چین کے قومی ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق عوامی
جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے گزشتہ 75 سالوں میں ملک کی معاشی طاقت،
سائنسی اور تکنیکی صلاحیتوں اور مجموعی طور پر قومی طاقت میں نمایاں اضافہ
ہوا ہے، اور اس کا بین الاقوامی اثر و رسوخ نمایاں حد تک بڑھ گیا ہے۔
1979سے 2023 تک چین کی اقتصادی ترقی اوسطا 8.9 فیصد سالانہ رہی جو اسی عرصے
کے دوران 3 فیصد کی اوسط عالمی اقتصادی نمو سے کہیں زیادہ ہے۔رپورٹ کے
مطابق عالمی اقتصادی ترقی میں چین کا اوسط سالانہ حصہ 24.8 فیصد ہے جو دنیا
میں پہلے نمبر پر ہے۔
گزشتہ 75 سالوں میں ملک کی اقتصادی کامیابیوں کی مزید کچھ جھلکیاں دیکھی
جائیں تو صورتحال مزید واضح ہوتی ہے۔1952 میں چین کی جی ڈی پی صرف 30 ارب
امریکی ڈالر تھی۔ 1978 میں چین کی جی ڈی پی بڑھ کر 149.5 بلین ڈالر ہو گئی
جو عالمی معیشت کا 1.7 فیصد تھی۔ اصلاحات اور کھلے پن کے بعد سے، چین کی
مجموعی معاشی حجم میں توسیع جاری ہے. 2023 ء میں چین کی جی ڈی پی 17.8
ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئی جو دنیا کے مجموعی تناسب کا 16.9 فیصد ہے اور چین
دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے۔
اسی طرح 1985 ء میں ، چین میں ایجاد پیٹنٹ درخواستوں کی تعداد 85 ہزار 58
تھی۔ یہ تعداد 2011 تک 5 لاکھ 26 ہزار تک پہنچ گئی ، جس سے چین اس شعبے میں
عالمی رہنما بن گیا تھا۔ 2022 کے اختتام تک ، چین کی ایجاد پیٹنٹ کے لئے
منظور شدہ درخواستوں کی تعداد 1.619 ملین تک پہنچ گئی ، جس نے عالمی رہنما
کی حیثیت سے چین کی پوزیشن کو مضبوطی سے محفوظ کیا ہے۔
چین کے معاشی اشاریوں میں مزید بہتری کا جائزہ لیا جائے تو 1950 ء میں چین
کی اشیاء کی غیر ملکی تجارت صرف 1.1 بلین ڈالر تھی جو دنیا کی کل تجارت کا
0.9 فیصد تھی۔ 2013 ء میں چین دنیا کا سب سے بڑا سامان کی تجارت کرنے والا
ملک بن گیا۔ 2023 ء تک چین کی مجموعی اشیاء کی تجارت 5.9 ٹریلین ڈالر تک
پہنچ چکی ہے جو عالمی حصص کا 12.4 فیصد بنتا ہے اور مسلسل سات سال تک مسلسل
دنیا میں پہلے نمبر پر رہا ہے۔سروس ٹریڈ میں بھی زبردست توسیع ہوئی ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے آغاز میں ، چین کی سروس ٹریڈ تقریباً صفر
تھی۔ 2023 ء میں ملک کی مجموعی سروس ٹریڈ امپورٹ اور ایکسپورٹ کا حجم 933.1
بلین ڈالر تک پہنچ گیا جو دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔
اس وقت ملک کی "نئی" اور "سبز" صنعتوں کی جانب جاری تبدیلی تیزی سے واضح
ہوگئی ہے۔ خاص طور پر ایک پیچیدہ اور بدلتے ہوئے بین الاقوامی ماحول اور
کمزور عالمی معاشی رفتار کے پس منظر میں چین کی درآمدات اور برآمدات کا
مجموعی حجم رواں سال کی پہلی ششماہی میں 21.17 ٹریلین یوآن رہا جو سال بہ
سال 6.1 فیصد زیادہ ہے اور اس عرصے کے دوران تاریخ میں پہلی بار 21 ٹریلین
یوآن سے تجاوز کر گیا ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے
کہ چین کے سازگار حالات جیسے اس کی معاشی بنیادیں، بڑی مارکیٹ، مضبوط معاشی
لچک اور وسیع امکانات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
معاشی ماہرین کے نزدیک دنیا کو اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ چینی معیشت
مسلسل بہتری کے لئے تبدیل ہوگی۔ ملک کی جانب سے مالیاتی پالیسی، مانیٹری
پالیسی، رئیل اسٹیٹ، کیپٹل مارکیٹس، کاروباری اداروں کی مدد اور لوگوں کے
ذریعہ معاش کو بہتر بنانے جیسے شعبوں میں کوششوں کو مزید مستحکم کیا جا رہا
ہے اور اس حوالے سے اپنائے جانے والے زیادہ فعال نقطہ نظر سے دنیا کے لیے
بھی نمایاں ثمرات کا حصول ممکن ہے۔
|