حضرت علامہ مولانا مفتی تقدس علی خان ( علیہ الرحمہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
پاکستان کی سب سے بڑی اردو کی ویب سائٹ Hamariweb.com میں 26 جنوری 2023 کو میرا ایک مضمون بنام " اللہ تعالیٰ کے چھپے ہوئے ولی " کے عنوان سے شایع ہوا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کے ایک ولی " حضرت علامہ مولانا مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ" کا ذکر ہوا تھا اور ان کا مختصر تعارف بمعہ ان کی کرامتوں کے آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی تھی آج کے اس آرٹیکل میں میں ان کی زیارت کا شرف حاصل کرواتے ہوئے ان کی ابتدائی زندگی بمعہ ولادت و وصال کے بارے میں کچھ معلومات آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا اور یاد کو تازہ کرنے کی غرض سے کچھ ان کی کرامات و کمالات کا بھی ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت مجھے سچ لکھنے اور اس پر ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ امام اہل سنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے چچا زاد بھائی کے فرزندِ ارجمند تھے،اس رشتے سے آپ امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے بھتیجے ہوتے ہیں۔جبکہ امام اہل سنت کی زوجہ مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ کے نانی کی بہن تھیں گویا اس رشتے سے مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ امام اہلسنت علیہ الرحمہ کے نواسے بھی ہوئے اس لئے حضرت مولانا مفتی تقدس علی خان "نواسۂ اعلیٰ حضرت"کی حیثیت سے بھی کافی مشہور ہیں۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ کی پیدائش ماہِ رجب المرجب/1325ھ،بمطابق اگست/1907ء میں بمقام آستانہ عالیہ رضویہ محلہ سوداگران بریلی شریف میں ہوئی اور مولانا حسن رضا خان نے علیہ الرحمہ نے آپ کا تاریخی نام تقدس علی خاں، 1325ھ میں استخراج فرمایا۔ابتدائی تعلیم اور درس نظامی آپ علیہ الرحمہ نے بریلی شریف کے ممتاز عالم دین اور اساتذہ سے حاصل کی اور 1345ھ میں آپ نے دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے سند فراغت حاصل کی۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خاں بریلوی سے آپ نے شرح جامی کا خطبہ پڑھا۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے بالواسط شرف تلمذ حاصل کرنے کے لیے مدارس کے منتہی طلباء آپ سے شرح جامی کا خطبہ پڑھتے تھے،جن میں محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد رضوی رحمۃ اللہ نے بھی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ کے بارے میں مشہور تھا کہ کسی کی کوئی بھی حاجت ہوتی اللہ تعالیٰ کی عطا سے وہ پوری ہوجاتی اگر کسی کے دل میں حج یا عمرہ پر جانے کی خواہش ہو اور اسباب نہ بن رہے ہوں تو وہ آپ علیہ الرحمہ سے درخواست کرتا تو اس کے لئے اسباب پیدا ہو جاتے اور وہ حج یا عمرہ پر روانہ ہوجاتا یہ ہی نہیں بلکہ آج بھی اگر ان کے مزار پرانوار پر کوئی حاضری دیکر اپنی عرضی پیش کرتا ہے تو اس کا بھی بلاوہ اجاتا ہے

