آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا سمیع الحق کے خطاب کے اہم نکات

مرتب :۔ مولانا عبدالصمد درخواستی ترجمان جمعیت علماءاسلام (پنجاب)

امریکی حالیہ الزامات اور بالخصوص حقانی نیٹ ورک وغیرہ کی آڑ میں دھمکیوں کے بعد حکومت نے اہم سیاسی اوردینی پارٹیوں کی اے پی سی بلائی۔29ستمبر2011ءکے اس تاریخی اجلاس میں قائد جمعیة علماء حضرت اسلام مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ نے بھی شرکت کی اوراجلاس میں وقت کے محدود ہونے کے باوجود موثر خطاب فرمایا۔اس خطاب کے اہم نکات شامل کئے جارہے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد وَ لَن تَرضٰی عَنکَ الیَھُودُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُم (الایة)

lجناب محترم وزیراعظم پاکستان عالی مرتبت سیاسی زعماءاور معزز عسکری قائدین!

یہ ایک اہم اجتماع ہے اوراس پر پوری قوم کی نظریں ‘ دھڑکتے دلوں کے ساتھ لگی ہوئی ہیں کہ ہمارے رہنما اس عظیم دلدل سے ہمیں کیسے نکالیں گے؟ جناب وزیراعظم حکومت اس موقع کو اپنے لئے غنیمت سمجھ کر اس سنہری اتفاق سے فائدہ اٹھائے کہ بہت سے زعماءاور سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھیں مگر ایک عظیم قومی چیلنج سے آپ اور ان کے درمیان خلیج پاٹنے کی صورت نکل آئی۔اب اس موقع کو ضائع کرکے قوم کی امنگوں کی ترجمانی نہ کی گئی تو یہ خلیج آئندہ اور وسیع ہوکر نفرت اور انتشار میں اضافہ کا باعث ہوگی۔

lحضرات گرامی!اب تک اکثر رہنماﺅں نے ملک کے انتہائی پریشان کن صورتحال پر روشنی ڈالی کسی نے بلوچستان کی شورشوں کے اضافہ کا رونا رویا کسی نے کراچی کے حالات پرواویلا کیا‘ کسی نے سوات ‘باجوڑ ‘ قبائلی علاقوں کی تباہی وبربادی کا ذکر کیا ‘ کسی نے اورکزئی ایجنسی کی بدامنی اور قتل و غارت گری کا ذکر کیا ہمارے محترم جناب محمود خان اچکزئی ‘ جناب میاں نواز شریف اور جناب منیر اورکزئی وغیرہ نے امراض میں اضافہ اورشدت پر بات کی اوراحتجاج کیا۔ ملک کا ایک بھیانک نقشہ سامنے لایا گیا۔جبکہ ان سب باتوں سے کسی کو انکار نہیں اور ملک کی کی ابتری کا یہ نقشہ سب کے سامنے ہے تو یہ مریض کی بیماریوں کا حال جو سب کو معلوم ہے یہا ں تو ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ جان بلب مریض کی اس مرض کے وجوہات کی نشاندہی کریں کہ اس حالت تک ہمیں کس نے پہنچایا ‘ پورا گھر ڈینگی بخار میں مبتلا ہو قریب المرگ ہو تو لوگ ڈینگی مچھر سے بچنے اور اس کے مارنے کے درپے ہوتے ہیں۔یہ نہیں کہ مچھر تو آزادی سے گھر میں اڑتا اور بھنبھناتا پھرے او رمریض بچ جائے توسارا وقت اس نکتہ پر غور کرنے کا ہے ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

11ستمبر کے بعد ملک کے اہم سیاسی زعماءکواس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے بلایا اوران کی رائے لی‘ تو ہم جیسے کچھ لوگوں نے کھل کر یہ سارے خدشات اور خطرات اس کے سامنے رکھے مگر وہ اپنے فیصلہ پر بضد تھا۔ اور ملک امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ وہ ان خدشات اور خطرات کو جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئے تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں تھا ہم نے سب کچھ لٹا دیا ملک کو داﺅپر لگا دیا۔

l اس سے قبل جو روس نے افغانستان پر یلغار کی تو افغانستان اور پاکستان نے مل کر ایک طویل جنگ لڑی۔او رلاکھوں کی قربانیاںدیں ‘ لاکھوں مفلوج اور اپاہج ہوئے ‘ لوگ ملک بدر ہوکر دنیا بھر میں ٹھوکریں کھارہے ہیں مگر ہمارا ایمان تھا کہ یہ قربانیاں رنگ لائیں گی اوروہ رنگ لائیں۔ اس جنگ کو اب بتیسواں سال پورا ہونے کو ہے ‘ یہ معرکة ام المعارک اور معرکة المعارک ہے ایک سپر پاور سوویت یونین کو نیست و نابود کردینے کے بعد اب دوسرا واحد سپر پاور شکست کھا کر فرار کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔

اس عظیم قربانی کے نتیجہ میں کیا ہوا۔ میں پچھلے پانچ چھ سال سینٹ کی خارجہ کمیٹی کا رکن رہا اور ایک رکن کمیٹی کے طور پر ہم نے تقریباً پورے دنیا کے دورے کئے ‘ جرمن بلیجیئم برطانیہ ‘ جنوبی کوریا‘ ویتنام‘ مغربی ممالک ‘ سنٹرل ایشیاءوغیرہ کی اعلیٰ قیادتوں ‘پارلیمنٹوں ‘ حکمرانوں ‘ جرنیلوں سے میں نے دو ٹوک باتیں کیں اوران سے کہا کہ
(۱)ہماری قربانی کے نیتجہ میں سوویت یونین نیست ونابود ہوا
(۲)سنٹرل ایشیا کی دس گیارہ ریاستیں آزاد ہوئیں۔
(۳)مشرقی یورپ کمیونزم کے چنگل سے نکل گیا‘ کئی ریاستیں آزاد ہوئیں۔
(۴)مشرقی اور مغربی برلن کے درمیان حائل دیوار ٹوٹ گئی۔
(۵)دنیا بھر کے محکوم اور مظلوم عوام کو جدوجہد کے راستے کھلے۔
(۶)سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بنا یہ اس جہاد کے پھل او رثمرات تھے‘ جو غیروں نے کھائے ‘ یہ پھول انہوں نے چنے۔ مگر جس ملک کا اس میں سب سے بڑا حصہ تھا سارے کانٹے اور سارا ملبہ اس پر ڈالدیا گیا۔ اور آج پاکستان کو دہشتگردی کا تمغہ دے کر اسے تباہ وبرباد کیا جارہاہے۔ اوراس جنگ کے نام پر ہمارے تیس پینتیس ہزار بے گناہ عوام اورفوجی جوان اس آگ کی نظر کردئے گئے۔ اس لئے کہ یہ جنگ ہرگز ہماری نہیں تھی بلکہ غیروں کی تھی مگر اس سے قبل جب روس کے خلاف جہاد میں پندرہ بیس لاکھ افراد شہید ہوئے ‘ وہ جنگ ہماری اپنی تھی‘ آزادی کی جنگ تھی اور آج کی جنگ غیروں کو ہمیں پھر غلامی کاموقع دینے کی جنگ ہے۔

lمعزز حضرات ! یہاں حقانی نیٹ ورک کے نام پرایک طوفان اٹھایا جارہا ہے‘ اورگویا حقانی گروپ اچانک آسمان سے اتر آیا ہے یا غاروں سے نکل کر نمودار ہوگیا ہے اور اس سے پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا جبکہ حقیقت یہی ہے کہ اسی گروپ کے رہنما اور لیڈر مولانا جلال الدین حقانی اوران کے ساتھی افغانستان پر 1979ءمیں روسی یلغار کے فوراً بعد روس کے خلاف میدان میں اتر آئے۔ حقانی کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ افغانستان کے علاقہ زدران سے یہ پکتیا پکتیکا او رخوست کے صوبوں میں صف آراءہوئے۔ وسائل اور اسلحہ کا نام ونشان نہیں تھا۔ خالی بوتلوں میں تیزاب اورپیٹرول بھر کر وہ بڑے بڑے ٹینکوں اور بکتر بندگاڑیوں پر حملہ آور ہوتے۔ امریکہ کا ابھی دور دور تک نام ونشان بھی نہیں تھا وہ اسے ایک مذاق سمجھ رہا تھا۔ ابھی پاکستان بھی جہاد سے قطعی لاتعلق تھا مگر وہ خالی ہاتھوں اسے مقدس جہاد سمجھ کر اپنا فرض ادا کرتے رہے‘ ان کی سخت جانی اور جرات واستقامت نے امریکہ کوبھی اس طرف متوجہ کیا۔

الغرض حقانی گروپ جہادا فغانستان کے بانی ہے اور آج بتیسواں سال ہے مگر یہ قربانیاں دے رہے ہیں‘ ڈرون حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں ایسا بھی ہوا کہ ایک رات میں مولانا حقانی کے گھر اور خاندان کے گیارہ گیارہ افراد نشانہ بنے۔ بیٹے بیٹیوں کے علاوہ معمر خواتین بچے اور بہو اور بہنیں خاک وخون میں تڑپا دی گئیں اور ہمیں یقین ہے کہ روسی سامراج کے تباہ ہونے کے بعد امریکی شکست کے بعد بھی یہ خاندان اور گروپ میدان میں موجود رہے گا اگر وہ ملک کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں روکنے والے امریکہ حقانی گروپ اور دیگر مزاحمتی قوتوں سے عاجز آکر اور شکست کھا کر ہم پر الزامات لگا کر حقانی گروپ کی ہم سے سرکوبی کروانا چاہتا ہے تاکہ امریکہ کے واپس جانے کے بعد ان گروپوں کی پاکستان کے ساتھ نہ ختم ہونے والی دشمنی جاری رہے اور مشرقی سرحدات کے بعد مغربی سرحدات بھی دشمنوں میں گھرے رہیں۔

