اچھی بات کہنا ،سننا اور دوسروں
تک پہنچانانیکی ہے،ہیں اگر کوئی اچھی،مثبت بات معلوم ہے تو ہمیںدوسروں تک
پہنچانا چاہئیے وہ اگلے تک پہنچائے گا اور یوں کڑی سے کڑی جوڑتی جائے گی
اور اچھی بات عام ہو جائے گی ۔۔۔۔۔جس سے سب نہیں تو کچھ لوگوں کے اچھا ہونے
کا امکان جنم لے گا اور اگر نیکی کا یہ معمولی سا عمل جاری رہے تو معاشرے
میں اچھائی پروان چڑھے گی اور معاشرے کی مثبت تعمیر کا باعث بنے گی!
جب تک کسی معاشرے میں اچھی بات کہنے،سننے اور پھیلانے کا عمل جاری رہتا ہے
وہ اپنی اقدار میں مُردہ نہیں ہوتااور ناہی اُس معا شرے کے لوگوں کے اخلاق
پستی کا شکار ہوکر تباہ ہوتے۔۔۔!ہمارے معاشرے میں پستی،بدی کا بڑھتا رجحان
اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے اچھی بات کہنا،سننا چھوڑ دیا ہے اگر سنتے
ہیں تو کان نہیں دھرتے ۔۔۔!اللہ تبارک وتعالٰی ہر اچھے عمل کا پورا پورا
صلہ دیتا ہے چاہے وہ عمل کتنا ہی معمولی اور حقیر ہو،نیکی کرنے کے لئے کوئی
لائحہ عمل مرتب نہیں کرنا پڑتا ،یہ پیار خلوص کے چند الفاظ سے بھی شروع کی
جا سکتی ہے ہم اکثر راہ چلتے ریپر پھینکتے ہیں ،پان کی پیک تھوک رہے ہوتے
ہیںبظاہر یہ کوئی جُرم نہیں لیکن آپ کے اس عمل سے دوسرے لوگ کراہیت اور
تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اس سے آپ اپنے وطن کی سڑکوں کوگندہ اور ماحول کو
آلودہ کر رہے ہوتے ہیںجو کہ اخلاقی جرم بہرحال ہے ۔میری باتیں ہمیشہ معمولی
ہوتی ہیں مجھے سیاست کے مسائل ،معاشرتی اور اخلاقی مسائل سے زیادہ بڑے نظر
نہیں آتے،اسی لئے میری کوشش ہوتی ہے اپنی زندگی کی بات کی جائے وہ بات جو
ہم نے کرنا چھوڑ دی ہے یا جن کی اہمیت نہیں رہی۔۔۔۔!ہم اکثر راہ میں پتھر
دیکھتے ہیں اور صرف دیکھتے ہی ہیں ان کو ایک طرف کرنے کی زحمت گوارا نہیں
کرتے،جودن کے وقت نہیں تو رات کو راہگیروں کے لئے اچھی خاصی تکلیف کا باعث
بن سکتے ہیں لیکن ہم اپنی دوڑدھوپ میں لگے رہتے ہیں اور اس کام کو کوئی
وقعت نہیں دیتے اسی حوالے سے ایک واقعہ ہے حضرت عم بن السام نیشا پوری بہت
بڑے بزرگ گزرے ہیں۔( یہ واقعہ میں نے کشف المحجوب میں پڑھا تھا)کہتے ہیں کہ
آپ کو ابتداءمیں ایک کنیز پر فریفتہ ہوگئے تھے لوگوں نے آپ سے کہا کہ
نیشاپور کے قریبی ایک گاﺅں میں ایک یہودی جادوگر رہتا ہے آپ کے اس کام کا
علاج اس کے پاس موجود ہے۔آپ اس کے پاس گئے اور اپنا حال بیان کیا۔یہودی نے
کہا کہ چالیس روز تک تم نہ تو نماز پڑھو۔نہ کوئی اچھا عمل کرو اور ناہی نیک
نیتی کا کوئی کام دل وزبان پر لاﺅ پھر میں عمل کروں گا جس سے تمہاری مراد
پوری ہوجائے گی۔آپ نے ایسا ہی کیااور چالیس روز ہوگئے تو اس یہودی نے جادو
کا عمل کیا لیکن آپ کی مراد پوری نہ ہوئی۔یہودی نے کہا ”اے ابو حفص اس عر
صے میں تو نے ضرور کوئی نیک کام کیا ہے خوب سوچ لو!ابو حفص نے کہا اس عرصے
میں کسی اچھے عمل کو میں نہیں جانتا جو میرے ظاہر وباطن سے سرزد ہو،سوائے
اس کے کہ ایک روز میں راستہ میں جا رہا تھا کہ راہ میں ایک پتھر پڑا تھا
جسے میں نے اس ارادہ سے راستے سے ہٹا دیا کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگے۔تو یہودی
نے کہا کہ تو اس خدا کو آزردہ نہ کر کہ جس کا فرمان تو نے چالیس دن تک ضائع
کیا لیکن اس نے تیری اتنی سی تکلیف کو ضائع نہیں کیا۔اس پر ابوحفص نے توبہ
کی اور یہودی بھی مسلمان ہوگیا۔!اللہ پاک نیک عمل کرنے والے کا عمل ضائع
نہیں کرتا چاہے وہ کتنا ہی معمولی اور حقیر ہو!بس اس عمل میں نیت نیکی کی
ہونا ضروری ہے۔اسی طرح میں اکثر بسوں میں سفر کے دوران دیکھتی ہوں کہ بزرگ
کھڑے ہیں اور نوجوان بڑے استحقاق سے اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہیں۔۔بزرگ
بے چارے کبھی آگے کو گرتے سنبھلتے ہیں تو کبھی پیچھے کو،میں بھی بہت عرصے
تک ایسا ہی کرتی تھی لیکن اب میں منتظر رہتی ہوں کوئی بزرگ خاتون چڑھے،مجھے
کھڑے ہو کے سفر کرنا بہت لطف دیتا ہے جس دن میں بیٹھ کر سفر کرتی ہوں مجھے
عجیب سا دُکھ ہوتا ہے میرے جگہ دینے کے عمل کو شروع میں عجیب سے نظروں کا
سامنا کرنا پڑا لیکن آپ اگر ان نظروں کی پرواہ کریں گے تو اوپر والے کی رضا
مشکل ہو جائے گی،ہم بہت سے اچھے کام صرف اس وجہ سے نہیں کرتے کہ لوگ کیا
کہیں گے ۔
ہمارے ہاں گھریلو سودا سلف لا نا گھر کے بزرگوں کے حوالے کر دیا جا تا ہے
وہ پہلے مطلوبہ اشیاءکے لئے پریشان ہوتے ہیں پھر بھاﺅ تاﺅ میں۔۔جب وہ سامان
سے لدے ہانپتے کانپتے گھر میں داخل ہوتے ہیں توسننے کو ملتا ہے میاں کیا
اٹھا لائے ہو؟یہ بہت مہنگا کیوں لائے؟؟وہ سبزی باسی ہے؟گوشت کافی دن کا ہے۔۔!
اس طرح کے جملے اُن کی اس تھکن سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں جو وہ خریداری
میں اُٹھاتے ہیںہم اگر تھوڑے سے تحمل کا مظاہرہ کریں اور نیکی کی نیت سے
درگزر کردیا کریں تووہ اس تکلیف سے بچ جائیں۔ہماری معمولی سی درگزر کسی کو
بہت سی نہیں تو تھوڑی سی خوشی دے سکتی ہے آپ کسی غریب بچے کو مالی سپورٹ
کرکے اسے جہالت کی تاریکی سے نکال سکتے ہیں تو ضرور نکالیئے،اگر معاشی طور
پر نہیں تو آپ اسے ٹیوشن پڑھا کراس کی مدد کر سکتے ہیں یقینا ایسا تو بہت
سے لوگ کر سکتے ہیںاگر ایسا واقعی میں ہم نے کرنا شروع کر دیا تو کئی چراغ
روشن ہونگے!اس طرح کی چھوٹی چھوٹی سی ،بہت معمولی سی باتیں ہمیں قلبی سکون
دینے کا باعث بنتی ہیں آج ہم بے سکونی کا شکار ہیں تواس وجہ سے کہ ہم نے
معمولی باتوں کواگنور کردیا ہے ۔میں اکثر بس میں سفر کرتی ہوں تو بہت سی
باتیں اسی سفر سے سیکھتی ہوں ایک دفعہ میرے برابر والی نشت پر عمر رسیدہ
خاتون بیٹھیں تھی عموماََ میں سلام کر لیتی ہوں یہ سنت کے ساتھ نیکی بھی ہے
کہ آپ کوخیر وسلامتی کا تحفہ دیتے ہیں۔ان سے دعا سلام ہوئی تو معلوم ہوا وہ
ہسپتال جا رہی تھیں لیکن مجھے لگا وہ کسی الجھن میں مبتلا ہیں ان کا ایک
ہاتھ سختی مٹھی کی صورت بند تھا ان کے اضطراب نے میرے تجسس کو مزید بڑھا
دیا ،میرے پوچھنے پر وہ خاتون بولیں”بیٹا میرے پاس پانچ سو کا نوٹ ہے کھلے
