مصری خان خاطر ؔ المعروف ’’خاطر ؔ آفریدی‘‘
فطرت کا حسن انسان کو شاعر بنا دیتی ہے۔خوبصورت پہاڑوں میں گری وادیوں میں
حسین آبشاروں سے گرتے پانیوں کا شور کسی مسحور کُن موسیقی کی دُھن کی طرح
یہاں کے باسیوں کو غزل کہنے پر مجبور کردیتی ہے۔ محققین کے مطابق پشتو زبان
و ادب خصوصاَ شاعری کی تاریخ کئی صدیوں پرانی ہے۔ ’’پشتو ٹپہ‘‘ ان پشتون
قبائل کی حسن پسندی اور شعری ذوق کی دلیل ہے، جنہوں نے ایک طویل عرصہ خانہ
بدوشی اور جنگ و جدل میں گزارنے کے باوجود ایک ادبی تاریخ رقم کی۔دیگر شعری
اصناف کی طرح پشتو غزل کی روایت بھی سینکڑوں برس پرانی ہے۔”ڈاکٹر حنیف خلیل“
اپنی کتاب ”پشتو ادب کی تاریخ (۱۹۴۷ءتا حال)“ میں لکھتے ہیں:
”پشتو غزل کی روایت خاصی پرانی ہے۔ غزل کی ابتداء ساتویں صدی میں اکبر
زمیندار سے کی جاتی ہے۔
اس بات کو کسی حد تک مستند بھی نہیں سمجھا جاتا۔ دسویں صدی ہجری میں ارزانی
خوشکی کی غزل گوئی ہر قسم کے
شک و تردد سے مُبرا ہے۔خوشحال و رحمان اور کئی دیگر کلاسیکی شعراء نے پشتو
میں غزل گوئی کی روایت کو
مستحکم کیا۔)“ (۱(
یہاں ہمار مقصد پشتو غزل کی قدامت اور تاریخی اہمیت بیان کرنا نہیں بل کہ
اس عظیم شاعر کا تذکرہ مقصود ہے جنہوں نے نہ صرف خوشحالؔ خان خٹک اور رحمان
ؔ بابا کی کلاسیکی روایت کی پاسداری بھی کی اور امیر حمزہؔ شینواری کی جدید
غزل کا رنگ بھی اپنایا۔
خاطرؔ دے زڑہ لرہ نزدی درغلے
سو بہ یی لریی پہ ویشتو پسیی تلی
ترجمہ: (خاطر ؔ خود تمہارے دل کے قریب آگیا ہے۔ تم کیااس کے قتل کے لیے دور
دور جاکر تکلیف اُٹھا تے۔)
مصری خان خاطرؔ کا تعلق خیبر ایجنسی کے آفریدی قبیلہ ذخہ خیل کی شاخ سدو
خیل سے تھا۔۱۹۲۹ء میں پیدا ہونے والے خاطر ؔ آفرید ی کی حالاتِ زندگی کے
بارے میں اگر چہ زیادہ تحریر مواد نہیں ملتا، تاہم ان کے اُستاذ لعل زادہ
ناظرؔ کے مطابق خاطر ؔبابا ایک سادہ منش اور ہنس مُک طبیعت کے مالک تھے۔
خاطرؔ آفرید ی ایک فطری شاعر تھے۔ ابتداء میں ”حاکم شاہ باصرؔ“ سے اصلاح
لیتے رہے۔ بعد میں لعل زادہ ناظرؔ اور حمزہؔ شینواری جیسے بڑے شعراء سے
ادبی رہنمائی حاصل کرتے رہے۔خاطرؔ بابا کی غزل متنوع موضوعات کی حامل ہے۔
جس میں وہ منفرد تشبیہات و استعارات کا استعمال کرکے پڑھنے اور سننے والے
کے دل و دماغ کو اپنے جادوئی حصارمیں لے لیتے ہیں۔ان کی غزل موضوعات کی
رنگینی سے مزئین نظر آتی ہے۔اس بارے میں خاطرؔ بابا خود کہتے ہیں:
دا خاطرؔ رنگین غزل تہ حیرانیگم
گنی خڑ خیبر کیی سہ دی بیی لہ خاورو
ترجمہ: (خاطر ؔ کی غزل کی رنگینی کو دیکھ کر حیران ہوتا ہوں، ورنہ خیبر کی
اس گرد آلود وادی میں مٹی کے سوا اور کیا ہے۔)
دنیا سے ہمیشہ ہنسی خوشی ملنے والے خاطرؔ بابا خود ہجر سے نبرد آزما نظر
آتے ہیں:
د ہجران سرہ بہ سہ کڑم کوریی خور شہ
زما زور یی کڑو اوبہ، اوبہ یی زور شہ
ترجمہ: (مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس ہجر کے ساتھ کیا کروں۔ اس کے ساتھ
