مہاراشٹر میں نومبر کے اندر ریاستی انتخابات متوقع ہیں ۔
جموں کشمیر اور ہریانہ کی ہار کے بعد مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کی شکست بی جے
پی اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ جموں کشمیر میں اس کی حالت
اتنی خراب ہے کہ اسے ہرانے کے لیے کسی کی چنداں ضرورت نہیں ۔ گودی میڈیا کا
کوئی بڑا سے بڑا بھگت بھی وہاں پر بی جے پی کی کامیابی کے الفاظ اپنی زبان
پر لانے کی ہمت نہیں کرپارہا ہے۔ ہریانہ کے اندر ادھ مری بی جے پی کےصدر
پہلے ہی انتخاب ملتوی کرنے کی درخواست کرچکے ہیں اب رہی سہی جان نکالنے کا
کام کنگنا رناوت کی نادانیاں کررہی ہیں ۔ انہوں نے پہلے تو کسان تحریک کے
دوران قتل اور عصمت دری کا الزام لگا کر عوام کا دل توڑا ۔ اس کے بعد ذات
پات کی بنیاد پر مردم شماری کے خلاف بول کر سر پھوڑ دیا۔ جھارکھنڈ کے
ٹائیگر چمپئی سورین کو بی جے پی اپنے ساتھ لےآئی مگر ان کے ساتھ جے ایم
ایم کا کالا کتاّ بھی نہیں آیا ۔ اس دوران مہاراشٹر کے اندر شیواجی کا
مجسمہ کیا ٹوٹا کہ کامیابی کا خواب ٹوٹ کر بکھر گیا ۔ اجیت پوار کے تیور اب
بدلنے لگے ہیں اور اسے دیکھ کر شندے اور فڈنویس 2002 کی فلم ’ہم تمہارے ہیں
صنم ‘ کی یہ قوالی گانے لگے ہیں ؎
کبھی بندھن جڑا لیا ، کبھی دامن چھڑا لیا
سب کچھ بھلا دیا ،یہ وفا کیسا صلہ دیا
اجیت پوار کا صنم نہ تو شندے اور فڈنویس ہیں اور نہ شر پوار یا ادھو ٹھاکرے
۔ ان کا مقصدِ حیات اپنی دولت کا تحفظ اور اقتدار کی ملائی ہے ۔ اسی لیے وہ
جب چاہتے ہیں جس سے چاہتے بندھن جوڑ لیتے ہیں اور حسبِ ضرورت دامن چھڑا
لیتے ہیں۔ قومی سیاست میں ان کا موازنہ صرف نتیش کمار سے کیا جاسکتا ہے
لیکن بعید نہیں کہ آگے چل کر وہ اپنے پیش رو ابن الوقتوں کے بے تاج کمار
کو بھی مات دے دیں ۔ اجیت پوار کے ذریعہ شیواجی کے مجسمہ پر اپنی ہی سرکار
کے خلاف خاموش جلوس کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔ پچھلے پارلیمانی انتخاب میں
ان کی پارٹی کو صرف چار مقامات پر لڑنے کا موقع دینے کے بعد ایک جگہ نا
معلوم حلیف کےلیے چھین لینا واضح توہین آمیز سلوک تھا۔ اس طرح انہیں اپنی
حیثیت کا احساس دلایا گیا۔ بی جے پی نے گھپلے بازی کے سہارے رائے گڑھ سے
اجیت پوارکے کرتیکر کو کامیاب کروا کر ا ن کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی
کی لیکن بات نہیں بنی۔ مرکزی حکومت میں وزیر مملکت کا عہدہ ان کے سامنے
پھینکا گیا۔ اس کو لینے سے انکار کرکے وہ سرکار میں شامل نہیں ہوئے۔
ملک کی موجودہ سیاست میں سب مطلب کے یار ہیں مگرکوئی کسی کا وفادار نہیں
ہے۔ اس لیے شندے اور فڈنویس بھی اجیت دادا کے چلے جانے پر خوشی منائیں
گےلیکن اگر ایسا ہوجائے تو اس میں مسلمانوں کا فائدہ ہے۔ بی جے پی اور
شیوسینا( شندے ) کسی مسلمان کو ٹکٹ دے کر مہا وکاس اگھاڑی کے قلعہ میں
سیندھ لگانے سے رہا لیکن اجیت پوار کےلیے یہ کام آسان ہے کیونکہ بہت سارے
مسلم رہنما ان کے ساتھ ہیں۔ اجیت پوار کے پھر سے چچا کے آغوشِ عافیت میں
