقامع الحدیث علی خذ المنطق الجدید" دلکش اسلوب میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں المختصر یہ کہ سائنسی علوم جن ہر آپ نے کتب تحریر فرمائی ان میں سے چند ایک فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی، میتھس، جیومیٹری ، لوگارتھم، ٹوپولوجی، سائکولوجی، پیراسائکولوجی، فونیٹکس، فونالوجی، اسٹرالوجی ، اسٹرا نومی، علم التوقیت، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یعنی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائچہ، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی لئے کیا گیا کہ امام اہلسنت مجدد دین و ملت حضرت مولانا شاہ احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ عالم اسلام کے اور خاص اہلسنت والجماعت کے لئے ایک معجزے سے کم نہ تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب کوئی شخص کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیتا ہے تو اپنے پیرو مرشد کی تعظیم و توقیر اور خدمت میں وقت گزارنا اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بروز محشر اپنے پیرو مرشد کے جھنڈے تلے ہی وہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ تک پہنچے گا لیکن وہ مرید کتنا خوش نصیب ہوگا کہ جس پر اس کے مرشد کو ناز ہو فخر ہو ایسا خوش نصیب مرید بھی صرف اور صرف میرے امام ہی ہیں آپ علیہ الرحمہ کے پیرو مرشد سلسلہ قادریہ کے سینتیسویں امام اور شیخ ہیں جنہیں عالم اسلام مخدوم شاہ آل رسول مارہروی قادری برکاتی کے نام سے جانتی ہے اعلی حضرت کو خلافت واجازت سے نوازنے کےبعد مرشد حق کے وہ الفاظ اعلی حضرت کی شخصیت اور مرید باصفا کے کمالات کو جاننے کےلئے کافی ہیں۔ حضرت سید آل رسول قادری برکاتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ مجھے بڑی فکر تھی کہ بروز محشر اگر احکم الحاکمین نےسوال فرمایاکہ آل رسول تو میرے لیے کیا لایا ہے؟تو میں کیا پیش کروں گا ؟مگر اللہ کا شکر ہے کہ آج وہ فکر دور ہوگئی ، اس وقت میں احمد رضا کو پیش کردوں گا ‘‘
(امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں ،ص:۳۵،دارالقلم، ذاکر نگر ، نئی دہلی،بحوالۂ ترجمان اہل سنت ،پیلی بھیت۔)۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میرے امام کی شان و عظمت اور علمی وجاہت کا یہ عالم تھا دنیا کا کوئی موضوع یا کوئی علم ایسا نہیں تھا جس پر میرے امام کو مہارت حاصل نہ ہو اور اس پر بڑے بڑے مفکر ، فلاسفر ، عالم دین ، سائنسدان اساتذہ اور دیگر لوگ حیران و پریشاں رہتے تھے اور سوچتے تھے کہ ایسا عالم اور عامل نہ ہم نے دیکھا نہ سنا اب ایک بات اور دیکھئے میرے امام نے اپنی زندگی میں دو کام ایسے کیئے ہیں جو امام البخاری سے لیکر امام اہلسنت علیہ الرحمہ کے ہم عصروں تک کسی نے نہ کیا اور غالباً رہتی قیامت تک کوئی نہ کرسکے جس کی وجہ سے آپ علیہ الرحمہ دنیا کی پہلی شخصیت کے روپ میں سامنے آئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک تو یہ کہ آپ علیہ الرحمہ نے بریلی کی چٹائی پر بیٹھ کر علوم فلکیہ کی مہارت کی بنیاد پر ایک ایسا دائمی نقشہ نماز اوقات کا تیار کردیا جو صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں رائج اور لاگو ہے آج بھی ہر مسجد میں یہ چارٹ ہمیں دکھائی دیتا ہے یہ ایک ایسا دائمی نقشہ بنادیا جس سردی ہو یا گرمی خزاں ہو یا بہار سورج کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کے اوقات کی ترتیب کو اس طرح تقسیم کردیا گیا ہے کہ وہ ہی ایک نقشہ پورے سال ہمیں یہ بتاتا رہے گا کہ آج سورج کتنے بجے طلوع ہوگا اور کتنے بجے غروب ہوگا یہ اج صبح صادق کتنے بج کر کتنے منٹ پر ظاہر ہوگی اور غروب افتاب کتنے بج کر کتنے منٹ پر ہوگا یہ کام اعلی حضرت عظیم البرکت کے علوم فلکیہ کی مہارت کی واضح دلیل ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوسرا کام آپ علیہ الرحمہ نے کیا وہ یہ ہے کہ آپ علیہ الرحمہ نے کم و بیش ایک ہزار سے زیادہ کتابیں