نظام لوھار 1835ء میں امرتسر کے نواحی علاقے "ترن
تارن"میں پیدا ہوئے ۔ بنیادی اعتبار سے نظام کا تعلق ایک غریب لوہار خاندان
سے تھا ۔بوڑھی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے اپنے بیٹے نظام کو
تعلیم دلوا رہی تھی ۔گھر میں نظام کی ایک جوان بہن بھی تھی ،نظام اپنے محلے
اور سکول میں بھی سب سے الگ تھلک ہی رہتا تھا۔اردگرد کی کسان آبادیوں پر
بھاری لگان اور بیگار ، پھر حکومت کے اہلکاروں کا مفلس کسانوں پر تشدد دیکھ
کر نظام اکثر اسی سوچ میں گم رہتا کہ عام لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس
کی وجہ کیا ہے ؟ سوچ سوچ کر وہ اس نتیجے پرپہنچا کہ ساری برائی کی جڑ
انگریز کی غلامی ہے ۔ جب نظام نے اپنی بھٹی میں پہلے لوہے کی برچھی ڈھالی
اور پھر ایک پستول بھی بنا لیا تو اسکی ماں نے اسے خوب برا بھلا کہا کہ اگر
کسی کو معلوم ہوگیا تو کیا ہوگا؟ وہ مسکرایا اور خاموش رہا۔درحقیقت اس کے
اندر ایک نیا انسان جنم لے رہا تھا ۔اس کے چہرے کی مسکراہٹ اس کے باغیانہ
خیالات کا آئینہ بن تھی ۔آہستہ آہستہ سارے گاؤں کو پتہ چل گیا کہ نظام کے
پاس کون کون سے ہتھیار ہیں ۔نظام ساری ساری رات گھر سے باہر گزارتا ۔ایک
رات جب وہ واپس آیا تو دیکھا کہ اس کی ماں مرچکی ہے اور جوان بہن کے کپڑے
تارتار ہیں ۔ استفسار پربہن نے بتایا کہ تمہارے بعد انگریز پولیس افسر آیا
تھا ،اس نے گھر کی تلاشی لی اور تمہاری پستول اوربرچھی اس نے ڈھونڈ نکالی
اور ماں کو اس قدر مارا کہ وہ مرگئی ۔ میں نے مزاحمت کی کوشش کی، تو مجھے
بھی بری طرح زودکوب کیا ۔نظام کے لیے یہ واقعہ اس کی زندگی کا فیصلہ کن موڑ
تھا ۔اسی رات اس نے اپنی بہن کو ساتھ لے جا کے اپنے دوست محمد شفیع سے شادی
کردی اور خود گھر بار چھوڑ کر ایک ویران حویلی میں پناہ لے لی جو آج بھی
ککراں والی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔دوسری رات نظام تھانے پہنچا اور
انگریز پولیس افسر کو قتل کردیا جس نے اس کی ماں کا خون کیا تھااور فرار
ہوگیا ۔اگلی صبح جب انگریز پولیس افسر کے قتل کی خبر علاقے میں پھیلی تو
لوگ خوشی سے دیوانے ہوگئے ۔کیونکہ یہ انگریز پولیس افسر عورتوں کی بے حرمتی
کرتا اور غریب کسانوں سے بیگار لیتا تھا ۔انگریز پولیس افسر کے قتل پر ابھی
لوگ خوش ہورہے تھے کہ سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس رونالڈ کی مسخ شدہ لاش دھپ سڑی
پتن پر روہی نالے میں پائی گئی ۔جب پولیس وہاں پہنچی تو نظام لوھار کی
برچھی رونالڈ کے سینے میں گڑھی ہوئی تھی ۔اس کے بعد انگریز حکومت کے لیے
نظام لوھارایک چیلنج بن گیا اور سارے پنجاب میں نظام لوھار کے خلاف اشتہار
