امراض قلب میں مبتلاپاکستان میں سالانہ 75ہزاربچوں کی پیدائش

امراض قلب میں مبتلاپاکستان میں سالانہ 75ہزاربچوں کی پیدائش

ایوان اقتدارسے

ہر سال 29ستمبر کو دل کی بیماری اور خون کی شریانوں سے متعلق بیماریوں (cardiovascular diseases) کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے کیلئے طبی حقائق کو اجاگر کرتے ہوئے صحت مند عادتوں اور سرگرمیوں پر زور دیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ تقریبات کا اہتمام کرکے حاضرین کو دل کی صحت کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ دل کی بیماریوں سے کیسے بچا جاسکتا ہے اور کون سے اقدام اس خطرے کو کم کرسکتے۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے کہ دل کے امراض سے ہونے والی قبل از وقت اموات کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔
زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہمارے دل کی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں جیسے کہ دن میں 30منٹ ورزش کرنا، سگریٹ نوشی سے گریز اور صحت بخش خوراک کھانا۔ ہمیں جسمانی سرگرمی بڑھانے کے لئے چلنے پھرنے اور سائیکل چلانے کی عادت اپنانی ہوگی۔ اس کے علاوہ مشترکہ حکمت عملیوں کے ذریعے ایک دوسرے کو دل صحت مند بنانےکی ترغیب بھی دی جاسکتی ہے۔ بچوں کو اسکول ٹفن میں صحت بخش کھانا فراہم کرتے ہوئے،جنک فوڈز کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ساتھ ہی عالمی ممالک کو چاہئے کہ وہ امراض قلب کو کم کرنے کے لئے آبادی کے لحاظ سے حکمتِ عملی مرتب کرتے ہوئے قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اس ضمن میں تمباکو نوشی کو کنٹرول کرنے کے لیے جامع پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ چکنائی، چینی اور نمک کی زائد مقدار والے کھانوں کے نقصانات پر آگاہی فراہم کی جائے۔ منشیات کی روک تھام کے لیے ا±ٓہنی شکنجہ مضبوط کرنا ہوگا۔
دوسری جانب پاکستان میں سالانہ 75 ہزار سے زائد بچے دل کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں پیڈیاٹرک کارڈک سرجنز کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ سے بچوں کی پیچیدہ سرجریز ملک میں ریفر نہیں کی جاتیں۔ ان میں ایک پیچیدہ سرجری وہ ہے جس میں پیدائشی طور پر جسم سے باہر نشونما پانے والے دل کو اس کی اصل جگہ پر مقررہ وقت میں فکس کیا جائے۔ اس بیماری کو ایکٹوپیا کارڈس کہا جاتا ہے جس میں صحیح وقت پر علاج نہ ہونے سے بچوں میں اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ننھے مریضوں کے لیے فوری طبی سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ دل کے عارضے میں مبتلا بالغ افراد کو بھی بروقت ٹیسٹ اور علاج سے متعلق شعور و آگاہی فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بچوں میں پیدائشی امراض قلب (Congenital Heart Diseases) مختلف وجوہات کی بنا پر ہو سکتے ہیں، جو عام طور پر حمل کے دوران دل کی نشوونما میں کسی نقص کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ اگر خاندان میں کسی کو پیدائشی دل کے امراض ہوں تو یہ بچے میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ جینیاتی تبدیلیاں، جیسے کہ ڈاو¿ن سنڈروم یا ٹرنر سنڈروم، دل کی ساخت میں تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہیں۔ دوران حمل ماں کا کسی نقصان دہ چیز کے ساتھ سامنا ہونا، جیسے کہ بعض کیمیائی مادے، زہریلی دوائیں، یا وائرل انفیکشنز (مثلاً روبیلا وائرس) بچے میں دل کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔
اگر ماں کو دوران حمل ذیابیطس یا کوئی اور میٹابولک بیماری ہو تو اس سے بچے میں دل کی بیماری پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ حمل کے دوران غیر ضروری دوائیں استعمال کرنا یا نشہ آور اشیائ (جیسے کہ الکحل یا منشیات) کا استعمال بچے کے دل کی تشکیل پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔دوران حمل ماں کی ناقص غذا یا فولک ایسڈ کی کمی بھی بچے کے دل کی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔یہ وجوہات بچے کی دل کی نشوونما پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اور پیدائش کے وقت دل کے نقائص کا باعث بن سکتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں میں امراض قلب کا علاج کئی عوامل پر منحصر ہوتا ہے، جیسے کہ بیماری کی نوعیت، شدت، اور بچے کی عمومی صحت۔ یہاں چند اہم علاج کے طریقے درج ہیں۔دل کے افعال کو بہتر بنانے اور علامات کو کم کرنے کے لیے ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ادویات دل کی دھڑکن کو منظم رکھنے، بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے، اور دل کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ پیدائشی دل کے امراض (Congenital Heart Defects) میں اکثر سرجری کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دل کی ساختی خرابیوں کو درست کیا جا سکے۔ اوپن ہارٹ سرجری یا کیتھیٹر کی مدد سے کی جانے والی مداخلت بھی ممکن ہوتی ہے۔ بعض مسائل کے حل کے لیے کم انویسیو طریقہ کار جیسے کیتھیٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ بغیر اوپن سرجری کے مسئلہ حل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
شدید حالات میں، جب دل کی بیماری کا کوئی اور علاج مو¿ثر نہ ہو، دل کی پیوند کاری (Heart Transplant) بھی کی جا سکتی ہے۔بعض اوقات بچوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے خوراک، جسمانی سرگرمی، اور طرز زندگی میں تبدیلیاں لانا بھی ضروری ہوتا ہے۔بچوں میں امراض قلب کے علاج کے لیے ماہر امراض قلب (پیدائشی کارڈیالوجسٹ) سے مشورہ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ بیماری کی درست تشخیص اور بہترین علاج کا انتخاب کیا جا سکے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 23 Articles with 16627 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.