لوٹ آئے تو متوقع تقسیم کاامکان ازخود ختم ہوجائے گا اس لیے اجیت پوار کی
گھر واپسی میں شرد پوار سمیت سبھی کا فائدہ ہے۔ اجیت پوار کےمہا وکاس
اگھاڑی میں شمولیت پر ادھو ٹھاکرےاور کانگریس کوا عتراض نہیں ہوگا کیونکہ
انہیں کوئی اضافی نشست دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ این سی پی اپنا ٹکٹ کس
کو دے یہ اس کا داخلی معاملہ ہے ۔ اس امیدوار کاشرد پوار یا اجیت پوار کا
وفادار ہونا دوسروں کے لیے بے معنیٰ ہے لیکن اگر ایسا ہوجائے تو مہاراشٹر
کے اندر بی جے پی کا انتم سنسکار نہایت خوش اسلوبی سے ہوجائے گا۔
مہاراشٹر میں سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ اشوک چوہان کو پارٹی میں لاکر ایوان
بالا میں بھیجنے کے باوجود بی جے پی مراٹھواڑہ کے اندر سبھی نشستیں ہار
گئی۔ اس شکست کے بعد اسے اپنی لاڈلی بہن پنکجا منڈے کا خیال آیا اور انہیں
قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا۔ اس بات کا امکان تھا کہ انہیں صوبائی
وزیر بنایا جائے گا لیکن دیویندرفڈنویس کی کینہ پروری رکاوٹ بن گئی ۔ بی جے
پی ہائی کمان نے پنکجا منڈے سمیت ونود تاوڑے اور آشیش شیلار جیسے فڈنویس
کے حریفوں انتخابی مہم کی اہم ذمہ داریاں دے کر یہ پیغام دے دیا ہے کہ اب
موصوف پر اعتماد اٹھ چکاہے۔ مہاراشٹر کی سیاست میں دیویندر فڈنویس کا عروج
و زوال چشم کشا ہے۔ 2014میں جب غیر متوقع مودی کی کامیابی کے بعد فڈنویس
اچانک وزیر اعلیٰ بن گئے تو لوگ باگ نریندر کے بعد دیویندر کی باتیں کرنے
لگے تھے۔ آگے چل کر دیویندر فڈنویس نے اپنے حریفوں کو اس طرح ٹھکانے لگایا
کہ ایکناتھ کھڑسے پارٹی سے باہر اور ونود تاوڑے مہاراشٹر پار دہلی
بھجوادیئے گئے۔ پنکجا منڈے کے پر کترنے کا کام بھی فڈنویس نے کیا تھا ۔اس
کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود ان پر کتر دئیے گئے اور انہیں وزیر اعلیٰ سے نائب
بنا دیا گیا۔ اس بیچ مہاراشٹر سے نکال کر نڈا کی جگہ بیٹھانے کی خبر آئی
اور پھر آئی گئی ہوگئی۔
نبیٔ کریم ﷺ کی اہانت کرنے والے گری راج کو تحفظ کی یقین دہانی کرنے والے
ایکناتھ شندے کو بدعنوانی کے ایک جھونکے نے غیر محفوظ کردیا۔ شیواجی مجسمہ
کے انہدام سے وزیر اعلیٰ کےگھمنڈ کو چکنا چور ہوگیا ۔ اس حادثے کے بعد جب
انہوں نے تیز طوفانی ہوا کو پتلے کے گرنے کا سبب بتایا تو ساری دنیا ہنس
رہی تھی کیونکہ سندھود دُرگ ضلع کے مالون میں نہ کوئی چھت اڑی تھی اور نہ
کوئی پیڑ گرا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ قدرت کا یہ عذاب صرف اور صرف ایکناتھ
شندے کی سرکار کو گرانے کے لیے آیا تھا ۔ اس نے کوئی اورایذا رسانی نہیں
کی۔ اہانت رسول ﷺ پر وزیر اعلیٰ کے بیان پر خاموش رہنے والی مہا وکاس
اگھاڑی نے شیواجی کا مجسمہ منہدم ہونے کے خلاف نے یکم ستمبر کواحتجاجی جلوس
نکالنے کا اعلان کردیا ۔ اس معاملے کو شندے حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی
سے جوڑ کر دوہرا حملہ بول دیا گیا ہے۔یہ جلوس مہاراشٹر کے لیے جان کا
نذرانہ پیش کرنے والوں کو ہوتاتما چوک پر خراجِ عقیدت پیش کرنےکے بعد گیٹ
