ایک یہودی نے اپنے بیٹے کو کہا: جاؤ سودا لے آؤ تو وہ گیا، لڑکا راستے سے
گزر رہا تھا کہ اس کی نظر حضور ﷺ پر پڑی اور حضور ﷺ
کی نظربھی اس لڑکے پر پڑی ، وہ وہیں بیٹھ گیا اور وہیں بیٹھا رہ گیا اور
دیر ہو گئی.
وہ یہودی کبھی اندر جاتا کبھی باہر آتا کہ لڑکا کہاں رہ گیا، آیا نہیں ابھی
تک، سورج غروب ہو گیا مغرب کی نماز ہو گئی، شام کو گھر گیا
باپ نے پوچھا : ارے نادان اتنی تاخیر کی ؟ باپ بہت غصے میں کہ بڑا نادان
اور پاگل ہے میں نے کہا تھا جلدی آنا تم اتنی دیر کر کے آئے ہو اور تمہیں
سودا لینے بھیجا تھا تم خالی ہاتھ واپس آ گئے ہو، سودا کہاں ہے؟
بیٹا بولا: سودا تو میں خرید چکا ہوں.
باپ : کیا پاگل آدمی ہو تم؟ میں نے تجھے سودا لینے بھیجا تھا، سودا تمہارے
پاس ہے نہیں ، اور کہتا ہے خرید چکا ہوں.
بیٹا کہتا ہے: بابا ! یقین کریں، سودا خرید آیا ہوں.
باپ بولا : تو دکھا کہاں ہے
بیٹے نے کہا: کاش تیرے پاس وہ آنکھ ہوتی تو تجھے دکھاتا میرا سودا کیا ہے!
میرے بابا ! میں تمہیں کیا بتاؤں میں کیا سودا خرید لایا ہوں؟
باپ نے بولا: چل چھوڑ رہنے دے، وہ لڑکا روز نبی اے رحمت ﷺ کہ خدمت میں
بیٹھنے لگا.
وہ یہودی کا اکلوتا بیٹا تھا ، بہت پیارا تھا اس لئے کچھ نہ کہا ، کچھ دنوں
بعد لڑکا بہت بیمار ہو گیا، کافی دن بیمار رہا، اتنا بیمار ہوا کہ کمزوری
اتنی ہوگئی کروٹ لینا مشکل ہو چکی تھی ، اور پھر قریب المرگ ہو گیا ، یہودی
بہت پریشان تھا، پھر بھاگا گیا حضور ﷺ کی بارگاہ میں، اور بولا میں آپ کے
پاس آیا ہوں، آپ تو جانتے ہی ہیں میں یہودی ہوں مجھے آپ سے کوئی اتفاق
نہیں، مگر میرا لڑکا آپکو دل دے گیا ہے، اور قریب المرگ ہے ، آپ کو رات دن
یاد کر رہا ہے ، کیا ممکن ہے آپ اپنے اس دشمن کے گھر آ کر اپنے عاشق کو ایک
نظر دیکھنا پسند کرو گے؟ کیا یہ آرزو پوری ہو جائے گی کہ وہ
مرنے سے پہلے آپ ﷺ کا دیدار کر لے ؟ وہ کسی اور چیز کی آرزو نہیں کر رھا
آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا میں جاؤں گا یا نہیں جاؤں گا ،
آپ ﷺ نے فرمایا: ابو بکر ! اٹھو ، عمر ! اٹھو، علی ! چلو، چلیں ، عثمان !
آؤ، باقی بھی جو سب ہیں چلیں آپ کے عاشق کا دیدار ہم بھی کریں ، اپنا دیدار
اسے دیتے ہیں. آخری لمحہ ہے، آنکھیں بند کرنے سے پہلے اسے ہم کچھ دینا
چاہتے ہیں، چلو چلتے ہیں، یہودی کے گھر پہنچے تو لڑکے کی آنکھیں بند تھیں،
حضور ﷺ کا سراپا کرم ہی کرم ہے، لڑکے کی پیشانی پر آپ ﷺ نے اپنا دست اقدس
رکھا، لڑکے کی آنکھیں کھل گئیں، جیسے زندگی لوٹ آئی ہو، جسم میں طاقت آ
گئی، ناتوانی میں جوانی آئی ، آنکھیں کھولیں، رخ مصطفی ﷺ پر نظر پڑی، ہلکی
سی چہرے پر مسکراہٹ آئی، لب کھل گئے،مسکراہٹ پھیل گئی، حضور ﷺ نے فرمایا:
بس ! اب کلمہ پڑھ لو.