نہیں ہے اب کنڈیکٹر کو کیا دونگی؟؟“میں نے ان کی اند ر کو دھنسی ہوئی
آنکھوں میں خوف بھی دیکھا جو یقینا کنڈیکٹر کے متوقع ردِعمل کاہوگا،(میں
ہولے سے مسکرائی کہ زندگی کتنی معصوم ہے اور ہمارے بزرگ کتنے مہرباں۔۔۔!)میں
نے کہا اماں میں آپ کا کرایہ دے دونگی،اماں نے مجھے مشکور نظروں سے دیکھا
اور اپنی ساری توجہ اپنی بند مٹھی پر مرکوز کر دی،میں عموماََ اضا فی پیسے
نہیں رکھتی ،میں نے پرس میں دیکھا لیکن مجھے پیسے نہیں ملے،میری ماں کچھ نہ
کچھ روپے بغیر بتائے رکھ دیتی ہے اور مجھے یقین تھا اماں کے کرائے کے پیسے
ضرور ہو جائیں گے،اب میں دل میں سوچ رہی تھی کہ اگر میں نے اماں کا کرایہ
ادا نہ کیا تو کتنی غلط بات ہوگی اور بزرگ خاتون کے سامنے بھی شرمندگی
اٹھانا پڑے گی،میں نے کہا مالک بے شک تو عزت رکھنے والا ہے میں نے دوبارہ
دیکھے تو مجھے پیسے مل گئے،اللہ بڑا کریم ہے اس نے میرا بھرم رکھ دیا۔۔۔۔کرایہ
دینے کے بعد وہ اپنی مطلوبہ جگہ پر اترنے لگیں لیکن واپس پلٹ کر میرے پاس
آئیں اور بولیں”تم بہت اچھی بیٹی ہو۔۔۔۔اللہ تمہارے ماں باپ کا بھلا کرے۔۔!!“یقین
جانیے وہ لمحہ مجھے نہیں بھولتا،اتنا دلکش احساس کہ اس کی تاثیر آج بھی
میری رگوں میں دوڑتی محسوس ہوتی ہے مجھے ان کی دعاﺅں سے زیادہ اس وقت ان کا
واپس پلٹنا اچھا لگا تھا،کہ کوئی بھی عمل اپنا ضائع نہیں ہوتا،چاہے وہ کتنا
ہی معمولی اور چھوٹا ہو ،چند روپوں کے بدلے میں مجھے سکون کی وہ دولت میسر
ہوئی جو آج تک میرے پاس موجود ہے،اسی طرح کے بہت سے موقع ہم سب کو ملتے ہیں
پر ہم اپنی اپنی زندگیوں میں باہر دیکھنا نہیں چاہتے،ہمیں اپنی
مجبوریاں،اپنے دکھ اور مسائل سب سے اہم نظر آتے ہیں تو دوسروں کو کیا تسلی
دیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ایک اور وجہ بھی نیکی نہ کرنے کی یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ
بڑی بڑی نیکیاں کی جائیں،بڑے بڑے کام ہمیشہ بہت سے چھوٹے کاموں پسِ پردہ کر
دیتے ہیں،جس طرح ہم عام اور معمولی لوگوں کو نظر انداز کرتے ہیں ان کو
اہمیت نہیں دیتے،لیکن وہ اپنی جگہ ،اپنے کام کے حوالے سے ہماری زندگیوں میں
بلاواسطہ اور باواسطہ انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں،اسی طرح آپ کی
معمولی سی اور چھوٹی سی نیکی کسی کی زندگی میں بہت اہم تر ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔!!سورہ
ال انعام ،132میں ارشادِپاک ہے”اور ہر ایک کو ان کے عمل کے مطابق درجے ملیں
گے اور آپ کا رب ان کے عمل سے بے خبر نہیں۔“اگر بہت بڑا عمل دکھاوے کی نیت
سے کیا جائے تو وہ عمل اللہ کے نزدیک مقبولیت حاصل نہیں کر سکتا کیوں کہ
اللہ پاک ہمارے سب اعمال اور ان کی نیتوں سے باخبر ہے،اپنے اچھے عمل کو محض
دکھاوے کی نیت سے ضائع نہ کریں،اپنی نیتوں کی طہارت سے اپنے ہر چھوٹے بڑے
عمل کونیکی کے حصول کا دریعہ بنا لیں۔۔۔۔۔۔!!
اللہ پاک آپ سب کا حامی و ناصر ہو!! |