وے آف انڈیا پر موجود شیواجی کے مجسمہ تک جائے گا۔ بدلا پور کے معاملے میں
تو مہاراشٹر بند پر ہائی کورٹ کے ذریعہ پابندی لگوائی گئی تھی مگر شندے اور
فڈنویس میں دم ہے تو اس جلوس کو روک کر دکھائیں ۔
مہاراشٹر کے ریاستی انتخابات میں ہوا کا رخ اپنی جانب کرنے کی خاطر صوبائی
سرکار نے پہلے لاڈلی بہن اور پھر لاڈلے بھائی کو رام کیا مگر اس سے پہلے کہ
عوام کی فلاح وبہبود کے لیے جمع کیا جانے والاٹیکس کا روپیہ انتخابی
کامیابی کی خاطر لاڈے باپ ، ماں ،بہو یا خسر میں تقسیم کیا جاتا ہے بدلا
پور کی عصمت دری نے لاڈلی بہن (پنکجا منڈے ) اور شیواجی مجسمہ کے انہدام سے
لاڈلے بھائی (اجیت پوار) ناراض ہوگئے۔ ویسے یہ غم غصہ ریاست کے بیشتر بھائی
بہن کا ہے اس لیے موجودہ سرکار کی بدعنوانی اور نااہلی کی سزا ہر کوئی بھگت
رہا ہے۔ بدلا پور کی عصمت دری کا معاملہ مجسمہ کے انہدام سے عارضی طور پر
پیچھے تو چلا گیا مگر ختم نہیں ہوا ۔ اس کو زندہ رکھنے کا کام خود بی جے پی
کرے گی کیونکہ وہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر کولکاتہ کا معاملہ اچھالتی رہے
گی اور حزب اختلاف اسے منی پور میں فوجی کی اہلیہ کے ساتھ زیادتی اور بدلا
پور کا واقعہ یاد دلاتا رہے گا ۔ مہاراشٹر میں فی الحال حزب اختلاف کے
دونوں ہاتھوں ہنٹر ہے اور اس کی مدد سے وہ ریاستی سرکار کی کھال ادھیڑ رہا
ہے۔
ریاست میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کی مخالفت میں ممبئی کے
'ماتوشری' یعنی ادھو ٹھاکرے کے گھر پر مہا وکاس اگھاڑی کی ایک نشست ہوئی جس
میں نانا پٹولے اور شرد پوار نے بھی میڈیا کے سامنے خواتین کے خلاف جرائم
پر تشویش ظاہر کیا۔ اس کے اثرات کو زائل کرنے کی خاطر پنکجا منڈے کو میدان
میں اتارا گیا اور انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر اپنے طویل انٹریو میں کہا کہ
حزب اختلاف کو عصمت دری کے واقعات پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ پنکجا نے اپنی
پارٹی کو ستی ساوتری ثابت کرنے کے لیے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر بی جے پی
اپوزیشن میں ہوتی تب بھی ایسا نہیں کرتی۔ بدقسمتی سے اس انٹرویو کے فوراً
بعد خود گودی میڈیا نے کولکاتہ میں بی جے پی کے ذریعہ عصمت دری کے خلاف بند
اور تشدد کی خبریں نشر کرکے بی جے پی کی لاڈلی بہن پنکجا منڈے کے کھوکھلے
دعویٰ کو بے نقاب کردیا۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام کا جذباتی استحصال کرکے
اقتدار کے گلیارے میں پہنچنے والی بی جے پی نے خوب عیش کرلیا مگر اب سیاسی
افق پر منظر نامہ تیزی کے ساتھ بدل ر ہا ہے۔ اس سے پریشان ہوکر اجیت پوار
توخیر اپنے چاچا کی پناہ میں چلے جائیں گے اور وہ بھی معافی تلافی کرکے
انہیں اپنی پارٹی میں شامل بھی کرلیں گے لیکن بیچارے ایکناتھ شندے اور
دیویندر فڈنویس پر میر تقی میر کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ؎
دل جو اکتاتا ہے یا رب رہ نہیں سکتے کہیں
کیا کریں جاویں کہاں گھر میں رہیں باہر رہیں
|