دنیا کا ہر تیسرا شخص ویڈیو گیمر، پاکستانیوں سمیت اچھے کھلاڑی کیسےلاکھوں کما رہے ہیں؟

image
 
ویڈیو گیمز کھیلنے اور دیکھنے والوں کی تعداد دنیا بھر میں ہر کھیل کی مجموعی تعداد سے حیران کن حد تک کہیں زیادہ ہے۔جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

پیرس میں ہونے والے اولمپکس 2024 کو تین کروڑ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا ور ساڑھے دس ہزار سے زیادہ کھلاڑیوں نے ان میں حصہ لیا جب کہ جون 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ویڈیوگیمز کھیلنے والوں کی تعداد تین ارب 32 کروڑ سے زیادہ اور ویڈیو گیمز کے مقابلے دیکھنے والے ایک ارب سے زائد تھے۔

آئیے پہلے پاکستان کی ہی بات کر لیتے ہیں۔

ساڑھے تین کروڑ پاکستانی ویڈیو گیمز کھلتے ہیں
انٹنٹا ڈیجیٹل کے ڈیٹا کے مطابق 2024 میں پاکستان میں آن لائن ویڈیو گیمز کھیلنے والوں کی تعداد کا تخمینہ تین کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ ہے اورہر کھلاڑی ہر ہفتے اوسطاً چھ گھنٹے کھیلنے پر صرف کرتا ہے۔ ملک میں سمارٹ فونز کی تعداد 13 کروڑ سے زیادہ ہے جس سے ویڈیو گیمرز کی تعداد میں اضافے کا امکان نمایاں ہے، کیونکہ تقریباً 90 فی صد افراد اپنے سمارٹ فون پر ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔

پاکستان میں ویڈیو گیمز کی صنعت کا حجم 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔ اور یہ بات آپ کے لیے یقیناً حیرت کا باعث ہو گی کہ پاکستان بھی ویڈیو گیمز تیار کرنے والا بڑا ملک ہے اور اس سے لاکھوں لاکھ ڈالر کی آمدنی حاصل ہو رہی ہے۔ یہاں ویڈیو گیمز انفرادی یا چھوٹے گروپس کی شکل میں تیار کی جاتیں ہیں۔

ویڈیو گیمز کے دو ورلڈ چیمپئن پاکستانی ہیں
پاکستان کے پروفیشنل ویڈیو گیمرز عالمی سطح پر اپنی پہچان رکھتے ہیں اور دو کھلاڑی ویڈیو گیمز کے عالمی مقابلوں کے چیمپئن ہیں۔ سید سومیل حسن ڈوٹا ٹو(Dota-2) کے ورلڈ چیمپئن ہیں۔ انہوں نے 2015 میں نہ صرف 10 لاکھ ڈالر کا انعام جیتا بلکہ انہیں کم عمر ترین چیمپئن کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ جب کہ ارسلان عیش صدیق چار بار ای وی او (Evo)چیمپئن شپ سیریز میں ویڈیو گیم ٹکن(Tekken) کے فاتح ہیں۔

عالمی منظر نامے پر ویڈیو گیمز میں لوگوں کی دلچسپی، مقبولیت اور مالیاتی حجم کے لحاظ سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2022 میں اس صنعت کی مالیت کا اندازہ 365 ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا گیا تھا جس کا 2030 تک 665 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔

ویڈیو گیمرز، پانچ سے 90 سال کے لوگوں میں یکساں مقبول
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ویڈیو گیمز کھیلنے والوں کی تعداد تین ارب کے لگ بھگ ہے۔ یعنی کم ازکم ہر تیسرا شخص کوئی نہ کوئی ویڈیو گیم کھیل رہا ہے۔ ویڈیو گیمز کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کے کھلاڑیوں میں تقریباً ہر عمر کے لوگ شامل ہیں اور عمر کا یہ گراف 5 سال سے لے کر 90 برس تک پھیلا ہوا ہے۔

