بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
اس کہاوت (نظام کے ذریعے پیدا کی ہوئی بھوک کبھی بھی این جی اوز، دسترخوان
اور ویلفیئر ٹرسٹ سے ختم نہیں ہو سکتی۔ نظام کا ٹھیک ہونا ہی اصل حل ہے)میں
ایک گہرے اور جامع سماجی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
سماج میں جو غربت، بھوک اور افلاس ہے، وہ دراصل کسی مخصوص نظام کی ناکامی
کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگرچہ این جی اوز، دسترخوان، اور ویلفیئر ٹرسٹ جیسے
فلاحی ادارے ضرورت مندوں کی وقتی مدد کرتے ہیں اور ان کی فوری ضروریات پوری
کرتے ہیں، لیکن یہ اقدامات مستقل حل فراہم نہیں کرتے۔ اصل مسئلہ جس نے بھوک
اور غربت کو جنم دیا ہے، وہ اپنی جگہ پر برقرار رہتا ہے اور لوگوں کی حالت
جوں کی توں رہتی ہے۔
بھوک، غربت، اور سماجی ناانصافی ایک ایسے نظام کی پیداوار ہیں جو وسائل کی
غیر منصفانہ تقسیم، بدعنوانی، اور عدم مساوات پر مبنی ہے۔ اس نظام میں چند
لوگ وسائل، دولت اور اختیارات پر قابض ہوتے ہیں جبکہ عام لوگ بنیادی
ضروریات زندگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں فلاحی ادارے عارضی
ریلیف فراہم کرتے ہیں، لیکن وہ نظام کو بدلنے یا اس کی بنیادی خرابیوں کو
درست کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ نتیجتاً، بھوک، افلاس اور سماجی مسائل کی
جڑیں مضبوط رہتی ہیں۔
مثال کے طور پر، جب کسی معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہو اور دولت
کا بڑا حصہ چند ہاتھوں میں مرکوز ہو، تو وہاں وسائل کی کمی نہیں ہوتی بلکہ
وسائل کی تقسیم میں بے نظمی ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں این جی اوز اور خیراتی
ادارے وقتی طور پر بھوکوں کو کھانا فراہم کر سکتے ہیں، مگر وہ غربت کی
بنیادی وجوہات کو ختم نہیں کر سکتے۔ غربت کی جڑیں سماجی، اقتصادی اور سیاسی
نظام میں پیوست ہوتی ہیں۔ اگر ان نظامی خرابیوں کو دور نہ کیا جائے، تو
فلاحی کاموں کے باوجود غربت اور بھوک اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔
فلاحی ادارے اور خیراتی ادارے لوگوں کو وقتی ریلیف دے کر ان کی حالت کو
بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کا اثر محدود ہوتا ہے۔ یہ ادارے ایک
طرح سے نظام کی ناکامی کو چھپانے کا کام بھی کرتے ہیں، کیونکہ جب لوگوں کو
خیرات اور دسترخوان کے ذریعے خوراک مہیا کی جاتی ہے، تو نظام کی خامیاں اور
ناانصافیاں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، فلاحی اداروں کا وجود
اکثر حکومتوں کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
حکومتیں، جو کہ دراصل نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کی ذمہ دار ہیں، فلاحی
اداروں کے ذریعے ہونے والے کاموں کو اپنی ناکامیوں کا جواب سمجھ لیتی ہیں۔
اصل حل یہ ہے کہ نظام کو درست کیا جائے، اس میں موجود عدم مساوات،
بدعنوانی، اور ظلم و ناانصافی کو ختم کیا جائے۔ جب تک نظام میں اصلاحات
نہیں کی جاتیں اور دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی نہیں بنایا
جاتا، بھوک اور غربت کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ معاشی اور سماجی نظام کی
اصلاحات میں دولت کی منصفانہ تقسیم، روزگار کے مواقع کی فراہمی، تعلیم و
صحت کی سہولیات کی رسائی، اور سماجی انصاف کا قیام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ،
سیاسی نظام میں بھی ایسی تبدیلیاں لانا ضروری ہیں جن سے عوام کی حقیقی
نمائندگی ہو اور ان کی آواز سنی جائے۔
لہٰذا، اس کہاوت کا نچوڑ یہ ہے کہ بھوک اور افلاس کے خاتمے کے لیے بنیادی
نظام کو درست کرنا ضروری ہے۔ فلاحی ادارے وقتی ریلیف فراہم کر سکتے ہیں،
لیکن نظام کی خرابیوں کو درست کرنے کے بغیر مستقل حل ممکن نہیں۔ جب تک سماج
