ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
یوں تو پچھلے ستر سال سے پاکستان کا ہر شہری مصائب و الم کی بھٹھی میں جل
رہا ہے اور جل جل کر کُندن بن گیا ھے لیکن
ہے کوئی جو اس وقت موجودہ ملکی صورتحال کی آتش کی تپش سے محفوظ ہو ؟
مہنگائی نے تقریبا بچے بچے کو مجذوب سا بنا کر رکھ دیا ہے تو ڈیپریشن
انزائیٹی ما یو سی گھٹن نا امیدی نے جینے سے بیزار کر دیا ہے
کہا جاتا ہے کہ عمران نے عوام کو باشعور کر دیا ہے ہر گز نہیں ۔۔۔عمران اُس
درجے کا انقلابی لیڈر ہے ہی نہیں عمران نے تو حقیقی آزادی کے علاوہ کوئی
نعرہ ہی بلند نہیں کیا
ہاں وہ اپنے دل میں انصاف کا بول بالا کی سچی خواہش لئیے ہوئے ہے اور یہ
خواہش تو پاکستان کے مظلوم پسے ہوئے ہر شہری کے سینے میں شاید خانصاحب سے
زیادہ ہو اس میں ایک رائی جتنا شک نہیں ہے کہ خان صاحب ایک ایماندار صاحب
دل درد دل رکھنے والا ایک نیک سچا محب وطن ملک و ملت کا حقیقی خیر خواہ نیک
نیت اور ملک کی ترقی کا دل سے خواہاں اور خوشحالی دیکھنے کا حریص دلیر اور
مضبوط فقیر منش انسان ہے
لیکن یہ سب خوبیاں سوچنا اور اس کی خواہش ہونا ایک بات ہے لیکن اسکے لئیے
عملی اقدام کرنے کی اہلیت ہونا دوسری بات ہے وہ اپنے دور حکومت میں اپنی
ایک اچھی ٹیم ترتیب نہیں دے سکے
اگر وہ قابل و دانا ہوتے تو ان میں موجودہ حالات کو قبل از وقت بھانپ لینے
کی اہلیت ہونا اور اسکا سد باب کرنے کی اہلیت ہونی چائیے تھی خان صاحب تو
ادا شناس یا چہرہ شناس بھی نہیں جو کہ ایک لیڈر میں ہونا بہت ضروری ہے اس
نہائیت اہم خوبی کا نا میں ہونا ضروری تھا
اس شعور کے لئیے عوام کو حکومت کا شکر گزار ہونا چائیے جس نے بجلی کے بلوں
کی شیلنگ اور مہنگائی کے بم بار بار گرا کر عوام کو باشعور کیا کیونکہ دکھ
اور غم اللہ بھیجتا ہی اس لئیے ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کے لئیے انسان اپنا
دماغ استعمال کرے اپنی عقل کو بروے کار لاتے ہوئے اپنے خلاف ہونے والی ایسی
مہلک او مضموم کاروائیوں کیخلاف کوئی دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرے
یہ قوم جس کے لئیے اقبال نے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی
زرخیز ہے ساقی
یہ مٹی خیر سے ان دکھوں اور پریشانیوں سے ابھی نم ہوئی ہے امید ہے کہ بہت
جلد یعنی اگلے دو تین ہزار سال میں زرخیز بھی ہو جائے گی فعل الوقت ابھی
ایسا موسم ہی نہیں آیا جس سے اس کی زرخیزی کار آمد ثابت ہو
اللہ تعالی نے ہر انسان کو آزادی کے ساتھ بے خوف زندگی جینے کا حق ودیعت
کر کے دنیا میں بھیجا ہے کیونکہ زندگی اللہ تعالی کی نعمت اور امانت ہے خوف
کیساتھ جینا اس امانت میں خیانت ہے
کلمے کے نام پر بننے والے اس ملک میں آزادی ہے کہاں ہے ؟ اگر کہیں ہے تو
براہ کرم مجھے بھی دکھائی جائے تاکہ مرنے سے پہلے اس مبارک سوغات کی زیارت
کرنے کی سعادت مجھے بھی حاصل ہو
ہر شخص اپنے ملک میں عدم تحفط کا شکار خوف گھبراہٹ اور بے چینی کی زندگی
گُزار رہا ہے جب خوف بھی ہے اور آزادی بھی نہیں تو کس اینگل اور کس وجہ
اور بنیاد پر ہم خود کو آزاد شہری کہ سکتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم کبھی بھی آزاد ہوئے ہی نہیں ہیں ۔۔ کیا پاکستان صرف
