ترقی یافتہ اقوام کی تیسری دنیا کیلئے دوغلی پالیسیاں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
ترقی یافتہ اقوام کی تیسری دنیا کے ممالک پر عدم توجہ اور احساس محرومی کا تعلق ایک اہم مسئلے سے ہے جو عالمی سیاست، اقتصادی عدم مساوات، اور سماجی ناانصافی سے جڑا ہوا ہے۔ جب ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کی ترقی، عوامی بہبود، اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت میں ناکام رہتے ہیں، تو اس کا نتیجہ بسا اوقات بے چینی، مایوسی، اور انتہا پسندی کی صورت میں نکلتا ہے، جو کہ دہشت گردی کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔

پہلا اہم پہلو یہ ہے کہ جب ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے مسائل پر توجہ نہیں دیتے، تو وہاں کے عوام میں احساس محرومی بڑھتا ہے۔ یہ احساس انہیں یہ باور کراتا ہے کہ عالمی نظام ان کے حقوق، ضروریات، اور خواہشات کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ اس عدم توجہ کی وجہ سے، لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے مسائل کا حل نہ تو مقامی حکومتوں کے پاس ہے اور نہ ہی عالمی برادری کی جانب سے کوئی مدد موجود ہے۔ یہ بے بسی بعض اوقات نوجوانوں کو انتہا پسند گروہوں کی طرف مائل کر دیتی ہے، جو انہیں ایک طاقتور آواز دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔

دوسرا پہلو معاشی عدم مساوات کا ہے۔ جب ترقی یافتہ ممالک کی بڑی کارپوریشنز تیسری دنیا کے وسائل کا استحصال کرتی ہیں، تو مقامی معیشتوں میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ یہ عدم توازن نہ صرف غربت کو بڑھاتا ہے بلکہ معاشرتی تناؤ اور مایوسی کو بھی جنم دیتا ہے۔ جب لوگ اپنی معاشی حالت سے ناخوش ہوتے ہیں اور ان کے پاس کوئی موثر راستہ نہیں ہوتا، تو وہ تشدد کا راستہ اپنانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں، دہشت گرد تنظیمیں انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔

سماجی عدم مساوات بھی ایک اہم عنصر ہے۔ جب ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ترقی پذیر ممالک کی ثقافت، روایات، اور شناخت کو نظرانداز کیا جاتا ہے، تو یہ احساس بڑھتا ہے کہ ان کی شناخت کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ احساس نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل سکتا ہے، جہاں وہ اپنی ثقافت کی حفاظت کے لیے سخت گیر نظریات کو اپناتے ہیں۔ یہ شدت پسند نظریات انہیں دہشت گردی کی طرف مائل کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ اسے اپنی ثقافت اور شناخت کی حفاظت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

علاوہ ازیں، جب ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے ممالک میں جنگوں، فوجی مداخلت، یا دیگر سخت اقدامات کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو نافذ کرتے ہیں، تو یہ مقامی آبادیوں میں بے چینی اور انتقام کی جذبات پیدا کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں، عوامی ردعمل اکثر شدید ہوتا ہے، اور کچھ لوگ اس ردعمل کو دہشت گردی کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مشرق وسطی کے ممالک میں ہونے والے تنازعات ہیں، جہاں غیر ملکی مداخلت اور جنگوں نے انتہا پسندی کی بنیاد رکھی ہے۔

ترقی یافتہ اقوام کی تیسری دنیا کے مسائل پر عدم توجہ اور احساس محرومی، معاشی عدم مساوات، سماجی تناؤ، اور فوجی مداخلت جیسے عوامل ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب عوامل مل کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی افزائش کا باعث بنتے ہیں۔ اس صورتحال کے حل کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری تیسری دنیا کے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور ان کی ترقی، خود مختاری، اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے۔ جب تک یہ بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خطرہ بڑھتا رہے گا۔

پائیدار ترقی کے مقاصد (SDGs) کا قیام عالمی برادری کی طرف سے ایک اہم اقدام ہے، جو 2030 تک ترقی، مساوات، اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک جامع حکمت عملی پیش کرتا ہے۔ مگر اس کے دعوے اور عملی صورتحال کے درمیان ایک واضح تضاد موجود ہے، جو کئی وجوہات کی بنا پر ابھرتا ہے۔

پہلا پہلو یہ ہے کہ SDGs کا مقصد ایک جامع عالمی ایجنڈا پیش کرنا ہے، لیکن ان مقاصد کے حصول کے لیے مطلوبہ مالی وسائل کی کمی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک اس مالیاتی بحران کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے وہ ان مقاصد کے حصول کے لیے درکار سرمایہ کاری نہیں کر پا رہے۔ جب عالمی طاقتیں یا مالی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو یہ SDGs کے دعووں کو کمزور کر دیتا ہے۔

دوسرا اہم پہلو حکومتی پالیسیوں میں تضاد ہے۔ بعض اوقات، حکومتیں اقتصادی ترقی کے نام پر ماحولیاتی تحفظ اور سماجی انصاف کے مقاصد کو نظرانداز کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جب کسی ملک کی حکومت بڑے صنعتی منصوبوں کی حمایت کرتی ہے، تو یہ اکثر ماحولیات اور مقامی کمیونٹیز کے حقوق کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اس تضاد کی وجہ سے، SDGs کے اصولوں کی پاسداری نہیں ہو پاتی، جس سے ان کے اثرات کمزور ہو جاتے ہیں۔

سماجی عدم مساوات بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ SDGs کا ایک بنیادی مقصد غربت کا خاتمہ اور مساوات کو فروغ دینا ہے، لیکن بہت سے ممالک میں یہ عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے۔ دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، تعلیمی اور صحت کی سہولیات تک رسائی میں تفاوت، اور سماجی انصاف کے فقدان نے اس تضاد کو جنم دیا ہے۔ جب یہ بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے، تو SDGs کی کامیابی بھی متاثر ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں، عالمی سطح پر سیاسی ارادوں کی کمی بھی اس تضاد کی ایک وجہ ہے۔ اگرچہ بہت سے ممالک نے SDGs کو اپنانے کا عزم ظاہر کیا ہے، لیکن عملی طور پر ان پر عمل درآمد میں عدم دلچسپی اور سیاسی عدم استحکام ایک بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ بعض اوقات، اندرونی تنازعات یا بیرونی دباؤ کی وجہ سے حکومتیں SDGs کے اہداف کی طرف پیش قدمی نہیں کر پاتیں۔

ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک اہم چیلنج ہے۔ اگرچہ SDGs میں ماحولیاتی تحفظ پر زور دیا گیا ہے، مگر صنعتی ترقی اور توانائی کے استعمال میں موجودہ طرز عمل میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جب تک عالمی برادری ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی اختیار نہیں کرتی، SDGs کے دعوے عملی طور پر لاگو نہیں ہو پائیں گے۔

آخری تجزیے میں، SDGs کے دعوے اور عمل میں تضاد ایک سنگین مسئلہ ہے جو کئی وجوہات کی بنا پر ابھرتا ہے۔ مالی وسائل کی کمی، حکومتی پالیسیوں میں تضاد، سماجی عدم مساوات، سیاسی ارادوں کی کمی، اور ماحولیاتی چیلنجز ان بنیادی عوامل میں شامل ہیں جو SDGs کے موثر نفاذ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری، حکومتیں، اور مالی ادارے مل کر ایک جامع اور مربوط حکمت عملی تیار کریں تاکہ SDGs کے مقاصد کو حقیقت میں تبدیل کیا جا سکے۔

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 74 Articles with 63780 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.