سائنسی ترقی اور تیسری دنیا کی محرومیاں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

سائنسی ترقی، عالمی دنیا کی ٹھیکیداری، اور تیسری دنیا کی محرومیاں اور استحصال ایک اہم موضوع ہے جس میں کئی مختلف پہلو شامل ہیں۔ سائنسی ترقی نے جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں معاشرتی، اقتصادی، اور صحت کے لحاظ سے بہتری لانے کی کوششیں کی ہیں، وہیں اس ترقی کی شروعات اور ترقی کی رفتار میں عالمی طاقتوں کے کردار نے تیسری دنیا کے ممالک میں بے شمار چیلنجز پیدا کیے ہیں۔

سائنسی ترقی کے فوائد میں صحت کے شعبے میں انقلاب شامل ہے، جہاں ویکسینیشن، جدید علاج، اور ٹیکنالوجی نے متعدد بیماریوں کے خلاف مؤثر جنگ میں مدد فراہم کی ہے۔ مگر یہ ترقی اکثر ان ممالک کے لیے محدود رہی ہے جو جدید سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی کمی، مالی وسائل کی عدم دستیابی، اور تعلیم کی محدود رسائی نے ان کی ترقی کو سست کر دیا ہے۔

عالمی دنیا کی ٹھیکیداری کی بات کریں تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طاقت اور اثر و رسوخ نے عالمی معاشی نظام پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں، جیسے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، نے ترقی پذیر ممالک کے اقتصادی پروگراموں کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن اکثر یہ پروگرام مقامی ضروریات اور حالات کو مدنظر نہیں رکھتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں معاشی استحصال اور عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔

تیسری دنیا کی محرومیاں بھی سائنسی ترقی کے تناظر میں اہم ہیں۔ ان ممالک کے لوگ نہ صرف جدید ٹیکنالوجی سے محروم ہیں بلکہ ان کے پاس اس کی تعلیم اور استعمال کی سہولیات بھی کم ہیں۔ یہاں کی حکومتیں اکثر سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی، اور اقتصادی مشکلات کا شکار ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو صحت، تعلیم، اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔

استحصال کے پہلوؤں کی بات کریں تو یہ زیادہ تر عالمی کمپنیوں کے ذریعے ہوتا ہے، جو تیسری دنیا کے وسائل کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ مثلاً، زراعت، معدنیات، اور دیگر قدرتی وسائل کی کھدائی میں عالمی کمپنیوں کی دلچسپی نے مقامی آبادیوں کے حقوق اور وسائل کی چوری کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف معاشی عدم مساوات کو بڑھاتی ہے بلکہ مقامی ثقافت اور روایات کو بھی متاثر کرتی ہے۔

مزید برآں، سائنسی ترقی کے کچھ نتائج، جیسے کہ جینیاتی تبدیلی کی تکنیکیں، بھی تیسری دنیا کے ممالک میں عوام کی صحت اور معیشت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ جب بڑی کارپوریشنز اپنی مصنوعات کو ان مارکیٹس میں بیچتی ہیں، تو یہ اکثر مقامی فصلوں اور طریقوں کو متاثر کرتی ہیں، جس سے مقامی کسان اور کاروبار متاثر ہوتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ سائنسی ترقی، اگرچہ اہم ہے، مگر اس کی راہ میں عالمی ٹھیکیداری اور تیسری دنیا کی محرومیاں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر ترقی پذیر ممالک اپنی سائنسی ترقی کی رفتار کو بڑھانا چاہتے ہیں تو انہیں بین الاقوامی تعاون، مقامی حکومتوں کی اصلاحات، اور عوامی تعلیم پر توجہ دینا ہوگی۔ اس کے بغیر، تیسری دنیا کے ممالک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے، جبکہ عالمی طاقتیں ان کے وسائل کا استحصال کرتی رہیں گی۔ یہ صورتحال ایک عادلانہ اور مستحکم عالمی معاشرت کے قیام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جس کا حل صرف عالمی سطح پر باہمی تعاون اور شراکت داری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