میں انصاف، مساوات، اور انسانی حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا، تب تک بھوک
اور غربت جیسے مسائل کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم
فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ نظام کی اصلاحات پر بھی توجہ دیں تاکہ ایک
منصفانہ اور متوازن معاشرہ قائم ہو سکے، جہاں ہر شخص کو عزت، وقار، اور
وسائل کی منصفانہ رسائی حاصل ہو۔
نظریۂ امامت، جو شیعہ اسلامی عقائد میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، نظام کی
تبدیلی میں ایک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ امامت کا نظریہ قرآن و سنت کی
بنیاد پر ایک جامع، عادلانہ، اور الٰہی قیادت کے اصولوں کو پیش کرتا ہے جو
کہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس نظریے کی بنیاد
نبی اکرم ﷺ کے بعد بارہ اماموں کی قیادت پر ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے منتخب
کیا ہے تاکہ وہ امت کی رہنمائی کریں، اس کی حفاظت کریں، اور اسلامی اصولوں
کے مطابق معاشرتی نظام کو قائم کریں۔
نظام کی تبدیلی میں نظریۂ امامت کا کردار:
1. الٰہی قیادت کا نظام: نظریۂ امامت ایک الٰہی قیادت کا تصور پیش کرتا ہے
جس میں امام نہ صرف روحانی رہنما ہوتے ہیں بلکہ معاشرتی، سیاسی، اور
اقتصادی معاملات میں بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ قیادت اللہ کی طرف سے
منتخب ہوتی ہے اور معصوم ہوتی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ عدل و انصاف پر مبنی
فیصلے کرتی ہے۔ یہ تصور ایک ایسے معاشرے کے قیام کی بنیاد فراہم کرتا ہے
جہاں حکمرانی کے اصول اللہ کے احکامات اور نبی اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق ہوتے
ہیں۔
2. عدل و انصاف کا قیام: امامت کا مقصد ایک عادلانہ نظام کا قیام ہے جہاں
ہر شخص کو اس کے حقوق ملیں اور ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ امام علی (ع) نے
اپنی حکومت کے دوران عدل و انصاف کو فروغ دیا اور ظلم و استبداد کے خلاف
جدوجہد کی۔ اسی طرح، امام مہدی (عج) کا قیام بھی عدل و انصاف کے قیام اور
ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے ہوگا۔ اس نظریے کے تحت، نظام کی تبدیلی کا مقصد
ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں کسی بھی قسم کے استحصال یا ظلم کی
گنجائش نہ ہو۔
3. اصلاحات اور تربیت: نظریۂ امامت صرف حکمرانی تک محدود نہیں بلکہ اس کا
مقصد معاشرتی، اخلاقی، اور روحانی تربیت بھی ہے۔ امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ
لوگوں کی تعلیم و تربیت کرے اور انہیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے
کی ترغیب دے۔ اس نظریے کے تحت، نظام کی تبدیلی کے لیے عوام کی فکری اور
روحانی اصلاح ضروری ہے۔
4. اخوت و وحدت: نظریۂ امامت میں امت کی وحدت اور اخوت پر بہت زور دیا گیا
ہے۔ امام کا کردار امت کو متحد رکھنا اور باہمی اختلافات کو ختم کرنا ہے۔
اس تصور کے تحت، نظام کی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرت میں اتحاد اور
اتفاق پیدا کیا جائے اور فرقہ واریت اور تنازعات کو ختم کیا جائے۔
5. ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد: نظریۂ امامت میں ظلم و استبداد کے خلاف
جدوجہد کو اہمیت دی گئی ہے۔ امام حسین (ع) کی کربلا میں قربانی اسی اصول کی
بہترین مثال ہے۔ اس نظریے کے تحت، جب بھی نظام ظلم و استبداد پر مبنی ہو تو
اس کے خلاف کھڑے ہونا اور حق کی آواز بلند کرنا واجب ہے۔ یہ تصور نظام کی
تبدیلی کے لیے عوام کو متحرک کرنے اور انہیں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی
ترغیب دیتا ہے۔
قیام امامت کی شرائط:
نظریۂ امامت کے مطابق، امام کا قیام اور اس کی حکمرانی بعض شرائط کے تحت