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ سات سال کی عمرمیں 1332ھ/1914ء کو اعلیٰ حضرت سےسلسلہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہوئے، چنانچہ آپ کے ایک مکتوب میں ہے :مجھے اعلیٰ حضرت قبلہ سے 1332ھ میں ارادت حاصل ہوئی ۔ان کا دستخط شدہ شجرہ میرےپاس محفوظ ہے۔ بعدمیں شرح جامی کا خطبہ پڑھ کرشرفِ تلمذبھی حاصل کیا ، جب اعلیٰ حضرت کا وصال ہوا تو آپ پندرہ سال کے تھے،خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ مل کرتجہیز وتکفین میں شریک ہوئے۔کئی کتابوں میں مفتی تقدس علی خان کو خلیفہ اعلی حضرت لکھا گیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے آپ علیہ الرحمہ ایک اچھے شاگرد اور مرید تو تھے لیکن خلافت سے سرفراز نہیں ہوئے حاجی مریداحمدچشتی صاحب نےخلفائے اعلیٰ حضرت پر کام کے دوران مفتی تقدس علی خان صاحب علیہ الرحمہ کو کئی مکتوب بھیجے ،ان کی معلومات میں جوجوخلفائے اعلیٰ حضرت تھے ان کے نام مفتی صاحب کوروانہ کئے،اس فہرست میں آپ کا نام100نمبرمیں تحریرتھا،آپ نے جن ناموں کے بارے میں فرمایا کہ مندرجہ ذیل افرادکو (اعلیٰ حضرت قبلہ سے)خلافت نہیں ملی ،اس میں اپنا نام بھی شامل فرمایا۔لیکن قبلہ مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ کو حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمہ نے سلسلسہ عالیہ قادریہ میں خرقۂ خلافت عطا فرمایا ۔

اور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مصطفیٰ رضا خان نوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کو خلافتیں عطا کیں۔

قطب مدینہ شیخ المشائخ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ نے بھی اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ سے جب کوئی اپنا مسئلہ پوچھتا تو وہ برے مستند طریقے سے جواب دیتے مثال کے طور پر اگر کوئی کہتا کہ میرا بچہ گم ہوگیا ہے تو آپ علیہ الرحمہ فرماتے کہ اچھا جائو صبح اگیارہ بجے وہ مل جائے گا اور اگلی صبح وہ بچہ مل بھی جاتا اگر کوئی کہتا کہ میری فلاع چیز گم ہوگئی ہے تو آپ علیہ الرحمہ فرماتے کہ جائو کل شام چھ بجے مل جائے گی اگر کوئی کہتا کہ ہمارا فلاع گھر کا فرد اچانک کسی بیماری کی وجہ سے بیہوش ہوگیا ہے تو آپ علیہ الرحمہ فرماتے کہ وہ صبح آٹھ ببجے ہوش میں آجایئں گے ایک دفعہ ایک ڈاکٹر صاحب جو اپنے امتحان کا آخری پیپر یعنی وائےوا دینے جانا تھا وہ پہنچ گئے اور عرض کیا کہ حضرت مجھے صبح امتحان کے لئے جانا ہے جہاں ملک کے پندرہ بڑے اور منجھے ہوئے ڈاکٹر ہوں گے میں نے بہت محنت کی ہے اور بڑی بڑی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے لیکن نہ معلوم وہ کونسے سوال کرلیں تو آپ علیہ رحمہ نے فرمایا کہ اچھا مجھے دعائے قنوت سنایئے تو ڈاکٹر صاحب نے دعائے قنوت سنادی آپ علیہ رحمہ نے فرمایا اگر دعائے قنوت آپ کو یاد ہے تو آپ پاس ہوجائیں گے اللہ تبارک وتعالی کی شان دیکھیئے اگلی صبح جب ڈاکٹر صاحب کمرئہ امتحان میں پہنچے جو میڈیکل کا امتحان تھا نہ کہ مذہبی امتحان لیکن جوں ہی وہ اندر گئے تو پندرہ منجھے ہوئے ڈاکٹرز کا بورڈ بیٹھا ہوا تھا اور پوچھا کہ کیا آپ کو دعائے قنوت آتی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹروں کے بورڈ کو دعائے قنوت سنا دی اس پر ان سے کہا گیا کہ آپ پاس ہیں یہ مفتی تقدس علی خان علیہ رحمہ کی ایک ذندہ کرامت تھی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ کےفضائل و خصائل کیا بیان کیے جائیں۔آپ بلند پایہ مفسر محدث اور فقیہ تھے۔شہرت وناموری سے کوسوں دور ،اور صلہ وستائش سے ہمیشہ بے نیاز تھے۔دینِ متین کی خدمت میں ہمیشہ سرشار رہتے۔ سادہ لباس،شگفتہ مزاج ،اعلیٰ گفتار،سراپا شفقت و کرم،سراپا اخلاص و محبت،علم دوست،الغرض آپ صفاتِ حسنہ کا ایک حسین گلدستہ تھے۔آپ سچے عاشقِ رسول ﷺ تھے۔ساری زندگی درس وتدریس ،وعظ ونصیحت ،تصنیف وتألیف کے ذریعے اسی عشقِ مصطفیٰ ﷺ کے چراغ ہر سوروشن کیے۔مفتی تقدس علی خان صاحب کی زیادہ توجہ درس وتدریس کی جانب تھی اس کے باوجود آپ نے تصوف کی اہم کتاب مکاشفۃ القلوب کا بامحاورہ اورسہل ترجمہ کیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میرے گودام کے قریب آگ لگ گئی ہے اگ میرے گودام تک پہنچنے والی ہے میرے گودام میں جو مال ہے اس میں صرف میرا ہی مال نہیں بلکہ وہ مال بھی ہے جو میں نے قرض میں لیا ہوا ہے اگر آگ گودام تک پہنچ گئی اور سارا مال جل گیا تو میرا کڑوروں کا نقصان بھی ہوجائے گا اور میں کڑوروں کا مقروض بھی ہوجائوں گا اب آپ علیہ رحمہ کچھ کیجیئے تو آپ علیہ رحمہ نے فرمایا کہ جائو اور 129 مرتبہ آپ نے پڑھنا ہے "الہی خیر گردانی بحق شاہ جیلانی "یعنی یااللہ تبارک وتعالی خیر کر حضور غوث پاک کے صدقے وہ شخص وہاں سے رخصت ہوا اور جب اگلی صبح اس اے پوچھا تو اس نے بتایا کہ شکر ہے آگ میرے گودام میں داخل ہوگئی اور شروع میں پڑے ہوئے گتے کے ٹکڑوں تک کو جلادیا لیکن مال کے کارٹن تک پہنچنے سے پہلے ہی خودبخود بجھ گئی یہ بھی واقعی مفتی تقدس علی خان علیہ رحمہ کی ایک کرامت تھی میرے محترم پڑھنے والوں اگر ہم اس وظیفہ کو اپنے روزمرہ کے معمولات میں شامل کرلیں تو بہت فائدہ ہوگا اگر ہر نماز کے بعد کم از کم 11 مرتبہ ہی ہم پڑھنے کی عادت کرلیں تو دیکھیں کتنا فائدہ ہوگا ۔۔
الہی خیر گردانی بحق شاہ جیلانی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی تقدس علی خان علیہ رحمہ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ علیہ رحمہ ہر کسی کو اتنا پرفیکٹ جواب کیسے دیتے ہیں تو آپ علیہ رحمہ نے فرمایا کہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ میں انسان کے گمان میں ہوتا ہوں جو میرے بارے میں جیسا گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں اور جب مجھے کوئی کہتا ہے کہ میری فلاع چیز گم ہوگئی ہے تو مجھے گمان ہوتا ہے کہ میرا اللہ تبارک وتعالی وہ چیز اس دن اس وقت اس کو عطا کردے گا تو میں وثوق کے ساتھ کہ دیتا ہوں اور میرا مالک میرا رب العزت میری لاج بھی رکھ لیتا ہے اس لئے میں اپنے گمان کے تحت جواب دیتا ہوں ایسے بیشمار لوگ ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں جو دراصل اللہ تبارک وتعالی کے خاص اور مقرب بندے ہوتے ہیں اور ان کی ولیانا صفت سے لوگ ناواقف ہوتے ہیں اگر ہم انہیں زندہ ولی کہیں تو بےجا نہ ہوگا حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ " میری امت میں سے ہمیشہ تیس آدمی (ابدال ) موجود رہیں گے جن کے صدقے یہ زمین قائم ودائم رہے گی جن کے تصدق سے تم پر بارش برسائی جائے گی اور جن کے ذریعے تمہاری مدد کی جائے گی ۔
(ہیشمی،مجمع الزوائد، 63:10 )