یہ سوچ کہ تیسری دنیا کے ممالک کے لوگ کاہل، سست، بدعنوان، اور جاہل ہیں، ایک گمراہ کن اور غیر منصفانہ تاثر ہے۔ اس طرح کی سوچ نہ صرف حقیقت سے بہت دور ہے بلکہ یہ سامراجی اور استحصالی بیانیے کا تسلسل ہے، جس کے تحت ترقی یافتہ ممالک اپنی پوزیشن کو جائز اور برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کی ترقی میں حائل رکاوٹیں محض عوامی رویے یا ثقافت کی کمزوریوں کی وجہ سے نہیں ہیں، بلکہ اس کے پیچھے تاریخی، سیاسی، اقتصادی، اور سماجی عوامل کا ایک جال ہے، جسے سمجھنا ضروری ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کا موجودہ حالت میں ہونا تاریخی نوآبادیاتی دور کی وجہ سے ہے۔ جب مغربی سامراجی طاقتوں نے ان ممالک پر قبضہ کیا تو ان کی معیشت، سماج، اور سیاسی ڈھانچوں کو بری طرح متاثر کیا۔ انہوں نے ان ممالک کے وسائل کا استحصال کیا، مقامی ثقافتوں کو کمتر سمجھا، اور لوگوں کو غلامی، غربت، اور محرومی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اس کے اثرات آج بھی نظر آتے ہیں، کیونکہ نوآبادیاتی نظام نے ان ممالک کی خود انحصاری اور اقتصادی ترقی کی بنیادوں کو تباہ کر دیا تھا۔

دوسری بات یہ کہ بدعنوانی، سیاسی عدم استحکام، اور کمزور ادارے صرف تیسری دنیا کے مسائل نہیں ہیں بلکہ یہ مسائل ترقی یافتہ دنیا میں بھی موجود ہیں۔ تاہم، جب تیسری دنیا کے ممالک کی بات آتی ہے تو ان مسائل کو خاص طور پر نمایاں کیا جاتا ہے، تاکہ ان کی ناکامی کا ذمہ دار انہیں ہی ٹھہرایا جا سکے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے اقدامات، جیسا کہ غیر منصفانہ تجارتی معاہدے، سیاسی مداخلت، اور قرضوں کے بوجھ نے بھی ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

تیسری دنیا کے عوام میں محنت، تخلیقی صلاحیت، اور ترقی کی خواہش کی کوئی کمی نہیں۔ ان ممالک میں لوگ اکثر انتہائی مشکل حالات میں بھی بہترین کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کی عوام اکثر محدود وسائل اور مشکلات کے باوجود نہ صرف اپنی بلکہ پوری دنیا کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بہت سی کامیاب شخصیات، سائنسدان، اور ماہرین انہی ممالک سے آئے ہیں، جنہوں نے عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے لوگ کاہل یا سست نہیں، بلکہ وہ مواقع کی کمی، نظام کی خرابی، اور عالمی استحصالی نظام کے باعث پیچھے ہیں۔

بدعنوانی اور جاہلیت کی جڑیں بھی اکثر استحصالی نظام میں ہوتی ہیں۔ جب لوگوں کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جاتا ہے، تعلیم تک رسائی نہیں ہوتی، اور روزگار کے مواقع محدود ہوتے ہیں، تو بدعنوانی اور جاہلیت کا فروغ ہونا لازمی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ان ممالک پر عائد کردہ غیر منصفانہ اقتصادی پابندیاں، قرضوں کی شرائط، اور بین الاقوامی تنظیموں کی پالیسیوں نے ان ممالک کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔

تیسری دنیا کے لوگوں کو ایک جامع اور منصفانہ نظام کی ضرورت ہے، جس میں تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع یکساں طور پر دستیاب ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں بین الاقوامی سطح پر برابری اور احترام کا حق دیا جائے، نہ کہ انہیں کمتر یا ناکام سمجھا جائے۔ عالمی طاقتوں کو بھی اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا، تاکہ ان ممالک کو خود انحصاری اور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

خلاصہ یہ کہ تیسری دنیا کی ناکامی کا الزام صرف وہاں کے لوگوں پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس کے پیچھے عالمی نظام کی ناانصافی، نوآبادیاتی اثرات، اور استحصالی پالیسیاں بھی ذمہ دار ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ان مسائل کو عالمی تناظر میں دیکھا جائے اور ان کے حل کے لیے عالمی تعاون اور اصلاحات کو فروغ دیا جائے۔ ترقی یافتہ دنیا کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کے لوگوں کو محض کاہل یا ناکام کہنے کے بجائے ان کی ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد فراہم کرے، تاکہ پوری دنیا کی ترقی اور خوشحالی ممکن ہو سکے۔

تیسری دنیا کو ماضی کے استعماری استحصال کے نتیجے میں ردعمل دینے کے لیے نہایت دانشمندانہ، منصفانہ، اور حکمت عملی پر مبنی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی قانون عدالت کے تناظر میں یہ ردعمل ایک منصفانہ، اخلاقی، اور انصاف پر مبنی معاشرتی و اقتصادی نظام کی بنیاد پر ہونا چاہیے، جو ظلم، استحصال، اور ناانصافی کی ہر شکل کو ختم کرنے پر زور دیتا ہے۔