تحریر فرمائی جن کے نام بھی آپ علیہ الرحمہ نے خود تجویز کئیےاور نام بھی اس طرح تجویز کئیے کہ جب آپ اس نام کے حروف کے اعداد نکالیں گے تو سن تحریر بن جائے گا یعنی جب آپ میرے امام کی کوئی کتاب پڑھیں اور اس کے نام کے حروف کے اعداد نکالیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کتاب کب تحریر ہوئی یعنی کس سن میں لکھی گئی اور یہ کام دنیائے اسلام میں کسی نے نہیں کیا یہ صرف اور صرف میرے امام کا خاصہ ہے اسی وجہ سے میرے امام عالم اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے رہتی قیامت تک آنے والے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے لئے یہ دو بیش بہا تحائف چھوڑے ہیں جن سے وہ ہمیشہ ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے ۔
میرےواجب الاحترام پڑھنے والوں میرے امام کا ایک بہت بڑا کارنامہ اور ہم مسلمانوں پر خاص احسان آپ علیہ الرحمہ کا لکھا ہوا ترجمعہ قرآن یعنی " کنزالایمان" بھی ہے کیونکہ قرآن مجید فرقان حمید کی غلط ترجمعہ نے لوگوں کو بڑا الجھایا ہوا تھا لیکن یہ میرے امام کا احسان عظیم ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کے اس ترجمعہ سے نہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر کوئی حرف آیا اور نہ ہی حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی شان و عظمت میں کوئی کمی واقع ہوئی آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میرے امام نے یہ ترجمعہ بہت قلیل مدت میں تحریر فرمایا ترجمعہ قرآن کنزالایمان کے بارے میں محدثِ اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’علم ِقرآن کا اندازہ صر ف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثال ِسابق نہ عربی میں ہے، نہ فارسی میں ہے ، نہ اردو زبان میں ہے ، اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اُس جگہ لایا نہیں جا سکتا جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں قرآن(کی روح)ہے۔
(جامع الاحادیث جلد 8از مولانا حنیف خان رضوی مطبوعہ مکتبہ شبیر برادرز لاہور ص 101)۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب یہ ترجمعہ وجود میں کیسے آیا ’’سوانح امام احمد رضا ‘‘ میں مولانا بد ر الدین قادری صاحب تحریر فرماتے ہیں :
’’صدر الشریعہ‘‘ حضرت علامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے قرآن مجید کے صحیح ترجمہ کی ضرورت پیش کرتے ہوئے امام احمد رضا سے ترجمہ کر دینے کی گزارش کی ۔ آپ نے وعدہ فرمالیا لیکن دوسرے مشاغل ِ د ینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی ،جب حضرت ’’صدر الشریعہ‘‘کی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا: چونکہ ترجمہ کے لیے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لئے آپ رات میں سوتے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایا کریں ۔چنانچہ حضرتِ ’’صدر الشریعہ‘‘ ایک دن کاغذ قلم اور دوات لے کر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہو گیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ ربانی طور پر آیات کا ترجمہ بولتے اور صدر الشریعہ لکھتے رہتے:
ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلیٰ حضرت زبانی طور پر آیات ِکریمہ کا ترجمہ بولتے جاتے اور’’ صدر الشریعہ‘‘ اس کو لکھتے رہتے ،لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا کہ آپ پہلے کتب ِتفسیر و لغت کو ملاحظہ فرماتے ،بعدہٗ آیت کے معنی کو سوچتے پھر ترجمہ بیان کرتے، بلکہ آپ قرآن مجید کا فی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر اس طرح بولتے جاتے جیسے کوئی پختہ یادداشت کا حافظ اپنی قوتِ حافظہ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف روانگی سے پڑھتا جاتا ہے، پھر جب حضرتِ’’ صدر الشریعہ‘‘ اور دیگر علمائے حاضر ین اعلیٰ حضرت کے ترجمے کا کتب ِتفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ آ پ کا یہ برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیر ِمعتبرہ کے بالکل مطابق ہے۔ الغرض اِسی قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہاپھر وہ مبارک ساعت بھی آگئی کہ حضرتِ ’’صدر الشریعہ‘‘ نے اعلیٰ حضرت سے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کر والیا اور آپ کی کوششِ بلیغ کی بدولت دنیائے سنیت کو’’ کنز الایمان ‘‘کی دولت ِعظمیٰ نصیب ہوئی ۔
