بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
مذہبی تاریخ کی مثبت کردار شخصیات اور واقعات کو صرف جذباتیت کے تحت دیکھنا
اور ان کی سیرتوں پر عمل نہ کرنا انسان کو حقیقی طور پر سعادت مند نہیں بنا
سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی شخصیات کی زندگیوں کا بنیادی مقصد انسانیت
کے لیے عملی نمونہ بنانا تھا۔ ان کی تعلیمات اور سیرتیں ہمارے لیے صرف
جذباتی وابستگی کا ذریعہ نہیں، بلکہ عملی زندگی میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
منقبتیں، نوحے، قصیدے اور نعتیں پڑھنا اور سننا یقیناً دل کو روحانی سکون
اور محبت کی کیفیت میں مبتلا کر سکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ اگر ان
شخصیات کے فرمودات، احکامات اور عملی مثالوں سے بے اعتنائی برتی جائے، تو
یہ حقیقی مودت کا مکمل مظہر نہیں ہو سکتا۔ حقیقی مودت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم
ان عظیم شخصیات کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں اور ان پر عمل
کریں۔
تاریخ کی شرائط کو آج کے دور میں لاگو کرنا اور موجودہ حالات میں ان
تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنا ہی انسان کو کامیاب بنا سکتا ہے۔ تاریخ صرف
ایک ماضی کا قصہ نہیں بلکہ ایک جاری رہنے والا عمل ہے جو ہر دور کے مسائل
اور چیلنجز کا حل فراہم کرتی ہے۔ اگر ہم تاریخ کے مثبت پہلوؤں کو اپنے
موجودہ حالات میں اپنائیں تو یہ ہمیں معاشرتی اور روحانی کامیابی کی طرف لے
جا سکتا ہے۔
یوں، صرف جذباتیت اور ظاہری عقیدت پر اکتفا کرنا انسان کو حقیقتاً کامیاب
اور سعادت مند نہیں بنا سکتا، جب تک کہ اس کے ساتھ عملی عمل اور فکری
وابستگی نہ ہو۔
1. ایمان کا عملی پہلو: مذہبی شخصیات اور واقعات کا حقیقی مقصد انسان کو
محض جذباتی وابستگی تک محدود رکھنا نہیں، بلکہ ان کی زندگیوں اور تعلیمات
سے عملی سبق لینا ہے۔ ایمان کو محض عبادات یا جذباتی عقیدت تک محدود کر
دینا، انسان کو اس کی اصل روحانی ترقی سے دور کر سکتا ہے۔ ایک مومن کی
کامیابی اس بات میں ہے کہ وہ اپنے ایمان کو عملی میدان میں ثابت کرے، یعنی
روزمرہ کی زندگی میں عدل، انصاف، محبت، اخوت اور رحم دلی کا مظاہرہ کرے، جو
کہ مذہبی تعلیمات کا مرکز ہیں۔
2. تاریخ کا مقصد: مذہبی تاریخ کے واقعات کو سمجھنا محض جذباتیت کی تسکین
کے لیے نہیں ہے، بلکہ ان میں پوشیدہ حکمت کو آج کے مسائل کے حل کے طور پر
سمجھنا ضروری ہے۔ تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ معاشرتی، سیاسی، اور اخلاقی
بحرانوں کا حل کس طرح نکالا جائے۔ صرف قصیدے اور نعتیں پڑھنا اگرچہ دل کو
تسکین دیتا ہے، مگر اصل مقصد ان عظیم ہستیوں کے اقوال و افعال کو اپنانا
اور آج کے چیلنجز کے مطابق ان سے رہنمائی لینا ہے۔
3. اخلاقی تعلیمات: نبیوں، اماموں، اور اولیاء اللہ کی زندگیوں کا مطالعہ
اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اخلاقی معیار ہمارے لیے مشعل راہ بن سکیں۔ اگر ہم
صرف ان کی مدح سرائی کرتے رہیں اور ان کے اخلاقی اصولوں، جیسے صدق، امانت،
دیانت، اور انسانی خدمت سے بے اعتنائی برتیں، تو یہ ہمارے ایمان کا ناتمام
پہلو ہوگا۔ حقیقی عقیدت کا مطلب ان کی اخلاقی تعلیمات کو اپنانا اور اپنے
کردار میں اس کی جھلک دکھانا ہے۔
4. عملی کردار کی اہمیت: مذہب میں عملی کردار کی بہت اہمیت ہے۔ نبی اکرم ﷺ
اور ان کے اصحاب کی زندگیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہر صورت میں عملی کردار کو
مقدم رکھنا ضروری ہے۔ صرف رسومات اور ظاہری عقیدت سے کامیابی حاصل نہیں ہو
سکتی جب تک کہ ہم اپنے عمل سے ان تعلیمات کو زندہ نہ کریں۔
5. حقیقی مودت: حقیقی مودت اور محبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم صرف شخصیت کے
ساتھ جذباتی وابستگی رکھیں، بلکہ اس شخصیت کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی
کا حصہ بنائیں۔ صرف نعتیں پڑھنا یا نوحے سننا کافی نہیں، بلکہ ان ہستیوں کی
تعلیمات پر چلنا ہی اصل محبت اور مودت کا ثبوت ہے۔
6. جدید دور کے تقاضے: آج کے دور کے چیلنجز اور مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے
مذہبی تعلیمات سے رہنمائی لینا ضروری ہے۔ محض ماضی کے قصے سن کر اور ان سے
جذباتی وابستگی پیدا کر کے ہم موجودہ دور کے مسائل کا حل نہیں نکال سکتے۔
ہمیں تاریخ سے سیکھنا ہوگا کہ کیسے ان تعلیمات کو آج کے معاشرتی، اقتصادی
اور اخلاقی بحرانوں میں استعمال کیا جائے۔
خلاصہ: مذہب کا مقصد انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت ہے۔ جذباتی وابستگی
یقیناً ایک پہلو ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں ان تعلیمات کا
اطلاق کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔
|