انسان کی اصل شخصیت میں نکھار تکالیف اور درد لاتے ہیں۔
کسی انسان کے آنسوؤں کے پیچھے چھپے درد ، احساسات کا قتل اور جذبات کی ٹوٹ
پھوٹ کوئی اور محسوس کر ہی نہیں سکتا۔ زندگی کے حصار کا دائرہ اس قدر وسیع
ہے اس میں ان گنت حادثات و واقعات ، درد کا کرب پنہاں ہے ۔ ایسا ہی ایک
حادثہ انوشہ میر کے ساتھ بھی رونما ہوا جس میں اس کی ذات کی نفی کرتے تلخ
حقائق ، ، زندگی کی جدوجہد میں بھاگتے دوڑتے اٹھائیس سال بیت گئے ۔ کبھی
ہنستے ، کبھی روتے ، کبھی ماضی کے درد کو سہتے، کبھی مستقبل کو رنگین بنانے
کی ان تھک کوشش اور محنت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی لوگوں کی تیکھی نظروں نے گھائل کیا تو کبھی ان کے تبصروں سے بے زار
ہوتے شب و روز مگر ہاں شاید انسان جسمانی تکالیف تو سہہ جاتا ہے ۔ مگر
لوگوں کے رویوں اور لفظوں کے چبھتے نشتر سہنا کسی جنگ کی ناممکن فتح یابی
جیسا گمان ہوتا ہے۔ اپنی ہی نظروں میں مشکوک کرتے سوالات کیا کمی ہے مجھ
میں ؟؟ کیا میں کسی اور دنیا سے آئی مخلوق ہوں ؟؟ ان سوالات نے نہ صرف
الجھن میں ڈالا بلکہ اعتماد ، ہمدردی اور صلاحیتوں کو گُھن لگایا ۔ پھر
قسمت نے پلٹا کھایا قدرت نے کرشمہ دکھایا اور بازی پلٹ گئی اور زندگی کے
اطراف پھیلی سیاہی روشنی میں تبدیل ہوگئی ۔ ستاروں کے جھرمٹ کے درمیان سفر
کرتا ادھورا چاند مکمل چاند بن گیا۔ اور انوشہ میر سی۔ ایس۔ ایس میں ٹاپ کر
کے اسسٹنٹ کمشنر کا چارج سنبھال کر سب کو ورطہ ِ حیرت میں ڈبو گئی اور اس
کی مسلسل جدوجہد اور لگن سے پھوٹنے والی روشنی نے نہ صرف اس کی زندگی کو
روشن کیا بلکہ اردگرد کے ماحول کو بھی خوب چمکایا ایک امنگ اور تحریک پیدا
کی۔
|