عیدین کے علاوہ دیگر اسلامی تہوار اور آزادی سے نمازیں پڑھنے اور ہجرت کے
بے وقت لاتعداد شہادتوں بچوں کو یتیم اور خواتین کو بیوہ اور محض عزتیں
لٹوانے بے گھر ہونے اور اپنے ان پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے بچھڑ جانے
کے لئیے قائم ہوا تھا ؟ جو اب انڈیا میں جدائی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور
کیا جو مسلمان بھارت میں رہتے ہیں کیا انہیں نماز اور عیدین نہیں پڑھنے دی
جاتیں؟
اقبال رحمہ اللہ نے فرمایا تھا
سارے جہاں سے اچھا ہے ہندوستان ہمارا۔۔۔۔ ہم ُبلبلیں ہیں اسکی یہ گلستان
ہمارا
جب اہلیت و قابلیت کا یہ عالم ہے کہ اس نام نہاد آزادی کے بعد ستر سالوں
میں ہمارے ہاں آج بھی قانون انگریز کا چل رہا ہے تو پھر آپ آزادی کسے
کہتے ہو؟
ایک سینہ بہ سینہ روائیت ہے کہ برطانیہ کے کسی انگریز کو کسی غلامی میں
پروان چڑھنے والے محب وطن پاکستانی نے باپ دادا کی غلامی کے زیر اثر اسکی
خوشنودی کے لئیے کہا تھا کہ جناب ہمارے ہاں آج بھی ہم آپکے ہی بنائے ہوئے
قانون پر عمل پیرا ہیں
تو اس نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ہمارا قانون تو یہاں
ہمارے ملک میں دیکھو جو ہم نے اپنے ملک اپنی عوام کے لئیے بنایا ہے تمہارے
ہاں رائج قانون تو ہم نے اپنے غُلاموں کے لئیے بنایا تھا۔۔
۔۔۔۔بھروسہ کر نہیں سکتے غُلاموں کی بصیرت پر ۔
غلاموں کے اندر آزادی کی طلب نہ ہونے اور آزادی کے کیف و سرور سے نا
آشنا ہونے اور اپنے دل میں اپنے لئیے خوف کیوجہ سے زندگی جینے کی ہی امنگ
ہی نہیں ہوتی لہذا اسے آزادی کا مطلب ہی نہیں پتا ہوتا اسکی روح آزادی کی
چاشنی اور مٹھاس سے ہی ناواقف ہوتی ہے لہذا وہ آزادی کے لئیے کیوں سوچے
کیوں تدبر کر ے؟ اس میں تو تفکر و تدبر ہوتا ہی نہیں۔
اپنی طاقت خودی اور تلوار کے زور سے آزادی چھین کر آزاد ہونے والی قوم
ترک ہیں۔ جس طرح ہمیں آزادی کا مفہوم ہی نہیں پتہ اسی طرح غُلامی ترکوں کے
لئیے ایک ان دیکھی اور نامعلوم شے ہے
حالانکہ وہ بھی مسلمان ہیں ہم بھی مسلمان ہیں ہماری اقدار روایات عقائد
رسومات اسلامک اور یکساں ہیں اللہ کی اسی ایک زمین پر ایکدوسرے سےتھوڑے سے
فاصلے پر رہتے ہیں پھر اتنی تفاوت کیوں؟ لیکن
اقبال رحمہ اللہ نے کہا تھا۔
اڑتے ہیں دونو اسی ایک فضا میں۔۔۔۔ گر گس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
لہذا جب تک عوام کے اندر ایک صوفیانہ پن نہیں آئے گا اس وقت تک حالات نہیں
بدلیں گے کیونکہ صوفیانہ پن کی موجودگی میں انسان ہمیشہ حق کا ساتھ اور
باطل کو شکست فاش دینے میں مدد کرنے کی جرات اور طاقت رکھتا ہے
یہ سفر خود کو شعوری طور پر سنوارنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور شعوری طور پر
خود کو سنوارنے کا مطلب پہلی اور خستہ حالت سے دوسری اور اچھی حالت کے لئیے
خود کو تیار کرنا ہوتا ہے کیوں کہ حالات بدلنے کے لئیے اولا ارداہ مصمم
کرنا پڑتا ہے اقبال رحمہ اللہ نے کہا تھا
خُدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔۔۔ نہ جسکوہو خیال خود اپنی حالت
کے بدلنے کا
شکریہ افضل لالی
|