سب سے پہلے، اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم اور شعور کی بیداری انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ علم کے ذریعے ہی ایک قوم اپنی تاریخی غلطیوں، حقوق کی پامالی، اور عالمی طاقتوں کے استحصالی نظام کا ادراک کر سکتی ہے۔ تیسری دنیا کو اپنے عوام میں تعلیم اور شعور کی بیداری پر توجہ دینی چاہیے تاکہ انہیں اپنے حقوق اور عالمی نظام کے خدوخال کی مکمل سمجھ حاصل ہو۔

دوسری جانب، اسلامی تعلیمات کے مطابق، ایک خود انحصار معاشرہ ہی حقیقی آزادی اور استحکام حاصل کر سکتا ہے۔ سورہ رعد، آیت 11 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کو اپنی اقتصادی اور سائنسی ترقی کے لیے خود انحصاری کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ صنعتی، سائنسی، اور اقتصادی میدان میں ترقی کے لیے اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا تاکہ عالمی طاقتوں پر انحصار کم سے کم ہو۔

انصاف کے قیام کی بات کی جائے تو اسلامی قانون عدالت میں انصاف کا اصول بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ سورہ النساء، آیت 58 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کو پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ تیسری دنیا کو اپنے داخلی نظام عدل و انصاف کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ بدعنوانی، ناانصافی، اور استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی و سماجی نظام میں اصلاحات کی جائیں، قانون کی بالادستی ہو، اور عدالتوں میں انصاف بلا امتیاز فراہم کیا جائے۔

عالمی سطح پر ایک منصفانہ اقتصادی نظام کے قیام کی ضرورت بھی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں زکوٰۃ، صدقات، اور معاشرتی فلاح و بہبود کے اصولوں کی خاصی اہمیت ہے۔ اسی طرح، تیسری دنیا کے ممالک کو عالمی سطح پر ایک منصفانہ اقتصادی نظام کے قیام کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے، جہاں سودی نظام کی بجائے شراکت داری اور منصفانہ تجارت کے اصولوں کو فروغ دیا جائے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے عائد کردہ ظالمانہ شرائط اور قرضوں کے بوجھ کے خلاف اسلامی بنیادوں پر معیشت کا نظام لانے کی کوشش کی جائے تاکہ تیسری دنیا کے ممالک اقتصادی آزادی حاصل کر سکیں۔

اتحاد و اتفاق کا اصول بھی اسلامی تعلیمات میں نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ سورہ آل عمران، آیت 103 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنا ہوگا۔ یہ اتحاد سیاسی، اقتصادی، اور ثقافتی سطح پر ہونا چاہیے، تاکہ استحصالی طاقتوں کا مقابلہ کیا جا سکے اور عالمی مسائل کا حل اسلامی اصولوں کے مطابق تلاش کیا جا سکے۔

ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا بھی اسلامی اصولوں کے تحت نہایت اہم ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا قول ہے کہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کی مدد کے لیے نکلنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ تیسری دنیا کو عالمی فورمز پر ظلم، ناانصافی اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ انہیں اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں اپنا موقف مضبوطی سے پیش کرنا چاہیے، اور استحصالی نظام کے خلاف اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔

قدرتی وسائل کا تحفظ اور ان کا انصاف پر مبنی استعمال بھی اسلامی قانون کے مطابق نہایت اہم ہے۔ زمین اور اس کے وسائل اللہ کی امانت ہیں اور ان کا استعمال انصاف اور توازن کے ساتھ ہونا چاہیے۔ سورہ الاعراف، آیت 31 میں فرمایا گیا کہ کھاؤ پیو اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا۔ تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے قدرتی وسائل کو عالمی استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے مؤثر پالیسی بنانی ہوگی اور ان وسائل کے استعمال کو مقامی عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔

اسلامی اصولوں کے مطابق ایک منصفانہ سیاسی اور سماجی نظام بھی ضروری ہے، جس میں عوام کے حقوق کا تحفظ ہو اور ان کے فیصلوں کا احترام کیا جائے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے نظام حکومت میں اسلامی اصولوں کے مطابق اصلاحات کرنی ہوں گی، تاکہ عوام کی حقیقی نمائندگی ہو اور عوامی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھا جائے۔


خلاصہ یہ کہ تیسری دنیا کو اپنے ردعمل میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں منصفانہ، حکمت عملی پر مبنی، اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، عالمی سطح پر انصاف کے قیام اور ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لیے اتحاد اور مؤثر حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور انہیں عالمی ترقی کی دوڑ میں برابری کے مواقع حاصل ہوں۔ اس طرح نہ صرف تیسری دنیا کے ممالک خود کو استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں گے بلکہ عالمی معاشرے میں بھی ایک منصفانہ اور مستحکم نظام کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔


 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 79 Articles with 64292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.