ویڈیو گیمز خواتین میں بھی یکساں مقبول
ویڈیو گیمز ہرصنف میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ عالمی اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ویڈیو گیمز کھیلنے والوں میں 48 فی صد تک خواتین اور 52 فی صد مرد ہیں۔ تاہم دونوں کی پسند میں نمایاں فرق ہے۔ مرد زیادہ تر لڑائی اور مار کٹائی والی ویڈیو گیمز پسند کرتے ہیں، جب کہ خواتین ہلکے پھلکے اور تفریحی ویڈیو گیمز کو ترجیح دیتی ہیں۔

دنیا بھر میں ویڈیو گیمز کھیلنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد براعظم ایشیا میں ہے جس کی ایک وجہ اس خطہ ارض کی کثیر آبادی ہے۔ دنیا کے 45 فی صد کے قریب ویڈیو گیمرز کا تعلق ایشیا سے ہے۔

آیئے اب ذرا نظر امریکہ پر بھی ہو جائے کیونکہ ویڈیو گیمز کی سب سے بڑی انڈسٹری یہاں قائم ہے۔ انٹرٹینمنٹ سافٹ ویئر ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 65 فی صد امریکی ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ 21 کروڑ سے زیادہ امریکی ہفتے میں کم از کم ایک گھنٹہ ویڈیو گیمز پر صرف کرتے ہیں۔ 64 فی صد ویڈیو گیمز اپنے سمارٹ فون پر جب کہ دوسرے افراد کھیلنے کے لیے کمپیوٹر، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور کنسول استعمال کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ چوٹی کے پروفیشنل ویڈیو گیمرز بھی امریکہ میں ہیں جن کی تعداد 3700 سے زیادہ ہے۔

جون 2024 کے ایک مطالعاتی جائزے سے ظاہرہوا ہے کہ امریکہ میں 20 سے زیادہ عمر کے 80 فی صد افراد ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ آن لائن گیمز پر سب سے زیادہ وقت خواتین صرف کرتی ہیں۔ 28 فی صد خواتین نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے 5 گھنٹے تک ویڈیو گیمز کھلتی ہیں جب کہ 15 فی صد کا کہنا تھا کہ وہ ہر ہفتے چھ سے دس گھنٹے ویڈیو گیمز پر صرف کرتی ہیں۔ جب کہ 12 فی صد مردوں نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے 10 سے 15 گھنٹے ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔

ویڈیو گیمز کے سب سے بڑے اسٹیڈیم امریکہ میں ہیں
شاید آپ کو یہ بات بھی دلچسپ لگے کہ ویڈیو گیمز کے ٹورنامنٹس کے لیے سب سے بڑے اسٹیڈیم بھی امریکہ میں ہی ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا ویڈیو گیمز ایوینو دارالحکومت واشنگٹن کے قریب ایک شہر ارلنگٹن میں ہے جس کا ہال ایک لاکھ مربع فٹ پر محیط ہے۔ یہاں شائقین 85 فٹ کی ایل ای ڈی سکرین پر براہ راست مقابلہ دیکھ سکتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک اور بڑا اسٹیڈیم ڈنیور میں ہے جس کا ہال 30 ہزار مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔

ویڈیو گیمز کو اربوں ڈالر کے اشتہارات ملتے ہیں
جیسے جیسے ویڈیو گیمز کا کینوس پھیل رہا ہے، اشتہاری کمپنیاں بھی اس جانب راغب ہو رہی ہیں اور ویڈیو گیمز تشہیری آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ ای مارکیٹر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2024 میں موبائل گیمز میں اشتہارات کی آمدنی کا تخمینہ 7 ارب 77 کروڑ ڈالر ہے۔
 
image
 
سعودی عرب جو اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور تیل کی آمدنی پر انحصار کم کرنے کے ایک بڑے منصوبے پر عمل کر رہا ہے، اپنے ملک میں ای سپورٹس کا مرکز قائم کرنے کے لیے 38 ارب ڈالر صرف کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ویڈیو گیمز کی کمپنیاں
ویڈیو گیمز تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی سونی ہے جس کے بعد ٹنسیٹ (Tencent) اور مائیکروسافٹ کا نام آتا ہے۔ دنیا کی 50 بڑی ویڈیو گیمز کمپنیوں میں سے 13 امریکہ، 10 جاپان، چھ چھ جنوبی کوریا اور چین، جب کہ فرانس اور سویڈن میں چار چار، اسرائیل، پولینڈ، برطانیہ، کینیڈا،سنگاپور، آئرلینڈ اور اٹلی میں ایک ایک کمپنی قائم ہے۔
 
