اللہ تعالٰی نے انسان کا ایک
دوسرے سے رابطہ رکھنے کے لیے اسے مختلف رشتوں میں پرو دیا ہے ایک انسان کسی
کا بیٹا ہے کسی کا بھائی کسی کا دوست کسی کا ہمسایہ ہے قریب میں رہنے والے
کو ہمسایہ کہتے ہیں اور اسلام میں ہمسایہ کے حقوق پر بہت زور دیا گیا
ہے”حضرت ابو شریح خزاعیؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ
اور قیامت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک
کرے(بخاری)۔لہذا بہترین مسلم وہی ہے جسکا ہمسایہ اس پر نالاں نہ ہو۔”حضور
اکرمﷺ نے فرمایا کہ اگر ہمسایہ بھوکا ہو تو اسے کھانا کھلاﺅ، مانگے تو قرض
دو،وفات پا جائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہو،بیمار ہو تو اس کی تیماداری
کرو،اس کی خوشی غمی میں شریک رہو،اپنے گھر کی دیوار اتنی اونچی نہ لے جاﺅ
کہ اس کے گھر سے ہوا کی آمدورفت رک جائے ،نیا میوہ لاﺅ تو ہمسایہ کا حصہ
نکالو یہ نہ کر سکو تو یہ بات ہمسایہ سے پوشیدہ رکھو،حتٰی کہ آپ کے گھر کا
دھواں بھی ہمسایہ کے لیے باعث تکلیف نہیں ہونا چاہیے۔اگر آج ہم ان باتوں کو
مد نظر رکھیں اور اپنے آپ کو دیکھیں تو ہم مسلمان اسلام کے اصولوں کے بالکل
خلاف چل رہے ہیں ۔”ابن المقفع ؒ سے کسی نے کہا کہ آپ کا ہمسایہ تنگدستی کی
وجہ سے اپنا مکان فروخت کر رہا ہے آپ اس وقت ہمسایہ کی دیوار کے سایہ میں
بیٹھے تھے تو آپ نے کہا کہ اگر اس نے تنگدستی کی وجہ سے اپنا مکان فروخت کر
دیا تو ایسے سمجھو کہ میں نے اس کی دیوار کے سایہ کی قدر نہیں کی انہوں نے
اس کے پاس رقم بھجوائی اور کہا کہ مکان فروخت مت کرو۔اگر آج مسلمانوں کی
ہمسایہ گیری کو دیکھا جائے تو ایک ہمسایہ کو دوسرے کی کوئی خبر نہیں کہ
وہاں کیا ہو رہا ہے اگر ایک ہمسایہ وفات پا جائے تو دوسرا اس کے جنازہ میں
تو شریک ہو جاتا ہے مگر اس کی حیات میں اس کے دکھ درد بانٹنے کی زحمت گوارہ
نہیں کرتا۔”حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل مجھے پڑوسی کے حقوق کے بارے
میں تاکید کرتا رہا یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اسے وراثت میں شریک
کر دیں گے(مسلم، بخاری)۔اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ایک دوسرے کو معمولی
تنازعات کی بنا ءپر حقارت سے دیکھتے ہیں، خوشی غمی پر پڑوسی کو اتنی فوقیت
نہیں دیتے جس کا وہ حقدار ہے آج ہر انسان مفاد پرستی کا قائل ہے۔”حضور اکرمﷺ
نے فرمایا کہ جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی جس نے مجھے
ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے پڑوسی سے لڑائی کی اس نے مجھ سے
لڑائی کی جس نے مجھ سے لڑائی کی اس نے اللہ سے لڑائی کی“(ترغیب)۔ایک اور
حدیث میں ہے کہ ایک ہمسایہ وہ ہے جس کا ایک حق ہوتا ہے وہ ہے کافر
ہمسایہ،ایک ہمسایہ وہ ہے جس کا دوہرا حق ہوتا ہے وہ ہے مسلمان ہمسایہ،ایک
ہمسایہ وہ ہے جس کا تین گنا زیادہ حق ہوتا ہے وہ ہے جو قرابت دار بھی ہوتا
ہے (کتب احادیث)۔ہمارا ملک پاکستان جو کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی
گزارنے کے لیے علیحدہ کیا گیا تھا اب اس ملک میں اسلام کا صرف نام رہ گیا
ہے اور تمام پالیسیاں غیر مسلم ممالک کی چل رہی ہیں۔ہمارے ملک میں اب
مسلمان کی جان کی کوئی قدرو قیمت نہیں مسلمانوں کی جانیں خریدی جا چکی ہیں
اور ہمارا ملک غیر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان کو تباہ کرنے میں ان
کی مدد کر رہا ہے تو یہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے ۔ہر چیز کو مد نظر رکھنا
چاہیے اس ملک کی بے روز گاری،قتل و غارت عام،اور ہر برائی جنم لے رہی ہے
کیونکہ اس ملک نے اسلامی اصولوں کو چھوڑ کر غیر مسلم ممالک کی پالیسیاں
اپنا لی ہیں۔ہمارے ملک نے افغانستان کو تباہ کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیا
وہاں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا ،لاکھوں ماﺅں کی گودوں کو
اجاڑا گیا،ہزاروں افراد معذور ہوئے اور اس کا ہمیں کوئی دکھ نہیں ہوا اور
اگر آج پاکستان میں یہ منظر سامنے آیا قتل و غارت عام ہوئی بم بلاسٹنگ کا
سلسہ شروع ہوا تو ہمیں دکھ ہوتا ہے لیکن کیوں؟کیا وہ مسلمان نہیں تھے کیا
وہ ہمارے بھائی نہیں تھے الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اور تمام مسلمان آپس میں
بھائی بھائی ہیں ہمیں چاہیے کہ مصیبت میں اپنے مسلمان ممالک کا ساتھ دیں نہ
کہ ان پر مصیبت مسلط کریں۔ |