ممکن ہوتی ہے، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1. الٰہی انتخاب اور معصومیت: امام کا انتخاب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور
وہ معصوم ہوتے ہیں۔ ان کی معصومیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ گناہ اور خطا سے پاک
ہوتے ہیں اور اللہ کے احکامات کی پیروی میں کبھی لغزش نہیں کرتے۔
2. علم و حکمت: امام کو علم و حکمت کا ایسا درجہ حاصل ہوتا ہے جو عام
انسانوں کی دسترس سے باہر ہے۔ وہ شریعت کے تمام پہلوؤں پر گہری نظر رکھتے
ہیں اور ان کی رہنمائی کے بغیر اسلامی نظام کی صحیح تشریح اور تطبیق ممکن
نہیں۔
3. قیام کے لیے مناسب حالات: امام کا قیام اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب حالات
سازگار ہوں اور لوگ ان کی قیادت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ امام مہدی
(عج) کے ظہور کی ایک بڑی شرط بھی یہی ہے کہ دنیا ظلم و ستم سے بھر جائے اور
لوگ عدل و انصاف کے قیام کے لیے تیار ہوں۔
4. نصرت و حمایت: امام کے قیام کے لیے عوام کی نصرت و حمایت ضروری ہے۔ امام
کا مقصد لوگوں کو عدل و انصاف پر مبنی نظام فراہم کرنا ہے، اور اس کے لیے
ضروری ہے کہ لوگ ان کی قیادت کو قبول کریں اور ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔
5. اللہ کا اذن: امام کے قیام کے لیے اللہ کا اذن ضروری ہے۔ امام اپنی مرضی
سے قیام نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے
امام مہدی (عج) کا ظہور بھی اللہ کے اذن کے بعد ہی ہوگا۔
نظریۂ امامت اسلامی معاشرے میں ایک جامع اور عادلانہ نظام کے قیام کا تصور
پیش کرتا ہے، جس میں امام کی قیادت میں عدل و انصاف کا قیام، ظلم و استبداد
کے خلاف جدوجہد، اور عوام کی فکری و روحانی تربیت شامل ہیں۔ اس نظریے کے
تحت، نظام کی تبدیلی کا مقصد ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جو اللہ کے
احکامات اور نبی اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق ہو اور جہاں ہر شخص کو اس کے حقوق
و فرائض کے مطابق انصاف ملے۔ قیام امامت کی شرائط میں الٰہی انتخاب،
معصومیت، علم و حکمت، مناسب حالات، عوام کی نصرت، اور اللہ کا اذن شامل
ہیں۔ جب یہ شرائط پوری ہوں گی، تو امام کا قیام ممکن ہوگا اور ایک مثالی
اسلامی نظام کا قیام عمل میں آئے گا۔
نظریۂ امامت پر مبنی ایک اسلامی انقلاب کی کامیابیت کے لیے چند اہم عناصر
اور اقدامات کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ ان عناصر میں فکری بیداری،
عوامی حمایت، اور ایک مضبوط قیادت کا وجود شامل ہے جو امامت کے اصولوں پر
مبنی ہو اور اس کی قیادت میں معاشرتی، سیاسی، اور اقتصادی اصلاحات عمل میں
لائی جائیں۔
ایک اسلامی انقلاب کا پہلا اور بنیادی قدم معاشرت میں فکری بیداری پیدا
کرنا ہے۔ عوام کو ان کے حقوق، دینی اصولوں، اور امامت کے تصور سے روشناس
کرایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرتی اور تعلیمی نظام کو اس طرح سے
تشکیل دیا جائے کہ لوگ امامت کے نظام اور اس کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ یہ
فکری بیداری عوام میں ان کے حقیقی اسلامی تشخص کا شعور بیدار کرے گی اور
انہیں موجودہ نظام کی خامیوں اور استحصالی رویوں کے خلاف اٹھنے کی ترغیب دے
گی۔
امامت پر مبنی انقلاب کا کامیاب ہونا عوام کی وسیع حمایت پر منحصر ہے۔ عوام
کی اکثریت کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ امامت کے اصولوں پر مبنی نظام ہی
ان کے معاشرتی اور اقتصادی مسائل کا حقیقی حل پیش کرسکتا ہے۔ اس کے لیے
ضروری ہے کہ عوام کو ان کے روزمرہ کے مسائل، جیسے غربت، بے روزگاری، اور
عدل و انصاف کی عدم موجودگی، کے حل کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
