کیا یہ سزا کافی ہے؟
تمل ناڈو کی ایک عدالت نے 29 ستمبر کو پولیس، محکمہ جنگلات اور محکمہ مال
کے دو سو سے زیادہ اہل کاروں کوجرم کے ایک بھیانک واقعہ میں ایک تا دس سال
کی سزائیں سنائیں ہیں۔ یہ واقعہ 20جون 1992 کو ضلع دھرمپور کے تعلقہ
ہرُورمیں ستھیری پہاڑی کے دامن میں آباد ایک قبائلی گاﺅں ’وِچاتھی‘ میں پیش
آیاتھا۔اس وقت تو اس معاملہ کی کچھ خبریں آگئی تھیں مگر سزا کے فیصلے کے
بعد میڈیا نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی حالانکہ اس کی روداد اور سزا کا حکم
کئی اعتبار سے توجہ طلب ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹروی شوبھا نے عدالتی حکم کے بعد اس گاﺅں کا دورہ
کیا اور 2 اکتوبر کے سنڈے ایکسپریس میں ان کی طویل رپورٹ شائع ہوئی۔ بعض
دیگر انگریزی اخباروں میں بھی مختصر خبریں شائع ہوئیں۔ مگر قومی الیکٹرانک
میڈیا پر اس سنگین معاملہ میں کوئی بحث سنائی نہیں دی۔ ان خبروں کو پڑھ کر
رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور یہ سوال ذہن میں گونجنے لگتا ہے کہ کیا آزاد
جمہوری ہندستان کے سرکاری اہلکار بھی اتنے وحشی، سفاک اور بے حیا ہوسکتے
ہیں جیسے اس معاملے میں ثابت ہوئے؟آخر انتظامیہ کے اجتماعی ضمیر کو کیا
ہوگیا ہے کہ وہاں موجود ڈھائی سو زیادہ افسران اور اہل کاروں میں سے کسی نے
بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی؟رپورٹیں مظہر ہیں یہ دراصل سرکاری
اہلکاروں کی ایک قبائلی گاﺅں کے بے بس باشندوں کے خلاف انتقامی کاروائی تھی
۔ ریاستی محکمہ جنگلات، پولیس اور مال کے ڈھائی سو سے بھی زیادہ اہلکاروں
نے اس ہولناک جرم میں حصّہ لیا اور شیطانیت کا ایسا تانڈو کیا جس کی کوئی
مثال نہیں ملتی۔
سرکاری عملہ نے ایک معمولی واقعہ کا بدلہ لینے کےلئے پورے گاﺅں کو کھنڈر
میں تبدیل کردیا، گھریلو استعمال کی ہرایک چیز کو تاراج کردیا اور جو بھی
دکھائی دیااس کوبلا جواز بے رحمی سے مارا پیٹا، عورتوں اوربچوں کے ساتھ
بدترین بدسلوکی کی، ان کو لاتوں ، گھونسوں اور لاٹھیوں سے مارکر لہو لہا ن
کردیا اور عورتوں کو برہنہ کردیا۔ آبادی کی تمام مرغیوں اوربکریوں کو
مارڈالا، بھون کر ان کا گوشت کھالیا اور ان کی الائش کو پانی کے ذخیروں میں
پھینک دیا۔پانی کو مزید آلودہ کرنے کےلئے اس میں دیگر غلاظتیں اورڈیزل بھی
ڈال دیا۔اس سانحہ کا سب سے دلدوز پہلو یہ ہے کہ ان سفاک سرکاری اہل کاروں
نے اعلا افسران کے حکم پر اور ان کی موجودگی میں گاﺅں کی ساری عورتوں کو
ایک جگہ جمع کرکے ان میں سے 18 دوشیزاﺅں کواپنی جنسی ہوس کا شکار بنانے کے
لئے الگ کرلیا اور دو دن تک علی الاعلان ان کی عصمت لوٹتے رہے۔
آزاد ہندستان میں جنسی ہوس رانی ، اجتماعی عصمت دری اورپولیس زیادتیوں کے
واقعات تواکثر منظر عام پر آتے رہتے ہیں لیکن یہ واقعہ اس اعتبار سے بڑا
دلدوز ہے کہ اس میں صرف پولیس ہی نہیں بلکہ سول محکموں کے دیگراہلکار بھی
ملوّث تھے۔اندازہ ہوا کہ ہرچند بدنام صرف پولیس ہے مگر یہ سفاک اور ہوسناک
ذہنیت ہر محکمہ میں موجود ہے۔ جہاد آزادی کے ابتدائی مراحل میں ایسے بیشمار
واقعات پیش آئے جب انگریزوں نے اپنا استبدادقائم کرنے کےلئے پوری پوری
بستیوں کو اجاڑ دیا، ہزاروںافراد کو پھانسی پر چڑھادیا اور عورتوں کے ساتھ
بدسلوکی بھی کی۔ مگرکسی بستی کی دوشیزاﺅں کو اس طرح چھانٹ کر ان کے ساتھ