lجناب محترم ہمارے سامنے قرارداد کا جو پہلا مسودہ رکھا گیا ہے انتہائی افسوس کہ اس سارے مسودہ میں موجودہ حالات امریکی الزامات وارننگ اور حقانی نیٹ ورک اور فوری صورتحال کا ذکر تک نہیں۔بلکہ اس قسم کی امریکی پالیسیوں کے بارہ میں تجدید عہد کرانے کی کوشش کی گئی ہے اور گویا ہم سے مزید توثیق کرائی جارہی ہے یہ قرار داد قوم کے سامنے آئے گی تو قوم کی کیا حالت ہوگی۔

lآج بھی اور اس سے قبل بھی ہمارے سامنے پچھلے نو سال میں پرویز مشرف اور موجودہ حکومت کے معاہدے نہیں رکھے گئے کہ اس ساری صورتحال کے بارہ میں کیا تحریری معاہدے تھے‘کیا مجبوریاں تھیں اور کیوں اس سے ہم نکل نہیں سکتے میں نے خارجہ کمیٹی کے رکن کے طورپر اور پھر نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے ممبر کے طور پر اوردیگر ساتھیوں نے بارہا اس وقت کمیٹیوں اوربریفنگ میں یہ سوال اٹھایا اورمطالبہ کیا کہ وہ سارے معاہدے اور مشرف کے کئے کرائے کی تفصیلات سامنے لائی جائیں ہمارے محترم جنرل احمد شجاع پاشا یہاں موجود ہیں ایک بار ان کی بریفنگ میں بھی اس کا ذکر کیا اور قومی سلامتی کمیٹی نے اس پر زور دیا مگر انہوں نے لاعلمی کااظہار کیا۔گویا ملک کی ساری تباہی زبانی جمع خرچ سے ہوئی بغیر تحریری معاہدوں کے۔ اگر آج بھی اس فورم پر وہ مجبوریاں بتلا دی جائیں کہ ہم اس دلدل سے کیسے نکل سکتے ہیں۔

lآج تو ہمارا یقین تھا کہ ہم کسی انتہائی موثر اقدام اورکسی فیصلہ کن لائحہ عمل کا ا علان کریں گے مگر افسوس کہ زیرغور مسودہ قرارداد تو پچھلے قراردادوں پرخط تنسیخ پھیر دیتا ہے گویا ہم نے ریورس گیئر لگادیا ہے جوافسوس کی بات ہے اگر ہم ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ تو کم از کم پچھلے اعلانات کا تواعادہ کریں ہم نے اس سے قبل (۱) ان معاملات پر دو آل پارٹیز کانفرنس کئے (۲) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی سلامتی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں قرار داد پاس کی اور ۲ مئی کے سانحہ ایبٹ آباد کے بعد 21مئی کو پارلیمنٹ نے قرارداد پاس کی یہ ساری قراردادیں نظر انداز ہیں۔

٭ او رحضرات میں ۲مئی کے سانحہ ایبٹ آباد کے دن کو عزت اور فتح کا نہیں پوری عالم اسلام اور امت محمدیہ کی رسوائی اور ذلت کا دن سمجھتا ہوں۔

میری تجویز ہے کہ اگر نئی کوئی بات ہم نہیں کرسکتے توان قراردادوں کا نئے قرارداد میں ذکر کیا جائے اور اس پر فوری عمل درآمد اور اس کی تنفیذ کے لئے اقدامات کئے جائیں اس کی روشنی میں امریکی راہداریاں ‘ ڈرون حملے‘ نیٹوکی سپلائی ‘ لاجسٹک سیل وغیرہ کو بند کرایا جائے۔

ایک محتاط مصلحت آمیز اور کمزور قرارداد علاج نہیں اس سے قوم مکمل مایوس ہوجائے گی۔

lیہاں ایک دوست نے ملک میں فرقہ واریت کا ذکر کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ساری دشمن کی کارفرمائیاں ہیں۔برٹش سامراج نے بھی ہمیں غلام بنائے رکھنے کے لئے ان ہی فرقہ وارانہ جھگڑوں میں ڈالدیاتھا ۔ اب امریکہ یہی حربہ استعمال کررہاہے اور شیعہ سنی کے علاوہ اب دیوبندی ‘ بریلوی اختلافات میں بھی ڈال کر تباہ کررہا ہے۔ ہم نے اس سے قبل بھی باہمی مل کر شیعہ سنی اوردیگر جھگڑوں سے بچنے کی راہ نکالی ۔ آج بھی ہمیں انتہائی محتاط رہنا چاہیے۔ خدا کرے ہم کسی موثر نتیجہ پر پہونچ کر یہاں سے جائیں۔۔۔
وآخر داعوانا ان الحمداللہ رب العالمین
Abdulsamad Darkhwasti
About the Author: Abdulsamad Darkhwasti Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.