لڑکا اپنے باپ کا منہ تکنے لگا تو وہ یہودی بولا : میرا منہ کیا تكتا ہے؟
ابوالقاسم (محمد ابن عبداللّہ ﷺ ) جو کہتے ہیں كرلو .
لڑکا بولا : یا رسول اللّہ! ﷺ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں!
آپ ﷺ نے فرمایا: بس تم کلمہ پڑھو ! میں جانو اور جنت جانے، تم میرے ہو جاؤ
جنت بھی تو میری ہے، جنت میں لے جانا یہ میرا کام ہے.
لڑکے نے کلمہ پڑھا ، جب اس کے منہ سے نکلا " محمد رسول اللّہ " روح باہر
نکل گئی، كلمے کا نور اندر چلا گیا، آنکھیں بند ہوئیں، لب خاموش ہوئے،
اس لڑکے کا باپ وہ یہودی بولا:
محمد ! ( ﷺ ) میں اور آپ دونوں مخالف ہیں،
اس لئے یہ لڑکا اب میرا نہیں رہا ، اب یہ اسلام کی مقدس امانت ہے، كاشانہ
اے نبوت ﷺ سے اس کا جنازہ اٹھے ، تب ہی اس کی عزت ہے، لے جاؤ اس کو .
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: صدیق ! اٹھاو، عمر ! اٹھاو، عثمان ! آگے
بڑھو ، بلال ! آؤ تو سہی، علی ! چلو دو کندھا ، سب اٹھاو اسے ،
آقا علیہ السلام جب یہودی کے گھر سے نکلے تو یہ فرماتے جا رہے تھے:
اس اللّہ کا شکر ہے جس نے میرے صدقے سے اس بندے کو بخش دیا،
اس اللّہ کا شکر ہے جس نے میرے صدقے سے اس بندے کو بخش دیا،
( اللّہ هو اکبر ! کیا مقام ہوگا اس عاشق کی ميت کا جس کو علی، عثمان ، ابو
بکر صدیق ، عمر بن خطاب ، بلال حبشی رضی اللہ عنھہما جیسی مشہور شخصیات
کندھا دے کر لے جا رہے ہوں، اور آگے آگے
محمد مصطفی ﷺ ہوں )
قبر تیار ہوئی، کفن پہنایا گیا، حضور ﷺ قبر کے اندر تشریف لے گئے، قبر میں
کھڑے هوے ، اور کافی دیر کھڑے رہے ، اور پھر اپنے ہاتھوں سے اس عاشق کی ميت
کو اندر اتارا. آپ ﷺ قبر کے اندر پنجوں کے بل چل رہے تھے ، مکمل پاؤں مبارک
نہیں رکھ رہے تھے، کافی دیر کے بعد آپ ﷺ قبر سے باہر آئے تو چہرہ پر تھوڑی
زردی چھائی تھی، تھكن محسوس ہوئی ، ( اللّہ ھو غنی )
صحابہ پوچھتے ہیں: حضور ! ﷺ یہ کیا ماجرا ہے؟ پہلے تو یہ بتائے آپ ﷺ نے قبر
میں پاؤں مبارک مکمل کیوں نہیں رکھا ؟
آپ ﷺ پنجوں کے بل کیوں چلتے رہے؟
تو کریم آقا ﷺ نے فرمایا: قبر کے اندر بے پناہ فرشتے آئے ہوئے تھے، اس لئے
مجھے جہاں جگہ ملتی تھی ، میں پنجہ ہی رکھتا تھا، پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں
تھی، میں نہیں چاہتا تھا کسی فرشتے کے پاؤں پر میرا پاؤں آ جائے.
پھر صحابہ نے پوچھا : آپ ﷺ قبر کے اندر کیوں گئے؟ ہمیں کہتے ، ہم چلے جاتے
! (تو سبحان اللّہ خوبصورت جواب دیا )
کہ میں نے اس لڑکے کو بولا
تھا نا! تیری قبر کو جنت بناوں گا تو اب اسی قبر کو جنت بنانے قبر کے اندر
چلا گیا تھا.
تو پھر حضور ﷺ اتنے تھکے ہوئے کیوں ہیں؟
تھکا اس لئیے ہوں کے فرشتے اور حوریں اس عاشق کےدیدار کے لئے آ رہے تھے،
اور میرے وجود سے لگ لگ کر گزر رہے تھے، ان کی وجہ سے تھک گیا ہوں.
.
1: سنن ابو داؤد: جلد: 3، / صفحہ: 185، / حدیث: 3095،
2: مسند احمد بن حنبل: جلد: 3، / صفحه: 175، / حدیث: 12815
|