(انوارِ رضا مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور ص 81-82)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میرے امام کے کارناموں اور دینی و مسلک کی خدمات کا ذکر کرنا ہم جیسے عام انسانوں کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ ایک بہت وسیع موضوع ہے بس آخر میں میرے امام کے ایک سچے اور مظبوط عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور قرب الہی کے بارے میں کچھ لکھنا چاہوں گا کہ آپ علیہ الرحمہ کی دینی کاوشوں ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ایک اور بڑا کارنامہ آپ کی نعتیہ کتاب جسے لوگ " حدائق بخشش " کے نام سے جانتے ہیں جس میں موجود ایک کلام اور ہر کلام کا ایک ایک لفظ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم میں ڈوبا ہوا محسوس ہوتا ہے آپ علیہ الرحمہ اپنے والد گرامی کے ہمراہ جب حج پر تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے دربار اقدس کی حاضری کا وقت آیا تو آپ علیہ الرحمہ نے عرض کی کہ " حضور آپﷺ کی بارگاہ بیپناہ میں حاضر ہوں دیدار کروادیجئے" بس یہ عرض کرکے کچھ دیر کھڑے رہے اور پھر وہاں سے باہر تشریف لے آئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میرے امام نے ایک بار پھر حاضری کا شرف حاصل کیا اور عرض کیا کہ " دیدار کروادیجئے " بس آپ علیہ الرحمہ التجا کرتے جاتے اور پھر باہر تشریف لے آتے یہاں تک کہ کئی کوششوں کے بعد دیدار نصیب نہ ہوا اور جانے کا وقت آگیا مدینہ سے رخصت ہونے کا وقت آگیا تو اپنی آخری حاضری میں آپ علیہ الرحمہ نے معروف کلام کے اشعار پڑھنا شروع کردیے وہ یہ کلام پڑھتے جاتے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جھڑتی رہتی پڑھتے جاتے اور روتے جاتے وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
اور جب مقطع پر پہنچے اور عرض کیا کہ
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں

تو وہیں بیہوش ہوگئے اور جب آنکھ کھلی تو علماء لکھتے ہیں کہ آپ علیہ الرحمہ نے جاگتی آنکھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا دیدار کرلیا آپ علیہ الرحمہ کی کتاب " حدائق بخشش " میں موجود عشق رسول ﷺ میں ڈوبے ہوئے اشعار اسی بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور یہ ہی نہیں آپ علیہ الرحمہ کا لکھا ہوا سلام
" مصطفی جان رحمت پر لاکھوں سلام "
شمع بزم ہدایت پر لاکھوں سلام
وہ واحد کلام ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ سنا اور پڑھا جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں 25 صفر المظفر میرے امام کا یوم وصال ہے جو شخص جس طرح سے بھی چاہے اپنی آواز کے ذریعے اپنے قلم کے ذریعے یا کسی بھی توسط سے یہ دن بھرپور طریقے سے منائیں اور اپنا حصہ ڈال کر مسلک اعلی حضرت پر قائم رہنے والے ہونے کی مہر لگا دیں کیونکہ اعلی حضرت عظیم البرکت حضرت علامہ مولانا مفتی شاہ احمد رضا خان محدث فاضل بریلوی کے سائے تلے ہم بروز محشر حضورﷺ
کی بارگاہ تک پہنچیں گے ان شاءاللہ تمام پڑھنے والے مجھے اپنی دعائوں میں خاص خاص یاد رکھئے گا اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ مسلک اعلی حضرت پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقہ و طفیل سرکارﷺکی شفاعت سے سرفراز فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریمﷺ
مسلک اعلی حضرت زندہ رہے گا
ان شاءاللہ
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 165 Articles with 133470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.