اردو تدوین متن کی روایت کے شہ سوار
اریبہ ارشد
(بی ایس اردو اسکالر)
Abstract: Editing is a very important branch of research which means to
arrange or to collect. As a term, it means “to edit the text as per the
writer's will”. It is also considered as a “purifier” because it filters
plagiarism and forgery from the texts. “Editing text” is a synthesis of
“text and editing”. Before the establishment of printing press and
publishing houses, literary documents were written by hand and were many
errors in the texts as the result of scribe’s lack of focus. Now,
editing rectifies these errors. In Urdu, editing is known as Compilation
and in English it is called “textual criticism”.
Key Words:
Textual criticism, compilation, editing, arrangement, collection,
plagiarism etc.
تدوین عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ مونث ہے ، اس کا مادہ دوّ ن سے نکلا ہے۔
عربی میں اس کے معنی جمع کرنا مرتب کرنا اور تالیف کرنا وغیرہ ہیں۔تدوین ،
تحقیق کی بہت اہم شاخ ہے،جس کے لغوی معنی ہیں ترتیب دینا یا جمع کرنا۔
اصطلاح میں اس سے مراد کسی متن کو ،منشائے مصنف کے مطابق ترتیب دینا ہے اور
متون میں آنے والی تبدیلی ، تحریفات، سرقہ اور جعل سازیوں سے متون کو پاک
کرنا ہے ۔ تدوینِ متن ایک ترکیب ہے جو اضافت کے ذریعے تدوین اور متن کو
جوڑے ہوئے ہے۔ طباعتی اور اشاعتی اداروں کے قائم ہونے سے پہلے تمام ادبی
دستاویزات چونکہ ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں اور کاتب کی عدم توجہی یا کم عقلی
کی وجہ سے اس میں کتابت کی اغلاط کی بہت زیادہ ہوتی تھیں ، ان خامیوں کو
دور کرنے کے لیے تدوین ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اردو میں اسے تدوین کے
ساتھ ساتھ متنی تنقید اور ترتیب متن بھی کہا جاتا ہے اور انگریزی میں اسے
“textual criticism” کہتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم لغات میں درج تدوین اور متن کے معنی اور پھر ماہرینِ تدوین
کی رائے میں ان دونوں لفظوں کا مفہوم دیکھتے ہیں۔
عربی کی مشہور لغت مصباح اللُّغات میں تدوین کی تعریف ان الفاظ میں درج ہے:
’’دون الدیوان، ترتیب دینا، رجسٹر میں نام لکھنا‘‘۔ (۱)
نورُ اللُّغات کے مؤلف ،نور الحسن نیّر کے مطابق:
’’تدوین ’’جمع کرنا‘‘یا ’’مرتب کرنا‘‘۔(۲)
ایس ایم کاتر ے نے تدوین کی تعریف یوں کی ہے :
“Textual criticism has for its sole object the interpretation and
controlling of the evidence contained within the manuscripts of the text
or in documents so that we can reach as far back as possible and try to
recover the authentic text or to determine as nearly as possible the
words written by the author himself….” (۳)
اب لغت میں متن کے معانی دیکھتے ہیں:
فرہنگ عامرہ کے مطابق :
’ متن (مت۔ن)کتاب کے صفحے کی درمیانی عبارت جمع متون ،مِتان“(۴)
گیان چند جین ،متن کی تعریف یوں کرتے ہیں:
’’ اردو میں تدوینِ متن کی حد تک ہم متن اس تحریر کو کہہ سکتے ہیں جسے کوئی
محقق ترتیب دینا چاہتا ہے ۔وہ تخلیقی نظم و نثر ہو یا غیر تخلیقی
۔مثلاًکوئی تذکرہ یا انشا کی دریائے لطافت یا گل کرسٹ کا رسالۂ قواعد
وغیرہ ۔“(۵)
ایس ۔ایم کاترے نے درج ذیل الفاظ میں متن کی تعریف کی ہے :
“By a text we understand a document written in a language known, more or
less, to the inquirer, and assumed to have a meaning which has been or
can be ascertained.”(۶)
ڈاکٹر گیان چند، تدوینِ متن کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تدوینِ متن مختلف نسخوں، شاذ وحید نسخے کا مطالعہ کر کے مصنف کے اصل متن
کی باز تشکیل کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘ (۷)
اردو میں تدوین متن کی روایت عربی اور فارسی کے راستے پہنچی ہے ۔ اگر ہم
تدوین کے آغاز و ارتقا کی بات کریں تو یہ بات تیقّن کے ساتھ کہی جا سکتی
ہے کہ تدوینِ متن کی ابتدا قرآن کریم کی تدوین سے ہوئی،قرآن پاک چوں کہ
وقفے وقفے سے نازل ہوا اس لیے کاتبین وحی صحابہ کرام ؓ اسے مختلف اشیا
مثلاً کھجور کے پتوں اور چمڑے پر تحریر کر لیتے تھے اور ساتھ ساتھ اسے حفظ
بھی کرتے رہتے تھے ۔
باضابطہ طور پر تدوین قرآن کا کارنامہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے
دور میں انجام دیا گیا،اس کے بعد حضرت عمر فاروق ؓنے ایک سال کے عرصے میں
اسے پایہ تکمیل تک پہنچا یا ۔حضرت عثمان غنی کے دور میں اختلاف قرأت بہت
زیادہ تھا اس وجہ سے کتابی صورت میں جمع کرنے کا کام مکمل کیا گیا۔حضرت
عثمان کے حکم سے حضرت حفصہ ؓکے صحیفوں سے قرآن کریم نقل کرنے کا سلسلہ
شروع ہوا اور تدوین کا عمل انجام دیا گیا۔
اس کے علاوہ عربی میں تدوین متن کو فروغ دینے میں جن مدونین نے خدمات سر
انجام دیں ان میں ڈاکٹر محمد حمدی بکری ، عبدالسلام محمد ہارون، علامہ
عبدالعزیز میمنی، ڈاکٹر محمد بدرالدین علوی، اور امتیاز علی خاں عرشی وغیرہ
کے نام قابلِ ذکر ہیں۔تدوین متن کا آغاز چوں کہ بیسویں صدی کے اوائل میں
ہندوستان سے ہوتا ہے تو اس ضمن میں دائرۃ المعارف عثمانیہ حیدرآباد کا بھی
عربی تدوین کے باب میں اہم کردار رہا ہے۔جب کہ فارسی (ایران) میں تدوین متن
کی روایت کو کامیاب بنانے میں علامہ عبدالوہاب قزوینی،علی اکبر دہخدا،استاد
معین، ڈاکٹر نفیسی،مجتبیٰ مینوی، اور عبدالعظیم قریب وغیرہ نے کلیدی کردار
