میرا طریقِ امیری نہیں فقیری ہے

علامہ محمد اقبال، جنہیں مفکرِ پاکستان کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، اپنی شاعری میں گہری فلسفیانہ سوچ اور معاشرتی نظریات پیش کرتے ہیں۔ اقبال نے اپنے کلام میں انسانیت، خودی، روحانیت اور امتِ مسلمہ کے مسائل پر بات کی، اور ان کا فلسفہ ایک جامع پیغام پیش کرتا ہے جسے محض چند اشعار میں سمو دینا مشکل ہے۔ ان کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے:
"میرا طریقِ امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر"

اس شعر میں علامہ اقبال نے اپنی فلسفیانہ بصیرت اور فکری دنیا کی گہرائی کا اظہار کیا ہے۔ یہ اشعار محض ایک فلسفیانہ نظریہ نہیں بلکہ موجودہ مسلم معاشرے کے لیے ایک سبق بھی ہیں۔ آج کے دور میں جب مسلمانوں کی اکثریت مادی دولت کے پیچھے بھاگ رہی ہے، اقبال کا یہ پیغام پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔اقبال کے نزدیک "امیری" مادی دولت اور ظاہری جاہ و جلال کی علامت ہے، جب کہ "فقیری" روحانی دولت اور انسان کی اندرونی خودی کو ظاہر کرتی ہے۔ اقبال کے نزدیک اصل عظمت مادی چیزوں میں نہیں بلکہ انسان کی روحانی اور فکری بلندی میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امیری صرف ایک فانی اور وقتی کیفیت ہے، جو انسان کی اصل حقیقت کو بدل نہیں سکتی، جب کہ فقیری ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر انسان اپنی خودی کو بلند کر سکتا ہے۔

اقبال کے اس نظریے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ "خودی" ان کے فلسفے کا ایک اہم جزو ہے۔ خودی کا مطلب ہے اپنی ذات کو پہچاننا، اپنی حقیقت کو جاننا، اور اپنے مقصد کا ادراک حاصل کرنا۔ اقبال کے نزدیک فقیری وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان اپنی خودی کو پہچانتا ہے اور وہ مقام حاصل کرتا ہے جہاں دنیاوی دولت کی خواہشات بے معنی ہو جاتی ہیں۔

اقبال کے اس شعر کا دوسرا حصہ "خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر" بھی انتہائی معنی خیز ہے۔ اقبال یہاں غریبی کو بطور زندگی کی مشکلات اور چیلنجز کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو انسان کو مضبوط بناتی ہیں۔ اقبال کے نزدیک عظمت اور نام دولت سے نہیں بلکہ مشکلات کے باوجود اپنی خودی کو بلند رکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال ہمیں اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ مادی حالات چاہے جیسے بھی ہوں، اپنی خودی کو کبھی کمزور نہ ہونے دو اور اپنی اصل شناخت کو کبھی ضائع نہ کرو۔

یہ پیغام آج کے مسلمانوں کے لیے ایک نصیحت ہے، جو دنیاوی مال و دولت اور جاہ و جلال کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور اپنی روحانی اور فکری دولت کو بھول رہے ہیں۔ اقبال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ دنیاوی طاقت اور دولت کی اہمیت عارضی ہے، جبکہ خودی اور روحانی طاقت انسان کو حقیقی عظمت عطا کرتی ہے۔

آج کی مسلم دنیا کو اگر اقبال کے اس فلسفے کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بیشتر مسلمان معاشرے مادی دولت، طاقت اور جاہ و جلال کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ دولت کا حصول، شہرت اور سیاسی طاقت کی دوڑ نے امتِ مسلمہ کے بیشتر حصے کو روحانی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ سیاست دان، تاجر، اور حتیٰ کہ عام مسلمان، اکثر اپنی روحانی شناخت اور اخلاقی اصولوں کو ترک کر کے صرف مادی فوائد کے پیچھے بھاگتے ہیں۔

موجودہ حالات میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ خودی کی کمی ہے۔ اقبال نے خودی کو بہت اہمیت دی اور اسے امت کی بقا اور ترقی کے لیے لازمی قرار دیا۔ اقبال کے نزدیک جب تک مسلمان اپنی خودی کو پہچان نہیں لیتے، وہ دنیا میں کوئی عظیم کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ بدقسمتی سے، آج کی مسلم دنیا میں بہت سے افراد اور قومیں اپنی اصل شناخت اور مقصد کو بھول چکے ہیں۔

علامہ اقبال کا یہ فلسفہ کہ "میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے" آج کے مسلمانوں کے لیے ایک راہنمائی فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی مادی دولت اور جاہ و جلال کی خواہشات کے بجائے روحانی ترقی اور خودی کو بلند کریں۔ آج کا مسلمان صرف دنیاوی مال و دولت کو اہمیت دیتا ہے، جب کہ اقبال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حقیقی عظمت مادی دولت میں نہیں بلکہ روحانی دولت میں ہے۔اقبال کے نزدیک مسلمان وہ ہے جو مشکلات اور مادی مسائل کے باوجود اپنی خودی کو بیچتا نہیں، بلکہ اپنے اندرونی اصولوں اور ایمان پر قائم رہتا ہے۔ آج جب دنیا میں مختلف چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے، اقبال کا یہ پیغام مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ وہ اپنی اصل شناخت اور روحانی طاقت کو کبھی نہ بھولیں۔اقبال کا یہ فلسفہ کہ فقیری اور روحانی عظمت ہی حقیقی کامیابی ہے، آج کے مسلمانوں کے لیے ایک راہنما اصول ہونا چاہیے۔ امتِ مسلمہ کو اقبال کے اس پیغام کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی اصل خودی کو پہچان سکیں اور دنیاوی دولت کے بجائے روحانی ترقی کی جانب گامزن ہو سکیں۔

آج کی مادی دنیا میں، جہاں ہر شخص صرف دولت اور طاقت کے پیچھے بھاگ رہا ہے، اقبال کا یہ فلسفہ ایک پیغام ہے کہ حقیقی امیری دولت میں نہیں بلکہ خودی اور ایمان میں ہے۔ اقبال کے اس فلسفے کو اپنا کر مسلمان نہ صرف اپنے آپ کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ دنیا میں ایک بار پھر عظمت حاصل کر سکتے ہیں۔
Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 36 Articles with 5582 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.