لڑتے لڑتے میری ہمت جواب دے چکی ہے، خُدا اس کا زور ختم کر دے۔)
اگر چہ ابتداء میں خاطرؔ بابا لکھنا نہیں جانتے تھے مگر بہت کم وقت میں
اپنے استاذ لعل زادہ ناظرؔ سے شعری اصلاح کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی سیکھ لیا
تھا۔آپ کی شاعری عوامی سطح پر بہت مقبول ہوئی۔خصوصا اُن کی غزلیہ شاعری۔ اس
کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ خاطرؔ بابا اس دور میں باقاعدگی سے مشاعروں میں
مدعو کیے جاتے تھے۔ جب کہ ان کی شاعر ی کی مقبولیت کی دوسری وجہ اس دور کے
مشہور مقامی گلوکار اور موسیقار باغیرمؔ (ربابی) کی گائیکی بنی۔جنہوں نے
خاطر ؔبابا کی غزلوں کو علاقائی سطح پر گا کر ہر سننے والے تک پہنچایا۔ یہی
وجہ ہے کہ خوشحالؔ خان خٹک اور رحمانؔ بابا کی طرح خاطرؔ بابا کے اشعار بھی
ہر پشتون کی زبان پر جاری ہیں۔خاطر ؔبابا بھی غزل کے روایتی محبوب کی طرح
اپنے محبوب کی سنگ دلی اور بے رُخی کا گلہ کرتے ہیں، مگر وہ اس بات کا بھی
اقرار کرتے ہیں کہ دنیا میں اُن کے محبوب کا ثانی نہیں۔
لکہ تہ یی داسیی نشتہ ستمگر بل
نہ می ولیدو داستا پہ شان دلبر بل
ترجمہ:(اے محبوب! تمہاری طرح ستمگر کوئی زمانے میں نہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے
کہ تمہارے جیسا دلبر بھی اس زمانے میں کوئی نہیں۔)
خاطرؔآفریدی کی شاعری میں ایک احساسِ محرومی اور مظلومیت نظر آتی ہے۔ مگر
اس کیفیت میں بھی وہ لطف محسوس کرتے ہیں۔ ہجر کا دکھ اور محبوب کی بے رُخی
ان کے دل میں محبت کے جذبے کو کم نہیں کر پاتی۔
پہ تا دا یار غمونو خوند موندلے
زڑگیہ کلک شہ نور دردونہ مہ کڑہ
ترجمہ:(اے دل! محبوب کا غم تمہیں ہر وقت ستاتا رہتا ہے،یہ اس کا معمول
ہے،پس تم ہمت کرکے خود کو مضبوط کرو اور درد کا احساس بھول جاو۔)
پشتو غزل جہاں اپنے اندر روایتی رنگ سموئے ہوئے ہے وہاں جدید رومانوی جھلک
بھی پشتو غزل کی انفرادیت کو بڑھا دیتی ہے۔اس حوالے سے خاطر ؔ بابا کی
شاعری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ان کی شاعری میں رومانیت کی دلکشی ایک
منفرد جاذبیت کے ساتھ ملتی ہے۔ جس میں تہذیب کے روایات جھلکتے نظر آتے ہیں۔
دمخ آئین دیی حیران مہ شہ ماتہ
زہ یم ھم دغیی آئینی تہ حیران
ترجمہ:(اے محبوب! تمہارا آئینہ کی طرح روشن چہرہ کبھی میری حالت دیکھ کر
حیران نہ ہو، کیوں کہ اسی آئینے کو دیکھ کر میں خود حیران کھڑا ہوں۔)
پشتو غزل کی دنیا کا یہ عظیم شاعر جس نے اپنی منفرد شعری خصوصیات کی وجہ سے
پشتو زبان و اد ب میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔تقریباََ گیارہ برس تک (ٹی بی)
دق جیسی خطر ناک بیماری سے نبرد آزما رہا اور آخر کار ۴ ۲اگست ۱۹۶۸ء کو اس
دنیا سے رخصت ہوا۔
خاطرؔ دا وینے غڑ غڑے وکڑلے
دا یی دا جوند د ختمیدو ورزے دیی
رضوان خان لونگین
|