ادا کیا۔
اردو میں اگر تدوینِ متن کی روایت کے آغاز کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس
کے ابتدائی نقوش سرسید کے ہاں نظر آتے ہیں لیکن ان کی تدوین کا تعلق اردو
کے بجائے فارسی سے ہے ۔جہاں تک اردو کے پہلے باضابطہ مدون کی بات کا تعلق
ہے تو اس کا سہرا علامہ شبلی نعمانی کے سر ہے ۔انھوں نے مرزا علی خاں لطف
کے مشہور تذکرہ ’گلشن ہند‘ کو ۱۹۰۶ء میں مرتب کرکے شائع کیا۔یہ اردو میں
تدوین متن کا پہلا کارنامہ ہے۔ اس سے پہلے اردو میں کسی کتاب کو مرتب کرنے
کی روایت نہیں ملتی۔ گلشنِ ہند کی تدوین کے وقت شبلی کے زیرِ نظر ایک ہی
نسخہ تھا اس لیے تقابلی جائزہ اس طرح سے ممکن نہیں تھا اس کے باوجود شبلی
نے حاشیے میں مبہم عبارتوں کی وضاحت کی ہے اس کے علاوہ جہاں جہاں ضرورت
محسوس ہوئی ہے املا بھی درست کیا ہے،گلشن ہند میں شبلی کے حواشی کی تعداد
تقریبا ۴۲ ہے،شبلی نے گلشن ہند کی ہے کس طرح ترتیب و تدوین کی اس کا تعارف
کراتے ہوئے ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی لکھتے ہیں:
’’گلشن ہند کی تصحیح و تدوین میں علامہ شبلی نعمانی نے کن اصولوں کو پیش
نظر رکھا تھا،اس کی انھوں نے کہیں وضاحت نہیں کی ہے،ان کے قلم سے جو حواشی
وضاحتی نوٹ ہیں،ان سے طریقۂ تصحیح و تدوین کا اندازہ کسی قدر ضرورہوتا ہے
اوران کی بنیاد پر کہا جاسکتاہے کہ علامہ شبلی نے اپنے ہی تحقیقی و تدوینی
اصولوں سے بڑی حد تک کام لیا ہے،انھوں نے اصل سے تحقیق و مراجعت بھی کی ہے
اور وضاحتی و تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں بعض اضافے بھی کیے ہیں،املا کی تصحیح
بھی کی ہے اس کے علاوہ مفید علمی و تنقیدی حواشی بھی لکھے ہیں،ان ہی پانچ
بنیادی امور سے تذکرہ گلشن ہند مزین ہوکر طبع و اشاعت کی منزل سے گزرا۔‘‘
(۸)
علامہ شبلی نعمانی کے بعد تدوین متن کی روایت کو جس شخصیت نے آگے بڑھایا
وہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ہے ۔آپ نے وسیع پیمانے پر مخطوطات اور
قلمی نسخوں کے متون کو مرتب کر کے شایع کیا ہے ۔ان میں سے بیشتر بوسیدہ اور
خستہ حالت میں تھے ۔ان قلمی نسخوں میں تذکروں کے علاوہ دکنی متون بھی شامل
تھے ۔آپ نے ایسے قلمی نسخوں کو بھی دریافت کیا جس کی عام طور پر لوگوں کو
خبر نہ تھی ۔پھر دکن کے قدیم متون کو مرتب کرنا اور بھی مشکل اور تھکا دینے
والا کام تھا ۔ان نسخوں کا قدیم طرز ِاملا ،کاتبوں کی اغلاط ،قدیم محاورات
اور نا مانو س الفاظ جیسے مسائل کے باوجود آپ نے بڑے پیمانے پر ان نسخوں
کی ترتیب و تدوین کا کام سر انجام دیا۔آپ نے نکات الشعراء،گل عجائب،تذکرہ
ریختہ گویاں،تذکرہ ہندی ،عقدِ ثریا،مخزن الشعراء،مخزنِ نکات،چمنستان شعراء،
قطب مشتری ،دیوانِ اثر،دیوانِ تاباں ذکرِ میر،سب رس،باغ وبہار،کہانی رانی
کیتکی وغیرہ جیسے متون کی ترتیب و تدوین کر کے اردو تدوینِ کے سرمائے میں
قابلِ قدر اضافہ کیا ۔
تدوین متن کی روایت کا ایک بلند نام حافظ محمود شیرانی کا ہے جنھوں نے
تدوین و ترتیب کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔آپ ایک ممتاز محقق اور ماہر
لسانیات ہیں۔ تحقیق کے ساتھ ساتھ آپ نے تدوین متن کا کام بھی سر انجام
دیا۔اگرچہ آپ نے ایک ہی کتاب "مجموعۂ نغز "کی تدوین کی لیکن یہ بھی تدوین
کا ایک عمدہ نمونہ ہے ۔قدرت اللہ قاسم کا تذکرہ’’ مجموعۂ نغز‘‘جو مخطوطے
کی شکل میں مولانا محمد حسین آزاد کی ذاتی لائبریری میں موجود تھا ۔یہ
نہایت ہی خستہ اور بوسیدہ حالت میں تھا ،کرم خوردگی اور بوسیدگی کی وجہ سے
جا بہ جا بعض الفاظ اور جملے ضائع ہو گئے تھے ۔ جب کہ دوسری طرف کاتب بھی
خوش خط نہیں تھا ۔نقطوں کا التزام بھی بہت کم کیا گیا تھا ۔اس کے علاوہ
مصنف کے زیرِ نظر ایک دوسرا نسخہ بھی تھا جو آپ کو انڈیا آفس لائبریری سے
ملا تھا اس نسخے کا حال بھی پہلے والے نسخے ہی کی طرح تھا ۔ان تمام مشکلات
کے باوجود حافظ محمود شیرانی نے نہایت خوش اسلوبی سے تدوین کا کام سر انجام
دیا ۔ یہ نسخہ حافظ شیرانی کو بوسیدگی کی حالت میں ملا تھا اس کی وضاحت اس
طرح کرتے ہیں:
’’نسخہ ہذا مجھ کو نہایت خستہ حالت میں ملا ہے اول تو مصنف کی تحریر میں
نقاط کا بہت کم التزام ہے اور اس لیے اس کی نقل لینا آسان کام نہیں
تھا،متن کی تصحیح میں ہر ممکن ذریعہ سے کام لیا گیا ہے تاہم کئی مقام اب
بھی صاف نہیں ہوئے،دوسرے کثرت سے کرم خوردہ ہونے کے علاوہ جس کا اثر عبارت
متن پر بھی عامل ہے،متعدد اوراق کا کچھ کچھ حصہ ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو انچ کے دور
میں ضائع ہو چکا ہے ‘‘۔(۹)
اگر حافظ محمود شیرانی اس نسخے کو مرتب نہ کرتے تو عین ممکن ہے کہ یہ نسخہ
بھی زمانے کی نذر ہو جاتا ۔ حافظ محمود شیرانی نے نہایت ثابت قدمی اور توجہ
سے اس نسخے کو مرتب کیا اور اس کے لیے انھوں نے آزاد کے متن کو بنیاد
بنایا اور انڈیا آفس والے نسخے کے اختلافات کو کہیں متن اور کہیں حواشی
میں درج کیا ۔اگر پہلے نسخے میں سے الفاظ غائب ہیں تو دوسرے نسخے سے ضائع
شدہ عبارت کو مکمل کیا ہے اور ایسی عبارتوں کو ممتاز کرنے کے لیے قلابین کی
علامت استعمال کی ہے ۔اسی طرح بعض مقامات پر انھوں نے قیاسی تصحیح سے کام
بھی لیا ہے اور ایسی عبارت یا الفاظ کو نمایاں کرنے کے لیے انھیں قوسین میں
درج کیا ہے ۔
مرتب نے مصنف کے اصل املا کو بھی برقرار رکھا ہے تاکہ آنے والے زمانے میں
اس دور کے اہل قلم کے خصائص اور املا کو محفوظ رکھا جا سکے اس کے علاوہ لوگ
اس عہد میں لکھے اور بولے جانے والے اردو الفاظ سے آشنا ہو سکیں ۔چنانچہ