لگ گئے۔جو نظام لوہارکو زندہ یا مردہ گرفتار کریگا ، اسے دس ہزار روپے اور
چار مربع زمین کے علاوہ کچہری میں کرسی ملے گی ۔ان اشتہاروں کے جواب میں
نواحی دیہاتوں کے لوگوں نے یہ دھمکی آمیز اعلان پھیلا دیا کہ جوکوئی نظام
لوہار کے ساتھ غداری کرے گا ، اسے وہ جان سے مار دینگے۔عوام کے نزدیک نظام
لوھار انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت بن چکا تھا۔ایک رات انگریز
پولیس نے تحصیل پٹی کے ٹبے والے قبرستان پر چھاپہ مارا لیکن نظام لوہار اس
اڈے کو چھوڑ کر موضع سوہلی کی طرف چلا گیا ۔راستے میں اس کی ملاقات اپنے
علاقے کے مشہور باغی سوجا سنگھ کی ماں سے ہوئی جو بین کرتی جارہی تھی ۔نظام
نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ سوجھا سنگھ کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی ہے
۔نظام نے تسلی دی اور خود سوجھاسنگھ کو چھڑانے کے لیے "ٹبہ کمال چشتی "کی
طرف چل پڑا ۔ پولیس سے مقابلے کے بعد نظام لوہار نے سوجھا سنگھ کو چھڑا لیا
۔اس پر سوجھا سنگھ کی ماں نے نظام لوھار کو اپنا بیٹا بنالیا ا ور وہ اسی
کے پاس رہنے لگا ۔اس کے بعد نظام لوھار اور سوجھاسنگھ نے مل کر اوپر تلے
انگریزوں کے چار اعلی افسروں کو قتل کرڈالا۔ اس طرح وہ دونوں انگریز حکومت
کے لیے وبال جان بن گئے ۔ادھرلاہور اور قصور کے درمیانی علاقے ماجھے کے
انقلابی جبرو کو نظام کے کارناموں کی خبر ملی تو وہ بھی جاکر نظام سے مل
گیا ۔دونوں نے انگریز حکومت کے خلاف منصوبہ بنایا اور علاقے کو بانٹ کر
کسانوں کو ساتھ ملانے کے لیے راتوں کو گاؤں گاؤں پھرنے لگے ۔آخر کار فیصلہ
ہوا کہ میلوں اور عرسوں میں جاکر انگریز پولیس افسروں کو یہ کہہ کر قتل کیا
جائے گا کہ پنجاب سے نکل جاؤ۔ اسی سلسلے میں نظام لوھار ستلج پار بسنت کے
میلے پر جارہا تھا کہ راستے میں اسے پیاس لگی ۔اس نے میلے میں جاتی ایک
لڑکی سے لسی کا کٹورا مانگا۔لڑکی نے نظام کو لسی دے دی تو نظام نے خوش ہوکر
اسے کچھ رقم دینی چاہی مگر لڑکی نے لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ نظام
لوھارکا علاقہ ہے ،وہ مجھ سے چھین لے گا۔ اس پر نظام نے اپنا آپ ظاہر کردیا
اور کہا ، پنجاب کی ہر لڑکی میری بہن ہے ، میں تو صرف انگریزوں کے خلاف ہوں
اور انہیں پنجاب سے نکالنا چاہتا ہوں ۔اس کے بعد اس لڑکی نے نظام کی کلائی
پر راکھی باندھ کر اسے اپنا بھائی بنا لیا وہاں سے چلتے ہوئے ایک اور
انگریز پولیس افسر لویئس کو قتل کردیا۔
اس سے میلے میں بھگڈ مچ گئی ۔نظام نے چند ساہوکاروں کی حویلیوں پر ڈاکے
ڈالے اور بہت سا مال اکٹھا کرکے اپنی منہ بولی بہن کی شادی کے دن اسے دے
