گدھا پنجابی میں جسے کھوتا کہتے ہیں ایک سخت جان جانور ہے
جو کے دوسروں کا وزن اٹھانے بغیر سوچے کے وہ اس کا تو یہ ہی نہیں پھر بھی
اس کو عمل کو باقاعدہ ذمہ داری کے ساتھ دوہرائے چلا جاتا یے۔جس کے بدلے میں
اسے انعام کے طور پر اسے جوتنے والا پیسوں کی بجائے چارہ دیتا یے پیسے دے
بھی تو کیسے وہ تو گدھا ہے اسے کیا پتا انکا استعمال کیسے کیا جائے اسے تو
جو چاہیے یعنی کے سبز چارہ وہ تو اسے مل ہی جاتا ہے اسی لیے وہ اسی میں خوش
رہتا ہے۔یہ گدھے اور چارے کی کہانی تو شروع سے لیکر اب تک بلکل ویسے کی
ویسی ہی چل رہی ہے اور چلتی بھی ایسے ہی رہے شاید۔بس مالک بدلتے رہتے اور
گدھے باقی وہی کام جو دونوں کا ہے گدھا وزن اٹھاتا ہے اور چارہ کھاتا ہے
مالک چارہ ڈالتا ہے اور پیسا کماتا ہے ۔بر خال بات کچھ ایسے ہے کے دور
افتادہ ایک گاؤں جہاں کی آبادی بسنے والے لوگوں میں زیادہ تعداد غریب غرباء
ہی کی تھی سبھی کا گزر بسر گدھا گاڑیوں کی ہی وساطت سے ہو پا رہا تھا وہاں
کے مکین روز صبح سویرے اپنی اپنی گدھا گاڑی لیے شہر میں منڈی کی طرف نکل
جاتے اور آڑھتوں سے سامان اٹھا کر لوگوں کے گھروں یا دکانوں تک پہنچاتے جس
کی انہیں زیادہ تو نہیں پر اتنی اجرت مل ہی جاتی کے دو وقت کا کھانا با
آسانی میسر آ جاتا اور اتنا پیسا کے گدھوں کے لیے سبز چارہ بھی خرید سکیں
پر اکثر اوقات وہ یہ پیسے بھی خرچنے سے گریز کرتے اور کچھ گھاس پھوس اور
اپنی استعمال شدہ سبزیوں کا وہ خصہ جو پکانے اور کھانے کے لائق نہیں ہوتا
وہ بھی انہیں ڈال دیتے اور گدھوں کا کیا ہے انہیں کیا پتا کے انکی محنت کا
پھل کون کھا رہا ہے کیونکہ وہ تو گدھے ہی ہیں اس لیے جو ملتا چپ چاپ کھا
لیتے اور پھر صبح وہی پرانی روٹین ہر روز کی طرح۔دن گزرتے گئے مہینے اور
سال سب ویسے کا ویسا ہی چلتا رہا جیسا شروع سے چل رہا تھا نا مالکوں کے
خالات بدلے نا گدھوں کے۔پھر ایک کچھ ایسا ہوا جو کسی کے وہموں گمان میں بھی
نہیں تھا اسی گاؤں کسی ایک مالک کا گدھا بگڑ گیا جو خلاف توقع تھا اسکے
مالک کے لیے کیونکہ وہ ایسا اکثر اوقات کرتا تھا جب اس کی دیہاڑی نہیں لگتی
تھی یعنی کے جب صبح دیر سے اٹھنے کی وجہ سے منڈی جاتا تو اسے کوئی نا ملتا
جو کے اس سے سامان وغیرہ کے بدلے پیسا دیتا تو اس دن وہ خود تو کچھ کھانے
پینے کا بندوبست کر ہی لیتا پر اپنے گدھے کو کچھ کھانے کے لیے نا دیتا آج
بھی ایسا ہوا تھا پر آج اسکا گدھا جو پہلے ایسے خالات میں صبر سے کام لیتا
تھا بگڑ گیا اور اس نے زور زور سے اپنے اگلی دونوں ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور
پھر اسی طاقت سے انہیں کچی زمین پر مارنے لگا وہ یہ عمل باربار دوہرانے لگا
یہ شاید اسکی بھوک ہی تھی جو اسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہی تھی اور کرتا
بھی کیا آخر تھا تو وہ گدھا ہی بول کر تو اپنی پریشانی اپنی بھوک کا اظہار
تو نہیں تھا کر سکتا۔برحال اسکا مالک جو کے اسے پرامن کرنے کے سبھی طریقے
آزما چکا اب تھک ہار کر اسنے چھڑی اٹھائی اور اسے مارنے کے لیے ہوا میں
چھڑی لہرائ ہی تھے اچانک اسکی آنکھوں میں تیز پیلی روشنی پڑی جہاں اسکا
گدھا بار بار اپنے پاؤں زمین پر مار رہا تھا وہاں ایک کھڈا بن چکا اسکے
مالک اور اس گدھے کے درمیاں یہ معرکہ ہوتے ہوئے صبح ہو چکی تھی نا مالک سو
پایا نا ہی اسکا گدھا سورج کی روشنی جب سیدھا اس چیز پر پڑی جو کے اس کھڈے
پر گدھے کے پاؤں بار بار مارنے سے نمایاں چکی تھی تو اس میں سے بھی منعکس
ہو کرگدھا کے مالک کی آنکھوں میں یوں پڑی جسے کے نظر انداز کرنا اسکے لیے
ممکن ہی نہیں تھااور وہ چیز دراصل سونے کی ایک دیگچی تھی مالک کی بانچھیں
کھلی کی کھلی رہ گئیں وہ اپنے اور اسکے گدھے کے درمیان ہوئ گزشتہ لڑائ یا
کشمکش کہہ لیں وہ بھول گیا اسنے جذبات میں آکر کر اپنے گدھے کا ماتھا چوم
لیا اسکے ایسا کرنے سے گدھا بھی پر امن گیا یہ بڑی عجیب بات تھی مالک کو
بھی خیال نا آیا کے وہ بجائے اسکے وہ گدھے کو آرام سے پر امن کرے وہ گدھے
کے ساتھ گدھا بنا رہا وہ یہ سوچ کر ہنس پڑا کے اور اپنے ماتھے پر زور سے
ہاتھ مار خود کو کوسنے لگا اور کہا ہم دونوں ہی گدھے ہیں یعنی کے میں اور
میرا گدھا ہم دونوں ۔پھر اچانک وہ اس سونے سے بھری ہوئی دیگچی کی طرف پلٹا
جس میں کے بہت زیادہ مقدار میں سونے کے سکے اور زیورات پڑے ہوئے تھے۔اسنے
یہ دیگچی باہر نکالی اور گھرکے اندر جا کر پرانی کوٹھڑی میں چھپا دی ۔آج
بھی وہ منڈی نہیں گیا یہی سوچتے سوچتے کے وہ اسکا کیا کرے تین چار دن گزرنے
کے بعد اسنے سوچا کے کیوں نا اس سونے کی دیگچی میں موجود خزانے کو بیچ کر
پیسا لے کر وہ کہیں بڑے شہر میں رہائش پذیر ہوجائے اور اپنا کاروبار شروع
کرے پر اس خیال کے ساتھ ہی ایک دوسرے خیال نے اسے پریشان کر دیا کے اگر وہ
یہ سب کرتا ہھے تو پھر خریدار کو کیا کہے گا کے یہ اتنا زیادہ خزانہ اسکے
پاس کیسے آیا اسی سوچ میں ڈوبے ہوئے اسے شام ہو گئ وہ یہ بھول بیٹھا تھا کے
اسکا گدھا چار دن سے بھوکا ہے اور دوسری طرف گدھا بھی خاموش بیٹھا اسے ہی
دیکھے جا رہا تھا۔بہت سوچنے کے بعد وہ آخر اس نتیجے پر پہنچا کے اسے یہ بات
اپنے کسی ساتھی گدھے گاڑی والے کے ساتھ کرنی چاہیے شاید اسے کوئی حل مل
جائے۔اسنے اپنے ایک قریبی کو بلایا اس کے سامنے سارا معاملہ رکھ دیا ۔رات
ہو گئی اور وہ اپنے بات کہہ کر آج کچھ آرام سے سو گیا صبح ہوئ تو اسکے
دروازے پر بار بار دستک کے شور سے اسکی آنکھ کھلی وہ گدھا مالک جو کے گھوڑے
بیچ کر سویا ہوا تھا دروازہ کھولنے پر باہر ایک مجمع اسکے انتظار میں کھڑا
تھا جو سبھی بانچھیں کھولے اسی طرف دیکھے جا رہا تھے یعنی کے آج یہ سارے
گدھا گاڑیوں والے منڈی نہیں گئے تھے اتنے میں ان میں سے ایک بولا کے مجھے
سب پتا چل چکا ہے اسکے بولتے سب ہی با جماعت یہی بات دوہرانے لگے یعنی کے
اس کے بھروسے کے آدمی نےیہ بات صبح ہونے سے پہلے ہی سب کو بتا دی تھی اب سب
کو پتا تو چل ہی چکا تھا اسکا مطلب یہ ہوا کے اب اس خزانے کے خصے دار بھی
بڑھ گئے اس آدمی نے معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے ایک فیصلہ لیا اور سبھی
کو گاؤں کے ایک بوڑھے برگدھ کے پیڑ کے نیچے اکٹھا ہونے کے لیے کہا اور
دروازہ بند کر لیا اور گدھے کے پاس جا کر بیٹھ گیا کبھی بھوکے گدھے کی طرف
دیکھتا اور کبھی نیچے اس کھڈے کی طرف جہاں وہ خزانہ یعنی کے سونے سے بھری
ہوئی دیگچی نکلی تھی کبھی سوچتا کے کاش وہ خزانہ نکلتا ہی نہیں اور نا ہی
وہ اس جھنجھٹ میں پڑتا پھر سوچتا اب اگر نکل ہی آیا ہے تو چوری چھپے کہیں
بھاگ جائے پر یہ بھی خیال آتا کے اب بھاگ بھی کیسے سکتا ہے اب تو سب کو
معلوم ہے کیا کرے آخر کار وہ ایک فیصلے پر پہنچا اسنے خزانہ یعنی کے سونے
سے بھری دیگچی اٹھائی اور گاؤں کے بوڑھے برگدھ کے پیڑ کے پاس پہنچ گیا جہاں
پہلے ہی سب خصے دار آپس میں اسی کے بارے میں بات کر رہے تھے کے وہ آتا ہے
کے نہیں یا شاید بھاگ جائے پر اس کے آتے ہی سب اسکی طرف متوجہ ہوئے وہ سب
کے درمیان جا کر بیٹھ گیا چاروں اطراف گاؤں کے سارے لوگ اسکے سامنے دائرے
کی شکل میں بیٹھ گئے تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد اسنے وہ سونے سے بھری دیگچی
درمیاں زمین پر رکھی اور بولا میں نے پوری رات سوچنے کے بعد فیصلہ کیا یے
کیوں نا ہم سب اس خزانے کو آپس میں بانٹ لیں پھر یہ بھی خیال آیا اگر ہم
اسے آپس میں بانٹ لیں گے تو پھر ہم میں سے کوئی بھی پوری طرح امیر نہیں ہو
سکے گا نا ہی اس اچھی زندگی کا لطف اٹھا پائے گا جسکا کے ہم سب نے پچھلی
رات سے سوچ رکھا ہے کیونکہ اسے بانٹ لینے سے ہم سب کے خصے میں جو تھوڑا
تھوڑا خصہ آئے گا ہم سب کچھ ہی دن میں اسے کھا پی کر پھر اسی بھوک افلاس کی
زندگی میں واپس لوٹ جائیں پھر وہی ہم ہونگے اور وہی ہماری گدھے گاڑیاں۔سب
اسی کی طرف متفکر نظروں سے دیکھ رہے تھے کہہ بھی تو وہ ٹھیک رہا تھا اتنے
میں گاؤں کا ایک سمجھدار بزرگ اٹھا اس نے کہا کیوں نا ہم سب شہر جا کر اس
خزانے کو اڑانے کی بجائے جو اب بہت سارے خصوں میں تقسیم ہو جائے گا اس
خزانے کو یہی کہیں کسی کاروبار میں خرچ کریں جس سے کے ہم سب کا گزر بسر