مرتب اس کتاب کے دیباچے میں اس عہد کے ایسے رائج املا کی فہرست بھی مرتب کی
ہے۔حافظ محمود شیرانی کے اس کام کو اس لیے بھی مقبولیت کی سند حاصل ہے کہ
جب انھوں نے اس نسخے کو مرتب کے تو ان کے زیرِ اثر تدوین متن کا کوئی اعلیٰ
نمونہ موجود نہ تھا ۔اس کے با وجود آپ نے مجموعہ ٔ نغز کا ایک اعلیٰ اور
معیاری متن تیار کر کے اہل علم کے سامنے پیش کیا ۔
مجموعۂ نغز اس حوالے سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ کتاب مولانا محمد حسین
آزاد کے تذکرہ’’ آب حیات ‘‘کا ماخذ ہے۔جب تک یہ کتاب نظر عام پر نہیں
آئی اس وقت تک لوگ اس بات سے انجان تھے کہ شعرا کے حالات لکھتے ہوئے
مولانا محمد حسین آزاد نے اس کتاب سے استفادہ کیا تھا ۔ جس کا علم ’’
مجموعہ ٔ نغز ‘‘ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ہوا ۔
حافظ محمود شیرانی نے وضاحت کی کہ’ ’ آب حیات ‘‘ مجموعۂ نغز سے ماخوذ ہے۔
آزاد کے علاوہ اسپرنگر، گارساں دتاسی وغیرہ نے بھی اس سے استفادہ کیا
ہے۔اس تعلق سے حافظ شیرانی مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’ مولانا نے اگرچہ ہر موقع پر اس تالیف سے استفادہ کا اظہار نہیں کیا ہے
تاہم وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ’’ آب حیات‘‘ کا ایک بڑا حصہ اس
تذکرہ سے ماخوذ ہے‘‘۔(۱۰)
حافظ محمود شیرانی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس کتاب کے مصنف
میر قدرت اللہ قاسم کے حالات زندگی کو مختلف تذکروں کی مدد سے یکجا کر دیا
ہے۔ اس سے پہلے مصنف کے حالات زندگی اس طرح یکجا طور پر دستیاب نہیں تھے
۔جس کی وجہ سے اس کتاب کی قدر وقیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ حافظ شیرانی
نے’خالق باری‘بھی مرتب کی اور اس کے مصنف کو بھی دریافت کیا مگر ان کی اس
کاوش کو مجموعۂ نغز جیسی مقبولیت نہ مل سکی۔
محی الدین قادری زور (۱۹۰۵ء ۔۱۹۶۲ء)کا بھی اردو کے اہم محققین اور مدونین
میں شمار ہوتا ہے۔زور محقق ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر لسانیات،مخطوطہ شناس اور
اچھے ناقد بھی ہیں زور کے تدوینی کارناموں میں ’اردو شہ پارے‘، ’کلیات قلی
قطب شاہ‘اور ’گلزار ابراہیم مع گلشن ہند‘ وغیرہ شامل ہیں۔
محی الدین زور کا سب سے اہم کارنامہ کلیات قلی قطب شاہ کی تدوین ہے۔دکنی
اردو سے انھیں عشق تھا ۔دکن کی سر زمین سے انھیں بہت محبت تھی اور اسی محبت
نے انھیں اردو کے اس قدیم مرکز کے ادب پاروں کی بازیافت کی طرف متوجہ
کیا۔ان کی کوششوں کی وجہ سے کم از کم قلی قطب شاہ کا کلام منظر عام پر آ
گیا ورنہ ضائع ہونے کا خدشہ تھا۔ یہ الگ با ت ہے کہ اس کام میں تدوین کے
اصولوں کو کس حد تک بروئے کار لایا گیا ہے،مشہور مدون رشید حسن خاں نے زور
کے تدوینی کام پر اعتراضات کیے ہیں اور الزام عائد کیا ہے کہ ان کا کام
تدوین کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔
پہلا اعتراض نظموں پر عنوانات قائم کرنے سے متعلق ہے۔کلیات میں تمام نظمیں
مختلف عنوانات کے تحت ترتیب دی گئی ہیں ۔رشید حسن خاں نے اس کلیات کے اصل
نسخے کو دیکھا ہے جس میں یہ عنوانات درج نہیں ہیں ۔اگر مرتب نے یہ عنوانات
اپنی طرف سے شامل کیے ہیں تو یہ بے جا تصرف اور اصول تدوین کے منافی ہے ۔
دوسرا اعتراض متن سے متعلق ہے کہ ڈاکٹر زورؔ نے متن سے متعلق ضروری تشریحات
کا ضمیمہ درج نہیں کیا اور نہ متن میں مقدمےسے متعلق ضروری تشریحات ہی درج
کی ہیں ا ور نہ حواشی کا اہتمام کیا ہے ۔
چوتھا اعتراض املا اور تلفظ سے متعلق ہے ۔قدیم دکنی متون میں فرہنگ کا شامل
کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ قدیم اور نا مانوس اور متروک الفاظ کے معنی معلوم
ہو سکیں اور متن کی تفہیم میں آسانی ہو ۔
پانچواں اعتراض متن کی مشکلات و متعلقات کے بارے میں ہے ۔یہ چند خامیاں
تھیں جن کی جانب رشید حسن خاں نے توجہ مبذول کروائی ۔رشید حسن خاں یوں رقم
طراز ہیں:
’’۔۔۔کلیات قلی قطب شاہ ہے ،جسے ڈاکٹر محی الدّین قادری زورؔ نے مرتب
کیاتھا۔ مرتب نے طویل تر مقدمہ لکھا تھا جو سرا سر ایسے بیانات پر مشتمل ہے
جن کا متن سے یا یوں کہیے کہ تدوین سے کچھ تعلق نہیں ۔لسانی تحقیق زورؔ
صاحب کا خاص موضوع تھا۔ادبی تحقیق سے ان کو دور سے نسبت تھی اور تدوین سے
ان کا ذہنی رابطہ اس سے بھی کم تھا۔ان کے مقدمے میں عہدِ قلی قطب شاہ سے
متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے ،لیکن جس متن پر ان سب بیانات کا انحصار ہے،اس
کی طرف کم سے کم توجہ دی گئی ہے۔انھوں نے ایک ستم یہ بھی کیا ہے کہ اپنی
طرف سے عنوانات تصنیف کر کے مختلف اجزائے کلام پر چسپاں کر دیے گئے ہیں۔اصل
مخطوطہ ان عنوانات سے خالی ہے ۔یہ واضح طور پر متن میں دخل اندازی ہے جو
تدوین کے نقطۂ نظر سے قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ (۱۱)
یہ اعتراضات درست ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ڈاکٹر
محی الدین زور ؔ کی اس کوشش سے لوگ قلی قطب شاہ کے کلام سے آشنا ہوئے اور
ان کا دکنی ادب کی جانب رحجان بڑھا۔اگر ڈاکٹر زورؔ اس جانب توجہ نہ کرتے تو
شاید یہ کلیات ضائع ہو جاتا ۔
اردو تحقیق میں حافظ محمود شیرانی کی روایت کو آگے بڑھانے والے عظیم محقق
قاضی عبدالودود ہیں انھیں اردو تحقیق کا معلم ثانی بھی کہاجاتا ہے،قاضی
عبدالودود ایک اچھے مدون بھی تھے متعدد کتابیں تدوین کیں جیسے تذکرۂ شعرا
مصنفہ ابن امین اللہ طوفان،تذکرۂ شعرا ئے اردو از میر حسن،تذکرہ ٔمسرت
افزا، خلاصۂ تذکرۃ الاکابر،قطعات دلدار،سفرآشوب قلق،کلام شاد،مثنوی راجہ
