تم نے ہم کو بھلا دیا
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
عہد رفتہ میں ذرائع نقل و حمل کی یاد تازہ کرتی تحریر |
|
|
راجہ محمدعتیق افسر
ان بسوں کے سریلے ہارن جنگل میں منگل کر دیا کرتے تھے کئی میل دور سے اپنی امد کا شادیانہ بجا دینے والی نشان(Nissan) کی یہ بس بھی اب ماضی کا قصہ پارینہ بن چکی. پہاڑوں کی شہزادی سمجھی جانے والی یہ بس بھی اپنی ذات میں ایک انقلاب تھی. اپنی تیز رفتاری اور قوت کی بدولت اس نے بیڈفورڈ بسوں کے مقابلے میں نصف وقت میں سفر طے کرا کر مسافروں پر احسان عظیم کیا تھا. ۔۔۔۔اسی ،اور نوے کی دہائی میں پہاڑی علاقوں کے مسافر اس نعمت سے بخوبی آگاہ ہوں گے.
اونچے نیچے راستے ہوں یا بل کھاتے موڑ، سڑک کچی ہو یا پکی ہو، بارش ہو یا طوفان مسافروں سے کچھاکھچ بھری نسان کی یہ بسیں پہاڑوں کو عبور کرتیں اور مسافروں کو منزل مقصود تک پہنچاتیں. راستے میں بپھرے ہوئے ندی نالوں کو بھی کمال سرعت سے عبور کر لیتیں.
ان بسوں کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ وقت کی پابند ہوا کرتی تھیں. مسافروں کو وقت یاد ہوتا تھا اور وہ اسی مطابقت سے سٹاپ پہ پہنچ جاتے تھے... پھر بس میں نصب پریشر ہارن تو میلوں دور سے مسافروں کو آمد کا پتہ دے دیا کرتے تھے. پہاڑوں کی خاموش فضا میں تو یہ ہارن بانسری کی صدامعلوم ہوتے تھے لیکن شہری علاقوں میں اسے شور اور صوتی آلودگی گردانا جاتا تھا. ٹریفک پولیس کے اہلکار اکثر و بیشتر ان بسوں کو روک کر ان پریشر ہارن کا ہرجانہ وصول کیا کرتے تھے. لب سڑک واقع گھروں کی دیہی خواتین اپنے روتے بچوں کو خاموش کرانے کے لیے آرڈر پہ ہارن بجوا لیتی تھیں. یہ ہارن ڈرائیور حضرات کے باہمی رابطے کا ذریعہ بھی تھے. سامنے والے پہاڑ پہ رواں گاڑی کے ڈرائیور سے بذریعہ ہارن کلام کیا جاتا اور ڈرائیور اس کا مقامی زبان میں ترجمہ بھی کرتا. جواب ملنے پر اس کا ترجمہ بھی کرتا. اسی طرح اوور ٹیکنگ کرتے وقت بھی راستہ مانگنے، راستہ دینے، شکریہ اور بعد از شکریہ کے ہارن بھی اپنی مثال آپ تھے.
رستے میں کوئی سواری ہاتھ دے اور استاد جی بس نہ روکیں سوال ھی پیدا نہیں ھوتا اگرچہ گنجائش نہ بھی ہوتی تب بھی دل کشادہ کر کے جگہ پیدا کر ھی لی جاتی. اگر خاتون مسافر ھوتی تو کنڈیکر با آواز بلند کہتا زنانہ سواری کیلئے جگہ خالی کرو تو کوئی بلا توقف اور کوئی بادل نخواستہ اپنی سیٹ چھوڑنے کو آمادہ ھو جاتا۔استاد جی بس چلاتے ساتھ سگریٹ کے دور بھی ہوتےکئی مسافر سگریٹ اور ڈیزل کی ملی جلی بو کی وجہ سے قے بھی کرتے لیکن کیا مجال کہ استاد جی کو تمباکو نوشی سے کوئی روکنے کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔
اس کے ساتھ مسافروں کومحظوظ کرنے کے لیے موسیقی کا انتخاب بھی داد طلب تھا. کنڈکٹر کو اس فن می ملکہ حاصل تھا خاص مواقع، اوقات اورمقامات پر مخصوص نغمے لگائے جاتے جو مسافروں پہ خاص کیفیت طاری کر دیتے تھے.ایسا محسوس ہوتا تھا کہ موسیقاروں نے یہ اسی وقت کے لیے تیار کیے ہیں. ان کا سحر اس قدر طاری ہوتا تھا کہ گہری کھائیوں کو دیکھ کر بھی مسافروں کے لبوں سے خوف خدا پر مبنی کلمات جاری نہ ہوتے. چڑھائی میں اپنے انجن کی صوت مترنم سے سماعتوں کو صبر جمیل عطا فرماتی اور اگر اس دوران لدا ہوا ٹرک پس کے آگے اگے محو سفر ہوتا تو ایسے سر اور راگ سننے کو ملتے جو تان سین کو بھی سننا نصیب نہ ہوئے ہوں۔ بس کی آمد پر بجنے والے ہارن سے کتنے ہی دلوں کے چراغ روشن ہو جاتے جب ان کے پردیسی رشتہ دار لوٹ کر گھر اتے اور اس وقت کتنی ہی انکھیں اشکبار ہوتیں جب کوئی اپنے پیاروں کی خوشیوں کی خاطر الوداعی انداز میں ✋ ہلاتا بس میں سوار ہوتا.... ان بسوں کا دور ختم ہوا لوگ جدید ہو گئے لیکن یہ ظالم بسیں 🚎 خوشی اور غمی کے وہ احساسات بھی اپنے ساتھ لے گئیں. اب ان بسوں کے انجن مال بردار ٹرکوں کے ساتھ لگے ہیں اور وہ احساسات ٹرکوں کے پیچھے لفظوں کی صورت میں تحریر ہوتے ہیں... |