اچھا ہو جائے ہم مرغی کو کاٹ کر سارے انڈے نکالنے کے چکر میں روز انڈا
کھانے کو ترجیح دیں۔بوڑھے کی یہ بات سننے کے بعد سب ہی سوچ میں پڑھ گئے اور
آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کے اس خزانے کو تقسیم کرنے کی بجائے وہ یہاں
کہیں گاؤں میں کوئی کاروبار شروع کریں گے پر اب مسئلہ یہ تھا کے وہ کیسا
کاروبار ہو کیونکہ سب گاؤں سے ہی تو تھے ان میں کوئی اتنا پڑھا لکھا بھی تو
نہیں تھا پھر ان میں سے ایک جوان اٹھا اسنے کہا کیوں نا ہم یہیں اپنے گاؤں
میں بھینسوں کا تبیلا بنائیں جس سے کے ہم روز دودھ اکٹھا کر کے فیکٹریوں
میں بیچیں گے یا پھر اپنی ہی فیکٹری بنا لیں اور منافع گھر بیٹھے سب کی جیب
میں پہنچتا رہے گا اس کی اس بات کو لے کر سب گدھا گاڑیوں کے مالکوں کے دماغ
میں بلب روشن ہوا اور سب نے سوچ وچار کے بعد اس مشن کو عملی جامہ پہنانے کا
عہد لیا اور پھر اسے پورا کرنے کے لیے پورا منصوبہ ترتیب دیا سب اپنے اپنے
گھروں میں واپس لوٹے اور جلدی امیر ہونے کے خوشی میں اپنے اپنے گھروں میں
بندھے ہوئے گدھوں کی رسیاں کھول دی اور انہیں آزاد کر دیا اور گدھا گاڑیاں
اکٹھی کر کے باہر اسی چوپال پہ جہاں یہ منصوبہ تیار ہوا تھا جمع کرنی شروع
کر دیں کرتے کرتے وہاں گدھا گاڑیوں کی لکڑیوں کا ڈھیر لگ گیا۔پھر ایک بوڑھا
گدھا گاڑی کا مالک اٹھا تیل چھڑکا اور سب کو آگ لگا دی کیونکہ اب انہیں
شاید انکی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سب اب امیر ہو چکے تھے انکے مطابق۔اب اگلا
کام خزانہ بیچ کر زمین خریدنے کا کچھ دن دنوں کے بعد یہ کام بھی پایہ تکمیل
کو پہنچا اور اب یہاں بھینسوں کا تبیلا بن کر تیار ہو چکا تھا دن گزرتے چلے
گئے اور دن سے مہینے مہینے سے سال ہو گیا ان گاؤں والوں کا یہ کاروبار کافی
ترقی کر چکا تھا اور سب گدھا گاڑیوں کے مالک اب بڑی بڑی گاڑیوں پر گھومنے
لگے سب اچھا چل رہا تھا ۔دوسری طرف جو گدھے انہوں نے اپنے اپنے اپنے گھروں
سے آزاد کیے تھے وہ سب جنگل کی طرف نکل گئےوہاں انہیں کھانے کے لیے وافر
مقدار میں سبز چارہ میسر تھا ادھر وہ گدھا گاڑیوں کے سابقہ مالک پرسکون
زندگی گزار رہے تھے اور یہاں یہ گدھے آزاد گھوم رہے تھے اور پیٹ بھر کر کھا
رہے تھے۔سب اچھا چل رہا تھا وقت گزرتا گیا اب گاؤں میں قحط سالی شروع ہو گئ
بارش نا ہونے کی وجہ سے فیکٹری کے مالک اور جنگل کے آزاد گدھے دونوں ہی
متاثر ہونے لگے پر زیادہ جنگل کے آزاد گدھے ہی متاثر ہوئے کیونکہ اب وہاں
سبز چارہ تو قریب قریب ختم ہی ہو چکا تھا قخط کی وجہ سے پر فیکٹری کے
مالکوں نے اور کہیں سے اپنی بھینسوں کے لیے چارے کا بندوبست کرنا شروع کر