کلیان سنگھ عاشق وغیرہ مگر قاضی صاحب تدوین پر دسترس کے باوجود تدوین کے
باب میں تحقیق کی طرح کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔
رشید حسن خاں قاضی صاحب کی تدوینی خدمات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ تدوین جن شرائط کا مطالبہ کرتی ہے،وہ سب قاضی صاحب میں بدرجہ ٔ اتم پائی
جاتی ہیں،قدیم زبان،متعلقات،قواعد و زبان وغیرہ پر ان کو قابل رشک دسترس
حاصل تھی لیکن تدوین جس ضبط و نظم کا مطالبہ کرتی ہے ان کا مزاج اس سے میل
نہیں کھاتا تھا وہ متفرق کام اعلیٰ پیمانے پر انجام دیا کرتے تھے،منصوبہ
بندی کے ساتھ کوئی مفصل اور مربوط کام کرنا یعنی کسی بڑے کینوس پر مربوط
نقش کی تشکیل ان کا مزاج ا س سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتا تھا۔بہت سے ٹکڑوں
میں منقسم کام کو وہ خوب کیا کرتے تھے ان کی اس افتاد طبع نے تدوین کے
دائرہ میں انھیں کوئی بڑا کام نہیں کرنے دیا۔ان کی جو حیثیت تحقیق میں
ہے،تدوین میں وہ حیثیت پیدا نہ ہوسکی اور اس سے تدوین کی روایت کو نقصان
پہنچا ‘‘۔(۱۲)
اردو تدوین کی روایت میں مولانا امتیاز علی عرشی (۱۹۰۴ء)کی بنیادی پہچان
ماہرِ غالبیات کی ہے ۔ آپ نے تدوین متن کے متعدد معیاری اور مثالی نمونے
پیش کیے ۔اس طرح آپ نے اردو تدوین کو ایک نئی سَمت عطا کی ۔ ان کا سب سے
مثالی کارنامہ ’مکاتیب غالب ‘ کی تدوین ہے،امتیاز علی عرشی اصول تدوین سے
اچھی طرح آشنا تھے،اختلاف نسخ کا بھی علم اچھا تھا،عربی،فارسی اور اردو
زبانوں کے ساتھ ادبیات کی تاریخ پر بھی گہری نگاہ تھی اس کا فائدہ انھیں
تدوینی کام میں ملا۔
ان کے اہم تدوینی کارناموں میں مکاتیب غالب،دستور الفصاحت،دیوان غالب نسخۂ
عرشی،سلک گوہر،کہانی رانی کیتکی کی اور تاریخ محمدی وغیرہ ہیں۔مگر سب سے
اہم تدوینی کارنامہ مکاتیب غالب،دستورالفصاحت اور دیوان غالب ہے اور خاص
بات یہ ہے کہ ان تینوں کے موضوعات مختلف ہیں،مکاتیب غالب کا تعلق خطوط سے
ہے،دستورالفصاحت کا شعرائے اردو کے تذکرے سے اور دیوان غالب کا شاعر کے
کلام سے ہے۔
غالب نے اپنے اردو اور فارسی کلام کا انتخاب کر کے نواب کلب علی خاں کو
بھیجا تھا ،مولانا عرشی نے اسے دریافت کر کے ۱۹۳۷ء میں مرتب کر کے شائع
کیا۔ ۱۹۴۷ء میں انھوں نے "فرہنگِ غالب " کے نام سے ایک کتاب مرتب کر کے
شائع کی ۔ امتیاز علی عرشی نے تفصیلی مقدمہ اور حواشی کے ساتھ اسے شائع کیا
ہے ۱۹۳۷ء سے ۱۹۶۹ء تک اس کے چھ ایڈیشن شائع ہوئے، پہلے ایڈیشن میں ۳۲۰
صفحات تھے جبکہ آخری میں ۶۰۰صفحات،مختلف ایڈیشنوں میں عنوانات،خطوط اور
حواشی میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں،پہلے ایڈیشن میں نواب یوسف کے
نام بیالیس خطوط تھے جبکہ آخر میں چوالیس،اسی طرح کلب علی خاں کے نام پہلے
میں ۶۵تھے اور آخری میں ۷۳،آخری ایڈیشن میں سید محمد عباس علی خاں کے نام
بھی ایک خط ہے اور منشی سیل چند کے نام سات خطوط ہیں۔
امتیاز علی خاں عرشی ان خطوط کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سرکارِ رام پور سے میرزا صاحب کی مراسلت بارہ سال تک جاری رہی ۔اس عرصے
میں اہلِ رام پور سے بھی ان کے خاصے تعلقات قائم ہو گئے تھے اور متعدد
اصحاب سے خط و کتابت بھی رہتی تھی لیکن سوء اتفاق سے ان کی مراسلت کا بڑا
حصہ ضائع ہو گیا۔اس مجموعے میں صرف وہ خط مرتب کیے گئے ہیں جو دارالانشا
میں محفوظ تھے۔‘ ‘ (۱۳)
غالب شناسی میں عرشی صاحب کا ایک نمایاں کارنامہ ’’دیوان غالب نسخہ
عرشی‘‘کے نام سے بھی ہے۔اس نسخہ میں غالب کے اردو کلام کو تاریخی ترتیب سے
پیش کیا ہے۔اس کے تین حصے ہیں پہلے حصے کا عنوان ’’گنجینۂ معنی ‘‘ہے۔اس
میں غالب کے ابتدائی زمانے کا کلام ہے۔دوسرے حصے کا نام ’’نوائے
سروش‘‘ہے۔اس حصے میں وہ اشعار ہیں جو غالب کی زندگی میں کئی بار چھپ چکے
تھے۔تیسرے حصے کا نام ’’یادگار نالہ ‘‘ہے اس حصے میں غالب کے وہ اشعار ہیں
جو متداول دیوان میں شامل نہیں ہیں ۔ یہ وہ اشعار ہیں جو غالب کے دیوان کے
کسی نسخے کے حاشیہ یا خاتمے یا کسی بیاض یا کسی خط میں موجود تھے۔اس نسخے
کے تینوں حصوں کے نام غالب کے اشعار ہی سے ماخوذ ہیں۔ ایک بار اس نسخے کے
شائع ہونے کے بعد عرشی صاحب نے دوسری بار کی طباعت میں مزید چھان بین اور
تلاش و جستجو کر کے نئے مآخذ کا استعمال کرتے ہوئے اختلاف ِنسخ کو نہایت
جامع انداز میں پیش کیا ہے۔
’’دستورالفصاحت “ بھی امتیاز علی عرشی کی اہم تدوینی کتابوں میں شامل ہے اس
کے مصنف حکیم سید احمد علی خاں یکتا ہیں،اس کا سنہ تصنیف ۱۲۳۰ھ مطابق ۱۸۱۵
کے قریب ہے،یہ کتاب اردو زبان کی صرف و نحو،معانی و بیان،عروض و قافیہ
وغیرہ پر مشتمل ہے،کتاب فارسی زبان میں ہے۔پہلے باب میں ان فارسی قواعد کو
بیان کیا گیا ہے جن سے واقفیت اردو کے طلبا کے لیے ضروری ہے،دوسرے باب میں
اردو زبان کے قواعد،تیسرے باب میں اردو صرف و نحو کے مباحث،چوتھے باب میں
عروض و قافیہ اور پانچویں باب میں فن بدیع کو بیان کیا گیا ہے،آخر میں ’در
تذکرۃ الشعرا ‘ کے عنوان سے خاتمہ ہے۔ امتیاز علی خاں عرشی نے اسے ۱۹۴۳ء
میں رام پور سے شائع کیا۔
’’دستور الفصاحت “ کے مقدمے میں مصنف کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں
۔اس کے بعد تذکروں کی تاریخ پر مفصل گفتگو کرتے ہیں۔جب متن ترتیب دیتے ہیں
تو واردِ متن شعراء سے متعلق حواشی بھی درج کرتے ہیں ۔حواشی میں متعلقہ
شاعر کا تذکرہ و تعارف نیز جو قلمی نسخے نایاب ہوتے ہیں ان تمام کے متعلق
اقتباسات حواشی میں درج کرتے ہیں ۔
امتیاز علی عرشی کا تیسرا سب سے اہم تدوینی کارنامہ دیوان غالب(نسخۂ عرشی)
