بازرگان

عجیب بات تو یہ ہے کہ تم جب بھی خاموش ہوتے ہو، میں بول پڑتا ہوں ۔ نہ تمھیں اس بات کا علم ہے کہ تم خاموش کیوں ہوتے ہو اور نہ مجھے معلوم ہے کہ میں کیوں بولتا ہوں ۔ مگر اتنا ہم دونوں جانتے ہیں کہ بولنا اس لیے ضروری ہے کہ تاکہ آواز کا وجود قائم رہے۔ کیوں کہ آواز ہی زندگی کی نشانی ہے اور آواز ہے۔ اس کا کوئی مطلب نہیں ۔ یہ و جود کو پیدا نہیں کرتی بلکہ وجود اس سے پیدا ہوتا ہے، پھیلتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے۔ مگر اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ۔

میرے کان ، آنکھیں ، ہاتھ ہر وقت بولتے رہتے ہیں ۔ ان کا مقصد صرف بولنا ہے۔ کوئی سنے یا نہ سنے اس بات سے انھیں کوئی غرض نہیں اور پھر یہ بات بھی تو بالکل غلط ہے کہ دیواروں کے کان ہوتے ہیں کیوں کہ ان میں لگائے جانے والے پتھر تو پہلے ہی بہرے کو دیے جاتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے ٹوٹنے کی آواز سن سکیں ۔

اور وہ میرے جاگنے سے پہلے ہی جا چکا تھا۔ میں نے یہ بات تم سے سنی ہے۔ حالاں کہ دروازے نے صرف اتنا کہا کہ اس نے اسے بند کرتے ہوئے محسوس کیا۔ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں بھی میرے ہاتھوں جیسی تھیں مگر وہ گیا کہاں اس بات کسی کو علم نہیں اور وہ مجھ سے کب الگ ہوا یہ بھی نہیں جانتا۔ لیکن اتنا میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ مجھ سے الگ ہوا ہے اور میرا ہی ایک حصہ ہے اور میں اس کے الگ ہونے کے بعد بھی میں ہی رہا ہوں ۔

میں اسے بچھڑتے ہوئے اس لیے نہیں دیکھ سکا کیوں کہ اس وقت میری آنکھیں غسل خانہ کی دیوار میں بنائے گئے سوراخ کے ذریعہ سولہ سال کی کنواری لڑکی کو نہاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں اور یہ سوراخ میں نے ہی رات کے اندھیرے میں کر کے شہر کے راجہ سے یہ اعلان بھی کرایا تھا کہ کنوارے جسموں کی دیواروں سے بھی بچ کر رہنا چاہیے اور راجہ نے اس ڈر سے یہ اعلان کیا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ یہ راز جانتا ہوں کہ اس کے سر پر جو تاج ہے وہ سونے کا نہیں ہے۔

مگر میرے لیے یہ سب اس لیے ضروری تھا کیوں کہ سمندروں کے شہر میں ریت کے گھروں والی بستی میں وہ بیوپاری آئے ہوئے ہیں جو دن اور رات بیچتے ہیں مگر عمر خرید لیتے ہیں اور یہ سودا سب کو اس لیے کرنا پڑے گا کیوں کہ یہ موسموں کا حکم ہے لہٰذا میں نے سوچا کہ عمر کا سودا کرنے میں پہلے کیوں نہ خوبصورت بدن دیکھ ہی لوں کیوں کہ اس سے میری آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور میں آسانی سے سورجوں کے شہر سے گزر جاؤں گا۔

مگر سوچ پھر بھی اس راز کو نہ پاسکی۔ آخر اس دوڑ کا فائدہ کیا ہے۔ پاؤں تھک چکے ہیں ۔ آواز نے بھی اب ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے مگر اس سوال کا جواب مل جانے کے بعد تم یہ بھی پوچھو گے کہ ہم موسموں کے غلام کیوں ہیں اور ہمارے جسم ہمارے ہوتے ہوئے بھی ہمارے کیوں نہیں ہیں اور میں تمھیں اپنی کوشش کے باوجود یہ جواب نہ دے سکوں گا کہ آسمان کا بھی کوئی وجود نہیں لہٰذا اس بات پر کبھی یقین نہ کرنا کہ جب اوپر سے پتھر برسیں گے تو یہ ہمیں بچائے گا۔ کیوں خوبصورت کنواری لڑکیوں کے دوڑنے سے جو دھول اُٹھتی ہے برہم چاری اسے ماتھے پر لگا کر تیاگ کا پرچار کرتے ہیں اور آسمان کا نام لے کر ڈراتے ہیں ۔

گویا کہ تمام ناموں ، رشتوں ، ناطوں کا حاصل صرف تین لفظ ہیں ۔ میں ، تم اور وہ۔ تم ، میں سے نکلتا ہے اور وہ، تم سے اور وہ کو یہ معلوم نہیں کہ اس کا جنم بھی میں ہی سے ہوا ہے۔ یہی بات ہے کہ جنگ جاری ہے اور جن کاغذوں کو فلسفے سمجھ کر سنبھال کر رکھا گیا تھا ان کی بچوں نے کاغذ کی کشتیاں بنائی ہیں اور پھر جب واپس آ کر اس سے ملا تو اس وقت موسم بوڑھے ہوچکے تھے اور درختوں کے پھل جانور کھا چکے تھے اور پھر ایک تیسرے راستے سے تم بھی آئے وہ تینوں آپس میں ملنے ہی لگے تھے کہ زور کی آواز جو نہ کسی نے کہی اور نہ کسی سے سنی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر چیز کو یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے ختم ہو جانا ہے مگر پھر بھی اپنے وجود کا قائم رکھنا ہے۔
 
Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 238 Articles with 236662 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More