آیا،حالانکہ نظام کو اس گاؤں سے نکلنے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا لیکن
سوجھاسنگھ اور جبرو جیسے ساتھیوں نے نظام کی مدد کی اور وہ وہاں سے نکلنے
میں کامیاب ہوگیا ۔اب نظام لوہار انگریز پولیس کے لیے ایک خوف کی علامت بن
چکا تھا ۔ایس پی جان لیو نے نظام لوہارکو پیغام بھجوا کر اس سے بات چیت
کرنی چاہی ،اصل میں یہ اس کے قتل کی سازش تھی ، نظام لوہارنے اردگرد چھپے
ہوئے سپاہیوں کو دیکھ لیا تھا چنانچہ وہ جان لیو کو اپنی گولی کا نشانہ
بناکر نکل بھاگا اور تین ماہ تک چھانگا مانگا کے جنگل میں چھپا رہا ۔مگر
سوجاسنگھ کی ماں کی بیماری کا سن کر واپس حویلی آگیا ۔وہاں پہنچ کر نظام کو
معلوم ہوا کہ سوجھا سنگھ ساتھ والے گاؤں "جٹاں دا کھوہ"کی ایک لڑکی چھیما
ماچھن سے پیار کرنے لگا ہے۔نظام کو یہ بات پسند نہ آئی اس نے چھیماماچھن کو
بلا کر سمجھایا کہ توسوجھاسنگھ سے پیارکرنا چھوڑ دے، کہ پیار محبت انسان کو
بزدل بنا دیتے ہیں اور اس طرح سوجھا سنگھ پولیس کے ہاتھ آ سکتا ہے۔ اس پر
چھیما نے سوجھا سنگھ کو نظام لوہار کے خلاف بھڑکایا تو وہ نظام کے خلاف
ہوگیا ۔اس نے دس ہزار روپے اور چار مربع زمین کے لالچ میں تھانہ بھیڑیالہ
میں اطلاع کردی کہ نظام لوہار آج ہمارے گھر میں ہوگا اور کل واپس کالا کھوہ
چلا جائے گا۔نظام لوہار جس کمرے میں سویا ہوا تھا پولیس نے چاروں طرف سے
اسے گھیر لیا اورچند سپاہی چھت پر چڑھ کمرے کی چھت کو توڑنے لگے ۔نظام کو
پتہ چل گیا ،اس کی گھوڑی اسی کمرے میں بندھی ہوئی تھی ۔نظام نے سر پر لوھے
کا تسلہ رکھا اور گھوڑی کو بھگانے کے لیے سیٹی ماری ۔جب نظام گھر کی دہلیز
پار کررہا تھا تواس کا سردہلیز سے جا ٹکرایا ،وہ بے ہوش ہوکر گر پڑا ۔
پولیس اڑتالیس گھنٹے تک اس پر گولیاں برساتی رہی ۔تیسرے دن نظام کی لاش
پوسٹ مارٹم کے لیے قصور کے سول ہسپتال لائی گئی ۔ پنجاب کے بہادر اور
دلیرہیرو کی لاش دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے ۔حکومت
نے اعلان کردیا جو مسلمان نظام کے جنازے میں شریک ہو گااسے دو روپے ادا
کرنے ہونگے ۔اس طرح 35ہزار روپے اکٹھے ہوگئے۔نظام کی قبر پر لوگوں نے اتنے
پھول ڈالے کہ قبر پھولوں کاپہاڑ بن گئی ۔نظام قصور شہر کے بڑے قبرستان میں
دفن ہے ۔جب سوجھا سنگھ کی ماں کو پتہ چلا کہ اس کے بیٹے نے مخبری کرکے نظام
لوہار کو مروایا ہے تو اس ماں نے سوجھا سنگھ کو جبرو کے سامنے خود گولیوں
سے چھلنی کردیا اور لاش پر کھڑے ہو کر کہا میں تمہیں کبھی اپنا دودھ نہیں
بخشوں گی ،تم نے نظام کی مخبری کرکے پنجاب کے ساتھ غداری کی ہے۔ |