ہے۔اسے امتیاز علی عرشی نے ۱۹۵۸ء میں مرتب و مدون کرکے عالمانہ مقدمہ کے
ساتھ شائع کیا،یہ مقدمہ ۱۲۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
دیوان غالب کی تدوین کا یہ طریقہ عرشی نے اپنایا کہ پہلے غالب کی شخصیت پر
روشنی ڈالی اس کے بعد تدوین کے اصول اورطریقہ کار کی وضاحت کی پھر نسخوں کی
مکمل کیفیت،مآخذ کی تاریخی ترتیب پر گفتگو اور نسخوں کے اختلافات کو حاشیے
میں بیان کیا ہے۔اس کے علاوہ جہاں بھی غالب نے اپنے اشعار کی خود تشریح کی
ہے اسے حاشیے میں درج کیا ہے، غالب کے اردو اور فارسی کے ہم مضمون اشعار کو
بھی متعارف کرایا ہے،کلام کو تاریخی ترتیب کے مطابق درج کیا ہے،متن میں
جہاں بھی کسی شخصیت کا ذکر آیا ہے اس کا بھی تعارف کرایا ہے۔اشخاص،مقامات
اور کتب و رسائل وغیرہ کے اشاریے مرتب کیے ہیں،یہی وجہ ہے کہ دیوان غالب
(نسخہ عرشی)کو فن تدوین کا عروج سمجھا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے کہہ سکتے ہیں
کہ مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے تدوین کے تمام پہلووں کو پیش نظررکھ کر
منشائے مصنف کے مطابق تدوین کا کام انجام دیا ہے۔
پروفیسر سیدہ جعفر، امتیاز علی خاں عرشی کی تدوینی وتحقیقی خدمات کو بیان
کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
“ امتیاز علی خاں عرشی کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کو تحقیق کے
آداب و رموز سے آشنا کیا،ان کی تدوین تحقیق کے تازہ واردان کی رہبری اور
رہنمائی کرتی اور انھیں اس فن کے اصولوں سے آگاہ کرتی ہے۔بہت سی کتابوں کو
جو نقش طاق نسیاں ہو چکی تھیں،عرشی نے نئی زندگی عطا کی اورتدوین کو اعتبار
بخشا۔‘‘ (۱۴)
تدوین متن کی روایت میں مالک رام کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔آپ کا
شمار نام ور محقق اور ماہر غالبیات کی حیثیت سے کیا جاتا ہے ۔آپ کی مرتبہ
کتابوں میں غبارِ خاطر (۱۹۶۷ء ) تذکرہ(۱۹۶۷ء)خطباتِ آزاد (۱۹۷۴ء)اور خطوط
ابوالکلام آزاد (۱۹۹۱ء) قابلِ ذکر ہیں۔یہ کتابیں پہلے سے مطبوعہ شکل میں
تھیں لیکن مالک رام نے ان تمام اشاعتوں کو سامنے رکھ کر از سرِ نو مرتب کیا
ہے ۔
مالک رام کے نمایاں کارناموں میں سے ایک غبار خاطر کی تدوین ہے،مالک رام نے
بیس صفحات پر مشتمل تفصیلی مقدمہ تحریر کیا ہے،یہ پانچ حصوں میں منقسم
ہے،پہلے حصے میں ہندوستان چھوڑدو تحریک کا ذکر ،اور مولانا حبیب الرحمن خاں
شروانی کے حالات زندگی شامل ہیں،دوسرے حصے میں غبار خاطر کی اہمیت و افادیت
کا بیان ،تیسرے حصے میں مولانا آزاد کا مختصر تعارف،چوتھے حصے میں غبار
خاطر کی ترتیب و تدوین اور اس کی اشاعت وغیرہ میں جو دشواریاں پیش آئیں
انھیں بیان کیا ہے۔پانچویں اور آخری حصے میں املا،کتابت اور قواعد وغیرہ
کے متعلق گفتگو کی ہے۔حاشیے میں تخریج اشعار،اشخاص و اماکن کی
نشاندہی،آیات اور احادیث کی تخریج اور متن میں مذکور کتابوں کے ناموں کی
وضاحت کے ساتھ ساتھ اختلاف متن اور تصحیح متن کا بھی التزام کیا ہے جس سے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر محنت سے مالک رام نے یہ کارنامہ انجام
دیا ہے۔جس کی وجہ سے آپ کے مرتبے میں مزید اضافہ ہو گیا ہے ۔
ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں:
اس کی ترتیب و تدوین اور تحشیہ کا کام مالک رام صاحب نے جس خوبی سے انجام
دیا ہے،اس سے بہتر انجام دیا جانا مشکل تھا۔انھوں نے متن میں وارد
اردو،فارسی اور عربی اشعار،آیات قرآنی اور دوسرے اقوال و منقولات کی
تخریج محنت شاقہ سے کی ہے۔جن مصنفین اور کتابوں کے نام آئے ہیں ان کے
متعلق بقدر ضرورت معلومات تحریر کرنے کے علاوہ مزید معلومات کے لیے اصل
مراجع بھی بتا دیے ہیں،مولانا نے اشعار میں جو تصرف کیا ہے،ان کی نشاندہی
کی ہے اور ان سے نقل میں جو مسامحت ہوئی ہے ان کی اور بعض دوسری فروگزاشتوں
کی تصحیح بھی کی ہے ۔‘‘(۱۵)
روایت تدوین کی فہرست میں پروفیسر نذیر احمد کا نام بھی اہم ہے ۔آپ کی
اردو سے متعلق دو کتابیں ہیں۔کتابِ نورس (۱۹۵۵ء) اور پرت نامہ(۱۹۵۷ء) ہیں
۔ان میں اصل حیثیت ’’کتاب نورس“ جو ابراھیم عادل شاہ ثانی کی تصنیف ہے کو
حاصل ہے ۔اس کے متعدد ہم عصر نسخے آپ نے دریافت کیے اور ان کو ملا کر متن
کے ساتھ مکمل ترجمہ تیار کیا اور اپنے ترجمے کے ساتھ شائع کیا ۔
چونکہ یہ کتاب قدیم دکن سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اس میں دکنی الفاظ کثرت سے
پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ اس میں برج بھاشا اور سنسکرت کے الفاظ بھی پائے
جاتے ہیں ۔نامانوس الفاظ کی بہتات ہے جس کی وجہ سے اس کی تفہیم و توضیح بہت
مشکل تھی۔
پروفیسر نذیر احمد نے نسخے کی تدوین کے دوران "نو رس " سے متعلق ایک مقدمہ
تحریر کیا ۔اس کے تراجم کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کے تراجم کرنے والوں کا ذکر
بھی کیا ۔اس کے علاوہ انھوں نے کتاب اور اس کے موضوع پر تفصیل سے تعارف
تحریر کیا اور کتاب کے عنوان کے متعلق گفتگو کی ہے۔آپ نے نو رس میں
استعمال ہونے والی زبانوں کی نشاندہی بھی کی ہے ۔دوران تدوین قرأت کی
آسانی کے لیے اعراب لگانے کا اہتمام کیا اور زیرِ نظر نسخے کے اختلافات کو
حاشیے میں درج کیا ہے ۔کتاب کے آخر میں متن سے متعلق فرہنگ بھی تیار کی
گئی ہے۔جس سے اسے سمجھنے میں مزید آسانی ہو گئی ہے۔ڈاکٹر عظمت رباب ،نذیر
احمد کی تدوینی کاوش ’’کتاب نورس“کے حوالے سے لکھتی ہیں:
’’ڈاکٹر نذیر احمد نے بیجا پور کے بادشاہ ابراہیم عادل شاہ ثانی کی کتاب