image
 
ویڈیو گیمز کا مستقبل۔ میٹا ورس
آئندہ چند برسوں میں ویڈیو گیمز کے شعبے میں انقلاب آنے والا ہے اور ان گیمز کا انداز، کھیلنے کا طریقہ، دیکھنے کا زاویہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ میٹاورس پلیٹ فارم پر حقیتی اور کھیل کے اندر کی تصوراتی زندگی کا فرق مٹ جائے گا اور کھلاڑی مصنوعی ذہانت اور دوسری ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی مدد سے کھیل کی تصوراتی دنیا میں ایک کردار کی طرح داخل ہو جائے گا۔ اس نئی تبدیلی کو میٹاورس کا نام دیا ہے۔ میٹا( فیس بک)، گوگل، اور مائیکروسافٹ اس نئے نظام پر کام کر رہے ہیں۔

میٹاورس کا دائرہ صرف ویڈیو گیمز تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ زندگی کے اکثر شعبے اس کے اثر میں آ جائیں گے۔ مثال کے طور پر مختلف مقامات پر بیٹھے ہوئے لوگ میٹا ورس کے ذریعے تصوراتی طور پر ایک ہی جگہ پر اکھٹے ہو کر آپس میں حقیقی دنیا سے بات چیت کر سکیں گے۔
 
image
 
ویڈیو گیمز کی لائیو اسٹریمنگ
انٹرنیٹ پر درجنوں ایسے پلیٹ فارم موجود ہیں جہاں آپ نہ صرف دنیا بھر میں کسی سے بھی براہ راست ویڈیو گیم کھیل سکتے ہیں بلکہ دوسروں کو کھیلتے ہوئے دیکھ بھی سکتے ہیں۔ ٹویچ(Twitch) کا شمار سب سے معروف لائیو اسٹریمنگ پلیٹ فارم میں ہوتا ہے جس پر جانے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یوٹیوب ، فیس بک، ٹک ٹاک اور کئی دوسرے معروف پلیٹ فارم بھی آپ کو براہ راست ویڈیو گیم کھیلنے اور دوسروں کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

ویڈیو گیمز دولت کمانے کا ذریعہ
ویڈیو گیم کھیلنا اب صرف تفریخ کا ہی ذریعہ نہیں رہا بلکہ دولت کمانے کا بھی ایک بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ اگر آپ اچھے ویڈیو گیمر ہیں تو آپ پر ہن برس سکتا ہے۔ اگست 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کا سب سے دولت مند ویڈیو گیمر ٹیلر بلوائنز ہیں جو ’ننجا‘ کے نام سے کھیلتے ہیں۔ وہ ویڈیو گیمز کھیل کر سالانہ ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر کماتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ’نو ٹیل‘ کے نام سے کھیلنے والے جان سنڈسٹین ہیں جن کی سالانہ آمدنی 70 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔
 
image
 
اچھے کھلاڑیوں کو ویڈیو گیمز بنانے والی کمپنیوں میں ویڈیو گیم کھیل کر ٹیسٹ کرنے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں۔ وہ بھی لاکھوں کماتے ہیں۔ کئی ایک ویڈیو گیمز کا کوچنگ سنیٹر کھول لیتے ہیں۔ جو یہ بھی نہیں کرتے مگر اچھا کھیلتے ہیں تو وہ مقابلے جیت کر کافی کما لیتے ہیں۔

اگر آپ کو کبھی ویڈیو گیمز کی لائیو اسٹرمینگ دیکھنے کا موقع ملے تو آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہو گی کہ کھیل کے دوران بہت سے لوگ ویڈیو گیمر کو ڈالروں میں انعام دے رہے ہوتے ہیں جو براہ راست ان کے اکاؤنٹ میں جا رہا ہوتا ہے۔

ان پر ہن برستا دیکھ کر بے اختیار یہ کہنے کو دل چاہتا ہے۔ "کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب۔"
 
Partner Content: VOA Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: