خالی ہاتھ

میرا نام پیسہ ہے لیکن مختلف لوگ مجھے مختلف ناموں سے پکارتے اور بلاتے ہیں لیکن نام چاہے کوئی بھی لیں اور کسی بھی نام سے بلائیں مجھے ہمیشہ پیار سے ہی پکارا گیا ہے۔ شکل و صورت سے میں کاغذ کے چند ٹکڑوں پر مشتمل ہوں لیکن میرے رنگ و روپ مختلف ہیں اور خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ میں پرانا ہو کر بھی پرانا نہیں ہوتا انتہائی خستہ حالت میں بھی مجھے ہاتھوں ہاتھ سنبھالا جاتا ہے اور سب سے اچھی اور خاص جگہ پر سنبھال کر رکھا جاتا ہے مجھ پر چاہے کتنی ہی جھریاں پڑ جائیں میری حالت کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو جائے میری اہمیت و قیمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا بچے بوڑھے جوان مرد عورت سب میرے دیوانے ہیں یہاں تک کہ میری خاطر جان دینے سے بھی کوئی دریغ نہیں کرتا اور ایسی بہت سی مثالیں ہر دور کی گواہ ہیں کہ کتنوں نے میرے لیے جان دی اور کتنوں نے لیں جب کہ میں نے کبھی ان کے ساتھ ہمیشہ رہنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا کیونکہ میرا کوئی کتنا ہی خیر خواہ کیوں نہ ہو میری فطرت میں ہے کہ میں کسی ایک کے پاس یا ایک جگہ پر زیادہ ٹک نہیں سکتا اس کے باوجود پوری دنیا میرے پیچھے ہے بلکہ میری خاطر اس زندگی کو بے سکون کر رہی ہے اور اگلی زندگی کو تباہ۔

اب میں اپنی کچھ اور خصوصیات آپ لوگوں کے گوش گزار کرتا ہوں میں جس کسی کے پاس ٹک جاؤں انہیں امیر کہا جاتا ہے اور امیر لوگ جہل ہوں بدتمیز ہوں یا بد اخلاق ہوں بے حس ہوں یا ظالم کچھ بھی ہوں وہ امیر ہی ہوتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا بلکہ ان کا کوئی بال بھی بکا نہیں کر سکتا اور انہیں سب پسند بھی کرتے ہیں کیونکہ بقول قتیل شقائی
ان کے عیب بھی زمانے کو ہنر لگتے ہیں
جن کے آنگن میں امیری کے شجر لگتے ہیں

اس کے علاوہ میں یہ سمجھتا ہوں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ میرے سے زیادہ طلسماتی طاقت اس دنیا میں اور کسی کے پاس بھی نہیں کیونکہ میں نے بڑے بڑے علماء مشائخ کو جرنیل و کرنیل کو بادشاہ و وزراء کو آپنے آگے جھکتا بلکہ بکتا دیکھا ہے۔

اور اچھے اچھے کو گداگر بنا دیتا ہوں اور میری طاقت کا انداز آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ وہ جذبے جو بہت انمول ہوتے ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی جن کا کوئی نعیم البدل نہیں ہوتا مثلا محبت، ہمدردی و غمگساری، احساس محسوسات، خودی و خودداری،عزت، نفس و ضمیر یہ بہت قیمتی ماوراء اور لسانی ہے لیکن یقین جانیے میں حیران و پریشان رہ گیا جب انہوں نے بھی میرے اگے سر جھکا دیا اور میرے لیے غلامی قبول کر لی ذلت و رسوائی کی غلامی وہ بھی خوشی کے ساتھ۔

اس کے علاوہ میں پڑھے لکھے زہنوں کو غلام بنا لیتا ہوں آخرت کی یاد بھلا دیتا ہوں انسان کو حیوان کے طور طریقے سکھا دیتا ہوں اور انسان کو انسانیت بھلا کر آدمیت سے بھی گرا دیتا ہوں۔زمین و اسمان کی اونچائی سے موازنہ کر لیں یا پھر سمندروں کی وسعت سے سچائی و ایمانداری سب دھرے کا دھرہ رہ جاتا ہے جب بات میری آتی ہے تو سب ناکام ہو جاتے ہیں۔

مجھے اور اور، اور کھانے کے لالچ نے بھوکوں کی بھوک تک کا احساس تک مٹا دیا ہے مجھ سے خرید کر کپڑا پہننے والوں کے اندر سردی سے ٹھٹھرتیے ننگے جسموں کی تکلیف کو محسوس کرنا چھوڑ دیتے ہیں چمکتی گاڑیوں کی چمک نے سردی اور گرمی کی حدت و شدت کو محسوس کرتے ہوئے پاؤں کو روند ڈالا ہے۔

میری خاطر دنیا نے حرام و حلال کی تمیز تک چھوڑ دی اور یہ بھی نہیں سوچا کہ جس اولاد کے لیے یہ مجھے سمیٹ سمیٹ کر اپنے لیے اندھن تیار کر رہے ہیں اس اولاد نے ان کے مرنے کے بعد دعا بھی کروانی ہے یا نہیں۔

زمین و جائیداد کے لیے ناحق قتل و غارت کر رہے ہیں اور کیا پتہ کل کو دو گز زمین کی جگہ بھی نصیب میں ہے یا نہیں۔

آپ لوگوں کو شاید پتہ نہیں ہے کہ میں خود اندھا ہوں لیکن میں نے سب کو نہ صرف اندھا بنا رکھا ہے بلکہ تمام حسوں کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے میں سچ کو نظر انداز کروا سکتا ہوں بلکہ دلائل کے ساتھ جھٹکوا دیتا ہوں قاضی و منصب کو اپنا تابعدار بنا لیتا ہوں لالچ کو ہوا دے کر احساس کو خور غرضی کی نیند سلا دیتا ہوں۔

اچھائی و خلوص کو مطلب پرست کہہ کر رد کروا دیتا ہوں اور تو اور میں گدھے کو باپ بھی بنوا دیتا ہوں حالانکہ میری چند ایک خصوصیات چھوڑ کر باقی ساری منفی قوتیں ہیں انسان میرے لیے جو کچھ چھوڑتا ہے یا بیچتا ہے ان کی قیمت میں خود بھی ادا نہیں کر سکتا لیکن اس کے باوجود وہ یہ خسارے کا سودا میرے ساتھ کرتا ہے کاش میں بول سکتا تو بتاتا انسان کو کہ میں بہت کچھ ضرور ہوں لیکن سب کچھ نہیں۔

اور اتنا طاقتور ہو کر بھی خودی و خودداری کو احساس محسوسات کو خلوص و محبت کو ہمدردی و غمگساری کو اور نیند و سکون کو یار کی یاری و وفا کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا میں آب حیات پلانے کی استطاعت نہیں رکھتا میں موت کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن انسان تم نے میرے پیچھے اپنا سب کچھ تباہ و برباد کر دیا دین و دنیا بھی چھوڑ دی والدین بھی چھوڑ دیے محبت بھی چھوڑ دی بھائی بہن بھی چھوڑ دیے رشتہ داروں سے بھی نفرت کرنے لگا صرف اور صرف مجھے حاصل کرنے کے چکر میں لیکن یہ تو بتا جب جاننا ہی خالی ہاتھ ہے تو پھر مجھے دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے کی کوشش کس لیے۔
غضب کا نظارہ ہے اس عجیب سی دنیا کا لوگ سب کچھ بٹوارے میں لگے ہوئے ہیں خالی ہاتھ جانے کے لیے
 

Sajal Malik
About the Author: Sajal Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.