"کتابِ نورس " کو مرتب کیا ہے ۔دکن کے حکمران شعر و ادب میں دلچسپی رکھتے
تھے اور سرکاری سرپرستی کرتے تھے۔و ہ خود بھی جملہ علوم کے ماہر تھے ،یہی
وجہ ہے کہ ابراہیم عادل شاہ ثانی "جگت گرو " کے نام سے مشہور تھا۔مرتب
ڈاکٹر نذیر احمد نے گیتوں راگنیوں کی تفصیل دے کر اس کتاب کا مقدمہ زیادہ
جاندار بنا دیا ہے ۔انھوں نے دکنی لسانیات کے اصول بیان کیے ہیں اور پھر
کتاب نورس میں شامل الفاظ کی لسانی خصوصیات کو بھی درج کیا ہے ۔۔۔‘‘(۱۶)
امتیاز علی عرشی نے تحقیق و تدوین میں جو روایت قائم کی تھی اس کو فروغ
دینے میں رشید حسن خاں کا اہم کردار ہے۔رشید حسن خاں ایک حق گو اور بے باک
محقق ہیں۔آپ نے نہ صرف تدوین کے بنیادی اصولوں پر بڑی تعداد میں مضامین
لکھے بلکہ عملی طور پر ترتیب و تدوین کے مثالی نمونے بھی پیش کیے ۔پروفیسر
گیان چند جین نے رشید حسن خان کو ’خدائے تدوین ‘ کا خطاب دیا ہے۔ تحقیق کے
باب میں رشید حسن خان قاضی عبدالودود سے متاثرہیں اور وہی راستہ منتخب کرتے
ہیں جبکہ تدوین کے میدان میں امتیاز علی عرشی کو اپنا پیروکار بناتے
ہیں۔متعدد اہم کلاسیکی متون کو آراستہ کرکے اہم کارنامہ انجام دیا۔ ان کی
مدونہ کتابوں میں باغ و بہار، فسانۂ عجائب،مثنوی سحرالبیان، گلزار نسیم،
مثنویات شوق، انتخاب کلام ناسخ،انتخاب سودا،انتخاب مراثی انیس و
دبیر،انتخاب خواجہ میر درد،انتخاب نظیراکبرآبادی، انتخاب شبلی اور زٹل
نامہ وغیرہ ہیں۔پروفیسر گیان چند جین رشید حسن خاں کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ میں انھیں پیغمبر تدوین کہنے پر قانع نہیں انھیں خدائے تدوین کہوں گا گو
کہ اس پر کتنے زعما چین بہ جبیں ہوں۔‘‘(۱۷)
صحت متن،اختلاف نسخ،زبان و قواعد،املا،عہد کی زبان،تاریخ اور لسانی
باریکیوں پر اچھی نگاہ تھی۔یہی چیزیں تدوین کی بنیاد بنتی ہیں اورا ن کو
بروئے کار لاکر ہی اچھا تدوینی کارنامہ انجام دیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر صابر علی سیوانی، رشید حسن خاں کے تدوینی کارناموں کو بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں :
’’رشید حسن خاں کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے جن کلاسکی متون کی تدوین کی،اس
میں تدوین متن کے اصولوں کی مکمل طور پر پیروی کی۔مقدمہ لکھا،حواشی تحریر
کیے،صحت متن کا کام کیا،تعلیقات پیش کیں،اشاریے بنائے اور فرہنگ مرتب کی
اور سب سے اہم بات یہ کہ انھوں نے تمام متون کی تدوین میں منشائے مصنف کو
پیش کرنے کی حتی المقدور کوشش کی اور یہ ثابت کردکھایا کہ متون کی تدوین
سائنٹفک انداز سے کیسے کی جاتی ہے۔ان متون پر اعراب نگاری کا بھیفریضہانجام
دیا۔مذکورہ متون کی جدید علمی اصولوں کے مطابق اس انداز سے تدوین کی کہ
انھیں خدائے تدوین کا رتبہ حاصل ہو گیا ۔‘‘ (۱۸)
تدوینِ متن روایت کے ذیل میں ڈاکٹر جمیل جالبی کا نام بھی اہمیت کا حامل
اور قابلِ ذکر ہے۔آپ کی تدوینی خدمات میں تین اہم متون شامل ہیں جن میں
کدم راؤ پدم راؤ،دیوانِ حسن شوقی اور دیوانِ نصرتی شامل ہے ۔
ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ان تینوں متون کو نہ صرف تلاش کیا بلکہ
دریافت کے بعد انھیں جدید اصولِ تدوین کے تحت مرتب کر کے شائع کیا ۔ان کا
طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ موضوع کی مناسبت سے زیرِ نظر متون کا
مقدمہ تحریر کرتے ہیں ،جس میں مصنف کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالنے کے ساتھ
متن کا تعارف و تجزیہ پیش کرتے ہیں اور متن میں استعمال ہونے والی مختلف
زبانو ں کے الفاظ کی نشاندہی کرتے ہیں چونکہ یہ الفاظ قاری کے لیے نامانوس
ہیں اس لیے ڈاکٹر جمیل جالبی نے متن کے آخر میں فرھنگ بھی شامل کی ہے تا
کہ مشکل الفاظ کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو سکے ۔اس لسانی تجزیے کے ذیل
میں عہد بہ عہد جو تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں
جس سے اردو زبان کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے
جن متون کی ترتیب و تدوین کی وہ دکنی ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ڈاکٹر عظمت
رباب ان کی تدوینی خدمات کی بابت لکھتی ہیں:
’’ڈاکٹر جمیل جالبی نے جن شعراء کے کلام مرتب کیے ہیں ان کے حالاتِ زندگی
انھوں نے شعراء کے کلام ہی سے اخذ کیے ہیں ۔دیوانِ حسن شوقی میں حسن شوقی
کا نام ،تخلص ،فتح نامہ نظام شاہ کا پس منظر ،جنگ کے واقعات کو دیوان ہی سے
اخذ کیا ہے ۔اسی طرح مثنوی " گلشن عشق " سے نصرتی کا نام ،حالات اور آباؤ
اجداد کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں ۔اسی طرح مثنوی کدم راؤ پدم راؤ
کے مطالعے سے فخر دین نظامی کے نام اور تخلص کے بارے میں معلومات اخذ کی
ہیں۔دیوانِ حسن شوقی کی غزلیات جن بیاضوں سے لی گئی ہے ان کے اختلاف بھی
حواشی میں درج کیے گئے ہیں۔‘‘ (۱۹)
پروفیسر مسعود حسین کا نام بھی اردو تدوین کی روایت میں فراموش نہیں کیا جا
سکتا ۔ آپ ماہر لسانیات تھے اس لیے آپ نے زیرِ نظر قدیم متون کو لسانی
نقطہ نظر سے ترتیب دیا جو ان کی تدوینی کاوش کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔بکٹ
کہانی،قصہ مہر افروز دلبر،ابراہیم نامہ،پرت نامہ وغیرہ ان کے اہم تدوینی
کارنامے ہیں۔پروفیسر مسعود حسین کے تدوینی کارناموں میں قصہ مہر افروز و
دلبر کو کافی اہمیت حاصل ہے،انھوں نے اس کتاب کو جدید اصول تدوین اور
سائنٹفک طریقے سے مرتب کیا ہے۔جو ۱۹۶۶ء میں حیدرآباد سے شائع ہوئی ۔
یہ کتاب ایک اہم لسانی دستاویز اور نادر ادبی کارنامہ کی حیثیت رکھتی
