پاکستان کا تعلیمی نظام گزشتہ چند دہائیوں سے مسلسل
چیلنجز کا شکار رہا ہے۔ جدید دنیا میں تعلیم کو قوموں کی ترقی اور خوشحالی
کا بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے، لیکن پاکستان کا تعلیمی نظام ان بنیادی
تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان
اپنے موجودہ تعلیمی نظام کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن رہ سکتا ہے؟ یا پھر
اس میں ایسی بنیادی تبدیلیاں درکار ہیں جو اسے عالمی سطح پر مقابلے کی
صلاحیت فراہم کر سکیں؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں پاکستان کے
تعلیمی نظام کا گہرا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مشہور مصنفین اور ماہرین کی
آراء اور کتابوں کا بھی حوالہ دینا ہوگا۔
پاکستان کا تعلیمی نظام مختلف مسائل کا شکار ہے، جن میں طبقاتی تقسیم، ناقص
تعلیمی ڈھانچہ، غیر معیاری نصاب، اور اساتذہ کی تربیت کی کمی جیسے چیلنجز
شامل ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کا پورا فائدہ نہیں
اٹھایا جا رہا اور ملک میں تعلیمی معیار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
جان ڈیوئی، جو تعلیم کے فلسفے پر ایک نمایاں مصنف ہیں، اپنی کتاب
"Democracy and Education" میں لکھتے ہیں کہ تعلیمی نظام کو طلباء کی
معاشرتی، ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ انہیں عالمی معیار
کے مطابق تعلیم فراہم کرے۔ بدقسمتی سے، پاکستان کا تعلیمی نظام اس مقصد میں
ناکام دکھائی دیتا ہے، جس کی وجہ سے نوجوان نسل کو عالمی منڈی میں مواقع
حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
پاکستان کا تعلیمی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار ہے۔ ایک طرف امیر طبقہ اعلیٰ
معیار کے پرائیویٹ اسکولوں اور غیر ملکی اداروں تک رسائی رکھتا ہے، جبکہ
دوسری طرف متوسط اور غریب طبقے کے بچے سرکاری اسکولوں اور مدرسوں میں تعلیم
حاصل کرنے پر مجبور ہیں، جہاں تعلیمی معیار بہت کمزور ہے۔ یہ فرق پاکستان
کی تعلیمی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
"Pedagogy of the Oppressed" کے مصنف پاؤلو فرائیری اس بات پر زور دیتے ہیں
کہ تعلیم کو طبقاتی تفریق کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے بلکہ اسے معاشرتی
مساوات اور انصاف کا علمبردار ہونا چاہیے۔ پاکستان میں موجودہ طبقاتی
تعلیمی نظام اس اصول کے خلاف ہے اور معاشرتی عدم مساوات کو فروغ دیتا ہے،
جس سے ملک کی مجموعی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
پاکستان کے تعلیمی نصاب پر ایک اور بڑی تنقید اس کی فرسودگی اور دورِ حاضر
کی ضروریات سے مطابقت نہ رکھنے پر کی جاتی ہے۔ جدید دنیا میں تعلیم کو
تحقیق، تخلیقی صلاحیتوں، اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا
جاتا ہے، لیکن پاکستان کا نصاب ان تمام پہلوؤں کو نظرانداز کرتا ہے۔
کنفیوشس کے تعلیم کے بارے میں نظریات کے مطابق، علم کا مقصد نہ صرف معلومات
کا ذخیرہ ہوتا ہے بلکہ معاشرتی اخلاقیات، اقدار، اور عملی علم کا فروغ بھی
ہوتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں ان پہلوؤں کی کمی پائی جاتی ہے، جس سے
طلباء کی ذہنی ترقی اور عالمی معیار کی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت میں کمی
واقع ہوتی ہے۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں اساتذہ کی تربیت کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ
ہے۔ ایک اچھا استاد نہ صرف معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ طلباء کو سوالات
کرنے اور تحقیق کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں اساتذہ کی تربیت
کی کمی کے باعث یہ مقصد حاصل نہیں ہو رہا۔
"Teaching to Transgress" کی مصنفہ بیل ہُکس کہتی ہیں کہ ایک استاد کا
کردار صرف معلومات پہنچانا نہیں ہوتا، بلکہ طلباء کو تنقیدی سوچ اور تخلیقی
صلاحیتوں کی جانب راغب کرنا بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں اساتذہ کی تربیت کی
کمی کے باعث طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں اور ذہنی ارتقاء میں رکاوٹ پیدا ہو
رہی ہے، جو کہ ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ اصلاحات
ناگزیر ہیں۔ اگر پاکستان اپنے تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے
میں ناکام رہتا ہے، تو مستقبل میں اسے معاشرتی اور معاشی میدان میں بہت سے
چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اساتذہ کی بہتر تربیت، نصاب میں جدت، اور
طبقاتی تفریق کو ختم کرنا وہ بنیادی اصلاحات ہیں جن پر توجہ دینا ضروری ہے۔
مشہور ماہر تعلیم کن زوک اپنی کتاب "The Global Fourth Way" میں لکھتے ہیں
کہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں تعلیمی اداروں میں
خود مختاری، جدت، اور تحقیق کو فروغ دیں۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو بھی اس
نقطہ نظر کے تحت تبدیل کیا جانا چاہیے تاکہ ملک عالمی سطح پر مقابلے کی
صلاحیت حاصل کر سکے۔
کیا پاکستان اپنے موجودہ نظام تعلیم کے ساتھ ترقی کر سکتا ہے؟
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان اپنے موجودہ
تعلیمی نظام کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن رہ سکے گا۔ تعلیمی نظام میں
اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی نوجوان نسل عالمی سطح پر اپنی
صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر سکے۔ اس کے بغیر پاکستان نہ صرف تعلیمی
میدان میں پیچھے رہ جائے گا بلکہ معاشرتی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں بھی
پیچھے چلا جائے گا۔
تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کا بنیادی ستون ہوتی ہے، اور پاکستان کو اس ستون
کو مضبوط بنانے کے لیے فوری اور جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔
|