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ کی تمام حیات عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے عبارت تھی ،اور سفرِ آخرت بھی اسی کا آئینہ دار تھا،کہ وقتِ رخصت آخری غذا مدینہ شریف کی کھجور اور آبِ زمزم تناول فرمایا،زبان پر درود سرورِ عالم ﷺ جاری تھا کہ واصل بحق ہوئے۔ آپ علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ دو مرتبہ ادا کی گئی مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ بروز پیر3/رجب المرجب 1408ھ،بمطابق 22فروری/1988،بوقت12:10 منٹ پر اس دارِفنا سے رخصت ہوئے۔آپ علیہ الرحمہ کی پہلی نماز جنازہ آرام باغ مسجدکےباہر مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین قادری نےپڑھایا ،نمازجنازہ میں لوگوں کی کثر ت تھی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن آپ علیہ الرحمہ کی وصیت تھی کہ ان کی تدفین صوبہ سندھ کے شہر خیرپور کے علاقے پیرجوگوٹھ میں کی جائے لہذہ اس لیےآپ کا جسدمبارک المصطفی ایمبولینس میں رکھا گیا ،احباب بسوں میں تھے ،یہ قافلہ صبح پیرجوگوٹھ پہنچ گیا ،شہرمیں کاروبار اوردکانیں بند ہوگئیں ،لوگ نمازجنازہ کے لیے امنڈپڑے، صبح دس بجے استاذالعلما مفتی محمد رحیم کھوسہ سکندری صاحب نے نمازجنازہ پڑھائی۔ ڈاکٹر پروفیسر مجیداللہ قادری صاحب تحریرفرماتے ہیں: فقیرنے اپنی آنکھوں سےدیکھا کہ 24گھنٹے گزرنے کے باوجودآپ کےجسم مبارک پر تازگی رہی،اورچہرہ مبارک چمکتارہااورمسکراتارہا۔ تدفین پیرجوگوٹھ قبرستان میں اپنے والد،بیٹےاور بیٹیوں کی قبورسے متصل کی گئی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ کے گھر چار بیٹے مصدق علی خان، محمد اختر حامد خان، اعزاز ولی خان، منور علی خان پیدا ہوئے۔ سب کے سب بچپن یا لڑکپن میں انتقال کر گئے۔ اسی طرح 4 صاحبزادیاں حلیمہ بی بی، ریحانہ بی بی، عذرا بی بی اور فاطمہ بی بی پیدا ہوئیں لیکن وہ بھی جلد سب وفات پا گئیں، جبکہ اپ کے والدین نے طویل عمر پائی اور والدہ کا انتقال 1967، زوجہ کا 1968 اور والد کا 1978ء میں ہوا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
" بیشک اللہ تبارک وتعالی کے کچھ خاص بندے ایسے ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالی نے اپنے بندوں کی حاجت روائی کے لیئے خاص فرمایا ہے گھبرائے ہوئے لوگ ان کے پاس آتے ہیں اپنی حاجتیں لیکر یہی وہ لوگ ہیں جو عذاب الہی سے مامون ہیں "
(ہیشمی ، مجمع الزوائد ، ومنبع الفوئد ، 8 : 192)

ہمارے ارد گرد ایسے بیشمار لوگ موجود ہیں جو واقعی اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقرب بندوں میں شمار ہوتے ہیں بات صرف ان کو جاننے ، پہچاننے اور ان تک رسائی حاصل کرنے کی ہے لہذہ اچھے ،نیک ،متقی اور پرہیزگار لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے اور ان کی صحبت اختیار کرکے ہم اللہ تعالیٰ کے ایسے برگزیدہ بندوں تک پہنچ سکتے ہیں ہوسکتا ہے کہ ہم گناہگار ، سیاہکار ، بدکار اور لاچاروں کی بروز محشر انہی ولیوں کی صحبت اور محبت کے طفیل بخشش ہو جائے ۔

میرے محترم پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ایسے اپنے خاص اور چنے ہوئے بندوں کا سایہ ہم پر تادیر سلامت رکھے اور جو پردہ فرماگئے ان کے مزارات سے ان کے فیوض وبرکات ہمیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اور دعا ہے کہ مجھے حق بات کہنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 165 Articles with 133480 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.