ہے۔انھوں نے اس کے مقدمے میں درج کیا ہے کہ قصہ مہر افروز و دلبر کا واحد
نسخہ آغا حیدر حسن کے ذاتی کتب خانے میں موجود ہے اور جس کے سر ورق ہر
مصنف کا نام ’’عیسوی خان بہادر درج ہے ۔چونکہ اس کا ایک ہی نسخہ ملا ہے تو
اس کے حاشیوں میں الفاظ کے مفاہیم درج کیے گئے ہیں۔ بوسیدگی اور کرم خوردگی
کی وجہ سے جو الفاظ سمجھ میں نہیں آرہے اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے ۔لکھتے
ہیں:
’’مرحوم آغا حیدر حسن کو قصے کا واحد نسخہ حضرت سید علی قادری دہلوی ،ثم
الگوالیاری،حضرت جی ،کی درگاہ کے متولی حضرت محمد غنی جی نے ۱۹۲۹ء میں یہ
کہہ کر نذر کیا تھا کہ یہ آپ کے خاندان کی یادگار ہے ۔‘‘(۲۰)
مسعود حسین خان کو قدیم متون سے گہری دلچسپی تھی ۔انھوں نے نسخوں کی
بازیافت کے ساتھ ساتھ انھیں تدوین کے اصولوں کے مطابق مرتب کیا ، محققانہ
مقدمات اور حواشی اور فرھنگ کے ساتھ شائع کیا ۔ان کا طریقۂ کار یہ ہے کہ
وہ پہلے وہ موضوع کے اعتبار سے متون کا مقدمہ تحریر کرتے ہیں ،جس کے ذریعے
مصنف کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہیں ۔متن میں استعمال ہونے والی مختلف زبانوں
کی نشاندہی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ متن کا لسانی طور پر جائزہ لیتے ہیں
۔
تدوین متن کی روایت کو مزید مستحکم بنانے میں مشفق خواجہ نے بھی اہم خدمات
انجام دیں ۔آپ مولوی عبدالحق کے پیروکار تھے اور آپ نے مولوی عبدالحق کے
ساتھ مل کر ’’لغت کبیر اردو‘‘کی ترتیب و تدوین میں مدد کی ۔آپ کی تدوینی
کاوشوں میں سعادت خان ناصر کا تذکرہ ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘ ،’’غالب اور صفیر
بلگرامی‘‘اور ’’کلیاتِ یگانہ ‘‘ شامل ہیں ۔ مشفق خواجہ نے قدیم و جدید
دونوں متون کو مدون کیا۔
یہ تذکرہ دو جلدوں میں مجلس ترقی ادب نے شائع کیا ۔پہلی جلد ۱۹۷۰ ء جب کہ
دوسری جلد ۱۹۷۱ء میں منظرِ عام پر آئی ۔اس تذکرے کو مشفق خواجہ نے سائنٹفک
اصولوں کو مد نظر رکھ کر ترتیب دیا ہے ۔
مشفق خواجہ اپنی مرتبہ کتاب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘ کے ذریعے صغیر کا
بہت سا غیر مطبوعہ کلام منظرِ عام پر لائے اس میں وہ خطوط کاغذات اور
مسودات شامل ہیں جو صفیر بلگرامی کے پوتے کے بیٹے وصی احمد بلگرامی کو ملے
تھے اور انھیں کی مدد سے مشفق خواجہ نے اپنی کتاب ’’غالب اور صفیر بلگرامی
‘‘ کو مرتب کیا ،آپ نے غالب کے خطوط کے ساتھ ساتھ صفیر کے خطوط بھی شامل
کیے جس سے خطوطِ غالب کے مفاہیم واضح ہو گئے ۔
اس کے علاوہ مشفق خواجہ نے ’’کلیات یگانہ‘‘ کی تدوین کا کام بھی سر انجام
دیا ۔اس سے پہلے یگانہ کا کلام مکمل طور پر دستیاب نہ تھا لیکن مشفق خواجہ
نے ان کا تمام کلام اور اس کے علاوہ وہ کلام جو یگانہ کی بیاضوں ،خطوں ،ہم
عصر ادبی رسائل اور ’’گنجینہ ‘‘ کے ایک ایسے نسخے سے دستیاب ہوا جو یگانہ
نے خود مرتب کیا تھا، شامل ہے ۔اس کلیات میں مشفق خواجہ نے یگانہ کے اشعار
کی زمانی حد کا تعین کیا ہے اور یگانہ نے جو اصلاحات و ترامیم کی تھیں ان
کو بھی حواشی میں درج کیا ہے ۔کلیات یگانہ کے مقدمے میں وہ لکھتے ہیں:
’’کسی مصنف کا نظرِ ثانی شدہ متن ہی آخری اور مستند متن ہوتا ہے اور یہی
منشائے مصنف کی صحیح ترجمانی کرتا ہے ۔‘‘(۲۱)
خلیق انجم کا شمار بھی اہم مدونین میں ہوتا ہے انھوں نے انتہائی جاں فشانی
اور مستقل مزاجی کے ساتھ ترتیب و تدوین جیسا غیر معمولی کام کیا اور تحقیقی
و تنقیدی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھا۔ ان کے تحقیقی اور تدوینی کاموں کی
ایک طویل فہرست ہے، اس ضمن میں معراج العاشقین، متنی تنقید، غالب کے خطوط،
آثارالصنادید،مرقع دہلی، رسوم دہلی، دلی کی درگاہ شاہ مرداں، دلی کے آثار
قدیمہ، غالب کی نادر تحریریں، غالب اور شاہان تیموریہ، غالب کا سفر کلکتہ
اور کلکتے کا ادبی معرکہ اور مرزا محمد رفیع سوداوغیرہ کا نام بطور خاص لیا
جاسکتا ہے۔
یوں تو خلیق انجم نے مختلف موضوعات میں طبع آزمائی کہ لیکن ان کا سب سے
زیادہ پسندیدہ موضوع دہلی کی قدیم عمارتیں، مقبرے، کتبے اور غالب کے علاوہ
تحقیق و تدوین ہے۔سر سید کی کتاب آثار الصنادید جو ایک تاریخ ساز کی حیثیت
رکھتی ہے یہ کتاب ایک جلد میں ہے جس میں سر سید نے پرانی عمارتوں کا ذکر
کیا ہے ۔چونکہ خلیق انجم کو دہلی کے کھنڈرات اور عمارتوں سے بہت پسندیدگی
تھی تو اسی پسندیدگی نے انھیں آثار الصنادید مرتب کرنے پر اکسایا۔خلیق
انجم نے ان عمارات کی موجودہ تصاویرخود کے کیمرے سے لے کر کتاب میں شامل
کیا، ساتھ ہی حاشیوں میں اضافےبھی کیے، اس طرح انہوں نے آثارالصنادید کو
کار آمد اور ضروری اضافے کے ساتھ تین جلدوں میں شائع کیا، خلیق انجم کا یہ
کام خالص تحقیقی ہے، ڈاکٹر خلیق انجم نے آثارالصنادید کی ترتیب کے وقت کس
ایڈیشن کو بنیاد بنایا اور تصحیح متن کے لئے کون سے طریقۂ کار کو اپنایا۔
وہ اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:
’’زیر نظر تنقیدی اڈیشن کے لئے آثارالصنادید کے دوسرے اڈیشن کو بنیاد
بنایا گیا ہے۔ اس اڈیشن میں سر سید نے بہت زیادہ ترمیم و تنسیخ، حذف اور
اضافے کیے ہیں۔ یہ اڈیشن دلی کے مطبع سلطانی میں ۱۸۵۴ء میں چھپا تھا۔ میں
نے زیر نظر اڈیشن میں متن کی درستی کا ہر ممکن خیال رکھا ہے، مقدمے میں
مسلم فن تعمیر اور ہندو مسلم فن تعمیر کی مختصر تاریخ بیان کرکے دلی کے
آثار قدیمہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سر سید کی تاریخ نویسی پر گفتگو کرکے
آثارالصنادید کی تصنیف اور مختلف اڈیشنوں اور ری پرنٹوں کی تفصیل بیان کی
گئی ہے۔‘‘ (۲۲)
تدوین متن کے حوالہ سے خلیق انجم کی کتاب ’متنی تنقید ‘ خاصی اہمیت کی حامل
ہے۔ خلیق انجم نے غالب کے مکمل خطوط کو پہلی بارتاریخ وار چارجلدوں میں
مرتب کیا،کمال احمد صدیقی، خلیق انجم کے متعلق لکھتے ہیں:
’ ڈاکٹر خلیق انجم سودا اور مظہر جان جاناں اور متنی تنقید جیسے وقیع کام
کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن اب جو ’ خطوط غالب‘ انھوں نے مرتب کیے ہیں،انھیں
پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ متن کی تدوین جیسی انھوں نے کی ہے پہلے خطوط
غالب کے سلسلے میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔اردو میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا کام
ہے۔انھوں نے قینچی سے نہیں ذہن سے کام لیا ہے۔پہلی جلد کا مقدمہ ایک مستقل
تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اس سے زیاد ہ نہیں تو اتنا ہی اہم کام حواشی
کا ہے۔ایک ایک لفظ مختلف نسخوں کے تقابلی مطالعے میں چیک کیا گیا ہے جو
واقعی دیدہ ریزی کا کام ہے ۔‘‘(۲۳)
پروفیسر نورالحسن ہاشمی نے بھی تدوین کے باب میں اہم کارنامے انجام دیے
ہیں،کلیات ولی، ایک نادر روزنامچہ،بکٹ کہانی،مثنوی سراپاسوز،طوطی نامہ،حسر
ت دہلوی،تذکرۂ مشاہیر سندیلہ، فسانہ اعجاز، دیوان مبتلا، انتخاب سب رس
اورنوطرز مرصع وغیرہ اہم تدوینی کارنامے ہیں۔فہرست سے ہی ان کی تدوینی
خدمات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے تدوینی کارنامے کس قدر اہم ہیں۔
دکنی ادب کی تدوین و تحقیق میں سیدہ جعفر کا نام نمایاں ہے ،انھوں نے کلیات
قلی قطب شاہ مرتب کیا ہے ۔اس کے علاوہ ان کے تدوینی کارناموں میں سُکھ انجن
از شاہ ابو الحسن قادری ،جنت سنگاراز ملک خوشنود اور من سمجھاون از شاہ
تراب چشتی شامل ہیں۔
مندرجہ بالا جن مدونین کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ جن اشخاص نے تدونِ
متن کے لیے کام کیا ان میں پروفیسر نورالحسن ہاشمی ،ڈاکٹر عبادت بریلوی،
،عبدالقادر سروی،سید مسعود حسن رضوی،پروفیسر مختارالدین احمد، خواجہ احمد
فاروقی،، پروفیسر حنیف نقوی، پروفیسر نثار احمد فاروقی،سید محمد
حیدرآباد،محمد اکبرالدین صدیقی، ڈاکٹر حفیظ قتیل، پروفیسر ظفر احمد صدیقی
اور پروفیسر عبدالحق ،ڈاکٹر سید عبداللہ ،ڈاکٹر تحسین فراقی وغیرہ کے نام
قابلِ ذکر ہیں۔
تدوین متن کی روایت اگرچہ زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن اردو میں تدوین کی جس
روایت کی داغ بیل علامی شبلی نعمانی نے ڈالی تھی وہ عہد بہ عہد ترقی کے
منازل طے کرتی ہوئی آج ایک تن آور درخت کی صورت اختیار کر گئی ہے ۔مندرجہ
بالا جن اشخاص کی تدوینی خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے یہ وہ نام ہیں
جنھوں نے بغیر کسی لالچ اور غرض کے تدوین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا
۔تحقیق و تدوین نہ تو ان کا فرض منصبی تھا اور نہ مشغلہ ۔یہ ان کا ذوق و
شوق ہی تھا کہ انھوں نے اس قدر اہم اور محنت طلب کام کو بہ احسن و خوبی
انجام دیا اور اردو تدوین متن کے سرمائے میں میں اہم اضافے کیے ۔
حوالہ جات
۱۔ مولانا عبدالحفیظ بلیاوی ۔مصباح اللغات، دہلی :مکتبہ بر ہان، ۲۰۰۲ء،ص۲۵۷
۲۔ مولوی نور الحسن ۔نوراللّغات، نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو ۔
۱۹۹۸ ء،ص ۲
S .M. Katre, introduction to Textual Criticism, Poona, 1954, pg30 ۳۔
۴۔ محمد عبداللہ خان خویشگی (مولف ) فرہنگ عامرہ ،اسلام آباد :مقتدرہ قومی
زبان ،۱۹۸۹ء،ص ۱۴۵
۵۔گیان چند جین ۔ڈاکٹر،تحقیق کا فن ،اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان ،طبع سوم
۲۰۰۳ء،ص ۳۹۷
S .M. Katre, introduction to Textual Criticism, Poona, 1954, pg30 ۶۔
۷۔ ڈاکٹر گیان چند جین ۔تحقیق کا فن ، نئی دہلی :قومی کونسل برائے اردو
زبان ، ۲۰۰۸ ء،ص۴۲۵
۸۔ الیاس اعظمی ۔ ڈاکٹر ،تذکرہ گلشن ہند اور علامہ شبلی نعمانی، مشمولہ :
ہماری زبان، نئی دہلی :انجمن ترقی اردو ہند، ۲۲ تا ۲۸جنوری ۲۰۰۵
۹۔ ۔مجموعہ نغز ، دہلی :نیشنل اکادمی دریاگنج،،۱۹۷۳ ء،ص ک
حافظ محمود شیرانی ۔ مجموعہ نغز دیباچہ ، دہلی :ترقی اردو بورڈ ،۱۹۷۳ء،ص
لذا ۱۰۔
۱۱۔رشید حسن خان ۔تدوین تحقیق روایت، نئی دہلی :اے ایس پرنٹرز ۔۱۹۹۹ءص ۱۸۶
۱۲۔ ایضاً،ص۱۷۹
۱۳۔ امتیاز علی خاں عرشی (مرتب) انتخاب غالب ،بمبئی :مطبع قیمہ ،۱۹۴۲
،دیباچہ
۱۴۔ سیدہ جعفر۔تاریخ ادب اردو،جلد سوم ،حیدرآباد:،۲۰۰۲ء،ص۱۶۶
۱۵۔ مضمون مالک رام کی تصنیفات و تالیفات،ضیاء الدین اصلاحی،ماہنامہ آجکل
مالک رام نمبر،اپریل ۱۹۹۴,، ص۱۲
۱۶۔ عظمت رباب ۔ڈاکٹر ،تدوینِ متن کے دبستان،لاہور:سنگِ میل پبلی
کیشنز،۲۰۱۶ء،ص ۴۰۷
۱۷۔رشید حسن خاں نمبر ۔ نئی دہلی : ماہ نامہ کتاب نما ، ۲۰۰۲ء،ص ۷۴
۱۸۔تدوین متن کی روایت آزادی کے بعد،ڈاکٹر صابر علی سیوانی،ایجوکیشنل
پبلشنگ ہاؤس دہلی،۲۰۲۱،ص۶۹۷
۱۹۔ عظمت رباب ۔ڈاکٹر ،تدوینِ متن کے دبستان،لاہور:سنگِ میل پبلی
کیشنز،۲۰۱۶ء،ص ۴۲۸
۲۰۔مسعود حسین خاں۔ڈاکٹر(مرتب)،قصہ مہر افروز و دلبر ،عیسوی خان بہادر نئی
دہلی :انجمن ترقیِ اردو ہند ،۱۹۶۶ (دوسرا ایڈیشن)،ص ۷
۲۱۔ مشفق خواجہ (مرتب)۔کلیاتِ یگانہ ،کراچی :اکادمی بازیافت،۲۰۰۳ء،ص ۳۷
مقدمہ
۲۲۔سر سید احمد خاں۔ آثارالصنادید (جلداول) مرتبہ خلیق انجم،دلی: اردو
اکادمی، ۱۹۹۰ء، ص ۲۱
۲۳۔کمال احمدصدیقی۔خطوط غالب مرتبہ خلیق انجم کی روشنی میں ،مشمولہ ڈاکٹر
خلیق انجم شخصیت اور ادبی خدمات، کتاب نما خصوصی شمارہ،نئی دہلی:مکتبہ
جامعہ،۱۹۹۱ء،ص ۲۷
����������-
|