دیا۔یہاں ایک دن بھوک سے نڈھال سب گدھے جنگل سے ایک ایک کر کے واپس گاؤں کی
طرف واپس لوٹنے لگے اور کچھ ہی دیر کے بعد سب اسی بوڑھے برگدھ کے پیڑ کے
نیچے جمع ہونا شروع ہو گئے جب سب کے سب اکٹھے ہو چکے بیٹھ گئے پھر ان میں
سے گدھا اٹھا اور چاروں اطراف نظر دوڑائی جیسے کے وہ گنتی کر رہا ہو اور
پھر جب اسکی گنتی پوری ہوئی یہ اطمینان سے سب کے درمیان آ کر کھڑا ہو گیا
اسے آگے پیچھے دائرے کی شکل میں بیٹھے سب ہی گدھے اسکی طرف دیکھنے لگے اور
یہ گدھا وہی تھا جسکی بدولت خزانہ نکلا تھا اور سارے گاؤں والے امیر ہوئے
اور ان سے گدھوں کو آزادی ملی۔اسنے چاروں طرف نظر گھمائ گردن اکڑا کر مخصوص
آواز میں جو گدھے کی ہوتی ہے شور مچانے لگا جسکے بعد سب گدھے چاک و چوبند
فوجیوں کی طرح سیدھے اٹھ کھڑے ہوئے سب ایک ڑیوڑ کی طرح جمع ہوئے ان سب کے
آگے وہی گدھا جا کھڑا ہوا بلکل ایسے ہی جیسے کے یہ ان کا سردار ہو پھر سب
نے اپنا رخ بھینسوں کے تبیلے کی طرف کیا اور دوڑ لگا دی ان بھوکے گدھوں میں
طاقت پتا نہیں کہاں سے آئ تھی یہ سب غصے سے بھینسوں کے تبہلے پہ چڑھ دوڑے
انہوں نےہر طرف بگدڑ مچادی سب بھینسیں اس اچانک خملے کی وجہ اپنی رسیاں
چھڑوا کر بھاگ نکلیں اور کچھ تو ماری گئیں۔گدھوں کا یہ طوفان گزرنے کے بعد
سب تہس نہس ہو گیا اور گدھے یوں غائب ہوئے جیسے وہ تھے ہی نہیں۔فیکٹری کے
بڑے مالک جوکے اسی گدھے کا مالک تھا جس کی وجہ سے خزانہ نکلا تھا اس کو خبر
ہوئی وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ بھینسوں کے تبیلے کی طرف دوڑا یہاں پہنچنے پر خبر
ہوئ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے آدھے سے زیادہ بھینسے یہاں وہاں بھاگ چکی ہیں
اور جو زخمی بھینسیں بچی ہیں وہ درد سے کراہ رہی ہیں وہ وہیں تبیلے میں ایک
زخمی بھینس پر سر پر ہاتھ رکھے بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد فیکٹری کے باقی
خصے دار بھی وہاں پہنچے اور پھر سب ایک جگہ اکٹھے ہوئے سب میں بخث ہوئی اور
آخر میں اس نتیجے پر پہنچے کے جو کچھ انکے پاس بچا کچھا ہے اس کو بیچ کر سب
اپنا اپنا خصہ لیں گے اور اپنے اپنے راستے پر نکل جائیں گے ہوا بھی یونہی
سب اپنا اپنا خصہ لے کر شہر کی طرف نکل گئے فیکٹری کا مالک کہتا رہا ہم پھر
سے اسی کاروبار کو شروع کرتے ہیں پر کسی نے بھی اسکی بات پر کان نہیں
دھرا۔وقت گزرتا گیااور قخط بھی ختم ہو گیا۔آج سب گدھے اسی بوڑھے برگدھ کے
پیڑ کے پاس بیٹھے سب نے اپنے پاس سبز چارے کا ڈھیر لگا رکھا وہ اسے کھا رہے
تھے اور سامنے گاؤں کے ویران گھروں اور کھلے دروازوں کی طرف ٹک ٹکی باندھے
دیکھے جا رہے تھے یا پھر اپنی فتح کا جشن منا رہے تھے۔پھر دور سے انہیں
دھول مٹی کا طوفان اپنی طرف آتا نظر آیا سب اٹھ کھڑے ہوئے سامنے کا منظر
کچھ ایسا تھا ان سب گدھوں کے وہی سابقہ مالکان مل اپنا بوریا بستر اٹھائے
اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹ رہے تھے اور تھوڑی دیر کے بعد سب ہی اپنے اپنے
گھر میں داخل ہو گئے۔یہاں بوڑھے برگدھ کے پیڑ کے نیچے کھڑے سب گدھے ایک
دائرے کی شکل میں اکٹھے ہوئے اور درمیان وہی خزانہ کھوجنے والا گدھا آ کر
کھڑا ہو گیا اس نے گردن اٹھائی چاروں اطراف جائزہ لیا گنتی پوری کی اور پھر
اپنی محصوص آواز میں جس میں گدھا شور مچاتا ہے شور مچایا اور سب گدھے اسکی
طرف خیرانگی سے دیکھنے لگے کچھ دیر ہوئ سب اسے یونہی دیکھتے رہے پھر دائرہ
ٹوٹا اور ایک ایک کر کے سب گدھے اپنے اپنے سابقہ مالک کے گھر کی دہلیز پہ
جا کھڑے ہوئے۔اور سب کے جانے کے بعد سب کا راہنما گدھا منہ میں سبز چارہ
چباتے ہوئے اپنے سابقہ مالک کی دہلیز پر جا کھڑا ہوا ۔سامنے بیٹھا ہوا اسکا
مالک اور کچھ اور اسکے جیسے بیٹھے آپس میں یہ بات کر رہے تھے کاش ہم اپنا
اپنا خصہ لینے کی بجائے پھرسے اپنا کاروبار شروع کرتے تو آج ہمیں یوں یہاں
ایسے خالات میں واپس نا لوٹنا پڑتا اب کیا فائدہ ہمارے پاس جو تھا سب کھا
پی کر ہم سب وہی بیٹھے ہیں جہاں سے شروع کیا تھا سب نے اسکی ہاں میں ہاں
ملائ اور ہاتھ ملنے لگے۔اتنے میں اسکا گدھا اپنی مخصوص آواز نکالنے لگا جس
پر دھیان پڑتے ہی اسکا مالک خوشی سے اٹھا اور اسکے سامنے جا کھڑا ہوا اسکے
پاس جاتے ہی اسنے اسکا ماتھا چوما اور اسکے گلے میں رسی ڈال کر اسے اسی ہی
کھونٹی کے ساتھ ہی باندھ دیا جس قریب ہی خزانہ یعنی کے سونے کی دیگچی نکلی
تھی۔کچھ دن گزر گئے سب ہی گدھا گاڑیوں والے واپس اپنے کام پر لگ گئے اور
منڈی طرف نکل گئے پر حسب معمول یہ آج پھر سویا رہا ایک سے دو اور پھر سے
تین دن گزر گئے پر یہ کام پر نہیں گیا ادھر اسکا گدھا بھوکا پیاسا اسکی طرف
دیکھے جا رہا تھا۔آج اسکے مالک کو اسکا خیال آیااور وہ اسکے سامنے جا کھڑا
ہوا اور اسکی طرف دیکھنے لگا پر اب کی بار گدھے نے غصے سے اپنی دونوں
ٹانگیں اوپر ہوا میں اٹھا کر زمین پر نہیں پٹیاں کیونکہ شاید اسی بھی اب
سمجھ آ چکا تھا کے اسکا مالک پھر سے خز آنے کے چکر میں شاید اسی لیے اسے
بھوکا رکھا ہوا ہے یونہی کچھ دن گزرے گدھا بھوکا رہا اور مالک روز اس سامنے
آ کر کھڑا ہو جاتا کے اسے دیکھ بھوکا گدھا پاؤں زمین پر پٹخے شاید پھر سے
خزانہ نکل آئے پر گدھا بھی ڈیٹھ بنا اسے دیکھتا رہتا چپ چاپ بیٹھا رہتا پھر
ایک دن یہ ہوا گدھا بھوکا مر گیا اور مالک مکان نے بھی خزانے کا لالچ چھوڑا
اور منڈی کی طرف مزدوری کے لیے نکل گیا۔
|