علمی و سائنسی سامراجیت

صیہونی سامراجی طاقتوں کا فلسفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں غلبہ بہت گہرا اور وسیع پیمانے پر ہے۔ ان طاقتوں نے براہ راست حکمرانی کے بجائے علمی، نظریاتی، اور تکنیکی طریقوں سے مختلف معاشروں پر اپنا تسلط قائم کیا ہے، جس سے دنیا کے دوسرے ممالک کی خود مختاری اور ثقافتی شناخت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس تسلط کے پیچھے ایک جامع منصوبہ بندی اور منظم حکمت عملی کارفرما ہے، جس میں فلسفیانہ خیالات، سائنسی تحقیق، اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مغربی تصورات کو عالمی سطح پر مسلط کرنا شامل ہے۔

فلسفیانہ خیالات کے میدان میں صیہونی سامراجی طاقتوں نے مغربی فکر کو غالب کیا ہے۔ مغربی فلسفہ، خاص طور پر لبرل ازم، سیکولرازم، اور مابعد جدیدیت کے نظریات، کو دنیا بھر میں تعلیم اور علمی تحقیق کے ذریعے فروغ دیا گیا ہے۔ ان نظریات کو جدیدیت اور ترقی کے معیارات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس سے غیر مغربی فکری روایات کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے یا ان کی اہمیت کم کر دی جاتی ہے۔ مغربی فلسفے کی یہ بالادستی تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں نمایاں ہے، جہاں اسلامی، چینی، اور افریقی فلسفے جیسے غیر مغربی فلسفیانہ نظامات کو کم تر اور غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں بھی فلسفے کو نوآبادیاتی طاقتوں نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں اپنے مفادات کے مطابق ڈھالا اور آج بھی یہ اثرات باقی ہیں۔ فلسفے کے ذریعے فکری غلامی کا ایک ایسا نظام قائم کیا گیا ہے جس میں مغربی فکری تصورات کو اعلیٰ اور درست سمجھا جاتا ہے، جبکہ مقامی فلسفیانہ روایات کو قدیم یا غیر معقول قرار دیا جاتا ہے۔

سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی صیہونی سامراجی طاقتوں کا غلبہ ہے۔ سائنسی علم کو مغربی ممالک کی جامعات اور تحقیقی ادارے کنٹرول کرتے ہیں، اور عالمی سطح پر سائنسی ترقی کے معیارات بھی انہی طاقتوں نے طے کیے ہیں۔ مغربی طاقتیں سائنسی تحقیق کے لیے مالی وسائل فراہم کرتی ہیں، جس سے تحقیقاتی موضوعات اور ایجنڈے بھی ان کے مفادات کے مطابق طے کیے جاتے ہیں۔ اکثر ترقی پذیر ممالک کے سائنس دانوں کو مغربی اداروں کی حمایت یا مالی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کی تحقیق کی سمت بھی مغربی مفادات کے مطابق ہوتی ہے۔ جدید سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی پر پیٹنٹس اور انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کا کنٹرول بھی مغربی ممالک کے پاس ہے، جس سے ترقی پذیر ممالک کو جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور سائنسی ترقی میں عدم مساوات پیدا ہوتی ہے۔ سائنسی تعلیم اور تحقیق کا عالمی معیار بھی مغربی ممالک کے اداروں نے قائم کیا ہے، جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی ادارے مغربی معیار اور ماڈلز کو اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں، اور ان کے اپنے سائنسی نظام کی ترقی متاثر ہوتی ہے۔

ٹیکنالوجی کے میدان میں صیہونی سامراجی طاقتوں کا تسلط سب سے نمایاں ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ، پر مغربی ممالک کا کنٹرول ہے، اور یہ ممالک دنیا کے دیگر ممالک کی معیشت، سیاست، اور معاشرت پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر کنٹرول رکھنے والی بڑی ٹیک کمپنیاں، جیسے گوگل، فیس بک، ایپل اور مائیکروسافٹ، مغربی ممالک میں قائم ہیں اور یہ کمپنیاں ڈیٹا، پرائیویسی، اور معلومات کے بہاؤ پر کنٹرول رکھتی ہیں، جس سے ترقی پذیر ممالک کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور استعمال میں بھی عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی صلاحیت محدود ہے، جس کی وجہ سے وہ عالمی معیشت میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مغربی طاقتیں اپنی ٹیکنالوجی کو محفوظ رکھنے کے لیے انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کو سختی سے نافذ کرتی ہیں، جس سے دوسرے ممالک کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور ترقی میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ صنعتی ٹیکنالوجی میں بھی مغربی ممالک کی بالادستی نے ترقی پذیر ممالک کو ٹیکنالوجی درآمد کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جس سے ان کی معیشت اور صنعتی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

علمی تسلط کا اثر بھی نمایاں ہے، جس کے ذریعے صیہونی سامراجی طاقتیں علمی تحقیق، سائنسی ایجادات، اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا غلبہ برقرار رکھتی ہیں۔ عالمی سطح پر سائنسی علم اور تحقیق کے معیارات بھی مغربی اصولوں پر مبنی ہیں، جس سے ترقی پذیر ممالک کو اپنی علمی روایات اور نظریات کے فروغ میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اس تسلط کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کو مغربی نظریات، معیارات، اور ٹیکنالوجی کو اپنانا پڑتا ہے، اور ان کی مقامی ثقافت، فکری روایات، اور خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔ صیہونی سامراجیت کے اس علمی اور سائنسی غلبے سے بچنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو اپنے تعلیمی، سائنسی، اور تکنیکی نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر خود مختاری حاصل کر سکیں۔

عالمی سطح پر صیہونی سامراجی طاقتوں کا یہ غلبہ، جسے ہم ایک جدید استعمار کی شکل کہہ سکتے ہیں، دنیا کے مختلف حصوں میں عدم مساوات، غیر متوازن ترقی، اور ثقافتی تصادم کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس غلبے کے نتیجے میں نہ صرف ترقی پذیر ممالک کی خود مختاری کمزور ہوئی ہے بلکہ ان کی مقامی ثقافت اور شناخت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ان ممالک کو اپنی علمی، سائنسی، اور تکنیکی ترقی کے لیے آزادانہ طور پر پالیسی بنانی ہوگی، جو کہ ان کی مقامی ضروریات اور روایات کے مطابق ہو، تاکہ وہ عالمی نظام میں ایک مؤثر اور خود مختار کردار ادا کر سکیں۔ اسلامی تعلیمات اور مقامی فکری روایات کے مطابق ایک جدید اور متوازن سائنسی، تعلیمی، اور تکنیکی نظام کی تشکیل ہی ان ممالک کو حقیقی معنوں میں آزادی اور خود مختاری کی طرف لے جا سکتی ہے۔



 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 79 Articles with 64264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.