رہنمائی فراہم کی جائے۔ اجتماعی قیام کے لیے عوام میں اتحاد اور یکجہتی کو
فروغ دینا ضروری ہے تاکہ وہ ایک مضبوط قیادت کے تحت یکجا ہو کر انقلاب کے
لیے تیار ہوں۔
نظریۂ امامت پر مبنی انقلاب کے لیے ایک مضبوط اور مخلص قیادت کا ہونا
ناگزیر ہے جو اسلامی اصولوں پر کاربند ہو اور عوام کو متحد کرکے نظام کی
تبدیلی کے لیے راہ ہموار کرے۔ یہ قیادت امامت کے اصولوں کی عملی تشریح اور
تطبیق میں مہارت رکھتی ہو اور اسے عوام کی مشکلات اور ان کے حل کا واضح
ادراک ہو۔ اس قیادت کے تحت ایک مضبوط تنظیم کی تشکیل دی جائے جو انقلاب کے
نظریات کو عوام تک پہنچانے، انہیں متحرک کرنے، اور نظام کے خلاف جدوجہد میں
ان کی رہنمائی کرے۔
امامت کے اصولوں کے مطابق، انقلاب کا مقصد ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جہاں
عدل و انصاف، مساوات، اور حقوق کی پاسداری ہو۔ انقلاب کے بعد قائم ہونے
والے نظام میں عدالتی، معاشی، اور سیاسی شعبوں میں وسیع پیمانے پر اصلاحات
لائی جائیں تاکہ عوام کو ان کے حقوق مل سکیں اور ظلم و استبداد کا خاتمہ
ہو۔ اس نظام میں امامت کے اصولوں کے تحت قیادت اور حکومت کی تمام سطحوں پر
اہل اور دیانتدار افراد کو تعینات کیا جائے تاکہ وہ شریعت کے اصولوں کے
مطابق عدل و انصاف کا نفاذ کرسکیں۔
امامت کے اصولوں پر مبنی انقلاب کے تحت ایک اہم قدم معاشی خود کفالت کا
حصول ہے۔ اقتصادی میدان میں اصلاحات کے ذریعے ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے
عوام کی فلاح و بہبود ممکن ہو سکے۔ مقامی وسائل کا بہترین استعمال، زرعی
اور صنعتی ترقی، اور عوامی فلاح کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا معاشی
استحکام کے لیے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اقتصادی پالیسیوں کو اس طرح سے
تشکیل دیا جائے کہ غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو اور عوامی خوشحالی کے
امکانات بڑھیں۔
انقلاب کے بعد اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو ان قوانین
کی روح اور ان کے فائدے سے آگاہ کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
عوام کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ اسلامی نظام
کی قدروں کو سمجھ سکیں اور ان پر عمل پیرا ہو سکیں۔ اس کے لیے تعلیمی
اداروں اور مساجد کے نظام کو منظم کیا جائے اور ایسے نصاب کی تشکیل کی جائے
جو نوجوان نسل کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں تربیت فراہم کرے۔
امامت کے اصولوں پر مبنی اسلامی انقلاب کے بعد ایک اہم مسئلہ بین الاقوامی
تعلقات کا ہوتا ہے۔ ایک اسلامی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ
پالیسی کو حکمت اور بصیرت کے ساتھ ترتیب دے تاکہ عالمی سطح پر اپنے مقاصد
کو حاصل کیا جا سکے اور ملک کی خود مختاری کو محفوظ رکھا جا سکے۔ عالمی
استعماری طاقتوں کی طرف سے دباؤ اور پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی
اتحاد، داخلی مضبوطی، اور خود کفالت کو ترجیح دی جائے۔
نظریۂ امامت پر مبنی انقلاب کے ذریعے نظام کی تبدیلی ایک جامع اور دیرپا
عمل ہے جس کے لیے عوامی شعور، مضبوط قیادت، اور اسلامی اصولوں پر مبنی عدل
و انصاف کے نظام کا قیام ضروری ہے۔ اس انقلاب کا مقصد ایک ایسا معاشرہ قائم
کرنا ہے جہاں ہر فرد کو اس کے حقوق ملیں، ظلم و استبداد کا خاتمہ ہو، اور
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی، سیاسی، اور اقتصادی ترقی کی راہیں
ہموار ہوں۔ اس کے لیے عوامی حمایت، اقتصادی خود کفالت، اور اسلامی قوانین
کا نفاذ بنیادی شرائط ہیں۔ اس طرح کے نظام کے قیام کے ذریعے ہی ایک حقیقی
اسلامی انقلاب برپا ہو سکتا ہے جو کہ معاشرے کو ظلمت سے نکال کر عدل و
انصاف کے نور میں لے آئے۔
��� �
|