ایسی بے حیائی اورظالمانہ حرکتیں انہوں نے بھی نہیں کیں۔آخر جمہوری نظام
حکومت میںسرکاری عملہ کس پر کس کا استبداد قائم کرنا چاہتا ہے؟وہ عوام کے
خادم ہیں یا جابر حکمراں؟وہ عوام کے دلوں میں اپنا رعب بٹھانے کےلئے ان کے
جمہوری اور قانونی حقوق کو ہی پامال نہیں کرتے بلکہ سفاکی، رذالت اور
انسانیت سوزی ساری حدوں کو پار کرجاتے ہیں۔عورتوں پر مظالم کی تفصیل پڑھ کر
بے اختیار ساحر لدھیانوی کے یہ مصرعے زبان پر آجاتے ہیں:
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
ثناخوانِ تقدیس مشرق کو لاﺅ
زرا ملک کے رہبروں کو بلاﺅ
بمشکل 250 جھگی جھونپڑیوں پر مشمل اس گاﺅں کے باشندوں کا قصورصرف اتنا تھا
کہ جب چند مزدورپیشہ افرادحسب معمول اجرت میں ملی ہوئی یا جنگلات سے چنی
ہوئی لکڑیاں سروں پر رکھ کر قریب کے بازار میں فروخت کرنے کےلئے لے گئے تو
ان میں صندل کی بھی کچھ لکڑی پائی گئیں۔ یہ اطلاع محکمہ جنگلات کے افسران
کو ملی تو ان کو گمان ہوا کہ گاﺅں میں جنگلات سے چرائی ہوئی صندل ہوسکتی
ہے۔ چنانچہ اس جستجو میں چند اہلکار گاﺅں میں پہنچ گئے اور گھروں میں گھس
گھس کر تلاشی لینے لگے جس پر کچھ عورتوں نے اعتراض کیا۔ کچھ مرد بھی سراپا
احتجاج بن گئے۔ پہلے کہا سنی ہوئی اور پھر نوبت ہاتھا پائی کی آ گئی۔
سرکاری عملے کو پسپا ہونا پڑا اور وہ سخت کاروائی کی دھمکی دیتے ہوئے چلے
گئے ۔
اس کے چند روز بعد 20 جون کی شام کو چار بجے کے قریب جیپ اور لاریوں کا ایک
قافلہ وہاں پہنچا جس میں محکمہ جنگلات کے 155پولیس کے 108 اور محکمہ مال کے
6 افسران اور کارکن شامل تھے۔ گاﺅں کے اکثر مرد گھروں پر نہیں تھے اورمحنت
مزدوری کرنے گئے ہوئے تھے۔ جو چند لوگ موجود تھے وہ اس قافلہ کو دیکھ کر
ادھر ادھرہو گئے۔ سامنے صرف عورتیں رہ گئیں جن میں کچھ اپنے گھریلو کام کاج
میں مصروف تھیں، کچھ ناریل کی رسیاں بنارہی تھیں اور کچھ آس پاس کے کھیتوں
اور باغوں میں کام کررہی تھیں۔ان بیچاریوں کو یہ گمان بھی نہیں تھا ان پر
آج قیامت ٹوٹ پڑنے والی ہے۔ حکام نے گاڑیوںسے اتر تے ہیں ان پر دھاوا بول
دیا۔ ان کو مارتے پیٹتے، چوٹیاں پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گھروں اورکھیتوںسے
باہر لائے اور آبادی کے پاس ایک درخت کے نیچے جمع کرلیا۔ ہر جانب سے رونے
اور چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ عورتوں سے صندل کی لکڑی کے بارے میں سختی سے
پوچھ تاچھ کی جانے لگی ،مگرکہیں لکڑی چھپا کر رکھی گئی ہوتی تو وہ بتاتیں
بھی۔
جب وہ عورتوں سے حسب دلخواہ معلومات حاصل نہیں کرسکے توافسران کے حکم پر ان
میں سے 18 دوشیزاﺅں کو الگ کر لیا گیاجن میں ایک 14سال کی نابالغ بچی بھی
تھی۔ ان کو ایک لاری میں بھرا اور آبادی سے کچھ فاصلہ پر ایک تالاب کے
کنارے لے جایا گیا۔ انتہائی فحش گالیاں دی گئیں اور مارا پیٹا بھی گیا جس
میں کئی عورتوں کے خون بہہ نکلا۔ ان سفاکوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ بعض
عورتوں کو برہنہ بھی کردیااور پھروہ ہواجس کے تصور سے بھی اس واقعہ کے 19
سال بعد بھی وہ عورتیں کانپ گئیں۔ ان کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ اس درندگی
کو بیان کریں۔ کئی کئی درندوں نے ایک ایک عورت کی عصمت کو لوٹا۔گاﺅں کے
پردھان پیرومل کو جب اطلاع ملی تو وہ بھاگے ہوئے گاﺅں پہنچے، لیکن ان کو
بھی پکڑ لیا۔ عورتوں سے کہا گیا کہ وہ ان کو ماریں۔ اس دوران ایک ایک گھر
کو جو گھر کم اور گھروندے زیادہ ہوتے ہیں، ایسا تباہ و برباد کیا گیا کہ وہ
سر چھپانے کے لائق نہیں گئے۔ پردھان پیرومل اور عورتوں کو لاری میں ڈال کر
ہرور میں جنگلات کے دفتر میں لایا گیااور دو دن تک ان کو ظلم اورجنسی ہوس
کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ان کے خلاف مقدمے قائم کئے گئے اورسالیم جیل میں
ڈال دیا گیا۔ وہ اتنی خوفزدہ تھیں کہ جب ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا
تو کسی کو شکایت کی جرات نہیں ہوئی۔ تقریباً ایک سو افراد نے، جن میںبیشتر
عورتیں او ر ان کے ساتھ 25 بچے تھے صندل چوری کے جھوٹے الزام میں دو ماہ
جیل میں کاٹے۔
واقعہ کے ایک ہفتہ بعد جب خبر پھیلی تو مقامی ایم ایل اے، ایم انا ملائی
اور ان کے ساتھ پی ڈی بابو (موجودہ ایم ایل اے) گاﺅں پہنچے تو وہاں صرف ایک
بوڑھی عورت ملی۔حد یہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے کتے بھی گاﺅں چھوڑ کر بھاگ گئے
، صرف دو کتے اس بڑھیا کے پاس پڑے رہ گئے۔ سارے باشندے سرکاری عملے کے عتاب
کے خوف سے جنگلات میں روپوش ہوگئے۔ مسٹر انا ملائی اور مسٹر بابو کچھ دیگر
سیاسی وسماجی کارکنوں کی مدد سے لوگوں کو واپس لائے اور ان کی بازآبادکاری
کا بندوبست کیا۔ سرکار نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ پولیس نے ایف آئی آر تک
لکھنے سے انکار کر دیا۔ آخر چند سماجی اور سیاسی کارکنوں نے،جن میں مقامی
مارکسی رکن پارلیمنٹ بھی شامل تھے، عدالتی کاروائی کی اور ہائی کورٹ کے حکم
پر معاملہ تفتیش کےلئے سی بی آئی کے سپرد ہوا۔
واقعہ کے تین سال بعد 1995 میں ایف آئی درج ہوئی۔ سی بی آئی نے جانچ کے بعد
محکمہ جنگلات کے اعلا افسران ایم ہری کرشن، پی متھیا اور ایل ناتھن سمیت
269 افراد کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا ۔ 1996 میں سی بی آئی کی خصوصی
عدالت نے ملزمان کے خلاف فرد عائد کی۔15 برس کی طویل سماعت کے بعد اب
پرنسپل و سیشن جج ایس کمارگروکی عدالت نے تمام 269 ملزمان کو مجرم قراردیا،
جن میں سے54 کی مقدمہ کی سماعت کے دوران موت ہوچکی ہے۔ عدالت نے محکمہ
جنگلات کے 12افسران کو اصل مجرم گردانا اور ان کو آدی باسیوں پر مظالم اور
عصمت دری کے جرائم میں 10 اور 7 سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی۔ پانچ
دیگرافسران کو عصمت دری کے جرم میں سات سات سال کی اوردیگر ملزمان کو مختلف
جرائم میں مختلف مدت کی سزا سنائی ہے۔
چند سوال
اس سنگین واقعہ میں مجرموں کو سزائیں اس لئے مل سکیں کہ کچھ سماجی اور
سیاسی لیڈر ، جن کا تعلق اپوزیشن سے تھا، اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مظلوموں کا انصاف
دلانے میں انتظامیہ نے مجرمانہ غفلت سے کام لیا۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے
جس میں سرکارعوام کے ووٹ سے چنی جاتی ہے۔ سب سے پہلا قانونی اور اخلاقی فرض
تو ریاستی حکومت کا تھا کہ وہ اس معاملہ میں اقدام کرتی اورغریب آدی باسیوں
کے جان و مال اور عزت و آبرو کو تاراج کرنے والے اپنے خاطی عملے کے خلاف
سخت کاروئی کرتی۔تمل ناڈو کی سرکار اس معاملے میں اکلوتی نہیں ہے بلکہ
عوامی معاملات میں ایسی غفلت، سرد مہری اور مجرم افسران کی پشت پناہی کا
رویہ تمام ریاستوں میں عام ہے۔جب تک کوئی معاملہ سیاسی نہیں بن جاتا،
کاروائی نہیں ہوتی اور اس میں بھی انصاف کے تقاضو ں کو نہیں بلکہ سیاسی نفع
و نقصان کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ہماری نظر میں یہ بھی کرپشن کی ایک صورت
ہے۔ کیاانا ہزارے نے ، بدعنوانی کے اس مکروہ پہلو کا کوئی نوٹس لیا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے پولیس ، جو امن اور قانون کی محافظ سمجھی جاتی ہے خود بھی
جرائم میں ملوّث ہو جاتی ہے اور اس کی موجودگی میں دیگر سرکاری اہلکار بھی
ایسا بھیانک جرم کرگزرتے ہیںلیکن سیاسی دباﺅ میں آکرپولیس اپنا فرض ادا
نہیں کرتی۔اس معاملہ میں تو پولیس نے ایف آئی آر تک درج کرنے سے انکار
کردیا۔ تین سال کی جدوجہد کے بعد عدالت کی مداخلت پر ایف آئی آر درج ہوئی۔
وجہ چاہے کچھ بھی کیوںنہ ہو، جو پولیس افسران اپنے فرض کی ادائگی میں اس
طرح کی چشم پوشی سے کام لیتے ہیں ان سے جواب طلبی میں حکومت فرار کی راہ
کیوں اختیار کرتی ہے؟
ایک سوال یہ ہے کہ کیا عصمت دری کے مجرموں کوچند سال جیل بھیج دینا کافی
ہے؟ عصمت دری ایک ایسا بڑا ظلم ہے جس کے درد کووہ عورت اور اس کے اہل
خاندان تاعمر بھلا نہیں پاتے۔ایک بے بس اور مجبور عورت کو ہوس کا شکار
بنانے والے کےلئے چند سال کی قید محض ایک مذاق ہے۔ مجرم کو یہ حق کیوں دیا
جاتا ہے کہ وہ توچند سال جیل میں رہ کر باہر آجائے اور سکون کی زندگی
گزارلے اور عورت مرتے دم تک اس کے لگائے ہوئے داغ کو جھیلتی رہے۔بعض اوقات
تومجرم اپنے اس فعل پر نادم ہونے کے بجائے اس خاتون اور اس کے خاندان کےلئے
مستقل آزار بن جاتا ہے۔سوال یہ ہے اس معاملے میں ہمارا نظام قانون اس قدر
بے حس کیوں ہے؟ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ سزا بھی ویسی ہی عبرتناک ہونی
چاہئے جیسا سنگین جرم ہے ۔اسی لئے اسلامی نظام قانون زنا کے مجرم کو چاہے
بالجبر ہو یا باہم رضامندی سے عبرتناک سزا دیتا ہے۔ مروجہ نظام قانون میں
زنا کے جرم ہونے کا تو کوئی تصور ہی نہیں۔ زنا بالجبر کے معاملہ میں یہ
قانون مجرم کےساتھ رعایت سے کام لیتا ہے جس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ جن پولیس افسران کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ معاملہ کی ایف
آئی آر درج کرکے گناہگاروں کے خلاف کاروائی کریں، ان کو فرض ناشناسی کی سزا
کیوں نہیں دی جاسکتی؟ آخر کیوں ان سب کو اس طرح کے معاملات میں مجرم کے
کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہماری پولیس کوکب تک
اسی سامراجی سانچے میں ڈھالا جاتا رہیگا جو انگریز نے اپنی سامراجی حکومت
کی ضروریات کے پیش نظر تیار کیا تھا؟ پولیس میں اصلاحات کی باتیں تو ہوتی
رہتی ہیں۔مگر ان پر عملدرامد نہیںہوتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پولیس کا سارا
عملہ ہی فرض ناشناس ہے۔ بہت سے پولیس افسران حساس اورفرض شناس بھی ہوتے
ہیں۔ لیکن پولیس فورس کا مجموعی ڈھانچہ ایسا بن گیا ہے کہ فرض شناس اور
لایق افسر دفتروں میں بٹھا دئے جاتے ہیں اور ”کماﺅ پوتوں“ کو اصل کمان سونپ
دی جاتی ہے۔ اس کےلئے ہمارا سیاسی نظام ذمہ دار ہے جو پولیس کا استعمال
اپنی ذاتی اغراض کےلئے کرنا چاہتا ہے۔ (ختم)
(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں) |